اﷲ رب العزت نے امام الانبیاء آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ
کو جو مقام و مرتبہ عطاء کیا اس سے ہر صاحب ایمان بلکہ یوں کہوں تو غلط
نہیں ہوگا کہ ہر فردِ بشر بخوبی واقف ہے۔اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے نبی پاک
ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ترجمہ :ائے میرے محبوب ہم نے آپ کے ذکر
کو بلند کیا ۔ اس پوری کائنات میں اﷲ رب العزت کے بعدمخلوق خدا میں جس کا
سب سے زیادہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو وہ عظیم ہستی صرف حضرت محمد ﷺ
کی ذات اقدس ہے۔دنیا میں موجود ہر صاحب ایمان کے کلمہ شہادت میں آپ ﷺ کا
نام، اذان واقامت میں آپ ﷺکا نام، نمازی کے تشہد و درود میں آپ کاﷺ نام،
علماء کی وعظ میں آپ ﷺ کا تبصرہ ، جنازے میں جب تک آپ ﷺ پر دورود پاک نہ
پڑھا جائے تو جنازہ بھی قبول نہیں ۔اﷲ رب العزت نے اس روئے زمین پر کسی بھی
فرد بشر کو آپ ﷺ سے زیادہ عزت و عظمت والا نہیں بنایا۔ امام تبری نے اپنی
ایک کتاب میں حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے
ہیں ’’اﷲ تبارک وتعالی نے کسی بھی شخص کو نبی کریم ﷺ سے زیادہ عزت والا
نہیں پیدا فرمایا‘‘۔
دشمنانِ دین اسلام و محمد عربیﷺ لاکھ کوشش کرتے رہ گئے مگر وہ آپ ﷺکے نام
مبارک کو مٹا نہ سکیں، بلکہ وہ خود ہی مٹ گئے اور اپنے ناپاک عزائم میں
بوری طرح ناکام و نامراد ٹہرے۔جبکہ ان کے وجود کا ذکر تو دورکی بات ان کا
نام تک باقی نہ رہا۔اﷲ رب العزت نے آپ ﷺکو ایسی رفعت و بلند شان سے نوازا
تھا کہ جس کے آگے کسی مخالف کی مخالفت چلنے نہ پائی۔بلکہ عناد و مخالفت کے
تمام تر بادل چھٹ کر کافور ہوگئے، اور محمد ﷺ کا ذکر خیر ہے کہ دن بدن
بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور آپ ﷺ کی مبارک نام و اعمال مسلمانوں کے سینوں
میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔
اس وقت پورا عالم کفر اور خصوصاً یہود ونصاریٰ اور مشرکین دن بدن اسلام
اورمحبین راہ اسلام کے وسیع ہوتے دائرے کو دیکھ کر ہمہ وقت شش و پنج میں
دیکھائی دیرہے ہیں اور ان کا یہ اضطراب اور غم و غصہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ
ابتداء اسلام ہی سے اسلام اور حضرت محمد ﷺ کے دشمن ازلی بنے چلے آرہے
ہیں۔یہ لوگ ہمہ وقت اس تگ ودوں میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح رسالت مابﷺ کے
دامانِ مبارک پر چھینٹے اڑاکر اس کو داغدار کریں، تاکہ کسی بھی طرح اسلام
کے بڑھتی ہوئی تعداد کو روک سکے اوراس وجہ سے وقت بوقت ایسے مکروہ واقعات
اورمنظم و طے شدہ دل سوز حادثات سامنے آتے رہتے ہیں، جس میں یہ بدبخت حضرت
محمد ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کرکے اپنی روسیاہی کا سامان
کرتے رہتے ہیں، خصوصاً یوروپ و امریکہ میں ایسے واقعات زیادہ پیش آتے رہے
ہیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ہمارے وطن
عزیز پاکستان میں بھی بہت سے بد باطن، حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس گستاخی کو
اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کو حق خودارایت کا درجہ دیتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہے
جو قابلیت و اہلیت سے بالکل ہی عاری ہے اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح عوام کی
توجہ کا مرکز بن جائیں اورلوگ انہیں فلسفی اور دانشور کہیں، وہ ایسی ناپاک
حرکتوں کے مرتکب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں اس
مسئلہ پر کئی قلم کے فنکاروں نے لکھا ہے ، میں نے بھی ایک اد مضمون لکھا
