اس کی لاش کسی کو دکھائے جانے کے قابل نہ تھی، کسی کو
دکھایا بھی کیا جاتا۔ نہ سر سلامت، نہ بازو، نہ ہاتھ نہ ٹانگیں۔ قتل کرنے
والوں نے ایک شریف انسان بلکہ غریبوں کا محسن ہی نہیں بلکہ انسانیت کو ہی
قتل کر دیا تھا۔ اس کے سر سے پاؤں تک کے کسی عضو کو سلامت نہیں رہنے دیا
تھا ۔ بس اس کا قیمہ نہ بنایا تھا لیکن کسی طرح کی پہچان بھی نہ چھوڑی تھی۔
اس نے کسی کا بگاڑا بھی کچھ نہ تھا۔ وہ ایک ملنسار، نرم خو انسان تھا۔
غریبوں کا سہارا اور ضرورت مندوں کا ماویٰ۔ وہ اگر تصوف کے حجرے میں ہوتا
تو اسے ولایت کا درجہ بھی مل چکا ہوتا۔ لیکن اس کا عمل بس نماز روزے اور
انسان سے بھلائی تک محدود تھا۔
وہ ایک بڑے گھر میں رہنے والا تھا۔ اسے کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ وہ ایک امیر
کبیر انسان تھا۔ اس کا گھر ایک وسیع و عریض حویلی کے حصار میں تھا۔ وہ اپنے
علاقے کا مشہور زمیندار ، مالدار شخص تھا۔ اس کی کسی سے دشمنی نہ تھی۔ لیکن
کسی ذہن کو اس کے قتل کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ہر کوئی حیران
اور حیران سے زیادہ پریشان تھا کہ آخر ہوا کیا؟ اسے قتل کس نے کیا؟ کیوں
کیا؟ کیسے کیا؟ کس کی معاونت سے کیا؟ اس قدر بہیمانہ قتل سے تو برے سے برا
شخص بھی پناہ مانگتا ہے۔
سر کے تین سے پانچ ٹکڑے کئے گئے تھے، بازوؤں کو جگہ جگہ سے کاٹا گیا تھا
جیسے کسی گوشت خور جانوروں کی خوراک بنانی ہو۔
یہ کام کوئی تجربہ کار انسان ہی کر سکتا ہے، ایسا حوصلہ کسی عام شخص کا تو
ہو ہی نہیں سکتا۔اگر ہو بھی تو ایک قصاب کی طرح ہڈی کاٹنا ، اعضا کاٹنا
وغیرہ بھی بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ بھی کسی کے گھر میں، اس کے کمرے میں اور
وہ بھی ایک رات کے اندر اندر۔ کسی کو قتل کر دینا کیا کوئی چھوٹا جرم ہے کہ
اسے گولی مار دی جائے یا گلہ دبا کے اس کا کام تمام کر دیا جائے یا کسی اور
طرح سے اسے قتل کر دیا جائے بجائے اس کے کہ انسانیت ہی کا قتل کر دیا جائے
اور وہ تقویم جس کو اس کے خالق نے احسن فرمایا ہے کا حلیہ ہی مسخ کر دیا
جائے ۔ یہ گنا ہ تو سو گناہِ کبیرہ سے بھی بد تر ہے۔۔
لوگوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں ۔ ہر کوئی خود ہی سوالیہ نشان بھی ہے اور
جوابیہ بیان بھی۔لوگ ایک دوسرے کو سہمے سہمے سوال بھی کرتے ہیں اور ڈرے ڈرے
جواب بھی دیتے ہیں ۔ ہر کوئی ،کوئی نہ کوئی اندازہ لگانے کے چکر میں ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ قاتل چار ، پانچ ضرور ہوں گے یہ ایک یا دو بندوں کا کام
نہیں ہے۔ کوئی کہا ہے کہ وہ شام سے پہلے ہی مقتول کے کمرے میں کہیں چھپ گئے
ہوں گے۔ کوئی یہ بیان داغنے کی کوشش میں ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔
کوئی کہتا ہے نہیں یہ کوئی پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ کوئی اس بات میں بہت
وزن محسوس کرتا ہے کہ اس میں مقتول کا کوئی قریبی بھی شامل ہو سکتا ہے۔
لیکن کسی قریبی سے اتنے بڑے قتل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کوئی یہ کہتا ہے
کہ یہ واقعہ تو خود کش دھماکوں سے بھی کہیں زیادہ شدید ہے۔ اس میں تو کوئی
