نفسِ ذکیہ - قسط١٧

بڑی عجیب بات تھی۔ جیسے دو ٹوک الفاظ میں دلاور نے سبین کی شادی کی خواہش کو چکنا چور کیا تھا وہ کسی بھی لڑکی کے لئے انتہائی بے عزتی کا مقام تھا۔ مگر سبین اتنی پریکٹیکل لڑکی تھی ۔۔۔ یقین نہیں ہوتا تھا۔ دلاور بھی بڑا حیران تھا۔ وہ تو سبین کا نام اپنی زندگی کی کتاب پہ سے مٹا چکا تھا۔ یہ سب تو اس کے ہر ریلیشن شپ میں ہوتا تھا۔ لڑکیوں سے قربت بڑھانا ۔۔۔ ان کے ساتھ انجوائے کرنا اور پھر جب لڑکی کی سوچ شادی کی طرف بڑھنے لگے تو بلا جھجھک اسے لات مار دینا۔ نہ جانے کتنوں کے جذبات سے وہ کھیل چکا تھا۔ کئی لڑکیاں مہینوں اسے فون کرتی رہتیں ۔۔۔ روتی دھوتی رہتیں۔۔۔ مگر پھر وہ کسی کو گھاس نہ ڈالتا۔۔۔ یہی اس کا من پسند کھیل تھا۔

پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی لڑکی نے دوبارہ اس سے کانٹیکٹ کیا ہو۔ شاید سبین نے بھی سوچا ہو گا کہ چلو دلاور بھی ٹائم پاس کر رہا ے۔۔۔ تو کیوں نہ وہ بھی کرتی رہے۔۔۔ جیون ساتھی نہ سہی جسمانی ساتھی تو مل گیا نا!!!
ویسے بھی وہ ایک بے باک اور آذاد خیال لڑکی تھی۔ اور اس کی فیملی کے بھی یہی کچھ نظریات تھے۔

جو وقت سبین سے ملنے کا طے ہوا تھا۔ سبین اور دلاور اسی وقت ایک ریسٹورینٹ میں ملے۔

’’جانو! تم نے تو پھر پوچھا ہی نہیں مجھے!!!‘‘ سبین نے دلاور کے گلے ملتے ہی ہنستے ہنستے شکوہ کیا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ ایسے تھوڑی چھوڑوں گی تمہیں۔۔۔ ‘‘ ۔’’ارے۔۔۔ اتنی آسانی سے۔۔۔‘‘ سبین نے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔
’’چلو۔۔۔ ٹیک اٹ ایزی۔۔۔‘‘ ۔’’ تم سے مجھے یہی امید تھی جان۔۔۔‘‘۔ دلاور خوش ہو گیا کہ چلو اب کھیل ہمیشہ چلتا رہے گا۔

سبین اور دلاور نے وہ رات ایک ساتھ گزاری ۔ نا جانے سبین کیا چاہتی تھی۔ اس رات کے بعد اس نے پھر کبھی دلاور کو کانٹیکٹ نہیں کیا اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کا نمبر بلاک کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

فوزیہ اور اس کے گھر والے سب بے حد خوش تھے۔ فوزیہ سب سے بڑی بہن تھی۔ گھر میں پہلی شادی ہونے والی تھی۔ اور وہ بھی وہاں جہاں رشتہ کرنا ان سب کا خواب تھا۔ فوزیہ کے رشتے توہی آتے رہتے تھے۔ وہ خوبصورت تھی۔ سمجھدار تھی۔ گھر کی بڑی۔۔۔ ذمہ دار تھی اور پڑھی لکھی کماؤ پوت تھی۔ اور کیا چاہئے آج کل کے لوگوں کو!!!

