زمین تخلیقِ کائنات کاعظیم شاہکار
(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)
ہمارے پاؤں تلے ایک فرش جسے زمین اور ہمارے
سرپرایک چھت جسے آسمان کہتے ہیں ۔جس زمین پر ہمارامسکن ہے ۔جہاں ہم رہتے
ہیں اور زندگی بسرکرتے ہیں ۔آپ نے کبھی اس کی تخلیق پر غورکیا؟نہیں ؟
تو پھر اس پر آج غور کرلیتے ہیں۔غوروفکر کرنے پرایسے ایسے راز افشاں ہوں گے
کہ عقل بھی حیران رہ جائے گی ۔میں بھی اﷲ عزوجل کی بنائی ہوئی ۔اس زمین پر
چلتاہوں۔ اس کی وسعتوں کو ملاحظہ کرتاہوں۔ تو سوچنے پر مجبور ہوجاتاہوں کہ
تخلیق ِ کائنات کے اس شاہکار میں نہ جانے کتنے راز پوشیدہ ہیں ۔آئیے زمین
کے متعلق دلچسپ اور مفید جانتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ:’’وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰہَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ(پ۲۷،
سورۃالذٰریٰت، آیت:۴۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور زمین کو ہم نے فرش کیا تو ہم کیا ہی اچھے بچھانے والے۔
سبحان اﷲ !!اﷲ عزوجل نے زمین کو ہمارے لیے بستر بنادیا۔ایسا بستر کے جس پر
ہم آرام کرتے ہیں اس بستر کے بغیر ہمارے لیے رہنا دشوارتھا کہ پھر ہمارے
لیے زندگی کی تمام ضروریات کھانے پینے کے سامان کے لیے زمین کو خزانہ بنایا
ہماری ضرورت کی تمام چیزیں زمین سے حاصل ہوتی ہیں ۔سردی اور گرمی سے حفاظت
بھی زمین پر رہ کر کرسکتے ہیں اور بدبودار چیزیں اورمردار جن کے تعفن کی
وجہ سے ہمیں سخت تکلیف ہوتی ہے ۔ایسی چیزوں کو زمین میں دفن کرکے ہم ان کی
خراب ہوا کے اثر سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
یعنی اس تعفن اور بو کو ختم کرنے کے لیے بھی زمین نے اپنا سینہ کشادہ کردیا
اور ہم اس کا سینہ مردوں کو دفناتے ہیں تعفن زدہ چیزوں کو بھی اسی کے سینے
میں دفن کردیتے ہیں ۔قرآن مجید فرقانِ حمید میں اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد
فرمایا:
’’اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَآء ً وَّ اَمْوٰتًا(پ۲۵، سورۃ
المرسلٰت، آیت:۲۵،۲۶)
ترجمہ کنزالایمان:(کیا ہم نے زمین کو جمع کرنے والی نہ کیا تمہارے زندوں
اور مُردوں کی۔
یہی زمین ہے کہ جس پر اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے راستے ہموار فرمائے
تاکہ ہم چل سکیں ،دوڑ سکیں،سفر طے کرتے ہوئے اپنی منزل کو پہنچ سکیں رسل و
رسائل کے معاملات بھی باآسانی ہوسکیں۔اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی اس تخلیق کی
وسعتوں کا اندازہ کریں کہ ہمارے جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ بھی زمین ہی سے
حاصل ہوتا ہے۔ ہماری کھیتی باڑی بھی زمین پر ہوتی ہے ان تمام چیزوں میں ہم
زمین کے محتاج ہیں۔اس بات کو اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے قرآن مجید میں بھی بیان
فرمایا:اﷲ تعالیٰ نے ہمیں متنبہ فرمایاہے۔
اَخْرَجَ مِنْہَا مَآء َہَا وَ مَرْعٰیہَا()وَ الْجِبَالَ
اَرْسٰیہَا()مَتٰعًا لَّکُمْ وَ لِاَنْعٰمِکُمْ (پ۳۰، سورۃ النٰزعٰت،
آیت:۳۱،۳۲،۳۳)