سر پھر ااپنے آپ کو بھی اڑا لیتا ہے اور بہت سے دوسرے لوگوں کے جسموں کے
پرخچے بھی ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں تو مرنے والا تنہا ہے، اس
کے جسم کا کوئی ایک عضو بھی سلامت نہیں رہنے دیا گیا۔ اور مارنے والے کے
جسم پر ہلکی سی خراش تک نہیں آئی۔ کسی کے دامن پر ایک شینٹ تک نہیں گری ۔
کسی کے ہاتھ بلکہ انگلی تک بھی رنگین نہیں ہوئی۔ اس طرح بخرے کئے گئے کہ
دیواروں کے کانوں تک کو بھی خبر نہیں ہوئی۔ آخر یہ سب کیا ہوا۔ کیا کوئی جن
بھوت ایسا کر گئے۔ لیکن جن بھوت جتنے بھی گستاخ ہو جائیں لیکن اتنے کبھی
نہیں ہوئے جتنے انسان ہو جاتے ہیں ۔ یہ کام جنوں اور بھوتوں کے بس کا ہرگز
نہیں ہے۔ ضرور اس میں صرف انسانی ہاتھ ہی رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ ہاتھ، وہ
آنکھیں اور وہ چہرے جنہوں نے یہ سب کچھ کیا ہے کہاں چھپ گئے ہیں۔ کیا ان کی
انسانوں کے ہاں پیدائش نہیں ۔ ان کو تو کسی جنگل میں کسی وحشی درندے کے ہاں
پیدا ہونا چائے تھا۔ وہ انسانوں میں کیوں پیدا ہو گئے۔ ان پر کسی مذہب کا
کوئی اثر نہ تھا۔ انہوں نے کسی پیغمبرؑ کی کوئی بات یا کسی نبیؑ کا نام
نہیں سنا تھا۔ کیا ان کو اپنی موت اور آخرت یاد نہیں تھی۔ کیا انہوں نے قبر
میں اترتے بے بس انسان کبھی نہیں دیکھے تھے۔ کیا ان کو کبھی کسی بیماری یا
صحت کی خرابی نے انکساری اور عاجزی کا جھونکا نہیں دیا تھا۔ کیا وہ نمرود
اور فرعون سے بھی زیادہ ظالم تھے کیوں کہ انسانیت کا ایسا برا حال تو ان
ظالموں نے بھی نہیں کیا تھا جن کو سارا زمانہ ظالم کہتا ہے۔ ایسا برا حال
تو وحشی درندے بھی نہیں کرتے۔ وہ بھی اپنے شکار کو کھا جاتے ہیں اور اس کا
ڈھانچہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے تو بوٹی بوٹی کردیا اور کھایا بھی نہیں
، بہتر ہوتا کہ مقتول کو غائب ہی کر دیتے۔ یا اسے قتل کرنے کے بعد عوام کی
نمائش میں رکھنے کی بجائے کسی جگہ دبا دیتے تا کہ انسانیت کی تذلیل نہ ہوتی۔
انہوں نے عجیب کھیل کھیلا جس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ قتل بھی کیا، اور
بوٹی بوٹی بھی کی اور کھلا بھی چھوڑ دیا تا کہ دنیا عبرت پکڑے۔ اﷲ معاف
فرمائے آمین!
اس کا منہ دیکھے جانے لائق نہ تھا۔ اس کا تمام بوٹی نوٹی جسم اکٹھا کر کے
ایک چار پائی پر بکھیر دیا گیا تھا۔ اس پر سفید چادر ڈال کر اس پر گلاب کے
پھول چاروں طرف بکھیر دئے گئے تھے۔اس کا کفن اوپر اور نیچے سے باندھ دیا
گیا تھا۔ اسے غسل دئے جانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ بس گوشت کے ٹکڑوں کی طرح
اسے پانی کے ایک ٹب میں ڈال کر باہر نکال لیا گیا تھا۔
’خدا ایسی موت سے بچائے ‘ کسی ایک نے کہا۔
’اﷲ معاف فرمائے‘ دوسرے نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’ خدا ایسی موت ویری دشمن کو بھی نہ مارے‘ ایک تیسرے بزرگ بندے نے کہا۔
’دشمن بھی کسی سے ایسا برا سلوک نہیں کرتے، انسان کو پتہ نہیں ہو کیا گیا
ہے؟ حیوانوں سے بھی بد تر ہو گیا ہے‘ ایک پڑھے لکھے نے یوں اظہار کیا۔
’اﷲ میری توبہ، کبھی ایسا ہوتے سنا نہیں تھا ، اب تو اپنی آنکھوں سے بھی
دیکھ لیا ہے!‘ اﷲ بچائے !