مگر فوزیہ کے گھر والوں کے ذہن میں ہمیشہ سے ہی لندن، امریکہ یا آسٹرالیاسمایا رہتا تھا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہی ہے کہ پاکستان میں یہ تصور عام ہے کے جو ملک سے باہر ہے سمجھو کسی جنت میں رہ رہا ہے۔ چاہے وہ بیچارہ وہاں ایک وقت کی روٹی با مشکل کھا رہا ہو۔ ایک کمرے میں آٹھ آٹھ لوگوں کے ساتھ گھٹ گھٹ کر سو رہا ہو۔ پاکستانی انہیں کسی راجہ سے کم نہیں سمجھتے۔ وہ بے چارے بھی کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے کے ان پر کیا بیت رہی ہے ، وہ کس حال میں ہیں، وہ کیسے گزارا کر رہے ہیں۔۔۔ تا کو کہیں گھر میں موجود ماں باپ بہن بھائی مایوس نہ ہو جائیں۔۔۔ پریشان نہ ہوجائیں۔۔۔ دوسری طرف پاکستان میں رہنے والوں کی امیدیں اور خواہشات ان کے بیرون ملک رہتے رشتہ داروں سے ضرورت سے ذیادہ بڑھ جاتیں ہیں۔ اور پھر باہر رہنے والے رشتہ دار بھی ان کی امیدوں کو پورا کرنے کے لئے خون پسینہ ایک کر دیتے ہیں۔

بہر حال فوزیہ کے سب رشتہ داروں کی ایسی حالت بھی نہ تھی۔ جہاں سے رشتہ آیا تھا وہ لوگ امریکہ میں ویل سیٹلڈ تھے۔ نا جانے کتنے رشتے فوزیہ کے گھر والے ٹھکرا چکے تھے ۔۔۔ اسی آس میں کہ جب باہر سے رشتہ آئے گا تو فوزیہ باہر چلی جائے گی اور اس طرح سے ان کی شان میں اضافہ ہو جائے گا۔۔۔ اسٹینڈرڈ بن جائے گا۔ اسی انتظار میں فوزیہ کی عمر بھی کوئی تیس کے قریب پہنچ گئی تھی۔

اب ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ امریکہ سے چچا کے بیٹے کا رشتہ آیا ہو اور فوزیہ اور اسکے گھر والے اسے ٹھکرا کر اس کی شادی کسی پاکستانی جوتے بیچنے والے سے کر دیں۔

فوزیہ نے اپنی امی کو ساری کہانی سنا دی اور اچھی طرح پٹی بھی پڑھا دی ۔ تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔پہلے تو فوزیہ کی امی کافی ناراض ہوئیں۔۔۔ پھر ٹھان لیا کہ سختی کے ساتھ میری امی کو رشتے سے منع کر دیں گی۔

’’ السلام و علیکم!‘‘ میری امی نے فوزیہ کی والدہ کو کال ملائی۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ دوسری طرف سے جواب آیا۔
’’ جی میں۔۔۔ ذولقرنین کی والدہ بات کر رہی ہوں۔‘‘
’’ آپ فوزیہ کی امی بات کر رہی ہیں؟‘‘ میری امی نے بہت مہذب انداز میں گفتگو شروع کی۔
’’جی میں فوزیہ کی امی ہوں۔۔۔کون؟‘‘ فوزیہ کی امی نے سپاٹ سے لہجے میں جواب دیا۔ فوزیہ بھی ساتھ ہی کھڑی سب سن رہی تھی۔
’’ا م م م۔۔۔میں ذولقرنین کی والدہ ہوں۔۔۔ آپ کو فوزیہ بیٹی نے بتایا ہو گا ‘‘۔ میری امی بات کرتے ہوئے تھوڑا جھجکنے لگیں۔ اسپیکر آن تھا۔میں بھی ساری باتیں سن رہا تھا۔
’’کون ذولقرنین ۔۔۔ فوزیہ نے تو کچھ نہیں بتایا۔۔۔!!!‘‘
’’کون ہیں آپ ؟؟؟ میرا نمبر کس نے دیا آپ کو۔۔۔‘‘ میری والدہ شش و پنج میں مبتلا میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ میرا بھی رنگ اڑنے لگا۔ کیا فوزیہ نے گھر میں کچھ نہیں بتایا ۔ اس نے خود ہی تو کہا تھا کہ میں رشتہ بھیجوں۔ یہ کیا ہوا۔ میں بہت کچھ سوچنے لگا۔
’’ام م م۔۔۔ میں ذولقرنین کے گھر سے بول رہی ہوں۔ ‘‘۔ امی رک گئیں اور پھر میری طرف دیکھنے لگیں۔
’’ذولقرنین اور فوزیہ ساتھ کالج میں پڑھتے تھے۔۔۔‘‘ میری والدہ کہنے لگیں۔
’’اچھا!‘ ‘ دوسری طرف سے سخت سے لہجے میں جواب ملا۔
’’ اصل میں میں۔۔۔ میں۔۔۔فوزیہ کے رشتے کی بات کرنا چاہ رہی تھی آپ سے۔۔۔!!!‘‘ امی دبی سی آواز میں بولیں۔ میرا چہرا سرخ ہو گیا تھا۔
’’فوزیہ کا رشتہ۔۔۔ ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔۔۔‘‘۔ دونوں طرف کچھ دیر کے لئے خاموشی ہو گئی۔
’’خاندان سے کچھ رشتہ نظر میں ہیں۔۔۔ ہم فوزیہ کی شادی وہیں کریں گے۔ ‘‘
’’خاندان سے باہر نہیں کرتے آپ؟؟؟‘‘ جو کچھ میں نے اپنے اور فوزیہ کے بارے میں اپنی امی کو بتایا تھا انہیں توقع نہیں تھی کہ وہ لوگ ایسے دو ٹوک الفاظ میں رشتے سے منع کر دیں گے۔
’’جی۔ فوزیہ کا رشتہ خاندان میں ہی کریں گے ہم۔ ہمارے ہاں باہر شادی نہیں ہوتی۔۔۔‘‘
’’ا م م م۔۔۔ اچھا جی! شکریہ۔۔۔ اللہ حافظ!‘‘۔ امی نے بات ختم کی اور کال کاٹ دی۔ میرے تو جیسے ہونٹ ہی سل گئے ہوں۔ میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ امی بھی ناراضگی سے مجھے دیکھنے لگیں۔
’’نہیں کرتے وہ باہر رشتہ۔۔۔‘‘ انہوں نے قدرے غصے سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔

