علی رضا سبز واری ایس ایف میں طلباءسیاست سے آگے بڑھتے
ہوئے اب بطور وکیل عملی زندگی کا آغاز کر چکا ہے گزشتہ دنوں اپنی پریکٹس کے
دوران پہلی پانچ سو فیس وصول کی تو مجھے ڈھونڈتا ہوا پریس کلب آ پہنچا ،
اوراعوان ہوٹل لے گیا پہلی فیس سے ہم ملکر کھانا کھائیں گے۔ ٹیبل مین کو
کھانے کا بتانے کے بعد دوبارہ مخاطب کیا کے جلدی لے آﺅ۔ ٹیبل مین نے جواب
دیا آپ سے پہلے جو آئے پہلے ان کا میرٹ بنتا ہے لہذا آپ کا کھانا ان کے بعد
لاﺅں گا۔ یعنی وزیر اعظم فاروق حیدر جو میرٹ میرٹ نعرہ لگاتے تھے وہ ایک
عام آدمی بھی سمجھتا ہے جس کا پہلا نمبر ہے وہ ہی حقدار ہے۔ مزدور پیشہ
لوگوں کا سرکار سے کوئی تعلق مطلب نہیں ہو تا مگر یہ سب جو خلق خدا کہلاتے
ہیں میرٹ چاہتے ہیں۔ کوہالہ روڈ چروایا ہوٹل پر ہر خاص و عام سبھی آتے ہیں
پانامہ فیصلے کے دن یہاں 3ساڑھے تین بجے دال چاول کھا رہے تھے ٹرک والا آیا
جس کا ڈرائیور اپنے کنڈکٹر ساتھیوں سمیت آکر بیٹھا کھانا شروع کیا اور ارد
گرد والوں سے پوچھا کہ پانامہ کا کیا فیصلہ ہوا ہے ۔ بتایا گیا نواز شریف
بچ گئے ہیں ، حیرانگی سے اسکا نوالے والا ہاتھ منہ کی طرف بڑھتے ہوئے رک
گیا کہ یہ کیسا انصاف ہے ۔ جسکا مطلب ہے کہ ایک ڈرائیور ، نائب قاصد، مزدور
سے لیکر ہر آدمی ملک میں انصاف و میرٹ چاہتا ہے۔ اس کیلئے ملک ملت کے
مفادات عزیز ہیں ۔ ورنہ خود اسکا سرکار یا سرکار کے معاملات سے زرا بھر بھی
مطلب ہے نامفاد ہے۔ جن طبقات کا کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے انکے مابین
پانامہ پر جذبات و خیالات اسی طرح ملے جلے ہیں جسطرح کا یہ فیصلہ ملا جلا
ہے۔ در حقیقت پانامہ نامی مریض ترازو کے نشان والے آپریشن تھیٹر میں گیا
اور مقررہ مدت کے بعد نتیجہ مردہ جسم تھا یعنی گائے تو بچ گئی مگر اس کا
بچھڑہ جسکا کوئی نام ہوتا وہ بے نام ہی ایک لاش کی طرح جو میڈیکل کالج کے
طلباءو طالبات کے تجربے کیلئے ہوتی ہے ایک کمیٹی کے حوالے کردی گئی ہے۔ اب
یہ طلخ حقیقت ہے کہ سیاست میں گڑے مردے بھی اکھاڑے جاتے ہیں سو اس پر ہی
اگلی انتخابی سیاست کا میدان گرم شروع ہو گیا ہے پورے ملک کی طرح آزاد
کشمیر میں وزیر اعظم فاروق حیدر کی قیادت میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے
یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے مٹھایاں تقسیم کر کے
خوشی و مسرت کے جذبات کیساتھ لیگیوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد یں دیں۔ جبکہ
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں کارکنوں نے اپنی اپنی قیادت کے نقشے قدم پر