’اب تو گھر بیٹھے خوف آنے لگا ہے کہ بندہ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے‘
کسی اور نے کہا۔
ایک معتبر سے شخص نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ سارا کچھ گھر کے اندر نہیں بلکہ
باہر کہیں لیجا کے ہوا ہے۔ پہلے اسے کسی اور جگہ کسی نہ کسی طرح سے لیجایا
گیا ہے اور پھر اس کو اس بے دردی سے قربانی کے بکرے کی طرح چورا چورا کر
دیا گیا ہے۔ لیکن قربانی کے بکرے کی تو لوگ عزت کرتے ہیں۔ اسے عزت کے ساتھ
ذبح کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس قتل سے تو شیطان بھی کانپ اٹھے ہوں گے کہ یہ کیا
ہو گیا۔ اتنا ظلم تو ابلیس اور اس کی اولاد میں بھی نہیں ہے جتنا ظلم آدم ؑ
کی اولاد میں ہے جس اولاد میں ایک لاکھ اور چالیس ہزار کے قریب انبیا ؑ بھی
تشریف لائے ہیں اور جس میں بے شمار نیک روحوں نے اپنے حصے کا نیک کام بھی
کیا ۔ پھر بھی انسان ،انسان کا اس قدر دشمن ہے کہ جس کا کوئی اندازہ
نہیں۔ہائے یہ کیسی انسانیت ہے۔ یہ کیسی انسیت ہے، یہ کیسا انسان ہے۔
حویلی میں مہمانوں کا ایک جمِ غفیر اکٹھا ہو چکا تھا۔ دریوں اور ٹینٹوں کی
بہترین ورائٹی منگوئی گئی تھی۔ آنے والوں کو گرما گرم سبز چائے بھی پیش کی
جا رہی تھی۔ اس حویلی کی یہ روایت بن چکی تھی کہ جیسے ہی سردی کا سیزن اپنی
خبر دینے والی سرد ہواؤں کو ادھر بھیجتا، یہاں سبز چائے کا فیشن شروع ہو
جاتا۔مرحوم کو بھی سبز چائے بہت پسند تھی۔ وہ مہمان نواز بھی بہت تھا۔ اس
کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے اس کی تدفین سے پہلے ہی اس کا صدقہ جاریہ ،
جاری کر دیا گیا تھا۔ مہمانوں میں علاقے بلکہ پورے ضلع کے نامور سیاست دان،
اہم شخصیات، اور سیاسی کارکن سبھی شامل تھے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے لوگ
یہاں موجود تھے۔ اور اس مہربان پر اس قدرنامہربانی بلکہ ظلم وبربریت سے کی
جانے والی مثالی ہلاکت کا افسوس کر رہے تھے۔ اتنا ظلم منگولوں نے بھی نہیں
کیا ہو گا۔ وہ بھی سر کا بس ایک گیند بناتے اور اس سے پولو کھیلا کرتے۔
لیکن یہاں تو سر کے تین سے پانچ حصے بلکہ ٹکڑے کئے گئے تھے۔
ایڈگرایلن پو(Edgar Allan Poe) نے ایک کہانی ’ 'Tell-Tale Heartمیں ایسے ہی
ایک قتل کا واقعہ پیش کیا ہے لیکن یہ واقعہ اپنی سنگینی میں اُس قتل سے
کہیں زیادہ شدید ہے۔ اُس میں بھی ایک بوڑھے آدمی کے اعضا کاٹے جاتے
ہیں۔لیکن اِس واقعہ میں تو اعضا کی شکل یا حلیہ ہی مسخ کر دیا گیا تھا۔ وہ
بوڑھا تو اپنی ایک آنکھ کی خرابی کے باعث اس انجام کو پہنچا لیکن اس شریف
انسان کے اندر تو ایسا کوئی داغ نہ تھا۔ وہ کہیں کرائے کے فلیٹ میں رہتا
تھا لیکن یہ اپنے ہی گھر میں اور اپنے ہی کمرے میں بوٹی بوٹی کر دیا گیا
تھا۔مذید یہ کہ اُس کا قاتل اسی رات مان گیا تھا کہ اس نے قتل کیا ہے یا اس
سے قتل ہو گیا ہے لیکن اِس انسان کے قاتل میں ذرا بھی ندامت نہیں آئی تھی۔