موبائیل فون میرے ہاتھ میں تھا۔ میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ میں ٹکٹکی باندھے موبائیل فون کی اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔ میں وہیں جم کر کھڑا رہا۔ دل میں ہول سے اٹھنے لگے۔ دماغ پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔

کیا سب کچھ ختم ہو گیا؟ اب کیا ہو گا؟ اب میں کیا کروں؟ فوزیہ تو ویسے ہی بدل سی گئی ہے؟ کیا اب ہمارا رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ اگر وہ مجھ سے نہ ملی تو میں کیسے جیوں گا؟ کیسے اس کی جدائی برداشت کروں گا؟ کیا کروں گا؟ پہلے کی طرح کہیں پھر وہ میرا فون اٹھانا بند نہ کر دے!!! کہیں وہ مجھ سے ملنا بند نہ کر دے!!! ایک ہی تو شخص ہے جس سے میں نے ٹوٹ کر پیار کیا ہے۔ کیا سب کچھ بکھر جائے گا؟؟؟ کیا میرے لئے کوئی خوشی نہیں ہے!!! کیا میں یوں ہی ہمیشہ سسکتا رہوں گا؟؟؟ میرے آنکھوں بہہ نکلے۔۔۔ میری زندگی میں تو بس غم ہی غم ہیں۔۔۔

میں اپنے آپ سے بہت سی منفی اور مایوسی کی باتیں کرتا رہا۔دیر تک کھڑا جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ میری محبت میں بہت شدت تھی۔ فوزیہ کے کھو جانے کا اندیشہ مجھے اندر ہی اندر کھانے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور کو حصے میں جو ایک دوکان ملی تھی۔ وہ دراصل ایک الیکٹریکل پارٹس کی سپلائی کا اسٹور تھا۔ چند ملازمین وہ چھوٹا سا سیٹ اپ سنبھالتے تھے۔ دلاور نے کبھی وہاں کا چکر نہیں لگایا تھا۔ کبھی زحمت نہیں کی تھی کے جو بھی کاروبار اور پراپرٹی وغیرہ سے آمدنی ہوتی ہے ان کی کوئی خیر خبر لے۔ مگر اب حالات بدل چکے تھے۔ پہلی والی بات نہیں رہی تھی۔ پہلے تو باقی بڑے بھائی مل کر معاملات سنبھال لیتے تھے اور دلاور چیونکہ سب سے چھوٹا تھا اس لئے اس پر کوئی سختی نہیں کرتے تھے۔اسے سب نے اس کے حال پر چھوڑا ہوا تھا۔

ویسے بھی وہ کوئی بچہ نہیں تھا۔ تیس بتیس سال کے جوان آدمی کو کوئی انگلی پکڑ کر تو نہیں چلاتا۔ اس نے اپنا جیسا بھی لائف اسٹائل اپنا رکھا تھا کوئی اس پر اسے ٹوکتا نہ تھا۔

