شرک کی حقیقت

اللہ تعالٰی کی ذات ایک ہے اس کو موجود ہونا اور ایک ہونا ایسا ہے کہ جاہلیت زدہ لوگوں کو اس کی تفصیل کی ضرورت ہو تو ہو ورنہ اس دور میں سلیم الفطرت انسان کیلئے اس طرف توجہ دلانا کی کافی ہے۔ عربی کا مشہور قولہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ مثلاً راحت کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو کبھی پریشان نہ ہوا ہو۔ جس نے کبھی رنج و غم نہ پایا ہو وہ راحت کی لذت سے آشنا نہیں ہو سکتا۔ دِن کا اندازہ رات کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ اسی طرح ظلمت کے بغیر نور کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ بطال کا تصور اگر کسی کے سامنے نہ ہو تو وہ حق کی لذتوں سے آشنا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو یہ نہ سمجھے کہ شرک کسے کہتے ہیں وہ کبھی توحید کو نہیں جان سکتا۔ جس طرح حق کی پہچان باطل کے تصور سے ہوتی ہے اسی طرح یقیناً توحید کا صحیح ادراک تب ہی ہوگا جب ہم سمجھیں کہ شرک کسے کہتے ہیں۔ اللہ نے توحید اور شرک کے مفہوم کو واضح طور پر بیان کیا اور لادینی کے تمام تصورات کو مٹا دیا لیکن تعجب ہے کہ قرآن کریم کے تمام تصریحات کے باوجود بھی مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ لیکن یہ چیز ان ہی لوگوں کیلئے الجھی ہوئی ہے جن کے ذہن الجھے ہوئے ہیں۔

توحید کا معنی ہے اللہ کی ذاتِ پاک کو اس کی ذات اور صفات میں شریک سے پاک ماننا، یعنی جیسا اللہ ہے ویسا ہم کسی کو اللہ نہ مانیں اگر کوئی اللہ ہے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو اللہ تصور کرتا ہے تو وہ ذات میں شرک کرتا ہے۔ علم، سمع، بصر وغیرہ اللہ تعالٰی کی صفات ہیں اگر ان صفات میں ہم کسی کو شریک ٹھہرائیں گے تو ہم مشرک ہوں گے۔

ہمیں توحید کا معنی معلوم ہو گیا کہ اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ‘علم‘ اللہ کی صفت ہے۔ اگر ہم کسی دوسرے کیلئے علم ثابت کر دیں تو کیا یہ شرک ہوگا؟ سمع و بصر اللہ کی صفات ہیں اگر ہم کسی دوسرے کیلئے سننے اور دیکھنے کی صفات ثابت کر دیں تو کیا یہ بھی شرک ہوگا؟ اسی طرح اللہ کی ذات کیلئے صفتِ حیات ثابت ہے اگر ہم کسی دوسرے کو حیات کا صفت کا حامل کہیں تو یہ بھی شرک ہوگا؟

اللہ تعالٰی کی حیات پر تو سب کا ایمان ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے صفتِ حیات دی ہے وہ سب اس صفت کے حامل ہیں۔ پس ہم نے اپنے لئے بھی حیات کی صفت کو مانا اور اللہ کیلئے بھی حیات کی صفت کو مانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حیات ہم اللہ کیلئے مانتے ہیں وہ حیات نہ ہم اپنے لئے مانتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کیلئے کیونکہ اللہ ہمیں زندگی دینے والا ہے۔ اللہ کو کوئی حیات دینے والا نہیں۔ ہماری حیات عارضی ہے اس کی دی ہوئی ہے، محدود اور فانی ہے۔ اللہ کی حیات عارضی، محدود اور فانی نہیں۔ پس جب معلوم ہوا کہ اللہ کی حیات باقی ہے اور ہماری فانی تو شرک ختم ہو گیا۔ یہی تصورات تمام مسائل میں پیش کرتے جائیں تو بات واضح ہوتی جائے گی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ نے انسان کے اندر کوئی قوت پیدا نہیں کی؟ اگر نہیں تو انسان اور پتھر میں کیا فرق ہوگا؟ اللہ تعالٰی قادر و مختار ہے اور انسان کی قدرت و اختیار جو اللہ نے ہر شخص کے اندر پیدا کی، اس کی وجہ سے انسان بھی مختار ہوا کہ نہیں؟ تو پھر اللہ بھی مختار اور بندہ بھی مختار، یہ کیا ہوا؟ اللہ تعالٰی مختار ہونے میں کسی کا محتاج نہیں۔ اللہ تعالٰی کو اختیار کسی سے عطا نہیں ہوا بلکہ ذاتی ہے اور انسان مختار ہونے میں محتاج ہے۔