اور دور دور تک اس کے سراغ کا کوئی نشان بھی نہ تھا۔اور کئی دن گزر جانے کے
باوجود اس کا خونِ ناحق اپنا انصاف مانگتا رہے گا۔
ہزاروں انسانوں کی شمولیت کا جنازہ کسی عام شخص کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ یہ
خوش قسمتی بھی کسی امیر کی ہوتی ہے۔ وہ امیر ہی تھا۔ اس کا جنازہ بھی مثالی
تھا لیکن ہزاروں کے مجمع میں قاتل بھی کہیں چھپا ہوا تھا ۔ یا وہ سب سے
زیادہ سفید لباس پہنے جنازے کی چار پائی کو سب سے زیادہ مضبوطی سے تھامے
ہوئے تھا۔ یا اس کے چہرے سے مقتول ومرحوم سے انتہائی زیادہ دلی جذبے کا
اظہار مترشح ہو رہا تھا۔اس کے سر پر سفید ٹوپی بھی تھی اس پر کسی طرح سے
بھی شک کی گرد نہیں پر سکتی تھی۔وہ انتہائی معزز انسان تھا۔ اور اس نے اس
کام کے لئے پانچ لوگوں کو پچاس، پچاس ہزار روپے بھی ادا کئے تھے اور ان کو
مکمل یقین دلایا تھا کہ کوئی ان کی ہوا کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اور
معاملہ واقعی ایسا ہی تھا کہ ان کی ہوا کی طرف دیکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن
بھی تھا۔ شاید یہ معاملہ حشر کی عدالت کے لئے رکھ لیا گیا تھا۔
اس بوڑھے کی بہت بڑی دولت اس کے اس بہیمانہ قتل کا سبب بنی تھی۔ جائیداد کی
تقسیم پر یااس کے متعلق اپنی ہوس کی تکمیل کے لئے کسی قریبی نے یہ گھنوؤنا
کھیل کھیلا تھا۔
ایسے کاموں میں گھر کے بندے کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ ورنہ تیر نشانے پر
نہیں بیٹھتا ۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ زن، زر،
زمین کی پرانی کہاوت ایک بار پھر حقیقت بن کے سامنے آ چکی تھی۔ ہو سکتا ہے
کہ اس بوڑھے نے اس دولت کے حصول کے لئے کبھی کسی غریب کی ’آہ‘ لی ہو ۔ ہو
سکتا ہے کسی کی بد دعا نے اس کا پیچھا کیا ہو اور اس بزرگی میں اس کے جوانی
کے کسی گناہ کی سزا ملی ہو۔ آخر کچھ تو تھا جس کا یہ مکافاتِ عمل ہوا تھا۔
لیکن یہ سب کچھ بھی تو محض خیال پر ہی مبنی تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ایسا
کچھ بھی نہ کیا ہو جس کا یہ گمان کیا جا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے کسی
سچائی کو گلے لگایا ہو اور برائی نے اسے سچائی کا مزا چکھانے کے لئے اس کا
یہ حشر کیا ہو ۔ کیوں نہیں کچھ بھی تو ہو سکتا تھا۔
جنازہ اٹھا ، لوگوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ کلمہ شہادت کا ورد کرتی ہوئی اس
جنازے کی میت کے پیچھے پیچھے چل دی۔ لمبی لمبی صفیں ایک کھلے میدان میں
انسانوں کی پاکیزگی کی گواہی دے رہی تھیں۔ اتنے بڑے جنازے والی میت کے حق
میں شجر و حشر گواہی دے رہے تھے کہ وہ ضرورجنتی ہو گی۔ اس کا جنازہ پڑھنا
انسان کی اپنی بخشش کا ذریعہ ہو گا۔ زمین اس میت کو اپنی آغوش میں لینے کے
لئے اپنے دونوں بازو پھیلائے محوِ انتظار تھی کہ اتنی بڑی بارات لے کے آنے
