پاکستان تیزی سے تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ایک طرف اگر
یہ تبدیلی مثبت ہے تو دوسری طرف یہ تبدیلی منفی پہلو بھی ساتھ لیے ہوئے ہے
۔پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں ۔لسانیت
،فرقہ واریت ، صوبائیت جیسے زہرآلود نعروں سے نکلنے والی قوم کو مذہب سے
بیزار کرنے کی کامیاب کوششیں ہورہی ہیں ۔پچھلے دنوں 2واقعات کسی دینی درس
گاہ میں نہیں ہوئے بلکہ دنیاوی درس گاہوں میں ہوئے اوران واقعات نے مجھ پر
بہت کچھ عیاں کردیا ہے ۔مردان میں عبدالولی خان یونی ورسٹی میں ہوئے
اندوہناک واقعے میں جہاں توہین رسالت ﷺ کو استعمال کیا گیا وہیں یہ بات بھی
کھل کر سامنے آگئی کہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرکے ان سے غیر شرعی
کام کروانے پر ابھارا گیاتاکہ ملک میں انارکی پھیلے ۔مشال خان کے قتل کی
تحقیقات کے بعد جو کچھ سامنے آرہا ہے اس سے اندرون خانہ کچھ اور ہی نظر
آرہا ہے ،بہرحال اگر مشال خان توہین رسالت کا مرتکب ہوا بھی تھا تو قانون
کو ہاتھ میں لینے اجازت نہ تو اسلام دیتا ہے اور نہ ہی ملک پاکستان کا آئین،
اسلام تو لاش کا مثلہ کرنے سے منع کرتا ہے چہ جائیکہ زندہ انسان کی بے
حرمتی کی جائے اس کے کپڑے پھاڑ کر اسے ننگا کردیا جائے ۔دوسرا واقعہ لیاقت
میڈیکل یونی ورسٹی میں ایم بی بی ایس کی سال دوئم کی طالبہ نورین لغاری
کی10فروری کو پراسرارگمشدگی ہے ۔آئی ایس پی آر کی طرف سے دکھا ئی ویڈیو میں
نورین لغاری کا اعترافی بیان ہے جس میں اس نے کالعدم تنظیم سے تعلق ،لاہور
میں مسیحی برادری کے ایسٹر تہوار پر خودکش حملے کا اعتراف کیااور یہ بھی
بتایا کہ وہ اغوا نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنی مرضی سے لاہور آئی تھی ۔نورین کے
والد کیمسٹری کے سندھ یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیںیعنی نورین لغاری ہماری
طرح ایک عام سے مسلمان گھرانے سے ہے اس کا کسی مذہبی خاندان سے تعلق نہیں
ہے ۔دونوں واقعات میں باہمی کوئی ہم آہنگی نہیں لیکن صرف ایک بات مشترکہ ہے
کہ اس بار دنیاوی درس گاہوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں ۔اسلام کا شدت پسندی
سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اسلام اپنے ماننے والوں کو قانون اپنے ہاتھ میں
لینے اور گناہ گار کو خودکی عدالت میں سزا دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔گزشتہ
روز سوشل میڈیا پر ہورہی گستاخیوں سے پورا پاکستان غم وغصہ میں ڈوبا ہواتھا
لیکن دینی طبقہ نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے عدالتی راہ کو چنا
جوثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا دینی طبقہ قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے
اور اپنے مسائل کو حل کرنے کا متمنی ہے ۔
اسلام وپاکستان دشمن عناصر ایک نئے لبادے میں ہمارے سامنے براجمان ہوچکے
ہیں ۔طبل جنگ بج چکا ہے ، نقارے پر چوٹ پڑ چکی ہے اور دشمن نے جنگی جھنڈے
لہرا کر اپنی سب سے خطرناک جنگی چال چل دی ہے ۔اس وقت ہمارے نازک وحساس
ترین عقیدے پر دشمن وار کرچکا ہے ۔سوچی سمجھی سازش کے تحت ناموس رسالتﷺ پر
اختلافات کی آڑ میں شرم ناک گفتگو کی جارہی ہے۔مسلمانوں کے جذبات کو ابھار
کر پاکستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔مذہب پسندوں اور توہین
رسالتﷺ قانون کے خلاف قصداََواقعات وقوع پذیر کئے جارہے ہیں ۔ایاز نظامی
جیسے کرداروں کو قانون سے بچانے کے لیے ملک میں اس طرح کے واقعات کیے جارہے
ہیں ۔لکھ رکھیے کہ اس واقعہ کے بعد ایاز نظامی جیسے کرداروں پر قانون کی
گرفت کمزور کردی جائے گی ۔ذاتی دشمنی وعناد کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر
قانون کو ہاتھ میں لینے کا کام بخوبی سرانجام دیا جارہاہے ۔حکومت وعدے پر
وعدے کررہی ہے اورعوام الناس کو مایوسی میں دھکیلنے کے لئے مایوس کن خبروں
کو بریکنگ نیوز بنا کرچلایا جارہا ہے اورداعش جیسی تنظیمیں ملک میں پاؤں