علم انسانیت کا زیور ہے لیکن علم تو خدا کی صفت ہے تو کیا یہ شرک ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو علم اللہ کا ہے وہ بندے کا نہیں۔ اللہ کا علم اس کا اپنا ہے اور بندے کا علم اس کا عطا کیا ہوا ہے۔

اسی طرح اللہ سمیع بصیر ہے اور فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو سمیع و بصیر یعنی دیکھنے اور سننے والا بنایا ہے۔ تو اللہ کی یہ تمام صفات بے نیاز و غنی ہو کر ہیں اور بندوں کی یہ صفات حاجت مند اور نیاز مند ہو کر ہیں۔ کیونکہ اس کی یہ صفات رب نے دیں اور وہ خود اور اس کی صفات رب کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ الوہیت اور عبدیت کے درمیان یہی فرق ہے۔

اب شرک کا مطلب واضح ہو گیا کہ جو صفات اللہ کی اپنی ہیں یعنی کسی کی عطا کردہ نہیں وہی کسی اور کیلئے ثابت کرنا شرک ہے اور ان صفات سے شرک لازم نہیں آیا جو اللہ تعالٰی نے کسی کو بخشی ہیں۔ اگر انسانوں کو اللہ نے صفات بخشی نہ ہوں تو کوئی سننے والا نہ ہو، کوئی دیکھنے والا نہ ہو، کوئی علم والا نہ ہو۔ پس ہم یہی کہیں گے جو صفات اللہ کی ہیں وہ بندے کی نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی صفات ازلی و ابدی ہیں۔ بندے کی عارضی ہیں۔ اللہ کے کمالات بغیر کسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور انسان کے کمالات اللہ کے بخشے ہوئے ہیں۔

لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہو گیا آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیز کا تصور آ گیا تو شرک ختم ہو گیا حالانکہ یہ بات نہیں کیونکہ مشرکین بتوں کی پوجا کرتے تھے ان سو پوچھو کہ تم جو بتوں کی پوجا کرتے ہو تو ان کو کس نے پیدا کیا؟ تو اللہ تعالی فرماتا ہے “وہ کہیں کے اللہ نے پیدا کیا“۔

معلوم ہوا کہ صرف اللہ کے پیدا کرنے کے تصور کو مان لینے سے مقصد پورا نہ ہوا اور محض مخلوق کا تصور کرنا شرک سے بچنے کیلئے کافی نہیں۔ تو سنیے یہ درست ہے کہ مشرکوں نے اپنے باطل معبودوں کو مخلوق مانا لیکن جب مان لیا تو ان کو تسلیم کر لینا چاہئے تھا کہ مخلوق خالق کی محتاج ہے اور خالق کے وجود کے بغیر مخلوق کا وجود نہیں ہو سکتا اور مخلوق جس طرح پیدا ہونے میں خالق کی محتاج ہے اسی طرح موت کیلئے بھی خالق کی محتاج ہے۔ یہ اعتقاد ضروری تھا لیکن ان مشرکین نے کہا! یہ ٹھیک ہے کہ ان کو اللہ نے پیدا کیا لیکن پیدا کرنے کے بعد ان کو الوہیت دے دی۔ لہٰذا اب اللہ کوئی کام نہ کرے اور یہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں کیونکہ اللہ نے اب ان کو اپنے حکم میں نہیں رکھا اور استقلال کی صفت ان کو دے دی ہے کہ میرا حکم نہ بھی ہو تم یہ کام کر سکتے ہو۔ یہ تھا ان جاہلوں کا اعتقاد۔ حالانکہ ان کو سمجھنا چاہیے تھا کہ جو چیز مخلوق ہو وہ مستقل نہیں ہو سکتی۔

