ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
(Babar Alyas , Chichawatni)
|
بیمار معاشرہ |
|
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا واقعۂ کربلا کے بعد صبر و استقامت، علم و حلم اور حوصلے کا وہ روشن مینار بن کر اُبھریں، آپ رضی اللّٰہ نے یزیدی دربار کو کلمۂ حق سے ہلا دیا۔ وہ مظلومیت کی گواہ بھی تھیں، اور مزاحمت کی صدا بھی۔ شام کے دربار میں ایک قیدی عورت نے وقت کے ظالم سلطان کے سامنے کس شان سے حق کا علم بلند کیا۔ یہ نظم حضرت زینبؓ کی اسی عظمت، صبر، اور خطابت کے وقار کو سلام ہے:
---
ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد از۔۔۔بابرالیاس
کربلا ختم ہوا — مگر زینبؓ کا امتحان شروع ہوا۔ خیمے جلے، لاشیں بکھریں، بچوں کی آہیں بلند ہوئیں، اور سرِ حسینؓ نیزے پر بلند ہوا۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
مگر زینبؓ… کھڑی رہیں، جیسے صبر کا پہاڑ، جیسے حیا کی چادر میں لپٹی ایک پوری امت کی ماں۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
وہ نہ جھکیں، نہ روئیں، نہ سوال کیا — بس خاموش نظروں سے آسمان کو دیکھ کر کہہ دیا:
"اے میرے رب! ہم نے تجھ سے جو کچھ پایا — دین ، قربانی، غم، خون، سب قبول ہے۔" ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
---
شام کا دربار سجا، یزید تخت پر بیٹھا — فخر سے، غرور سے۔
مگر زینبؓ نے کہا:
"تو سمجھتا ہے کہ جیت گیا؟ نہیں! ہم نے سر کٹایا — مگر سچ بچا لیا۔ باطل خاک میں ملا دیا ، ہم نے کربلا میں وقت کے فرعون کو بےنقاب کر دیا۔" ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
کیا لہجہ تھا! کیا الفاظ تھے! کیا جلال تھا! جیسے صبر کع زبان ملی ہو! جیسے استقامت کو لفظ ملے ہوں! جیسے خطابت اتر رہی ہو!
کہ تخت لرز گیا، تاریخ دم بخود رہ گئی۔ یزید نے سر جھکا لیا — اور کنیزِ زہراؓ سر بلند رہی۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
---
وہ جو بھائی کے لاشے پر بھی روئیں تو حوصلے سے، اور قید میں بھی نماز قائم رکھیں۔
وہ جو کربلا سے قیدی بن کر نکلیں، مگر شام میں خطیب بن کر بولیں — اور قیامت تک باطل کے خلاف عورت کی زبان میں حق کی صدا چھوڑ گئیں۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
---
زینبؓ — نہ فقط بہن، بلکہ "عزم کی زینبؓ"، "وقار کی زینبؓ"، "کربلا کے بعد کی روشنی"۔
جب سب کچھ چھن گیا — تو بھی ان کے ہاتھوں میں دعا تھی، اور دل میں حسینؓ کی سچائی۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
اے زینبؓ! ہم تمہارے قیدی قدموں سے رہائی نہیں چاہتے، ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی حق بولنے کا حوصلہ ملے، تمہاری طرح۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
کربلا کی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی، لاشوں کی خاموشی گونج رہی تھی، اور نیزوں پر چڑھے سروں کی صدا ہوا میں تیر رہی تھی۔
اسی بیچ، قافلہ ظلم کے سائے میں شام کے دربار میں لایا گیا — اور پھر… وہ لمحہ آیا، جب زینبؓ بولیں۔
نہ چادر مکمل، نہ چہرے پر نور جیسا پردہ — مگر زبان ایسی جیسے علیؓ کی للکار ہو، جیسے فاطمہؓ کی غیرت ہو، جیسے حسینؓ کا لہو بول پڑا ہو۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
یزید! تُو نے سمجھا، ہم قیدی ہیں؟ نہیں — ہم گواہ ہیں!
"أظننتَ يا يزيدُ، حيثُ أخذت علينا أقطار الأرض وآفاق السماء فأصبحنا نساق كما تساق الأسارى…"
"اے یزید! کیا تُو نے سمجھا کہ زمین و آسمان کی حدیں ہم پر تنگ کر کے، اور ہمیں قیدیوں کی مانند گھسیٹ کر تُو غالب آ گیا؟"
نہیں! تُو نے صرف ہمارے جسم قید کیے ہیں، ہمارا پیغام نہیں، تُو نے صرف سر قلم کیے ہیں، ہمارا حق نہیں۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد **
زینبؓ نے دربار میں تاریخ کو موڑا، یزید کے چہرے پر حقیقت کا آئینہ رکھا، اور کہا:
"فوالله لا تمحو ذكرنا، ولا تميت وحينا…"
"خدا کی قسم! تُو نہ ہمارا ذکر مٹا سکتا ہے، نہ ہمارے پیغام کو ختم کر سکتا ہے۔"
کیا جرات تھی! کیا علم تھا! کیا وقار تھا — کہ وہ قید میں بھی کلمہ پڑھتی تھیں، نماز قائم رکھتی تھیں، اور دشمن کو آئینہ دکھاتی تھیں۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد **
زینبؓ صرف خطیبہ نہ تھیں — وہ سچائی کی محافظ تھیں، وہ خونِ حسینؓ کی امانت دار تھیں، اور کربلا کے بعد اسلام کی وارث تھیں
اگر حسینؓ نے کربلا میں باطل کو شکست دی — تو زینبؓ نے شام میں حق کی آواز کو قیامت تک زندہ رکھا۔ ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد **
اے زینبؓ! ہم تمہارے خطبے کے سائے میں اب بھی پناہ ڈھونڈتے ہیں، کہ جہاں وقت کے یزید ہوں، وہاں تمہاری زبان جیسی جرات درکار ہے۔
اور جب کبھی باطل دربار سجے، تو ہم تمہارا خطبہ پڑھیں — اور کہہ سکیں:
"حق کو زنجیر میں نہیں باندھا جا سکتا!" ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
---
یہ نظم اب صرف نظم نہیں رہی، یہ حضرت زینبؓ کے خطبے کی گونج ہے — جو وقت کے ہر ظالم کے لیے تازیانہ ہے، اور اہلِ حق کے لیے راستہ۔ کیونکہ ہر دور میں اک کربلا برپا ہے ہاں!زینبؓ — کربلا کے بعد
--- |
|