آج بڑے دنوں بعد دلاور کو اپنے اسٹور کا چکر لگانے کا خیال آ ہی گیا۔
’’ہیلو ایوری ون!‘‘۔ دلاور نے اسٹور میں گھستے ہی انگلش میں سلام کیا۔ جو تین چار ملازمین وہاں موجود تھے سب چوکنا اور حیران ہو گئے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ دلاور بھی وہاں کی خیر خبر لینے کبھی آنپہنچے لگا۔
اسٹور میں بنے ایک چھوٹے سے آفس میں دلور بیٹھ گیا اور تمام ملازمین کو اکھٹا کر کے ایک چھوٹی سی تقریر کر دی۔ سب کو بتا دیا کہ بھائیوں میں بٹوارہ ہو چکا ہے اور اس اسٹور کا کرتا دھرتا اب صرف وہ ہے۔ ملازمین کو اس بٹوارے کی بھنک تو پہلے ہی لگ چکی تھی اب تو بس آفیشیلی اعلان ہو گیا تھا۔

مراد صاحب اس اسٹور کو سنبھالتے تھے۔ وہ وہاں کے پرانے ملازم تھے۔ تب سے اسٹور سنبھال رہے تھے جب سے دلاور کے والد حیات تھے۔
’’مراد صاحب! مجھے تمام ضروری فائلیں وغیرہ دکھائیں۔۔۔‘‘ ۔ دلاور نے ایک باس کی طرح انہیں حکم دیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ بہت سی فائلیں اور کاغذات وغیرہ لے آئے اور میز پر ڈھیر کر دیں ۔ دلاور نے ایک نظر ان تمام چیزوں کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر ایک فائل اٹھا لی۔تیوری چڑھا کر کچھ صفحات الٹ پلٹ کئے پھر دوسری فائی اٹھا لی۔ پھر بینک اسٹیٹمنٹ مانگا۔ پھر تھک ہار کر تب کچھ جوں کا توں چھوڑ دیا۔ مراد صاحب وہیں آفس میں کھڑے تھے۔ وہ سپاٹ سا چہر ہ لئے ساری کاروائی دیکھ رہے تھے۔

دلاور کا کہاں کام شام سے کبھی پالا پڑا تھا!!! کاروبار سنبھالنا کوئی بچوں کا کھیل ہے کیا!!! کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مارکیٹ سے کمپٹیشن کرنا پڑتا ہے۔ ملازمین پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔۔۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔۔۔
دلاور کو مراد صاحب کا یوں ٹکٹکی باندھی اسے گھورتے رہنا تکلیف دے رہا تھا۔ وہ اس کے سر پر ہی کھڑے تھے۔ اسے کوفت ہونے لگی۔
’’زرا چائے تو منگوا دیں۔۔۔‘‘ دلاور نے مراد صاحب سے کہا تا کہ وہ اس کی نظروں سے اوچھل ہو سکیں۔ وہ چلے گئے اور دلاور نے ایک گہرا سانس لیا۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اسٹور کے کیا معاملات ہیں! فائلوں میں کیا لکھاہے! بزنس کیسے سنبھالنا ہے!
اسے یکایک ایک بوجھ سا محسوس ہونے لگا۔ فکر نہ فاقہ ۔۔۔ وہ تو اب تک کسی غیر ذمہ دار اسٹیوڈنٹ کی سی لائف جی رہا تھا۔۔۔ یہ بزنس کے پیچیدہ جھمیلے وہ کیسے سنبھالے گا؟؟؟

