ملک میں بہتیرےایسے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں جن پر حکومت
کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں سردست مہنگائی پر کنٹرول سب سے زیادہ
ترجیحی عمل ہے لیکن موجودہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں ان مسائل کو مستقل
چھیڑرہی ہیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں او ر نہ ہی دستور و قوانین اس کی
اجازت دیتے ہیں ۔جہاں تک یکساں سول کوڈ کا معاملہ ہے جس کا بہت دنوں سے کچھ
لوگ مطالبہ کررہے ہیں اور فی الوقت اس میں بڑی شدت پیدا ہوگئی ہے ۔یہ
مطالبا ت نئے نہیں ، پورے ملک میں یکساں سول کوڈ بنانے کاذہن کافی پہلے سے
چلا آرہا ہے ۔اس خیال کا اظہار سب سے پہلے ۱۹۲۸ءمیں نہرو رپورٹ کی صورت
میں کیا گیا تھا ، نہرو رپورٹ اصلا ً آزاد ہندوستان کے دستور کا ایک پیشگی
ڈرافٹ تھا جس کو مشہور ماہر قانون موتی لعل نہرو نے تیا رکیا تھا اس مسودہ
میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ آزا د ہندوستان میں شادی بیاہ کے معاملات
کو یکساں ملکی قانون کے تحت لایا جائے گا اس وقت علماء نے اس کی شدید
محالفت کی تھی یہاں تک کہ برٹش حکومت نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کردیا
۔بعد کے ایام میں اس تجویز پر غورکرنے کیلئے ۱۹۳۹ءمیں کانگریس کا ایک اجلاس
لاہور میں بلایا گیا جہاں کافی غوروخوض کے بعد اسے یکسر رد کردیا گیا اور
رفتہ رفتہ اس تعلق سے پوری طرح خاموشی اختیار کرلی گئی ،لیکن ۱۹۸۵میں یہ
مسئلہ پھراٹھا اور اس بار اس کا آغاز سپریم کورٹ کی جانب سے کیا گیا ، تب
سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق چیف جسٹس مسٹر وائی چندرا چوڑنے محمد احمد ۔شاہ
بانو کیس میں اپنا فیصلہ سنایا اور اصل زیر بحث معاملہ سے تجاوز کرتے ہوئے
انہوں نے یہ کہنے کی بھی ضرورت محسوس کی کہ دستور کی دفعہ ۴۴کے تحت قانون
بنایا جانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ کامن سول کوڈ سے قومی اتحاد
اور یکجہتی کی فضا پیدا کرنا بہت آسان ہوگا ۔اس وقت اسی کیس پر اظہار خیال
کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک او ر جج چن نپا ریڈی نے کہا تھا کہ یہ کیس ایک
مثال ہے جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈ ہماری فوری اور ناگزیر
ضرورت بن چکا ہے ۔پھر ۱۹۸۵میں ہی سپریم کورٹ کی دو رکنی ڈویژن بنچ نے جس کے
ممبران جسٹس کلدیپ سنگھ اور جسٹس آر ایم سہائے تھے ، ایک فیصلے کے دوران
یہ بات کہی تھی کہ دستور کی دفعہ ۴۴ کے مطابق یونیفارم پرسنل لاکو نافذ
کرنا قومی استحکام کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ
کسی بھی وجہ سے ملک میں یونیفارم پرسنل لاکے نفاذ میں تاخیر کی جائے ۔
یہ ساری باتیں دستورکی دفعہ ۴۴ کے حوالے سے کہی گئی ہیں ۔یہ دفعہ دستور ہند
کے چوتھے حصے میں ہے یہ حصہ اسٹیٹ پالیسی کے رہنما اصولوں کی حیثیت سے
دستور میں شامل کیا گیا ہے ، اس کی صراحت وہیں دفعہ ۳۷میں کردی گئی ہے جس
میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ اس سیکشن میں جو دفعات درج کی گئی ہیں ان کا
