دادی جان کی رحلت

وہ شیخ التفسیرمولانا احمد علی لاہوری رحمہ اﷲ کی سگی بھتیجی تھیں، مولانا محمد علی لاہوری رحمہ اﷲ کی بیٹی۔ مولانا محمد علیؒ مولانا عبید اﷲ سندھی رحمہ اﷲ کے معتمد خاص تھے۔ ۱۹۱۸ء میں متحدہ ہندوستان کی سرزمین وسعت کے باوجود جب ان پہ تنگ ہوئی تو مولانا محمد علی لاہوریؒ مولانا عبید اﷲ سندھیؒ کے ساتھ افغانستان کوچ کرگئے۔ یہاں کی ہوا بھی راس نہ آئی تو مولاناعبیداﷲ سندھیؒ خود ترکی کے لیے پابہ رکاب ہوئے اور محمد علی لاہوریؒ کو یاغستان یعنی باجوڑ جانے کا کہا۔ مولانا نے یہاں قیام کے دوران اہل علاقہ کو اﷲ کی طرف متوجہ کیا۔ جگہ جگہ مدارس کا جال بچھایا۔ تقریباً ۶۱ مدارس کی بنیاد رکھی۔ قال اﷲ وقال الرسول کی پاکیزہ صدا سے باجوڑ کو معطر کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد پشاورکے ترناب نامی گاؤں میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے پوری زندگی انگریز سامراج کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے گزاری تھی۔ اس کے اعزاز میں حکومت نے ترناب گاؤں میں کچھ قطعہ اراضی ان کے نام وقف کی، جہاں آج ان کے بیٹے اور پوتے رہائش پذیر ہیں۔

مولانا محمد علی لاہوریؒ نے یاغستان میں دوشادیاں کیں تھیں، جس میں ایک سید خاندان سے تھی۔ پہلی بیوی سے دوبیٹے اور تین بیٹیاں اور دوسری بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ پشاور کے جامعہ اشرفیہ جس کا شمار اپنے وقت کے معیاری دینی درس گاہ میں ہوتاتھا، نام ور اساتذہ وہاں پڑھایا کرتے تھے، ہمارے دادادارالعلوم دیوبند کے فاضل شیخ الحدیث مولانا زین العابدین ؒ وہاں شیخ الحدیث تھے۔ آپ رئیس المحدثین مولانا سلیم اﷲ خان ؒ کے دارالعلوم دیوبند کے ہم جماعت تھے۔ رئیس المحدثین گاہے جماعت کے اس لائق طالب علم کا تذکرہ کیا کرتے۔ جوانی میں ہی مسند حدیث پہ متمکن ہوگئے تھے۔ ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے، حضرت علامہ بنوریؒ نے دورہ حدیث میں اپنے ساتھ مسند حدیث پر بٹھایا تو طلبہ ایک نوجوان کو اپنے شیخ کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر تعجب میں پڑگئے۔ بنوریؒ نے طلبہ کے چہرے پڑھ لیے، طلبہ کا اشکال دور کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا زین العابدینؒ کامفصل تعارف کروایا۔ وہ مختصر عرصہ میں ہی اپنے حصہ کا کام کرکے محض چوالیس سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے بھائی فاضل ِ دارالعلوم یوبندشیخ الحدیث مولانا معز الحقؒ جامعہ اشرفیہ پشاور میں نائب شیخ الحدیث کے منصب پہ فائز تھے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔ ۲۰۱۰ء میں خاندان سمیت ہزاروں تلامذہ اور محبین کو سوگوار چھوڑ کر اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔ جامعہ اشرف المدارس کے مہتمم اور مہابت خان مسجد کے امام مولانا عبدالودود قریشیؒ نے دونوں نوجوان علماء کو مولانا محمد علیؒ سے ملوایا۔ مولانا دونوں سے بڑے متاثر ہوئے، بعد میں اپنی دوبیٹیاں دونوں بھائیوں کے نکاح میں دیں۔ ایک بقید حیات ، صاحب فراش ہیں(اﷲ شفائے کاملہ عطاء فرمائے)،دوسری مولانا زین العابدین کی شریک حیات جو ہماری دادی جان تھیں۱۱ رجب المرجب ، ۹ اپریل بروز اتوارراہیٔ ملک بقا ہوئیں۔