وہ دھڑام سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ خوبصورت شامیں۔۔۔ وہ نشیلی راتیں۔۔۔ وہ موج ۔۔۔ وہ مستی۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔!!!
’’میں کہاں اس کچرے میں پڑ سکتا ہوں۔۔۔؟؟؟‘‘۔’’ اسی کو کہتا ہوں سنبھالے سب۔۔۔‘‘ دلاور بیزار ہو کر بڑبڑایا۔
اپنے اچھے بھلے سیٹ بزنس کو وہ کچرا کہہ رہا تھا۔ ظاہر ہے۔۔۔ اب کام جو کرنا پڑتا۔۔۔ ٹینشن لینی پڑتی۔۔۔ صیح سویرے اٹھنا پڑتا اور رات گئے آفس سے گھر آنا پڑتا۔۔۔ واقعی !جس خودساختہ جنت میں دلاور رہ رہا تھا اس کے آگے تو کام دھندا سب کچھ کچرا ہی تھا۔ دلاور نے طے کر لیا کہ وہ مراد صاحب ہی کے گلے سارے معاملات ڈال دے گا۔ جس طرح پہلے بھائیوں کی محنت کی کمائی کھاتا رہتا تھا ۔ اسی طرح اب مراد صاحب کی محنت کی روٹی توڑتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دو دن بعد ہی مجدی کو انٹر ویو کال آ گئی۔ ابھی موبائیل اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ وہ اپنے کمرے میں خاموشی سے کھڑا اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’اب آ گئی کال۔۔۔؟؟؟‘‘ اس نے اپنی ہی آنکھوں میں گھورتے ہوئے کسی سے سوال کیا۔ اب تو کوئی سال بھر ہونے کو تھا کہ مجدی بے روز گار تھا۔ مگر وہ جو اس نے ایک عجیب و غریب ای میل کی تو فوراََ ہی بات بننے لگی۔

دوسرے ہی دن ان لوگوں نے اسے اپنے آفس بلا لیا تھا۔ یہ فیس ٹو فیس انٹرویو تھا اور اسے ڈیمونسٹریشن یا لایؤ سیشن بھی دینا تھا۔ مجدی رات بھر سو نہیں سکا۔ شاید یہ اس یقین کی وجہ سے تھا کہ اب اسے جاب مل جائے گی۔۔۔ یا پھر وہ اندر ہی اندر گھبرایا ہوا تھا کہ کہیں یہاں بھی کوئی سین ہو گیا تو؟؟؟ اگر یہاں بھی وہ مطمئن نہ ہوئے تو۔۔۔ اقلیت برادری سے ہونے کے باعث اس میں خود اعتمادی کی کمی تو ہمیشہ سے ہی تھی مگر پے در پے انٹرویوز میں فیل ہونے کی وجہ سے وہ بالکل ہی مایوس ہو چکا تھا۔

صبح کے کوئی تین چار بجے اس کی آنکھ لگی تھی اور وہ چھ بجے ہی اٹھ گیا۔۔۔ نہایا دھویا اور بلیک کلر کی پینٹس اور بلیک کلر کی شرٹ نکال کر پہن لی۔ کراس کے نشان والی چین تو وہ کب سے پھینک چکا تھا۔ اس نے ایک اور سلور کلر کی چین نکالی اور وہ گلے میں ڈال لی۔ اس چین کے آگے لاکٹ پر لال رنگ کا ایک ایکس بنا ہوا تھا۔ پھر مجدی نے اپنے اوپر ایک پرفیوم کے کئی اسپرے کئے اور اپنی دراز کی طرف بڑھا ۔۔۔ وہاں ایک سرنج اور انجیکشن رکھا تھا۔ مجدی نے دونوں چیزیں اٹھائیں اور کمرے کا دروازہ لاک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

یہ آفس کلفٹن کے علاقے میں کسی بنگلے میں بنایا گیا تھا۔ مجدی نے اس دن میرے اسٹور سے چھٹی کی اور ایک ٹیکسی لے کر انٹرویر دینے پہنچ گیا۔

بنگلے کے دروازے پر ایک بیل کا بٹن موجود تھا۔ اس نے بیل بجائی اور کسی کے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر گزر گئی مگر کوئی نمودار نہ ہوا۔ اس نے پھر بیل بجائی اور کوئی نہ آیا۔۔۔ تیسری چوتھی بار بیل بجانے کے باوجود کوئی سامنے نہ آیا نہ ہی اندر سے کسی کی کوئی آواز سنائی دی۔