ترجمہ کنزالایمان:اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالااور پہاڑوں کو جمایا۔
تمہارے اور تمہارے چوپاؤں کے فائدہ کو ۔
زمین کو نرم اور ہماری ضرورتوں کے مناسب پیدا فرما کر اس نے ہم کو اختیار
دیا کہ ہم زمین کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کریں ۔اس پر بیٹھیں آرام
کریں سوئیں اپنے کام کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کریں۔ یہ سب آسانیاں
اس لیے حاصل ہیں کہ زمین کو ہمارے حسبِ حال بنایا، کیونکہ اگر یہ زیادہ نرم
اور متحرک ہوتی تو ہم اس پر نہ مکانات بنواسکتے نہ کھیتی باڑی کرسکتے نہ اس
پر ٹھہر سکتے نہ آرام کرسکتے تھے جیسے کہ زلزلوں کے جھٹکوں سے ہم ڈر جاتے
ہیں اور اس سے ڈر کر ہم اپنا کوئی کام بھی نہیں کرپاتے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی
سنت ہے کہ وہ اپنے نافرمان بندوں کی تنبیہ کے لیے اور ان کو راہ راست پر
لانے کے لیے کبھی کبھی اپنی قدرت اس طرح سے ظاہر فرماتا ہے یہ بھی خدا کی
بڑی حکمت ہے۔
جس طرح اﷲ عزوجل نے زمین کو مناسب نرم بنایا ہے۔ اسی طرح اس نے مناسب خشک
اور سرد بنایا ہے اور اگر زیادہ خشک پتھر جیسی سخت بنادیتا تو ہم مکانات کے
لیے اس کو کیونکر استعمال کرسکتے۔ اس لیے اس نے کمالِ حکمت سے اس کو مناسب
نرم اور خشک سرد بنایا کہ زمین پر رہنے والوں کو زمین کے استعمال کرنے میں
سہولت ہو پھر اس نے اپنی حکمت سے شمالی حصہ کو جنوبی حصہ سے قدرے بلند
بنادیا کہ پانی ایک طرف سے بہہ کر دوسر ی طرف جاسکے اور اس طرح سے حیوانات
کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے اور آخر میں وہ پانی سمندر میں جا کر گر
جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا یعنی زمین ایک طرف سے ذرا بلند اور دوسری طرف سے
ذرا نشیب میں نہ ہوتی تو پانی سطح زمین پر رک کر اس کو سمندر بنادیتا اور
آمدورفت بند ہوجاتی لوگوں کے کاموں میں بڑا حرج واقع ہوتا جیسا کہ ہم سیلاب
کے زمانے میں پریشانیوں اور تکلیفوں کو محسوس کرتے ہیں۔
اب زمین کے اندر کی طرف ذرا غور کرو خدا نے اس کے اندر کیسے کیسے خزانے
پوشیدہ رکھے ہیں کہیں جواہرات کی کانیں ہیں تو کہیں سونے چاندی کے خزانے
کہیں یاقوت و زمرد کے ذخیرے کہیں لوہے، تانبے، سیسے ،گندھک، سنگ مرمر،
چونا، سیمنٹ، ٹرولی، وغیرہ کے بڑے بڑے خزانے اگر تفصیل سے ان کو لکھا جائے
تواس کے لیے کافی وقت اور صفحا ت کی ضرورت ہوگی ان تمام ذخیروں اور خزانوں
کو ہم اپنے ضرورتوں میں استعمال کرتے ہیں اور کس کس طرح سے یہ چیزیں ہمارے
کام میں آتی ہیں۔اگر زمین پہاڑ کی طرح بلند اور سخت ہوتی تو ہم اس سے خاطر
خواہ نفع حاصل نہ کرسکتے تھے۔ خدا نے اپنی حکمت سے ہموار حسب ضرورت نرم و
سرد اور خشک بنایا کہ ہم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ زمین کے پہاڑ کی
طرح بلند و سخت ہونے میں ہم کاشت کے لیے اسے کیونکر استعما ل کرسکتے
تھے۔کیونکہ کاشت اسی زمین پر ہوسکتی ہے کہ زمین نرم ہو اور ہموار بھی ہوتا
کہ ضرورت پر پانی کو پی سکے اورنرم و نازک پودے جب تناور درخت ہو کر زمین
پر قائم ہوں۔ تو درختو ں کی جڑیں اور نرم و نازک ان کی رگیں زمین کی گہرائی
