مشال خان ایک متجدد نوجوان تھا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی
اس بھرمار میں آج ہر پڑھا لکھا بچہ حقائق کی تلاش میں ہے، کمنٹس کرتے ہوئے
عمل کے بجائے ردّعمل کا عنصر زیادہ غالب رہتاہے،جس میں غلطی کا اندیشہ ہر
وقت رہتاہے، غصے میں آکر الفاظ پر گرفت باقی نہیں رہتی،ایسے میں احتیاط کی
ضرورت ہوتی ہے، وہاٹس اپ میں ایک دوست اس تازہ سانحہ کے حوالے سے بہت لمبی
تحقیق بھیجی ،راقم اُسےضروری اصلاح،اختصار اور ترمیم کے بعد نذر قارئین
کررہاہے:
صوابی ،خیبر پختونخواہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا مشال" خان26 مارچ
1992ء میں ایک پشتون مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا۔آئ سی ایم ایس ایجوکیشن
سسٹم پشاور سے 2012ء میں میٹرک پاس کیا۔بعد ازاں آئ سی ایم ایس کالج سسٹم
پشاور سے ایف ایس سی پری انجینئرنگ کا امتحان پاس کر کے 2013ء میں سکالر شپ
پر پہلے تاشقند،پھر سینٹ پیٹرز برگ چلا گیا۔بعد میں بلغراد سٹیٹ یونیورسٹی
۔۔The National Research University "Belgorod State University" (BelSU)
۔۔۔میں 2013ء میں سول انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔درمیان میں برلن،بیلاروس اور
پولینڈ میں بھی کچھ عرصہ مقیم رہا۔2014ء میں وہ واپس پاکستان آگیا جہاں اس
نے اگست 2014ء میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم اور ماس
کمیونیکیشن کے شعبے میں داخلہ لیا۔اس کا یہ کورس 10 اگست 2018ء میں مکمل
ہونا تھا لیکن موصوف 13 اپریل 2017 بروز جمعرات بوقت چار بجے شام اپنی
یونیورسٹی کے طلباء اور کچھ ہم جماعت ساتھیوں کے ہاتھوں گستاخی رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی وجہ سےمارے گئے۔تب سے سیکولر اور دیندار دونوں حلقوں کے
درمیان ایک تصادم کی فضا قائم ہے۔مختلف لوگ مختلف رائے قائم کر رہے
ہیں۔راسخ العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے اسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
اور لبرل و سیکولر طبقے کی طرف سے اسے شہید قرار دیا جارہا ہے لیکن حالات و
واقعات بتاتے ہیں کہ اصل حقائق عوام کی نظر سے اب تک پوشیدہ ہیں اور میڈیا
اور اخبار سب اس معاملے میں مکمل حقائق بیان نہیں کر رہے۔
اس تناظر میں،ہم نے سوچا کہ مشال خان کے خیالات و نظریات،عقائد اور
سرگرمیوں کا جائزہ لے کر جتنا ممکن ہو غیر جانبدار حقائق حاصل کرنے کی کوشش
کی جائے۔اس مقصد کے لئے لازمی تھا کہ موصوف کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ جسے وہ
2012ء سے استعمال کر رہے تھے،ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ،خیالات و نظریات
میں تبدیلی کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ وہ واقعی
مسلمان تھے یا بے دین اور ملحد۔اس مسئلے کے لیے جب میں نے موصوف کے ذاتی
فیس بک اکاؤنٹ کا چھ سے سات گھنٹے گہرا مطالعہ کیا تو یہ حقیقت منکشف ہوئ
کہ مشال 2014 ء تک یعنی روس سے واپس پاکستان آنے تک مسلم تھے۔پھر 2015ء میں
مردان یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران موصوف کا رجحان پہلے سوشلزم،کمیونزم
اور پھر آہستہ آہستہ الحاد کی طرف ہونا شروع ہوا ،اس بات کا ثبوت ان کا
ذاتی فیس بک اکاؤنٹ ہے جس میں بتدریج ان کے خیالات مذہب سے کمیونزم اور پھر
الحاد کی طرف مائل دکھائ دیتے ہیں۔2014 ء تک ان کے فیس بک اکاؤنٹ میں
اسلامی پوسٹ بھی مل جاتی ہیں لیکن 2015ء خصوصا جولائ 2015ء کے بعد ہمیں ان
کا مذہب کی طرف رجحان کم ہوتا دکھائ دیتا ہے۔اس حوالے سے ان کی پوسٹس کا جو
تجزیہ سامنے آیا، وہ 2014ء سے افسوسناک واقعے تک الحاد کی طرف تدریجاً سفر
کا ہے۔
اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف 2014میں کمیونزم کی طرف مائل ہوئے لیکن تب تک ان
کے مذہبی خیالات میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا۔پھر آہستہ آہستہ انہوں نے
اسلامی شعائر جنت،جہنم،حج،رمضان شریف کے روزوں،اسلامی
عقیدے،نصاب،داڑھی،مولوی اور خدا کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ساتھ ہی موصوف
زیادہ سے زیادہ قوم پسند ہوتے گئے اور ان کی 2015ء کے بعد کی پوسٹس میں
پنجابیوں کو شیطان کہنا،پختونوں کی پاکستان سے علیحدگی پر باتیں ملتی ہیں۔
جو لوگ اُن کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں،ان کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ
حقائق پڑھ کر برائے مہربانی اپنی اصلاح فرمائیں ۔
اب بات یہ آتی ہے کہ مان لیا وہ ملحد ہوگیا تھا لیکن کیا حقیقت میں وہ
اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر بھی اتر آیا
تھا تو اس بات کا ثبوت مشال خان کی فیس بک پروفائل سے کہیں نہیں ملا۔لیکن
مشال خان ایک پختون فیس بک گروپ THE LAND OF PAKHTOONS کا ممبر تھا جہاں وہ
گروپ کے مسلمان پشتون دوستوں کے ساتھ بار بار مذہب اور اللٰہ تعالٰی کی ذات
پر بحث کرتا رہتا تھا۔جہاں اس قدر نامناسب تعبیرات پائی جاتی ہیں کہ زبان
یا قلم کی نوک پے لانے سے بھی ڈر لگتاہے۔
مشال خان کے ان متنازعہ کمنٹس کے انکار کے لیے پہلے یہ کہا گیا کہ یہ سکرین
شاٹ فیک ہیں،پھر یہ کہا گیا کہ مشال خان کے نام کی ایک فیک آئی ڈی استعمال
ہورہی تھی پھر یہ کہا گیا کہ اس کی آئ ڈی ہیک ہوگئی تھی۔بیان در بیان تبدیل
کیا گیا جب کہ مشال خان کے کمنٹس اس کی اسی اصل آئ ڈی سے لینڈ آف پختون
گروپ میں کیے "گئے جسے وہ 2012ء سے استعمال کر رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک بے لاگ انصاف نہیں ہوگا تو ہم مسائل حل نہیں کر سکتے۔
مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنیوالے بھی مجرم ہیں تو دوسری جانب
اپنے مخصوص مفادات کے لئے مذہب کو ہدف تنقید بنانے والے اور توہین آمیز
مواد کا سہارا لینے والے بھی مجرم ہیں۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ ہر مجرم کو
پکڑا جائے اور ہر قصوروار کو سزا ملے۔ اسی میں ہماری بقا ہے ۔ |