وہ ہماری دادی تھیں لیکن بچپن سے بڑوں کی دیکھا دیکھی ہم بھی انہیں ’’اماں‘‘کہہ کر پکارتے۔ کہیں سفر پر نکلنے سے قبل ان سے رخصت لیتے یا کوئی کام کرنے سے پہلے انہیں بتاتے تو وہ یوں دعاؤں سے نوازتیں کہ ہمیں یقین ہوجاتا اب ہم ان دعاؤں کے حصار میں آگئے ہیں، رب کے حکم سے کوئی ہمیں ضرر نہیں پہنچاسکتا۔ یوں بھی وہ دعائیں دینے میں بڑی فیاض تھیں۔ مستجابات الدعوات تھیں۔ صرف دعائیں نہیں، ان کی بد دعائیں بھی جلد لگ جاتیں۔ مجھے بچپن کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ پڑوسی بچے کے ساتھ کسی بات پہ لڑپڑا۔ میں نے اسے دو ہاتھ دکھائے تو وہ اپنے والد کو بلا لایا۔ اس ’’بہادر‘‘ باپ نے مجھے بری طرح پیٹا، میں روتا ہوا گھر آیا اور سارا ماجرا گھروالوں کوکہہ سنایا۔ اماں جی غم وغصہ کی تصویر بن گئیں۔ ’’بچوں کی لڑائی میں بڑے کھودتے ہیں؟ معصوم بچے پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے شرم نہیں آئی، اﷲ کرے اس کے ہاتھ ٹوٹ جائے‘‘۔ بس پھر کیا تھا اگلے ہی دن وہ ہاتھ پر پلستر باندھے نظر آیا۔ اماں جی کی بد دعا کی خبر بھی اسے مل گئی تھی۔ اپنی اہلیہ کو معافی کے لیے اماں جی کے پاس بھیجا۔ٖ

اپنے چچا شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے تفسیرِ قرآن میں مہارت ورثہ میں پائی تھی، جب تک صحت نے ساتھ دیا قرآن کی تفسیر بیان کرتی رہیں۔آیت کا ترجمہ اور اس سے متعلق تفسیر انہیں زبانی یاد تھیں۔ وہ بلاکی ذہین تھیں، سالوں پہلے کے واقعات انہیں من وعن یاد ہوتے۔ خاندان کے ہر ہر فرد خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑاان کے ذہن کی اسکرین میں نقش ہوتا۔ انتہائی عبادت گزار تھیں۔ شریعت پہ پوری طرح عمل کرنے والی۔ خلاف شرع کام انہیں برداشت نہ تھا۔ جہاں بھی دین کے خلاف کسی کو کرتا دیکھتیں، اصلاح کرنے سے دریغ نہ کرتیں۔چند سالوں سے صاحب فراش تھیں۔

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے۔ سب نے اس عارضی جہاں کو الوداع کہنا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے جانے پہ دنیا والے ان کی نیکی کی گواہی دے کر اﷲ میاں کو گواہ بنائیں اور ان سے بڑھ کر وہ سعادت مند ہیں جن کی تین نسلیں دین کی خدمت میں لگی ہوئی ہو، امامت کے فرائض سر انجام دے رہی ہو،ختم نبوت کے عظیم کاز سے جڑی ہوئی ہو، ملک کے بڑے جامعات: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ فاروقیہ کراچی، دارالھدیٰ گلستان جوہر، دارالعلوم ٹل وغیرہ جیسے مدارس میں قال اﷲ وقال الرسول سے اماں جی کی قبر کو منور کر رہی ہو۔ اماں جی اس لیے بھی نیک بخت ہیں کہ ان کے بیٹے اور بہو سمیت خاندان کے تیس افراد ادائے عمرہ کے لیے حجاز مقدس میں تھے۔ پاکستان واپسی میں ایک دن باقی تھا کہ اماں جی کی وفات کی خبر ان تک پہنچی۔ تیس افراد نے ان کو حرم شریف سے جو ایصال ثواب کیا ہوگا اس کے کیا کہنے۔اماں جی چند عرصہ سے صاحب فراش تھیں، حالت نازک ہونے سے قبل ہی اﷲ میاں کے پاس ہمیں بزبان حال یہ کہہکر چلی گئیں کہ تم میرے لیے پریشان نہ ہو، میں تمہیں کسی آزمائش میں ڈالے بغیر رب کے حضورسکون سے جارہی ہوں۔

اﷲ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور اپنی شان کے مطابق ان کا اکرام فرمائے۔ آمین یا ارحم الراحمین۔

Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 63987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.