جمانے میں مصروف عمل ہیں ۔ ملک بھر میں ردالفساد آپریشن ہورہا ہے لیکن کیا
دہشت گردی سے نمٹنا صرف سیکیورٹی اداروں کا کام ہے ؟۔احسان اللہ احسان جیسے
تکفیری سوچ کے حامل دہشت گرد اگرچہ اپنے آپ کو ریاست کے حوالے کرچکے لیکن
کیا ان کے ساتھ ان کے نظریات بھی دفن ہوجائیں گے ؟ پاک فوج اور سیکیورٹی
ادارے اپنا کام بخوبی کررہے ہیں لیکن سیاست دان اور دیگر ادارے ان کے
کییکرائے پر پانی پھیررہے ہیں، نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا کس کا کام ہے؟
ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ملک بھر میں دہشت گردوں کو ڈھونڈڈھونڈ کر
نکال رہے ہیں۔ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بجائے نظریہ پاکستان اور
آئین پاکستان کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں ۔کل بھوشن یادیو جیسے کئی روپ
ہمارے اردگرد موجود ہیں جو ملک کے امن وسکون کو تباہ وبرباد کرنے کی غرض سے
سیاسی، سماجی ،مذہبی واخلاقی قدروں کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔مذہب پسند
طبقہ ہنوز کوشش میں ہے کہ ملک پاکستان کا امن وسکون تباہ نہ ہو جس کے لئے
اپنی حدود میں رہتے ہوئے مختلف مسالک و مذہب کے لوگ باہمی تعاون کرتے نظر
آتے ہیں لیکن چند ایک ملحد ، لبرل اور سیکولر لوگ ملک میں جان بوجھ کر
انارکی پھیلا کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں ۔میں کئی ایک ایسے علماکرام
اور نوجوانوں سے واقف ہوں جو نبی مکرم ﷺکی شان میں گستاخوں کو سزا دینا
چاہتے ہیں لیکن اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے ،یہی وجہ ہے کہ وہ قانون کا
دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں ۔اگر قاتل کسی قانون کی آڑ میں کسی کو قتل کردے تو
کیا وہ قانون غلط ہوجا تا ہے ؟قانون توہین رسالت ﷺغلط نہیں بلکہ ہمارا
مروجہ نظام غلط ہے ۔کسی قانون کے غلط استعمال سے روکنے کی سزا بھی موجود ہے
۔ بس ہم عمل کرنے سے عاری قوم ہیں۔چند سکوں اور مفادات کی خاطراپنا ووٹ
علاقے کے نامی گرامی بدمعاش کو دے کر امید کرتے ہیں کہ ہمارے مسائل ہوجائیں
گے ۔ نورین لغاری ومشال خان جیسے واقعات ماضی میں بھیہوئے ہیں اور مستقبل
میں بھی ہوتے رہیں گے جس کی بنیادی وجہ حکومت کا اس معاملے میں سنجیدہ نہ
ہونا ہے ۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتاہے وفاقی و صوبائی حکومتیں
وادارے ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنا پلہ جاڑ لیتے ہیں۔ یونی ورسٹیوں سے
دہشت گرد انہ نظریات کے حامل افراد نکل رہے ہیں ،پڑھالکھا طبقہ دہشت گردی
کی جانب بڑھ رہا ہے ۔تعلیمی اداروں میں منشیات ، شراب ،افیون، چرس ،آئیس
]ایک نیا نشہ جسے 36نشوں کا ایک نشہ مانا جاتا ہے[،غنڈہ گردی ،ناجائز اسلحہ
اور دیگر لوازمات آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد عناصر
فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دنیاوی تعلیمی اداروں کے طلبا ء کی دینی تعلیم نہ ہونے
کی وجہ سے تکفیری سوچ کے حامل افراد کے ہاتھوں میں آسانی سے کھیل سکتے ہیں
جس کی مثال نورین لغاری ہے جو کہ ایم بی بی ایس کی طالبہ ہونے کے باوجود
داعش جیسی تنظیم سے متاثر ہوگئی ۔تعلیمی اداروں میں صوبائیت ، لسانیت اور
دیگر بنیادوں پر گروپ بندی بھی بہت سارے واقعات کی بنیاد بن سکتی ہے ۔کسی
بم دھماکے میں زخمی ہوکر کسی ہسپتال کے وارڈ میں زخموں سے کراہنے والے شخص
کے چہرے پر سنت رسولﷺکا ہونا میڈیا کے لئے اس کادہشت گرد ہونا کافی ہے جس
کے لیے لمحہ بھر کی تاخیر کو گناہ سمجھاجاتاہے اب جب نورین لغاری کا
اعترافی بیان اور مشال خان کو قتل کرنے والا واقعہ یونی ورسٹی میں ہوا ہے
تو کیا تعلیمی اداروں کے خلاف آپریشن کرنے اور ان میں دہشت گردوں کو
ڈھونڈنے کی بات پر ہمارا میڈیا زور دے گایا سارا نزلہ ماضی کی طرح دینی
مدارس اور علماکرام پر نکال کر کبوتر کی طرح آنکھیں بندکیے خطرے سے بے نیاز
ہوجائیگا ؟ |