اب آئے دن مودی سرکارکے ڈرامے فلاپ ہوتے جارہے ہیں اور
ماسوائے شرمندگی اورمنہ پرمزیدکالک ملنے کے اورکوئی راستہ بھی تونہیں بچا۔
خودساختہ اوڑی کیمپ حملے نے جس قدر دھول اڑائی تھی اب مودی کے سرکی طرف لوٹ
رہی ہے۔ پچھلے دنوں مودی کی روسیاہی کے باب میں ایک اوراضافہ ہواجب
دوپاکستانی کمسن بچے جوغلطی سے سرحدعبورکر گئے تھے اوربھارتی سیکورٹی فورسز
نے انہیں اوڑی کیمپ پرحملے کی پاداش میں گرفتارکرلیا،بالآخر کئی ماہ کی سخت
تفتیش اورتحقیق کے بعدانہیں بے گناہ قراردیکررہاکرنا پڑا۔یوں اوڑی ڈرامہ
کاآخری سین بری طرح فلاپ اور وقت کے سب سے بڑے دہشتگرد کے چہرے سے ایک
اورنقاب الٹانے کا موجب بن گیا ۔نریندر مودی کی انتہاء پسندی اورکالے کرتوت
اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکے ہیں۔خودبھارت کے معقول ومعتدل دانشوروں کے
نزدیک اکیسویں صدی میں بھارت کی قیادت کرنے والے مودی ہمیشہ ہی سے ایک
ناموزوں انتخاب تھے۔ان کے ابتدائی ایاّم میں ان سے مل کرممتازسماجی
ماہرنفسیات اشیش نندی نے مودی کومحدودجذباتی زندگی کا حامل سخت
گیرمذہبی،تشددکے خواب دیکھنے والا آمرشخص بتاتے ہوئے کلینیکل کیس
قراردیاتھا۔گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتل عام کے بعد سسکتے لاکھوں
مسلمانوں کے کیمپوں کو بچے پیدا کرنے کے مراکزکوئی ایساہی شخص قراردے سکتا
تھا ۔مسلمان اورپاکستانی اس ذات خبیث کی ملامت ودہشت کاخصوصی ہدف چلے آرہے
ہیں۔
گجرات کے قتل عام میں ملوث ہونے کے متعلق جب ایک انٹرویوکے دوران ان سے
باربارسوالات کئے گئے توان کاکہنا تھا:میری غلطی صرف یہ ہے کہ میں نے
میڈیاسے بنا کر نہیں رکھی۔ایک دہائی سے زائدعرصے تک جب ان سے اس غیرمعمولی
بے حسی کے بارے میں سولات کئے گئے توبالآخرانہوں نے یہ کہا: مجھے ان اموات
پراتناہی افسوس ہے جتنا کسی کتے کے گاڑی تلے آجانے پرہوتا ہے۔بدترین دہشت
کی علامت نریندرمودی اپنے آپ کوخصوصی حلقے میں ایمانداراورپاکبازثابت کرنے
میں اس بناء پرکامیاب رہاکہ بھارت کے اکثرتاجر، سیاستدان اورمیڈیاسب
بدعنوانی کے سکینڈلز میں ملوث ہونے کی بناء پران کے کرتوتوں پرسے پردہ نہیں
اٹھاتے تھے بلکہ پردہ پڑارہنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے اس اعلیٰ ترین عہدے
کیلئے مودی کے ابتدائی حمائتی بھارت کے امیرترین مگرمتعصب ہندوتھے ۔ان
لوگوں کاتذکرہ آگے بڑھانے سے قبل کچھ ذکرپردہ اٹھانے یانہ اٹھانے کااپنے
قارئین تک پہنچاناضروری معلوم ہوتاہے۔
ان سطورکے اختتامیہ میں دوکمسن طلباء کی رہائی کااشارةًذکرکیاگیاہے۔ مودی
سرکارکے نابیناقسم کے اہلکاروں نے فیصل اعوان اوراحسن خورشیدنامی دو بے
گناہ طلباکو سرحدی علاقے سے گرفتارکرکے بھارتی جیل میں بندکردیاتھا۔ان
پراوڑی حملے میں ملوث ہونے کابے سروپاالزام عائدکیاگیاتھاتاہم خود بھارتی
تحقیقاتی ایجنسی ہی نے مسلسل پانچ ماہ تک بلاجوازبھارتی عقوبت خانوں میں
مقیدرکرکے سخت ترین تفتیش کے بعدبالآخر انہیں بے گناہ قرار دیکر چھوڑدیا
لیکن اس کے باوجودجب ان بے گناہ لڑکوں کوپاکستانی سرحدپران کے اعزہ و
اقرباء کے حوالے کیاگیاتوان کوبھارتی عقوبت خانوں سے آنکھوں پر پٹی باندھ
کرلایاگیا۔حوالے کرنے والے مودی سرکارکے اہلکاروں کی آنکھیں کھلی تھیں
مگرسچ یہ ہے کہ اصلاًپٹی ان کی اوران کے باوا نریندرمودی کی آنکھوں ،ذہنوں
اوردلوں پربندھی ہوئی ہے۔
مودی کواقتدارمیں لانے والے دراصل وہ امیر ترین لوگ تھے جنہیں سستی زمین