مجدی پیچھے کو ہو کر روڑ پر کھڑا ہو گیا۔پھر بنگلے کو اوپر نیچے دیکھنے لگا۔ کہیں بھی کسی ذی نفس کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس نے موبائیل نکالا اور اسی نمبر پر کال کر دی جہاں سے اسے فون آیا تھا۔کسی نے فوراََ ہی فون اٹھا لیا۔
’’ہیلو! ہو از دز!!!‘‘ یہ اسی شخص کی پر وقار آواز تھی جس نے اس سے پہلی بار فون پر تعارفی کلام کیا تھا۔
’’ا م م م۔۔۔ ہیلو سر! میں مجدی بات کر رہا ہوں۔۔۔ میں آپ کے آفس کے باہر کھڑا ہوں پر کوئی دروازہ نہیں کھول رہا۔۔۔‘‘ مجدی نے ان کے انگریزی میں پوچھے گئے سوال کا جواب اردو میں دیا۔
’’اوہ مجدی۔۔۔آئی واز ویٹنگ فار یو!‘‘ ۔ انہوں نے پر جوش انداز میں مجدی کو ویلکم کر کے کہا کہ وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔
’’جسٹ ویٹ آ منٹ‘‘۔ مجدی کو کچھ منٹ انتظار کرنے کا کہا گیا اور کال کٹ گئی۔

کچھ ہی دیر میں کسی نے دروازہ کھولا۔ وہ ایک بہت پر کشش اور خوبصورت جوان تھا۔ خوبصورت اور صحت مند جسم ۔۔۔لمبا قد۔۔۔ اچھے گھنے بال ۔۔۔جن پر جیل لگی ہوئی تھی۔ وہ کلین شیو تھا۔ مجدی رشک سے اس کی گوری چمکتی رنگت کو دیکھ رہا تھا۔
’’ہیلو سر!‘‘ مجدی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
’’ہائی!‘‘ اس جوان نے بھی پر جوش لہجے میں جواب دیا اور کھل کر مسکرایا۔ مجدی بھی جواباََ مسکرا دیا۔
’’ہاؤو آر یو؟‘‘ اس نے مجدی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
’’آئی ایم فائن۔‘‘ مجدی نے پھر مسکرا کر جواب دیا۔ اس شخص سے مل کر مجدی کچھ سنبھل سا گیا ۔ وہ بڑا فرینڈلی تھا۔
اس بنگلے کے اندرونی دروازے پر پہنچنے سے پہلے ایک بڑا سا بر آمد تھا۔ جس پر سفید رنگ کی ٹائلیں لگی ہوئیں تھی۔ ایک طرف کو ایک نیلے رنگ کی کار بھی کھڑی تھی۔مجدی اور وہ شخص تیز تیز ان ٹائیلوں پر چلتے ہوئے آگے بڑھے۔

دروازہ کھلا تو اندر بھی کوئی نہیں تھا۔ آفس جیسا ماحول بالکل نہیں تھا۔ جیسے کسی بنگلے کے اندر کا ہال ہوتا ہے بس وہ تھا۔ روشنی بھی مدھم سی تھی اور فرنیچر بھی بہت کم تھا۔ ساری کھڑکیاں بند تھیں اور بہت سی دروازے جو غالباََ بنگلے میں بنائے گئے بیڈ رومز کے تھے، وہ بھی بند تھی۔ پھر مجدی کو ایک روم سے کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگی۔ مجدی سوالیہ نظروں سے اس اپنے ساتھ موجود شخص کو دیکھنے لگا۔

’’ہیو آ سیٹ‘‘۔ وہ شخص سامنے بنے ایک دروازے میں گھس گیا اور مجدی وہیں رکھیں کچھ کرسیوں پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں چارر پانچ افراد ایک کمرے سے باتیں کرتے ہوئے نکل آئے ۔ ان افراد میں ایک لڑکی بھی تھی۔ مجدی ٹکٹکی باندھی اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ وہ کوئی بہت ہی فیشن ایبل لڑکی تھی۔بڑی بڑی سفید رنگ کی پینسل ہیلز ۔۔۔ لائٹ سا میک ای۔۔۔ خوبصورت چہرہ ۔۔۔ ہونٹوں پر اورنج یا لال رنگ کی شوخ لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔ اس نے اسکن ٹائٹ جینز پہن رکھی تھی۔ اوپر وائٹ کلر کی شرٹ تھی۔ اس کے کپڑے اس کے جسم کے خد و خال کو چھپانے میں ناکام تھے۔ وہ لمبی سی ۔۔۔ پتلی کمر کی لڑکی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ موجود تینوں مرد بھی بہت پر قار اور خوبصورت تھے۔ تمام کے تمام نہایت ویل ڈریس اور جسمانی طور پر بالکل فٹ اور اسمارٹ تھے۔ جیسے جم جانے والے لوگوں کی باڈیز ہوتی ہیں۔۔۔

