بھارتی وزرائے اعظم کا اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرینڈر

یہ گفتگو بحث طلب ہے کہ بھارتی حکمران زیادہ نا اہل ہیں یا نالائق، تا ہم یہ بات درست ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس رہتے ہیں۔ اس کا کئی مواقع پر اعتراف بھی ہوتا رہا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہم قومی امور کا فیصلہ بھارتی پارلیمنٹ نہیں کرتی بلکہ کشمیر سمیت اہم امور اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ جہاں تک بھارت کی کشمیر پالیسی کا تعلق ہے۔ یہ طاقت ، دباؤ، تشدد اور توسیع پسندی پر مبنی ہے۔ بھارت نے کشمیر کی صورتحال سے نپٹنے کے لئے دھمکیوں، مزید فوج اور قوانین کا استعمال کیا۔ یہی اعتراف چدم برم نے کیا ہے۔ پی چدم برم بھارت کے کئی بار وزیرخزانہ اور وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ آج بھی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے سپریم کورٹ کے وکیل رہ چکے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر اور صف اول کے رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے۔ جو بات سابق وزیر خارجہ اور سینئر بی جے پی لیڈر یشونت سنہا گھما پھرا کر کہتے ہیں ، وہ بات چدم برم صاف طور پر برملا کر رہے ہیں۔ دونوں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

کیا حقیقتاً کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ درست ہے۔ چدم برم نے اب اعتراف کیا ہے کہ بھارت کشمیر کو کھو رہا ہے۔ بعض بھارتی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یہ سب زور زبردستی کا سودا ہے۔ چدم برم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں صاف لکھا ہے کہ و ہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ کشمیر پر بھارتی وزرائے اعظم کی رٹ نہیں چلتی۔ اگر بی جے پی کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے مسلے کے حل کے لئے کام کیا۔ اگر چہ ان کے مدنظر بھی بھارتی مفاد تھا۔ تا ہم انھوں نے انسانیت کی بات کی۔ مسلہ کشمیر کو انسانی مسلے کے طور پر دیکھنے کا واویلا کیا۔ تا ہم بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد 2001میں واجپائی نے آپریشن پاراکرم شروع کیا۔ جس کا مقصد پاکستان پر سرجیکل سٹرائکس کرنا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج نے سرحدوں پر پیش قدمی شروع کر دی۔ اس فوج ہزاروں باردوی سرنگیں نصب کیں۔ جن کے پھٹنے سے آج بھی بھارتی کسان اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس آپریشن کو بھارت کی تباہ کن حماقت سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ یہاں تک بھارتی دفاعی ماہرین اور سابق فوجی جرنیل بھی اسے سنگین غلطی قرار دیتے ہیں۔ چدم برم بھی واجپائی کے اس آپریشن کو غلطی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کابینہ یا پارلیمنٹ کی منظور ی سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر فوج سرحدوں پر جمع کی گئی۔ مبصرین کا خیال ہے یہ فوجی جماؤ امریکہ میں نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضے سے شے پا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پارلیمنٹ پر حملہ کا ڈرامہ کیا جس کا مقصد پاکستان کے خلاف افغانستان طرز کی کارروائی تھا۔ اس کے بعد کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی نئے خٰیالات جیسے کہ گو ل میز کانفرنسز، کالے قوانین میں ترامیم، کشمیر پر مذاکراتکاروں کی تقرری وغیرہ اقدامات کئے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ چدم برم نے اپنے کالم ’’Kashmir is sliding into disaster‘‘(کشمیر تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے)میں اعتراف کیا کہ سب باتوں کے باوجود ان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے آخر کار اسٹیبلشمنٹ کے نظریہ کے سامنے سرینڈر کر لیا۔ اس کے بعد نریندر مودی آئے ۔ انھوں نے نواز شریف کو اپنی حکومت کی حلف برداری میں بلایا اور بعد ازاں لاہور میں نواز شریف کے گھر پہنچ کر سب کو حیران کر دیا۔ مگر انھوں نے فوراً اسٹیبلشمنٹ کے نظریئے کو گلے لگا لیا۔ بھارتی حکومت کی پالیسیوں نے اس دلیل کو درست ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کشمیر کو کھو رہا ہے۔

وہ اب پانچ نکاتی فارمولہ پیش کرتے ہیں۔ اول، کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کی برطرفی اور گورنر ران کا نفاذ ، دوم، آزادی پسندوں، سول سوسائٹی، طلباء سمیتتمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات، سوم، مذاکراتکاروں کی تعیناتی، چہارم، فوج اور نیم فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے اور کشمیر میں امن و قانون کے ذمہ داری کشمیر پولیس کو سونپ دی جائے، اور پنچم، پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد پر سخت حفاظتی اقدامات، وادی جنگجو مخالف آپریشنز روکے جا ئیں۔ چدم برم کو خدشہ ہے کہ اس فارمولے کے بعد انہیں ملک دشمن قرار دیا جائے گا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ بھارت کی کشمیر پالیسی ایسی ہے کہ ہم کشمیر کو کھونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ بھارت طاقت کے استعمال ، وزیروں کے سخت بیانات، فوج کی دھمکیوں، مزید فوج کی تعیناتی، کشمیری مظاہرین کی ہلاکت اور تشدد کی پالیسی ا پنا کر صورتحال پر قابو نہیں پا سکتا۔ کشمیر میں موجودہ دور اب تک کا بد ترین دور نظر آ رہا ہے۔ کشمیر میں پی ڈی پی کو ایک دھوکے باز اور بی جے پی کو غاصب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دیوار پر لکھا ہو اواضح ہے۔ کشمیریوں کی بیگانگی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ ۔ چدم برم کا سوال اہم ہے کہ اگر سخت بات اور سخت کارروائی کی موجودہ دوا نے کشمیر میں کام نہیں کیا ہے تو پھر متبادل علاج کی کوشش کیوں نہ کی جائے؟کیا بھارت ان تجاویز پر غور کرے گا، اگر اسٹیبلشمنٹ کا کاروبار ہی سخت پالیسی ہے۔ ان کی دکان اسی سے چمکتی ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اسی میں فائدہ ہے۔ بھارت کشمیر کو کھو رہا ہے ، اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کشمیر کو آزاد ہونا ہے۔ بھارت اسی لئے خون خرابے اور تشدد کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مسلہ بات چیت کے بجائے جنگ اور ریاستی دہشتگردی سے حل کرنا چاہتی ہے۔ اسے بھارت پارلیمنٹ اور عوام کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اس لئے یشونت سنہا تا پی چدم برم سب کی جانب سے حالات کی درست عکاسی بے سود نظر آرہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا چدم برم کے موقف پر کیا ردعمل سامنے آئے گا۔ یہ بھی کہکب تک بھارتی وزرائے اعظم کا اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرینڈر کرنے کا تسلسل جاری رہے گا۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484897 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More