تھا آج پر خیال کیوں آیا اس کی وجہ مردان یونیورسٹی ہے ،گر اس پر بھی میں
نے ایک مضمون لکھا ہے مگر وہ خالص اس واقعہ پر ہے ،لیکن اس مضمون کو ایک
خاص مقصد سے تحریر کرہا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حق خودارایت یعنی ہر
بات کی آزادی کے نام پر صرف اسلام کی اورمسلمانوں عظیم ہستیوں کی توہین کی
جارہی ہے ۔ لیکن جب کہی سے اس کا ردعمل آتا ہے تو اس کو دہشتگردی اور
انتہاپسندی کا لقب سے نوازدیا جاتا ہے ۔ یہ بات برحق ہے کے کسی عام انسان
کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ شان رسالت ﷺ میں توہین کرنے والے کو قتل کریں ،لیکن
جب حکومت وقت ایسے گستاخوں کا سدباب نہیں کرتی تو پر کسی نہ کسی کو تو غازی
علم دین بنا پڑتا ہے ۔ اس وقت قانون توہین رسالت ﷺ 295,c میں ترمیم کی
باتیں گردش کر رہی ہے وجوہات یہ بیان کئے جارہے ہیں کہ اس غلط استعمال
ہورہا ہے ۔ مگر جہاں تک میری معلومات ہے آج تک اس ملک میں کسی ایک بھی
انسان کو اس قانون کے تحت تختہ دار نہیں کیا گیا ، ایک آسیہ بی بی کو صرف
سزا سونائی گئی ہے لیکن عمل درآمد آج بھی ممکن نظر نہیں آتا ۔ جب کہ نام
نہاد روشن خیال صرف 295c کے غلط استعمال سے ڈرتے ہے ،مگر دیگر قانونی اکٹ
جس میں 302،307اور 13,dشامل ہے اس قانون سے آج تک کتنے بیگناؤں کو سزا ہوئی
ہے اس پریہ کیوں بات نہیں کرتے ، اصل میں ان کو عداوت صرف رسول خدا ﷺ سے ہے
ان کو تکلیف 295cسے ہے، ان کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح اس قانون کو ختم کرکے
کھلی انداز میں رسالت مآبﷺ کی شان میں گستاخیاں کریں ، اس وقت پاکستان میں
اگر کوئی کسی سیاسی لیڈر کی توہین کرتا ہے یا پاک فوج کے خلاف بکواس کرتا
ہے تو اسکے خلاف قانون کے رکھوالے فوری ایکشن میں نظر آتے ہیں ، پاکستان کے
پرچم کی توہین پر غداری کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے ، نہیں عمل ہوتا توصرف
295cکے قانون پر عمل نہیں ہوتا جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا
ہے ۔کچھ عر صہ قبل کچھ گستاخ بلاگرز کو لاپتہ کیا گیا تھا یہ کس نے کیا تھا
کیوں کیا تا آج تک معلوم نہ ہوسکا ،جب کہ کچھ نہ سمجھ لوگوں نے روڈں پر آکر
ان کے حق میں احتجاج بھی کیا جس میں سیاسی اور کچھ ایران نواز مذہبی
پارٹیوں نے حصہ لیا اوران گستاخ بلاگرز کو باہر جانے کا راستہ دیا ان کو
بیگنااو ر معصوم بھی قرادیا تھا لیکن جیسے ہی یہ نمک حرام پاکستان سے باہر
گئے تو اپنی اوقات میں آگئے اور اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرلیا اور
پاکستان سے زندہ سلامت فرار ہونے کو اپنی کامیابی قرادی ، اگر ان گستاخ
بلاگرز کو قانون کے مطابق سزا ہوتی تو کبھی بھی کوئی پاکستانی مسلمان قانون
کو اپنے ہاتھ میں نہ لے تھا ۔ آج ملک سے فرار یہ گستاخ بلاگرز رسالت مآب ﷺ
کی شان میں گستاخی کرکے نہ صرف ہمارے وطن عزیز پاکستان میں بسنے والے
مسلمان بلکہ پوری دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور ان کے
سینوں کو چھلنی کرنے کا کام کررہے ہیں۔ اگرہمارے حکمرانوں کو چاہیئے اس ملک
میں امن اور بھائی چارگی تو ان کو ہر اس عمل کو روکھنا ہوگا جس سے توہین
اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو ، اس مضمون کا اختیام قائد اعظم ؒ
کے اس قول پر کرتا ہو ں -
آپ ؒ نے اپنے ایک خطاب میں فرما: پاکستان میں اقلیت کے ساتھ حسن سلوک رکھا
جائے ، مگر ا س بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ کہی اکثریت اقلیت میں تبدیل
نہ ہوجائے ،
اﷲ سمجھنے کی توفیق عطا کریں (آمین) |