ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب پیٹرو اسلام کی حامل نام
نہاد مذہبی جماعتیں ہر کسی پر سوشلسٹ اور کیمونسٹ کا فتوح لگاتی تھیں اور
خود کو ہی صرف اسلام کا سچا پیروکار کہتی تھیں۔ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ
جن عظیم لوگوں کو ترقی پسند یا سوشلسٹ نظریات کا حامل گردانا جاتا رہا ہے
وہ لوگ بھی حمد اور نعت سنتے اور کہتے رہے ۔برصغیر پاک و ہند میں نعتیہ
شاعری میں بلند ترین نام حضرت امام مولانا احمد رضا خان ؒ کا ہے۔ایک صدی
قبل خالق حقیقی سے جاملنے والے محمد احمد رضا خان بہت بڑئے عالم دین تھے۔
قران مجید کا شہرہ آفا ق ترجمہ کنزالایمانجناب حضرت امام احمد رضا خانؒ کا
عظیم ترین کارنامہ ہے۔یوں تو نعت گوئی کا سلسلہ حضورؐ کی حیات مبارک میں ہی
شروع ہو گیا تھا جس کی بازگشت پورے عالم اسلام کی ادبی اور سماجی تاریخ میں
تب سے اب تک دلوں کو منور اور سماعتوں کو معطر کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر
برصغیر پاک و ہند اور بالخصوص اردو زبان کے حوالے سے اس پر انیسویں صدی کے
آخری ربع سے جو موسم بہار شروع ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا حالی کا یہ
دعائیہ نوحہ د کہ اے خاصہ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے۔اُمّت پہ تری آ کے عجب
وقت پڑا ہے۔حالیؒ اور اقبالؒ کے زمانے تک کم و بیش ہر شاعر کے دیوان کے
آغاز میں نعتیہ کلام شامل ہوتا تھا اور جہاں ایسا نہیں تھا وہاں بھی دیوان
کے اندر نعتیہ مضامین پر مبنی اشعار ضرور ہوتے تھے جیسے مثال کے طور پر
مرزا غالب کے اردو اور فارسی کلام کے یہ دو اشعار کہ۔منظور تھی یہ شکل
تجلّی کو نور کی۔قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی۔غالب ثنائے خواجہ بہ
یزداں گذاشتیم۔کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است کم و بیش یہی صورت علامہ
صاحب کے مجموعہ ہائے کلام میں ہے کہ جگہ جگہ آپ کو ایسے نعتیہ اشعار دکھائی
دیتے ہیں جو سربسر حُبِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ روایت بیسویں صدی کے
نصف اول یعنی قیام پاکستان کے دنوں تک مسلسل آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور
ہمیں امیر مینائی، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری، بیدم وارثی، ماہر
القادری اور احمد ندیم قاسمی جیسے بلند پایہ شاعر مسلسل نعت کہتے دکھائی
دیتے ہیں اور یہ تسلسل کا گراف بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اپنے
عروج کو پہنچ کر آج کی شاعری تک رواں دواں نظر آتا ہے۔اس دوران میں بلا
مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی شاعروں کے لیے
یہ ان کی پہچان اور وجہ اختصاص بھی ہے لیکن احمد ندیم قاسمی مرحوم کا کمال
یہ ہے کہ ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب
انھوں نے نعت کی سعادت حاصل نہ کی ہو اور یقینا معیار اور عرصے کے اعتبار
سے یہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اس دوران میں جن شعرأ نے نعت کے
میدان میں زیادہ نام کمایا ان میں حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی،
حافظ لدھیانوی، اقبال عظیم، ریاض حسین چوہدری، خالد احمد، پیر نصیر الدین
گولڑوی، عبدالعزیز خالد، انور مسعود، نورین طلعت عرویہ اور لالہ صحرائی
سمیت کچھ اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر حفیظ تائب مرحوم کا نام سب سے
اوپر آتا ہے۔حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند
بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ
قاسمی صاحب نے تائب صاحب کی نعت کو ہمیشہ اپنے عہد کی نمائندہ نعت قرار دیا۔
آج یہ دونوں بزرگ اور محترم ہستیاں ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ رسول پاکؐ کی
رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں:پورے قد سے جو کھڑا
ہوں تو یہ تیرا ہے کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیر۔تجھ سے پہلے کا
جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی ۔اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا۔ایک بار
اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ۔راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا۔ترقی پسند
اور کسی زمانے میں شوشلسٹ خیالات رکھنیوالے اکثر ادیبوں اور شاعروں پر یہ
الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہو گئے تھے اور یہ کہ انھوں نے
نعت کی صنف میں اس ڈر سے شاعری نہیں کی کہ کہیں انھیں رجعت پسندی یا مولویت
کا طعنہ نہ دیا جائے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد
پراپیگنڈہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ترقی پسند شاعر کے کلام میں نعتیں اور
نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ کمیونسٹ قرار دیے جانے والے شاعروں مثلاً فیض صاحب،
عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری کے ہاں بھی نہ صرف نعتیہ کلام ملتا ہے
بلکہ اس کا معیار بھی بہت عمدہ ہے کہ بقول شخصے رسولِ پاکؐ سے زیادہ ترقی
پسند انسان تو تاریخ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ کی شخصیت کے اس رخ کو قاسمی
صاحب نے خاص طور پر اپنی نعتوں میں اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:یوں تو ہر
دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا۔تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا۔قصر مرمر سے
شہنشاہ نے ازراہِ غرور۔تیری کٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا۔اور یہ کہ اس
قدر کون محبت کا صلہ دیتا ہے۔اس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے۔جدید
اردو نعت میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس
نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اﷲ کی وحدانیت اور نبی آخر الزماں کی
رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی
جن میں اندھی عقیدت تو ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جو آدمی کو
انسان اور پھر ان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ یہ مضامین ان کی
غزلوں اور نظموں میں بھی بار بار سامنے آتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحبؒ کا
کلام ملاحظہ فرمائیں۔ میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اِک عمر گزار آیا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اِک ہالہِ نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
کہ یہ کہیں خامیِ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
راقم نے جب اوپر بیان کردہ نعت سُنی تو جناب حضرت احمد ندیم قاسمیؒ کے عشق
رسول ﷺ کے جذبات کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لیے چند ٹوٹے پھوٹے الفاط تحریر
کیے ہیں۔چند اشعار جو اس بابرکت میدان میں احمد ندیم قاسمی کی انفرادیت کے
ترجمان ہیں۔
اے مرے شاہؐ شرق و غرب! نانِ جویں غذا تریؐ
اے مرے بوریا نشیں! سارا جہاں گدا تراؐ
دینا ہے ایک دشت تو گلزار آپؐ ہیں
اس تیرگی میں مطلع انوار آپؐ ہیں
دیکھ کر غار حرا سوچتا ہوں
کتنی بھر پور تھی خلوت انؐ کی
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایا تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
قصر و ایواں سے گزر جاتا ہے چپ چاپ ندیمؔ
در محمدؐ کا جب آئے تو صدا دیتا ہے
تیراؐ کردار ہے احکام خدا کی تائید
چلتا پھرتا، نظر آتا ہوا، قرآں توؐ ہے
قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے
وہ مری عقل میں ہے وہ مرے وجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے، میرا عقبیٰ بھی وہی
قرآن پاک انؐ پہ اتارا گیا ندیمؔ
اور میں نے اپنے دل میں اتارا ہے انؐ کا نام
چونکہ دُنیا بھر میں نعت کے حوالے سے مسلم و غیر مسلم شعراء اکرام نے اپنی
عقیدت کا اظہار کیا ہے اور اردوپ زبان اِس وقت دنیا کے تقریباً ہر خطے میں
لکھہ پڑھی جاتی ہے۔یوں احمد ندیم قاسمیؒ کی نعتیہ شاعری میں جو عقیدت و
روحانیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعی آپ کی نعتیہ شاعری پڑھنے اور سُننے والوں
کے لیے ایک عظیم سعادت ہے۔ |