میں چاروں طرف پھیل کر قائم رکھنے میں مدد گار ہوں اور اس کو سرسبز وشاداب
کرنے میں زمین سے اپنی خوراک حاصل کر کے درخت کو سیراب کرسکیں اور اس کو
قائم رکھ سکیں۔
آپ اور میں اگر غور کریں توزمین کے نرم ہونے میں جہاں اور بہت سی مصلحتیں
اور حکمتیں ہیں ۔ایک یہ بھی ہے کہ اس میں آسانی سے جہاں ہم چاہتے ہیں کنویں
کھودلیتے ہیں۔ اگر زمین پہاڑ کی طرح سخت ہوتی تو کنویں کھودنے میں بڑی
دشواری ہوتی۔ اس طرح سے ہمارے سفر کرنے میں بھی بڑی دشواری ہوتی۔ کیونکہ
پتھروں میں راستوں کا بنانا بڑا سخت کام ہے اور راستوں کے موجود نہ ہونے سے
اور ان کے متعین نہ ہونے سے ہمارے لیے سفر کرنا ناممکن ہوجاتا۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا
فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا(پ۲۹، سورۃ الملک، آیت:۱۵)
ترجمہ کنزالایمان:وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین رام کردی تو اس کے رستوں
میں چلو۔
وَّ جَعَلَ لَکُمْ فِیْہَا سُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ(پ۲۵، سورۃ
الزخرف، آیت:۱۰)
ترجمہ کنزالایمان: اورتمہارے لئے اس میں راستے کئے کہ تم راہ پاؤ
اور اس نے تمہارے لیے اس میں راستے بنائے کہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو۔
ہم اپنے مکانات کے بنانے میں اس کی مٹی کو باآسانی استعمال کرسکتے ہیں
اینٹیں بناتے ہیں گارے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں اور برتن وغیرہ دوسری
بہت سی ضروری چیزیں تیار کرتے ہیں۔
جن مقامات پر زمین سے نمک، پھٹکری ، ابرق اور گندھک وغیرہ نکلتی ہے ۔وہاں
کی مٹی زیادہ نرم ہوتی ہے اور نرم زمین میں طرح طرح کی نباتات پیدا ہوسکتی
ہے۔ سخت اور پہاڑی زمین میں یہ نہیں ہوسکتی اور زمین کے نرم ہونے سے بہت سے
جانور اپنے رہنے کے ٹھکانے بناتے ہیں حشرات الارض کے رہنے کے لیے سوراخ اور
بل زمین ہی میں ہوتی ہیں اور یہ سب آسانی زمین کے نرم ہونے کی وجہ سے ہے
۔کانوں کا زمین کے اندر پیدا فرمانا ۔خدا کی بڑی حکمتوں میں سے ہے جس کا
ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندے حضرت سلیمان علیہ السَّلام پر بطور احسان
فرمایا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَ اَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ(پ۲۲،سورۃسبا،آیت:۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا ۔
یعنی ہم نے حضرت سلیمان علیہ السَّلامکو تانبے سے تمتع حاصل کرنے کے لیے
طریقوں کو آسان کردیا اور اس کی کان ( خزانہ) پر مطلع کیا اور اسی طرح سے
اپنے بندوں پر امتناناً ایک جگہ ارشاد فرمایا۔
وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنٰفِعُ لِلنَّاسِ
(پ۲۷، سورۃ حدید،آیت:۲۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے لوہا اتارا اس میں سخت آنچ اور لوگوں کے فائدے
اس مقام پر نزول کا مفہوم خلق ہے یعنی پیدا کرنا جس طرح کہ دوسری جگہ لفظ
انزل سے خلق کے معنی کو مراد لیا گیا جیسے ایک جگہ فرمایا۔اَنْزَلَ لَکُمْ