اورٹیکس کالالچ تھا۔اسٹیل اورکار بنانے کے شعبوں میں مانے ہوئے رتن ٹاٹاوہ
پہلے صنعت کارتھے جنہوں نے مسلمانوں کے منظم قتل عام کے دوران مودی کوگلے
لگایا۔گجرات میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے موقع پر مودی کی آنکھوں
پرظاہری کوئی پٹی نہیں بندھی ہوئی تھی اور وہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ
رہاتھا،جھگیوں کے شہرممبئی میں کئی منزلہ گھرکے مالک معروف تاجر مکیش
امبالی نے مودی کی اعلیٰ بصیرت کی ستائش کی تھی اوران کے بھائی نے مودی
کوبادشاہوں کابادشاہ قراردیاتھا۔بڑے صنعت کاروں، تاجروںاورملک کے بڑے
تجارتی گروپس کے مالکان کی مودی کے بارے میں دیوانگی (یانابینائی) کو رپورٹ
کرتے ہوئے اکانومسٹ بھی اس نمائش خوشامد کے جھانسے میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔
ایساہونانہیں چاہئے تھامگرمودی کے بھارت میں امبانی خاندان برلسکونی کی
طرزپرخبروں اورتفریح کے میڈیاپرچھاتارہا ہے۔میڈیامینجمنٹ ،مودی کیلئے کوئی
مسئلہ نہیں رہی ہے کیونکہ ٹی وی چینلزاوراخبارات ان کے وفادارحمایتیوں کی
ملکیت ہیں جوانہیں مسلسل بھارت کانجات دہندہ قراردیتے رہے ہیں۔مودی نے بھی
ان دانشوروں،لکھاریوںاور صحافیوں کو اپنی طرف متوجہ کیاجوسابقہ دورمیں
نظراندازکئے گئے تھے۔یہ سب غصے میں بھرے وہ لوگ تھے جوآزادخیال تحریکوں کی
مخالفت سمت میں خاموشی سے رواں رہتے تھے اورموقع کی تلاش میں رہتے تھے۔نطشے
کے الفاظ میں مواقع سےمحروم یہ لوگ دوسروں کوالزام دیتے ہوئے انتقام کی آگ
سینوں میں سلگائے ہوئے تھے اورمودی کے آتے ہی اداروں کے سربراہ بن کر
فضاکواپنے انتہاء پسندانہ اعمال وافکارسے آلودہ کررہے تھے۔ سماجی
میڈیاپرکھلے بندوں مودی کے پٹھوکہلانے والوں نے خوب کل پرزے نکالے،چھوٹے
قصبوں میں رہ کرمسلمان اورہندومیں محبت کی مخالفت کرنے والوں سے لیکر خود
کو انگریز کی محبت میں مبتلابتانے والے تنگ نظرسواپن داس گپتا تک ہرکوئی اس
میں شامل تھامگریہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ عالمی سطح پرنامورگروہ بھی مودی
کیلئے سرگرم رہے۔ وسطی ایشیائی آمروں اوران کے کارندوں کیلئے عوامی روابط
بنانے والے اے پی سی اورکمپنی سے لیکر کرائے کے ان سپاہیوں تک سب سرگرم رہے
جوسماجی میڈیاپرشورمچاتے ہیں یا آن لائن مضامین کے نیچے تبصرے کرتے
ہیں۔ٹونی بلیئر کے سابق مشیر نے انگریزی بولنے والوں کیلئے عقیدت میں ڈوبی
سوانح لکھی۔لیبرپارٹی کے رہنماء میگھندرڈیسائی نے پھرتی اور تیز رفتارترقی
کی دیو مالائی کہانیاں بنتے ہوئے بڑی کمپنیوں کوسہولتیں دینے کامودی کاتشخص
خوب اجاگرکیا۔
نوبل انعام یافتہ اینکسڈیٹن کے غربت کی نفی کے تصورکاپرچارکرنے والے ماہرین
معاشیات جگدیش بھاگوتی اوراروندپانا گریانے اکنامسٹ کولکھے گئے ایک خط میں
کہاکہ گجرات میں مسلمانوں کامنظم قتل عام دراصل فسادات تھے۔ جب مودی کے
وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوئے توامریکی تھنک ٹینکس میں بیٹھ
کربڑہانکنے والے دانشوروں نے اخباروں میں مودی کوایک ایسارہنماء
قراردیناشروع کیاجوجدیدبھارت کوآگے لیجاتے ہوئے امریکااور اسرائیل کے حق
میں خارجہ پالیسی کومستحکم کرے گا۔اس مصنوعی اتفاق ِ رائے کاحصہ بنتے ہوئے
بہت سے اخباری نمائندے اوران کے بھارتی پشت پناہ ہوش وخردسے بیگانے ہوچکے
تھے۔پس مودی بغیرکسی رکاوٹ کے ذلت سے عزت کی منزل تک پہنچ گئے۔۔۔۔ جاری ہے |