وہ سب افراد مجدی کو نظر انداز کرتے ہوئے آپس میں کچھ باتیں کرتے آہستہ آہستہ ایک اور روم کی جانب بڑھ رہے تھے۔ مجدی ان سب لوگوں کو گھور گھور کر دیکھتا رہا۔ اب تک وہ جس سے بھی ملا تھا تب ہی کسی کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ لگتے تھے۔

’’دز وے!‘‘ وہی شخص پھر نکل آیا اور ایک روم کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ ساری باتیں انگلش میں ہی کر رہا تھا۔
روم کا ردوازہ کھلا اور مجدی کچھ جھجھکتا اندر داخل ہوا۔ وہ ایک خوبصورت آفس تھا۔ بہت ساری سفید رنگ کی لائٹس سے جگمگاتا۔۔۔ سامنے ایک بلیک کلر کی بڑی سی چیئر پر ایک چالیس بیالیس سال کا شخص بیٹھا تھا۔
’’ہیلو مجدی!‘‘ اس شخص نے کھڑے ہو کر مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ براؤن کلر کی بڑی سی میز کے دوسری جانب سے مجدی نے ان سے ہاتھ ملایا۔ وہ ایک مضبوط ہاتھ تھا۔ جس نے مجدی کی ہتھیلی کو جکڑ لیا۔ مجدی نے بھی کچھ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا ہاتھ کس کر پکڑ لیا۔
’’ویل ڈن! ‘‘ وہ ہلکا سا ہنس دئیے۔
’’آئی ایم پرویز۔۔۔ نائس ٹو میٹ یو مسٹر مجدی!‘‘ انہیں نے مجدی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’تھینکس!‘‘ مجدی نے بھنویں اوپر کو کر کے شکریہ کہا اور بیٹھ گیا۔ سب کی طرح وہ بھی جو وہاں کے باس لگ رہے تھے۔ نہایت وجیہ اور ویل ڈریسڈ آدمی تھے۔

کچھ تعارفی گفتگو کے بعدمسٹر پرویز نے کسی کو فون ملایا۔ وہی جوان شخص پھر کمرے میں آ گیا جو مجدی کو اندر تک لایا تھا۔
’’ فرید!سب ریڈی ہے؟؟؟‘‘
’’یس!‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’انہیں لائیو سیشن کے لئے لے جائیں‘‘۔ مجدی اٹھا اور ان کے ساتھ ڈیمونسٹریشن دینے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

فون کال پر تو فوزیہ کی امی میرے رشتے سے صاف صاف انکار کر چکی تھیں۔ مگر میں اتنی جلدی ہمت ہارنے والا نہ تھا۔ میں تو اپنی محبت پانے کے لئے زمین و آسمان ایک کر دیتا۔

سب سے پہلے میں نے امی ابو کو پھر راضی کرنے کی کوشش کی۔ اصل مسئلہ امی کا ہی تھا۔ کیونکہ ابو جان ضعیف تھے اور گھر کے سارے معاملات اانہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے ہی میرے حوالے کر دئیے تھے۔ میں بھی گھر کا سب سے بڑا ہونے کے ناطے ایک ذمہ دار شخص تھا اور کاروباری معاملات سے لے کر گھر کے تمام فیصلوں میں اب ابو کی جگہ میں ہی بولتا تھا۔ ہاں، امی جی اب بھی والدہ کا کردار بہ خوبی نبھا رہی تھیں کیونکہ بہنیں سب چھوٹیں تھیں۔ ظاہری طور پر سب گھر والے میرے رکھ رکھاؤ اور ذمہ دارنہ شخصیت سے بہت متاثر اور مرعوب تھے۔ مگر اندر سے میں کتنا حساس اور ٹوٹا پھوٹا تھا اس کی کسی کو بھنک تک نہ تھی۔

امی کو میرے اس عشق کے قصے سے بڑی مایوسی ہوئی ۔ انہیں امید نہ تھی کہ میں ایسی کوئی کاروائی کروں گا۔ ان کا اور حقیقتاََ میرا بھی ذہن ایک ارینج میرج کے لئے بالکل تیار تھا۔ جس میں میری پسند بھی شامل ہو اور والدین کی پسند بھی۔ کوئی عشق معاشوقی کی داستان نہ ہو۔ سیدھا سادہ معاملہ ہو۔ یہ تو نہ جانے کیسے فوزیہ نظروں کے سامنے آ گئی اور پھر سب کچھ خود بہ خود ہی ہوتا چلا گیا۔