چلتے ہوئے مذمت و احتجاج کے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ تاہم احتجاج کے ان رنگوں
میں چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کی کال پر صدر پی پی آزاد کشمیر چوہدری لطیف
اکبر کی قیادت میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ جو اس وقت
برائے راست سب سے بڑا عوامی ایشو ہے۔ آزاد خطہ میں لوڈ شیڈنگ اس قدر بڑھ
گئی ہے کہ یہ شکل دکھانے کےلئے آتی ہے پر لوٹ جاتی ہے جسکا کوئی شیڈول ہے
نہ ایسا زریعہ ہے جسکے تحت کسی ٹائم ٹیبل کا پابند کیا جاسکے۔ شدید گرمی کے
باعث رات دن ہر گھر میں بچے بوڑھے، مرد و خواتین نڈھال ہوئے رہتے ہیں۔ ایسا
لگتا ہے اسلام آباد سرکار کو اب آزاد کشمیر کے معاملات سے کوئی خاص دلچسپی
نہیں رہی ہے ۔ تمام انتخابی وعدے دعوے قصہ پارینہ ہو جائیں گی کیونکہ
مالیاتی مشکلات معاملات میں کوئی قابل ذکر فرق آیا ہے نہ ہی تاحال کوئی بڑا
میگا پراجیکٹ شروع ہو سکا ہے جس کے نواز حکومت نے اعلانا ت کئے تھے۔ تاہم
فاروق حیدر حکومت مطمئن ہے ان کے تمام ایشوز نواز حکومت حل کریگی۔ جو وعدے
کیئے ہیں وہ سب پورے ہوں گے۔ سب کی دعا ہے ایسا ہی ہو جیسا آزاد حکومت
چاہتی ہے ۔ جس کی کابینہ میں بلدیاتی انتخابات مرکزی الیکشن کمیشن آزاد
کشمیر سے کروانے کا فیصلہ کیا ہے جواعام انتخابات کا بھی تجربہ رکھتا ہے۔
یہ اچھی بات ہے اسی طرح زکواة کونسل کے انتخابات میں زکواةکے نظام کو بہتر
بنانے کے فیصلے کیئے گئے وزیر اعظم وزراءکی تنخواہوں مراعات کو دو سو گناہ
بڑھانا بھی درست مانا جاسکتا ہے ، کم از کم سیکرٹری حکومت جتنی تو ہونی
چاہیں ۔ مگر یہ نئی گاڑیوں کی خرید اور پھر انسپکٹر جنرل پولیس کو بھی
ریٹائرمنٹ کے بعد یا یہاں سے جاتے ہوئے ایک گاڑی ڈرائیور ملازم وغیرہ کی
مراعات دینے کی پیش کیش کیا ہے جو آئی جی بشیر میمن نے مسترد کرتے ہوہئے
حکومت کو متوجہ کیا ہے یہاں پولیس کی کمی پوری کرنے اسے مطلوبہ جدید
ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی ضرورت ہے ۔ لینٹ آفیسران حکومت پاکستان کے ملازم
ہیں ان کو وہاں سے سب مراعات مل رہی ہیں۔یقینا آئی جی خراج تخسین کے حقدار
ہیں۔ یہاں پہلے ہی چیف سیکرٹری رہ کر چلے جانے والوں کو یہاں کے خزانے سے
جو مراعات دی جارہی ہیں وہ دنیا کے کسی قانون قائدے میں نہیں ہیں تو پھر
یہاں اس کا کیا جواز ہے۔ انصاف میرٹ خلق خدا تو چاہتی ہے مگر لگتا ہے شاید
اوپر والی مخلوق اس سے مثتثنیٰ ہے جیسا کہ وزیر اطلاعات مشتاق منہاس بولے
اور ایسا بولے جیسا بولتا پاکستان میں بولتے تھے یقینا سب کا ایک بھرم ہوتا
ہے اور بھر م ٹوٹ جائے تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا؟؟؟؟ |