والے دلہے کا حجلہ عروسی بھی کمال کا ہونا چاہیے۔ فضا میں پرندے اس کی
مغفرت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس کا دل سلامت نہیں تھا ۔ اس کے دس سے
زیادہ ٹکڑے کئے گئے تھے ورنہ وہ ان سب کے لئے دعا کرتا جو اس کا جنازہ
پڑھنے آئے تھے۔لیکن اس کے دل کے ہر حصے سے دعائیں ہی نکل رہی تھیں۔ لیکن
انسانوں کے اس سمندر سے اپنا قاتل تلاش کرنا ممکن نہ تھا۔ اب اس کے پاس
بولنے کا اختیار بھی نہ تھا۔
جنازے کے بعد اس کے قبر میں اتارنے کا مرحلہ آیا، وہ قاتل پھر اپنے سفید
کپڑوں کے ساتھ آگے بڑھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مٹی اس کی قبر میں ڈالنے
لگا ، اور سوچتا رہا کہ کیا اس کا گناہ حشر کے روز اس کے گلے تو نہیں پڑ
جائے گا۔ وہ آئندہ سال حج کرنے ضرور جائے گا ، عمرہ تو وہ اسی سال ادا کر
لے گا۔ اس کے چہرے کی پریشانی کسی اور مکروہ عمل کی وجہ سے تھی لیکن ادھر
ادھر کی آنکھیں یہی دیکھ رہی تھیں کہ وہ مرحوم کی ہلاکت پر اس قدر پریشان
ہے کہ اس کے ہواس گم ہو جانے کا خدشہ ہے، آج صبح ہی اس کا بلڈ پریشر کم ہو
گیا تھا اسے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے ڈرپ بھی لگوائی گئی تھی۔اسے بار بار
ایک دو آدمی سہارا بھی دے رہے تھے۔ اس سے تو اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔
مرحوم سے اس کا تعلق بہت گہرا تھا۔ وہ اس کے گم میں نڈھال ہو رہا تھا۔ اس
کا جینا مشکل لگ رہا تھا ۔
قبر پر مٹی ڈالنے اور پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد سارے لوگ بوجھل دل کے
ساتھ واپس پلٹے۔ وہ قاتل بھی نا چاہتے ہوئے قبر پر سے واپس ہوا۔ اسے غم میں
نڈھال ہونے کے باعث دو آدمیوں نے بازوؤں سے سہارا دیا ہوا تھا۔ اور وہ ہائے
ہائے کرتا قبر اور قبرستان سے واپس آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اٹھ نہیں رہی
تھیں کہیں کوئی زیرک ان آنکھوں میں لگے خفیہ کیمروں میں اس کی رات کی
کاروائی کی کوئی جھلک نہ دیکھ لے۔ویسے بھی اس کا غم ہی اتنا زیادہ تھا کہ
اس سے پلکوں کا بوجھ بھی اٹھانا کئی من کا پتھر اٹھانے کے مترادف تھا۔ ویسے
اس کے سر پر ایک بہیمانہ قتل اور بے شمار چھوٹے موٹے گناہوں کا بوجھ بھی
تھا جسے اس کے طاقتور جسم نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن غم کا بوجھ تو
سب سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ واقعی غم انسان کو بوڑھا کر دیتا ہے۔
گھر پہنچ کر سب لوگ کھانا کھانے میں اور کچھ کھانا کھلانے میں مصروف ہوئے ۔
بہت مزے دار بریانی تیار کروائی گئی تھی۔ کئی دیگیں منگوائی گئی تھیں۔ ہر
کسی کے لئے کھانا کھا کے جانا ضروری تھی۔ کچھ ہی دیر میں ، گاڑیوں کی لمبی
لمبی قطاریں بکھرنے لگیں۔ اور شام کے قریب گھر میں بہت تھوڑے مہمان رہ گئے