مگر اب معاملہ میرے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ میں فوزیہ کو اپنے آپ سے دور نہیں کر سکتا تھا۔ اسے میں نے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ بے شک اس سے جدائی اپنے جسم کے کسی حصے کو کاٹ دینے کے مترادف ہوتا۔۔۔

دوپہر کا ٹائم تھا۔ امی اپنے کمرے میں بیٹھیں اخبار پڑھنے میں مگن تھیں۔ میں دبے پیر کمرے میں داخل ہوا اور امی کے ساتھ ہی بیڈ پر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
’’امی ! اب کیا کرنا ہے؟؟؟‘‘ میں نے بھولی سی صورت بنا کر امی کی طرف دیکھا۔
’’کیا! کیا کرنا ہے؟ ‘‘ امی نے اخبار چہرے سے نیچے کیا ۔ امی سمجھ گئیں تھیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں مگر انہوں نے انجان بن کر پوچھا اور پھر اخبار دیکھنے لگیں۔
’’وہی۔۔۔ فوزیہ کے بارے میں۔۔۔‘‘ میں نے دبی سی آواز میں کہا۔ امی نے فوزیہ کا نام سنتے ہی منہ بنا لیا۔
’’کیا کروں۔۔۔؟ منع کر تو دیا ہے انہوں نے۔۔۔‘‘ امی نے پھر اخبار نیچے کیا اور سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’ تو اب کیا کرنا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ میں نے اداسی سے پھر پوچھا۔
امی نے ایک طرف کو اخبار رکھ کر مجھے ناراضگی سے دیکھا ۔
’’دیکھو بیٹا! مجھے بالکل اچھا نہیں لگا جس چکر میں آپ پڑ گئے ہوں۔ آپ کی بہت ذمہ داریاں ہیں۔ گھر کے چھوٹے بہن بھائی ابھی پڑھ رہے ہیں۔ اس طرح کسی بھی انجان لڑکی سے تمہاری شادی ہو جائے۔ وہ گھر کو سنبھال نہ سکے۔ میرے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے۔۔۔ تو کیا ہو گا؟؟؟‘‘ امی نے ناراضگی سے مجھے سنانی شروع کر دی۔
’’چھوٹے بہن بھائیوں کو پتا چلے کا تو ان پر کیا اثر ہوگا۔ آپ کو پتا ہے گھر میں کبھی ان چیزوں کو پسند نہیں کیا گیا۔ نہ کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں ہم نے گھر میں کبھی کوئی بات بھی کی ہے جو لڑکیوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔۔۔ ان چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔ کل کو آپ کی بہن کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔۔۔؟؟؟‘‘ میرا چہرہ شرمندگی سے لال ہو گیا ۔
’’آپ گھر کے بڑے بھائی ہو۔۔۔ واحد شخص ہو کمانے والے۔۔۔ ابو تو کب سے ریٹارڈ ہیں۔ آپ نے اس طرح غیر دمہ داری سے اپنی زندگی کے فیصلے کئے تو کیسا چلے گا؟؟؟‘‘
’’اب بھول جاؤ سب کچھ۔۔۔ ‘‘
’’ ویسے بھی تمہارے کہنے پر میں رشتہ بھی مانگ چکی۔۔۔ ‘‘۔’’انہوں نے منع کر دیا۔۔۔‘‘
’’اب سب کچھ بھول کر اپنے کام پر توجہ دو۔ انشاء اللہ آپ کی اور کہیں بہت اچھی جگہ شادی کرا دوں گی۔‘‘ امی نے آخری جملے شفقت سے کہے اور پھر اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔ میں اپنا سا منہ لے کر رہ کیا۔ نا امیدی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ میں لال سا چہرہ لے کر آہستہ سے اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں۔ میں اپنے کمرے میں گھس کر دھڑام سے بیڈ پر گر گیا۔ تکیہ منہ پر رکھ کر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر بے سود۔ آنسو ضبط نہ ہوئے۔۔۔ ساری کوششوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے نمایا ہو ہی گئے۔ مجھے فوزیہ کی یاد آنے لگی۔ میں نے موبائیل نکالا اور بھیگی آنکھوں سے اس کی تصویریں موبائیل کی اسکرین پر دیکھتا رہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85362 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More