اللہ تعالٰی سب کچھ دے سکتا ہے مگر الوہیت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ الوہیت مستقل ہے اور عطائی چیز مستقل نہیں ہو سکتی۔ لیکن مشرکین کا تصور یہ تھا کہ لات منات وغیرہ ایسے عابد و زاہد لوگ ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ان کو خدائی دے دی ہے۔ جس شخص کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالٰی نے کسی کو وصف الوہیت عطا فرما دیا ہے وہ مشرک اور ملحد ہے۔ مشرکین اور مومنین کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ وہ غیر اللہ کیلئے عطائے الوہیت کے قائل تھے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب بندے حتیٰ کے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی الوہیت کے قائل نہیں۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ (کون ہے جو شفاعت کرے بغیر اذن خداوندی کے)

پتہ چلا کہ بغیر اذن کے شفاعت کا اعتقاد شرک ہے اور اذن کے ساتھ عین توحید ہے۔ پس جب یہ عقیدہ آیا کہ فلاں شخص اللہ کے اذن کے بغیر کوئی حاجت پوری کر سکتا ہے تو شرک ہے اور جب اذن الٰہی کا عقیدہ آیا تو شرک ختم۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے جب قوم کے سامنے تعلیم رسالت پیش کی تو ان سے کہا:
وابریئ الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ (اور اچھا کرتا ہوں اندھے اور کوڑی کو اور مردے کو زندہ کرتا ہوں اللہ کے حکم سے)

ان دیکھئے شفا دینا اور مردے کو زندہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے کاموں کا دعویٰ کیا لیکن آگے آپ فرماتے ہیں “باذن اللہ“ یعنی میں جو کچھ کرتا ہوں اللہ کے اذن سے کرتا ہوں۔ پس جہاں اذن الٰہی آجائے تو شرک ختم ہو جاتا ہے۔ یہی اذن الٰہی ہونا اور نہ ہونا شرک اور توحید کا بنیادی نکتہ ہے۔

بخاری و مسلم میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا: “خدا کی قسم! مجھے تم پر میرے بعد مشرک ہونے ہو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے خزانوں میں ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔“ فرمایا دنیا آ جائے گی، توحید کا عقیدہ نہیں جائے گا، شرک کبھی نہیں ہوگا توحید کا عقیدہ موجود رہے گا۔ ہاں، حملہ آور ہو گی تو دنیا ہوگی۔ حملہ آور ہوگی تو ریا کاری ہوگی، اور جہاں تک عقیدہ توحید کا تعلق ہے اللہ میری امت کو عقیدہ توحید کا امین بنائے رکھے گا۔

کچھ لوگ اس حدیث کا غلط مطلب لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شرک نہ ہونے کی خوشخبری دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو دی تھی کہ تم میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ باقی امت کیلئے قیامت تک کیلئے کوئی گارنٹی نہیں۔ اب سنیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتیں کہیں ایک کہا شرک نہیں ہوگا اور دوسرا دنیا کی فتنہ پروری اور قتل و غارت۔ ایک چیز کی نفی کی اور ایک بات کا اثبات کیا۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر تم عدمِ شرک کی خوشخبری کو صرف صحابہ تک محدود کرو گے تو اس سے بڑا ظلم نہ ہو گا۔ پھر شرک کا خاتمہ تو ان تک محدود ہو گیا پھر دنیا پرستی، فتنہ اور قتل و غارت کا الزام بھی صحابہ پر آئے گا، اگر شرک کا نہ ہونا صرف صحابہ تک محدود ہوتا تو پھر سارے صحابہ (معاذ اللہ) دنیا پرست ہو گئے۔ اب اگر کوئی کہے کہ صحابہ دنیا پرست نہ تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پرست ہم بنے تو مطلب واضح ہو گیا کہ عدمِ شرک کی خوشخبری ہمارے لئے بھی تھی کہ اب قیامت تک میری امت میں شرک پلٹ کر نہیں آئے گا۔