نفاذ ملک کی کسی عدالت کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے باوجود مختلف وقتوں
میں ججوں نے اس ناممکن العمل دفعات کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں کئی
حلقوں کی جانب سے اس کے نفاذ کے مطالبات کئے جانے لگے اور اب موجودہ بی جے
پی سرکاروں کے دور میںیہ مطالبات ایسی شدت اختیار کرچکے ہیں کہ پورے ملک
میں ایک زبردست طوفان برپا ہو گیا ہے ۔یہ ملک ہمیشہ سے مختلف المذاہب
انسانوں کا گہوارہ رہا ہے جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر الگ الگ رسوم و رواج
موجود ہیں اور سبھی اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں اپنے اپنے مذہب اور
طورطریقوں پر چلنے کی آزادی حاصل ہے ۔ ایسے میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ کس
طرح قابل عمل ہوسکتا ہے ۔دستور کی یہ دفعہ اتنی غیر دستوری ہے جتنی کہ یہ
بات کہ ملک یہ احکام جاری کرے کہ آج سے اس ملک کے تمام لوگ ایک ہی قسم کا
کھانا کھائیں اور ایک ہی قسم کا کپڑاپہنیں ۔جس طرح یہ بات ناقابل عمل ہے ،
اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ اس وسیع و عریض ملک میں سبھی لوگ ایک ہی طریقے
سے شادی بیاہ کی رسومات ادا کریں ۔ یہ اس قدر مشکل اور ناقابل عمل ہے کہ
اگر حکومت اس تعلق سے قانون بھی بنادے تب بھی لو گ اس طرح کی یکسانیت اور
یک رنگی کو رد کردیں گے اور کبھی اس پر عمل کیلئے تیار نہیں ہوں گے ۔
دستور کا اصل کام یہ ہے کہ وہ قومی پالیسی کے ان تمام بنیادی اصولوں کو
متعین کرے جس سے ملک کی اقتصادی اور معاشی جڑیں مضبوط ہوں اور ان جرائم کی
بیخ کنی کی جاسکے جس کے وجود سے ملک طرح طرح کی بدامنی اور انتشار کا شکار
ہوتا ہے ، نہ کہ لوگوں کے نجی معاملات اور مذاہب میں مداخلت کرکے ان کے
انفرادی ذوق اور رسوم و رواج کو مٹاکر غیر ضروری طور پر ان کے اندر وہ
یکسانیت لانے کی کوشش کرنا جو انہیں کسی بھی طرح منظور نہیں ۔اس تعلق سے
ماہر قانون رام جیٹھ ملانی اور مسٹر نانی پالکھی والا کے یہ ریمارکس کس قدر
مناسب اور قابل عمل نظر آتے ہیں کہ ’’ اس ملک کو یکساں سول کوڈ کی نہیں
یکساں انصاف کی ضرورت ہے ۔
جو لوگ دستور کی دفعہ ۴۴ کا حوالہ دے کر یونیفارم سول کوڈ کا مطالبہ کرتے
ہیں وہ اسی دستور کی دفعہ ۲۵پر غور کیوں نہیں کررہے ہیں جس میں بڑی وضاحت
کے ساتھ اس کی تردید موجود ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ہندوستا ن کے ہر شہری
کو ضمیر اور مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ کی مکمل آزادی ہے اور ملک کے تمام
افراد مساوی طور پر نہ صرف آزادی ٔ ضمیر کا حق رکھتے ہیں بلکہ انہیں یہ
بھی حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر مذہب کا اقرار کریں ، اس پر عمل
کریںاور کھلے عام اس کی تبلیغ بھی کریں ۔فطرت کے برخلاف حکومت کا کوئی بھی
عمل طوفان میں چراغ جلانے کے مترادف ہی ہوگا اور موجود حکومت مسلسل وہی بے
فائدہ کام کئے جارہی ہے ، جس کے نتائج کبھی بارآور نہیں ہوسکتے بلکہ ملک
خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہےجس کے سارے آثارنظر آنے لگے ہیں ۔ |