مِّنَ الْاَنْعٰمِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوٰج ٍ (پ۲۳،سورۃ الزمر،آیت:۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور تمہارے لئے چوپایوں سے آٹھ جوڑے اتارے۔
حضرت سلیمان علیہ السَّلام کے حق میں جس آیت میں اَنْزَلْنَاارشاد فرمایا
ہے ۔اس کے معنی اس طرح ہیں کہ ہم نے پیدا فرمایا اور ان پوشیدہ خزانوں سے
سونا وغیرہ معدنیات کو نکال کر اپنے کاموں میں لانے کے طریقوں کی تعلیم دی
کہ ان معدنیات کو کس کس کام میں کیونکر لایاجاسکتا ہے۔ شیشہ سے نفیس برتن
تیار کیے جاسکتے ہیں ۔جن میں اپنی ضروری چیزوں کو طویل مدت تک کے لیے محفوظ
رکھا جاسکتا ہے۔زمین سے سرمہ ، مومیا ، سلاجیت وغیر مفید چیزو ں کو حاصل
کیاجاسکتا ہے جو ہمارے بہت سے کام آتی ہیں۔
اس کی بڑی حکمت یہ ہے کہ اس نے زمین پر پہاڑوں کو قائم فرما کر زمین کو
مستحکم کردیا ۔ان پہاڑوں کی بدولت زمین میں استحکام ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ
ہے ۔وَ الْجِبَالَ اَرْسٰیہَا ۔ترجمہ کنزالایمان:اور پہاڑوں کو جمایا۔
پھر اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
حیوانات کے لیے آسمان سے پانی بھی برسایااور برساتاہے ۔جیسا کہ لاریب کتاب
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔’’وَ اَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوٰسِیَ
اَنْ تَمِیْدَ بِکُم‘‘ (پ۴۱،سورۃ النحل، آیت:۱۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ
کانپے۔
اﷲ عَزَّوَجَل ّکا نظام دیکھیں کہ اس نے زمین کو پیدافرمایا تو اس پر موجود
پھل سبزیوں ،نباتات و
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی
الْاَرْضِ ْ(پ۱۸،سورۃ المؤمنون، آیت:۱۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ایک اندازہ پر پھر اسے
زمین میں ٹھہرایا۔
میرے خالق و مالک میرے رازق ،میرے فضل و کرم فرمانے والے ربّ عزوجل نے زمین
پر پہاڑوں کو بنایا جن کے تمام فائدوں اور مصلحتوں کو اﷲ کے سوابھلاکون جان
سکتاہے۔ اﷲ عَزَّوَجَلَّ!آسمان سے پانی برساتا ہے جو حیوانات و نباتات کی
زندگی و تازگی کا سبب ہے۔ اگر زمین پر پہاڑ نہ ہوتے تو ہوا اور سورج کی
گرمی پانی کو خشک کردیتی اور اس صورت میں زمین کو کھود کر مشقت کے بعد پنی
حاصل ہوسکتا تھا ۔اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے بڑی حکمت سے پہاڑو ں کو زمین پر پیدا
کیا ۔جن کے اندر پانی کے بڑے بڑے ذخیرہ جمع ہو کر تھوڑا تھوڑا کرکے چشموں
اور نہروں اور دریاؤں کی شکل میں پانی بہتا ہے اور اس طرح زمین کے دور دراز
کے مقامات تک کو سیراب کرتا ہے اور یہ پانی گرم موسم میں اور بھی قابلِ قدر
ہوتا ہے اور اس زمانے تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ بارش کا زمانہ شروع
ہوا اور جن پہاڑوں میں پانی کے جمع کرنے کے لیے اندروں میں گنجائش نہیں
ہوتی ان پہاڑوں میں برف کی شکل میں پانی کے خزانے کو محفوظ کردیا جو سورج
کی گرمی سے تھوڑا تھوڑا حسبِ ضرورت پگھل کر ندیوں نالوں اور نہروں میں جا
کر زمین اور اہل زمین کو سیراب کرتا ہے۔ پہاڑوں پر کہیں کہیں بڑے بڑے حوض