آج کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن کا سارا دھندہ شرک پر چلتا ہے کہ دیکھو شرک آ گیا ہے لہٰذا ہماری ضرورت ہے، شرک آ گیا ہے لہٰذا حکومت ہمیں دے دو۔ لہٰذا ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس امت کیلئے اللہ عزوجل کی طرف سے جو فضیلتیں ہیں ان میں سے سب سے بڑی اور اہم فضیلت یہ ہے کہ یہ امت، امتِ توحید ہے۔ اس کی دلیل۔۔۔ان کے پاس قرآن ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہے؛ اگر شرک جیسے پہلے امتوں میں آتا رہا اس امت میں بھی آنا ہوتا تو پھر کبھی بھی نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا۔ بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ جس امت نے رسول اللہ کی اس دنیا میں جلوہ گری کے بعد کسی نبی (جھوٹے نبی) کی نبوت چلنے نہیں دی۔ جس امت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر جھوٹے نبی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، جو امت سرکار کے بعد شرک فی النبوہ برداشت نہیں کر سکتی وہ شرک فی الوہیت کیسے برادشت کر سکتی ہے؟ یہ ختم نبوت کا جھنڈا جو ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امت شرک سے محفوظ ہے۔ اگر تھوک کے حساب سے شرک اس امت میں آنا ہوتا تو پھر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا۔ پھر مزید نبی بھیج کر شرک کے دروازے بند کیے جاتے۔ لہٰذا رب ذوالجلال نے محبوب علیہ السلام کو خاتم النبیین بنا کر یہ اعلان کر دیا کہ امت خاتم الامم آ گئی ہے جو الوہیت بھی جانتی ہے؛ رسالت بھی جانتی ہے۔ آج جو یہ کہے کہ اس امت کے بلادِ اسلامیہ شرک سے بھر گئے ہیں وہ اس امت کی شان پر اعتراض کر رہا ہے؛ وہ نبی علیہ السلام کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کر رہا۔ نبی علیہ السلام کا خاتم النبیین ہونا؛ اس امت کا خاتم الامم ہونا اور پھر قرآن کا آج تک اپنی اصلی حالت میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ خالق کائنات نے اس امت کو باقی امتوں کے مقابلے میں توحید کا علمبردار بنایا ہے۔ شرک اس امت میں اس طرح نہیں ہو سکتا کہ پورے کے پورے ملک ہی مشرک ہو جائیں؛ شہروں کے شہر مشرک ہو جائیں۔

بعض لوگوں کی یہ عادت ہے کہ جو آیاتِ قرآنی بتوں کے حق میں آئی ہیں ان کو مومنوں پر چسپاں کرتے ہیں اس طرح بھولے بھالے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خارجی گروہ کو ساری مخلوق سے برا جانتے تھے کہ ان لوگوں نے اپنا یہ طریقہ بنا لیا ہے کہ جو آیات کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئیں ان کو مومنوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں سے امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں عقیدہ توحید پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔۔ بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

اس تحریر میں کچھ مواد علما اہلسنت کی تقاریر سے لیا گیا ہے۔
Hafiz Jamil
About the Author: Hafiz Jamil Read More Articles by Hafiz Jamil: 12 Articles with 54532 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.