۔ اب کل صبح مرحوم کے ایسالِ ثواب کے لئے ’قل خوانی‘ کے متعلق بات اور
تیاری ہونے لگی۔ وہی قاتل اس کام میں بھی سب سے آگے تھا۔ وہ اپنے ماتحتوں
سے کہہ رہا تھا کہ بہترین چیزوں کا انتخاب کیا جائے۔ چھوٹے نہیں درمیانے
سائز کے بہترین شوپر لینے ہیں اور ان کو آدھے سے زیادہ بھرنا ہے۔ اور کل
ختم پر آنے والے ہر شخص کو دینا ہے ۔
ہوائی جہاز کریش ہو جاتے ہیں ، مسافروں کے جسم بکھر جاتے ہیں۔ بحری جہاز
ڈوب جاتے ہیں اور مسافروں کو سمندری جانور کھا جاتے ہیں۔ لیکن اتنا افسوس
اور ندامت اور حیرانی پھر بھی نہیں ہوتی۔ انسان ، انسانوں کو زندہ جلا بھی
دیتے ہیں۔ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔ سب کچھ ہوتا ہے۔ اس سب کچھ میں سے کچھ
ایسا ہو جاتا ہے جس جیسا کچھ نہیں ہوتا۔یہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ اس
جیسا کیا ہو سکتا ہے۔
ایڈیپس (Oedipus) کے ساتھ وہ کچھ ہوا جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس نے
اپنے باپ کو قتل کیا اور اپنی ماں سے شادی کی ۔لیکن یہ دونوں کام بے خبری
میں ہوئے ، اسے اتنی ندامت ہوئی کہ اس نے اپنے آپ کو اندھا کر لیا، اپنی
آنکھیں ختم کر دیں۔ اس انسان کو کسی دوسرے انسان نے کچھ بھی نہ کہا۔ لیکن
ادھر تو اس شریف انسان نے کچھ کیا بھی نہ تھا۔ اور اسے قتل کرنے والوں نے
بے خبری میں کچھ نہیں کیا۔ ہر کام ، ہر عمل اور ہر واردات سب کچھ جانتے
بوجھتے ہوئے کی گئی۔
اُدھر قبر میں ریزہ ریزہ جسم خدا کے حکم سے پھر سالم ہو گیا ۔ فرشتوں کے
سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جوابات دینے کے بعد اس شریف انسان کے لئے جنت کی ہواؤں
اور مناظر والی کھڑکی کھول دی گئی۔ اور اسے آرام سے سو جانے کا کہہ دیا
گیا۔
اِدھر وہ نفیس انسان جس نے سب سے زیادہ سفید لباس پہنا تھا۔ اسے نیند نہیں
آ رہی تھی۔ اس کی سماعتوں میں کل کی واردات کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ وہ
کسی کو کیا بتائے کہ اسے میکبتھ(Macbeth)کی طرح کیا کیا نظر آ رہا تھا۔
اتنا ظالم تو میکبتھ اور اس کی بیوی بھی نہ ہو سکے تھے۔ اس نفیس انسان نے
تو اس بوڑھے کی بوٹی بوٹی کروا دی تھی جس کے ساتھ اس کا غالباً خون کا تعلق
بھی تھا۔
اسے نیند نہیں آ سکتی تھی۔ اس نے اپنے ایک ملازم سے کہا : ’ جاؤ اور اس کے
لئے نیند کی گولیوں کا ایک پتا لے کے آؤ۔ آج سر بہت درد کر رہا ہے۔ آج لگتا
ہے نیند نہیں آئے گی۔ آج نیند کا کچھ کرنا پڑے گا‘۔
وہ گولیاں کھا کے نیند کی آغوش میں پناہ لینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کا شعور ،
تحت الشعور اور الا شعور آج اسے یا اب کبھی بھی سونے نہیں دیں گے۔ اب وہ
شاید کوئی پر سکون موت نہیں مر سکے گا۔ فطرت اس سے بدلہ ضرور لے گی اور
بدلے کی دیویاں جو اس وقت دماغوں کے محرکات میں سما چکی تھیں اس سے بدلہ
لینے کے لئے اس کا قبر تک پیچھا ضرور کریں گی ! |