بھی ہوتے ہیں، جہاں پانی جمع رہتا ہے اورضرورت پر اس سے فائدہ حاصل
کیاجاتاہے جس طرح کہ غلہ کے بڑے بڑے ذخیروں اورگوداموں سے ضرورت کے وقت غلہ
حاصل کیاجاتا ہے۔
علاوہ اس کے پہاڑوں پربعض خاص قسم کے درخت اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں
اور کہیں دستیاب نہیں ہوتیں پہاڑوں پر نہایت بلند درخت پائے جاتے ہیں۔ جن
کی لکڑی عمارتوں اور کشتیوں کے بنانے میں خاص کام میں استعمال کی جاتی ہے
یہ لکڑی دوسرے درختوں سے حاصل نہیں ہوسکتی پہاڑوں پر ایسے پر فضااور شاداب
مقامات ہیں کہ وہاں جا کر لوگ اپنے فرصت کے ایام گزارتے ہیں اور صرف
انسانوں کے لیے نہیں بلکہ چوپاؤں اوردوسرے جانوروں کے لیے بھی وہاں سامان
خوردو نوش اور آرام کرنے کے پرفضا مقامات بنے ہوئے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کے
لیے خاص کروہ جگہ مخصوص ہے ۔جہاں وہ اپنے گھر بناتے ہیں اور انسان بھی گرمی
کے موسم میں تفریح کے لیے جاتے ہیں اوراپنے مردوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے
کے لیے وہاں دفن کرتے ہیں۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(پ۱۴،سورۃ
الحجر،آیت:۸۲)
ترجمہ ٔکنزالایمان:اور وہ پہاڑوں میں گھر تراشتے تھے بے خوف۔
فوائد یہ بھی ہیں کہ پہاڑوں پر راستوں کی شناخت کے لیے بڑے بڑے نشانات نصب
کرتے ہیں۔ مسافروں کو اثنائے سفر میں ان نشانات سے بڑی مدد ملتی ہے۔ایک یہ
بھی بڑا فائدہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے لشکر اورجماعتی جو اپنے مقابل نہیں لڑ
سکتے وہ پہاڑوں پر پناہ لیتے ہیں اورپہاڑوں کو قلعہ کی جگہ استعمال کرکے
اپنے کو دشمن سے محفوظ سمجھتے ہیں۔
خدا کی حکمت کو دیکھو کہ اس نے کس حکمت سے زمین میں سونے چاندی کے خزانوں
کو محفوظ کیا ہے اور پھر خاص انداز سے اس کو پیدا فرمایا ہے اور پانی کی
طرح سونے چاندی کووافر نہیں پیدا کیا۔ اگرچہ اس کی قدرت میں یہ بھی تھاکہ
پانی کی طرح ان چیزوں کو بھی اتنا ہی کثیرمقدار میں پیدافرمادیتایہ بھی اس
کی بڑی حکمتِ اور مصلحت ہے اور مخلوق کی فلاح و بہبوداس
انداز پر موقوف ہے جس کا علم اس کے سوا کسی کو ۔اس کی اس کائنات میں
کیاکیاقدرت کے راز پوشیدہ ہیں کہ انسان تحقیق کرنا شروع کرے توزندگیاں ختم
ہوجائیں لیکن رازوں کی دنیاکشادہ سے کشادہ ہوتی چلی جائے ۔
یہ سب اﷲ عزوجل کی تخلیق کا شاہکار ہے ۔یہ سب کچھ اﷲ عزوجل ہی کا ہے اور
وہی اپنے تخلیق کے مخفی رازوں ،وسعتوں کو بہتر جانتاہے ۔قرآن مجید فرقانِ
حمید میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
وَ اِنْ مِّنْ شَیْء ٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہ وَ مَا نُنَزِّلُہٓ
اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (پ۱۴،سورۃ الحجر،آیت:۲۱)
ترجمۂ کنزالایمان:اور کوئی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم
اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے ۔
یہ تھی زمین کے متعلق دلچسپ اور مفید معلومات ۔امید ہے کہ معلومات کے حصول
پر اﷲ عزوجل کی بنائی ہوئی اس نعمت پر سبحان اﷲ کہہ اُٹھیں گے ۔تو کہئے
سبحان اﷲ !! |
|