افغانستان میں دنیا کے سب سے بڑے بم سے حملہ

امریکہ نے گزشتہ ہفتے افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں ایٹم بم کے بعد دنیا کے سب سے بڑے بم ’’مدر آف آل بمز‘‘ (MOAB) گرایااور بتایا کہ یہ بم داعش کے ٹھکانوں پر مارا گیا ہے جس میں داعش کے 36جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس بم کا وزن 21ہزار پاؤنڈ بتایا جاتا ہے۔ حملے کے بعد سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سب سے زیادہ ردعمل کا اظہار کیا اور اسے افغانستان پر براہ راست حملہ قرار دیا تو موجودہ صدر اشرف غنی نے بوجوہ تعریف ہی کی۔ یہ بم جس علاقے میں گرایا گیا ،وہ پاکستانی سرحد کے قریب ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بم سے وسیع علاقہ برباد ہو جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی مخلوق کا زندہ بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ افغانستان سے کچھ لوگوں نے اطلاعات دیں کہ جس علاقے میں یہ بم گرایا گیا ،وہاں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر شہادتیں ہوئی ہیں لیکن علاقے میں میڈیا کے لوگوں اور عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں ۔ کچھ بھی ہو، امریکہ کی جانب سے اس واردات نے پھر ثابت کر دیا ہے کہ دنیا میں انسانیت کا سب سے بڑا قاتل و دشمن و دہشت گرد امریکہ ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جب افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی اس نے ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اور خطرناک بم ڈیزی کٹر بڑے پیمانے پر گرایا تھا، جس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا اتلاف ہوا تھا۔یہی دیکھ کر ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں نے پسپائی اختیار کر کے گوریلا جنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر امریکہ اپنے لاؤ لشکر لے کر زمین پر اترا اور ’’اعلان فتح‘‘ کیا تھا۔ امریکہ نے اس وقت اعلان فتح تو کر دیا تھا لیکن اسے وہ فتح اب تک مل نہیں سکی اور وہی امریکہ جس نے کہا تھا کہ اس نے افغانستان صرف دو فوجیوں کی ہلاکت کے نقصان کے ساتھ فتح کیا ہے، اب تک افغانستان سے ہزارہا لاشیں اور لاکھوں زخمی و مریض و لاچار واپس لے جا چکا ہے،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ کو جب افغانستان اور عراق کے دونوں محاذوں پر شکست کے ساتھ بڑے پیمانے پر لاشیں اور زخمی و مریض اٹھانے پڑے تو اس نے عالم اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کے جال بھی بننے شروع کئے۔ اس کی تازہ ترین سازشوں میں سے ایک ’’داعش‘‘ نامی تنظیم کا سامنے لانا اور پھر خلافت کے نام پر بھولے بھالے مسلمانوں کو دام میں پھنسا کر اکٹھا کر کے مارنا بھی شامل تھا۔ 2011ء میں شام میں وہاں کے ظالم و جابر صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو بظاہر امریکہ اس کا سب سے بڑا ہمنوا بن کر سامنے آیا لیکن جب بشارکی ساری فوج آزادی پسندوں کے ساتھ مل گئی اور بشارکا اقتدار آخری سانسوں پر پہنچا تو امریکہ نے نہ صرف اپنے حمایتیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچا بلکہ ان پر ہی گولہ باری شروع کر دی۔ اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ہفتے کا واقعہ ہے جس میں امریکہ نے خود تسلیم کیا کہ اس کے جنگی جہازوں نے غلطی سے طبقہ کے علاقے میں گولہ باری کر کے اپنے ہی حمایت یافتہ کم از کم20 جنگجو مار ڈالے ہیں۔ امریکہ اسے ’’فرینڈلی بمباری‘‘ کہتا ہے۔ امریکہ اور یورپی طاقتوں نے اگلی خطرناک گیم میں سادہ لوح مسلمانوں کو خلافت کے نام پر جال میں پھنسایا اور ’’دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کے نام سے تنظیم بنا کر خونریزی کا نیا سلسلہ شروع کرا دیا۔ اس تنظیم کے لوگوں باور کرایا گیا کہ انہوں نے چونکہ اب خلافت قائم کر لی ہے، لہٰذا اب جو مسلمان اس خلافت سے باہر ہے، انہیں اس کے قتل بلکہ بدترین قتل کا پورا حق ہے، یوں ان فتنہ پروروں کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتل ہوا۔ دنیا کے کئی خطوں کے مسلمان ’’خلافت‘‘ کے نام پر دھوکے میں آ گئے اور یہ فتنہ پھیل گیا۔ یوں اب امریکہ اور سارے مغرب نے اپنے اگلے اور اصل مشن پر ساتھ ہی کام شروع کیا کہ داعش کا نام لے کر دنیا میں جہاں اور جس وقت چاہو، مسلمانوں کا قتل کرتے جاؤ کیونکہ پوچھنے والا توپہلے ہی کوئی نہیں اور اب تو کوئی معمولی جنبش بھی نہیں دکھا سکے گا۔ سو ،اس وقت سے اب تک یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ننگرہار میں 20ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرانے کیلئے بھی یہی بہانہ استعمال ہوا۔ دنیا بھر کے ماہرین اس حوالے سے رائے دے رہے ہیں، کچھ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے بم کی فروخت کیلئے تجربہ کیا، کچھ کہہ رہے ہیں کہ افغان مجاہدین (سابق حکمرانوں) کو روس سے دور رکھنے کے لئے یہ حملہ کیا گیا، کچھ کہہ رہے ہیں ،پاکستانی سرحد کے پاس یہ بم گرا کر پاکستان کو سی پیک کے حوالے سے پیغام دیا گیا کہ امریکہ دنیا میں جب اور جس وقت جو چاہے کر سکتا ہے اور پاکستان سی پیک کے منصوبے کو امریکہ کی دستبرد سے محفوظ نہ سمجھے۔ وغیرہ وغیرہ۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو، امریکہ نے دنیا میں اپنے سب سے بڑے دہشت گرد ہونے کے معاملے پر ایک بار پھر مہرتصدیق ثبت کی ہے کہ اس نے اس طرح کے خطرناک ترین ہتھیار کا استعمال ایک مسلمان ملک میں کیا ہے اور اسے دنیا میں کسی ردعمل کا بھی سامنا نہیں ہوا حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس میں تو شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ امریکہ اور اس کے حواری داعش کو براہ راست کبھی نشانہ نہیں بنائیں گے۔ان کی اس حوالے سے اصلیت تو اس دن ہی سامنے آ گئی تھی جب امریکہ نے خود جون 2014ء میں داعش کے اچانک ظہور کے ساتھ اعلان کر دیا تھا کہ اس پر دو سا ل سے بھی زیادہ عرصہ تک قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ حالانکہ یہ وہی امریکہ ہے جس نے افغانستان و عراق میں لڑنے والے مجاہدین کے ہاتھوں میں جانے والے کسی بھی علاقے پر ان کا کنٹرول چند ہفتے بھی قائم نہیں رہنے دیا تھا اور وہ اس طرح کی کیفیت بنتے ہی اس علاقے میں بے پناہ گولہ باری کر کے سب کچھ تہس نہس کر کے اپنی فتح کا اعلان کر دیتا تھا جبکہ داعش پر ایسی فتنہ انگیز پالیسی اپنائی گئی ہے کہ بے شمار لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس موقع پر ہم سبھی مسلمانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اولاً تو داعش جیسے فتنے کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو مار آستین کی شکل میں گھسا دیا گیا ہے اور دوسرا امریکہ کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف بھی متحد ہو کر میدان میں آئیں ، جنہوں نے عالم اسلام کو عرصہ دراز سے لہولہان کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ سے کسی طرح کی امیدیں وابستہ ہی نہ رکھی جائیں کہ یہ تو مسلمانوں کو منظم و قانونی انداز میں مارنے کے لئے بنایا گیا ادارہ ہے۔ پاکستان کے مردان میں سینکڑوں طالب علموں کے ہاتھوں اپنے ہی ایک ساتھی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تو اقوام متحدہ میں جیسے زلزلہ آ گیا اور فوراً بیان داغے اور پاکستان پر مطالبات لاد دیئے گئے ،حالانکہ ابھی واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ وزیراعظم، سپریم کورٹ، صوبائی وزیراعلیٰ سمیت ہر حکومتی ادارہ تحقیق و کارروائی کیلئے متحرک ہے پھر بھی دشمنوں کو سکون نہیں۔ جس روز مردان کی یونیورسٹی میں یہ واقعہ پیش آیا، اس سے اگلے روز مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج نے مقامی ڈگری کالج پر حملہ کر کے طلبہ و طالبات کی بڑے پیمانے پر زبردست پٹائی کر رہی تھی، پیلٹ فائرنگ سے متعدد کی آنکھیں چھین لی گئیں، کئی ایک کے بازو اور ہڈیاں توڑ ڈالیں، طالبات لہولہان ہوئیں۔ بھارتی فوج نے اس سے ایک روز پہلے سرعام طلبہ پر گولیاں چلائیں، قتل عام کیا گیا، اس پر کسی کو کوئی جنبش تک نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ کو یمن کے جنگ زدہ بھوکے پیاسے تو نظر آتے ہیں (کیونکہ وہاں کا آزادی آپریشن مسلم عرب ممالک کر رہے ہیں) لیکن شام کا لٹا پٹا سارا ملک، کشمیریوں کے زخم، بھارتی مسلمانوں کا حال بلکہ یورپ و امریکہ میں مسلمانوں پر ہر روز کے حملے، مظالم، مساجد کا جلاؤ گھیراؤ اور توہین کبھی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ان سب نے طے کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کو کسی حال میں عزت سے نہیں رہنے دیں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی اس دہشت گردی کو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جانا چاہئے ،وگرنہ امریکہ کی یہ کھلی بدمعاشی اور دہشت گردی ہمیشہ کی طرح بڑھتی ہی رہے گی۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 121176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.