صدیوں یاد رکھا جانے والا تاریخی فیصلہ

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
یہ شعر شاعر مشرق و مغرب حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا ہے۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنے فیصلے کے آخر میں اسے نقل کیا ہے۔ اس شعر سے قبل جج صاحبان نے کہا ہے کہ بحثیت قوم ہمیں اس شعر کے الفاظ پر غور کرنا چاہیئے، اگر ہم اپنا سر دنیا میں بلند رکھناچاہتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے جو قوم ہر وقت اپنے عمل کا حساب کرتی رہتی ہے، اسے کوئی مات نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ اس سے وہ مثبت کو جاری رکھتی ہے اور منفی کو ترک کر دیتی ہے۔ پاناما کیس سے متعلق درجنوں سماعتیں ہوئیں، پوری قوم کی توجہ اس جانب کر دی گئی۔ اس کا محرک جناب عمران خان ہی تھے۔ اس میں ان کے ساتھ شیخ رشید احمد اور علامہ سراج الحق بھی شامل ہو گئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق یا دیگر سیاسی پارٹیاں اس سے دور رہیں۔
 
دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں۔ منفی یا مثبت، روشنی یا اجالا، نیک یا بد۔ کسی مقدمے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ عدالت انصاف کرتی ہے۔ مگر آج ہر ادارے تقسیم ہو رہا ہے۔ جب کہ اتفاق رائے کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ ٹرائیل کورٹ نہیں تھا۔ تفتیش عدالت کا کام نہیں۔ عدالت تفتیش کی ہدایت دے سکتی ہے۔ معاملہ وزیراعظم کی نااہلی کا تھا۔ ظاہر ہے کوئی عدالت عمران خان یا کسی دیگر شخصیت کی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتی۔ وزیراعظم پر براہ راست کوئی الزام نہیں۔ صادق اور امین حکمران کا شیواہے۔ جو لوگ سب کچھ ہضم کر گئے۔ وہ آج صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ منطق اپنی جگہ ہے۔ کسی برائی چاہے یا بڑی ہو یا چھوٹی،کا کوئی جواز درست نہیں ہو سکتا ہے۔ برائی اور کرپشن خطرناک ایشو ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی سابق حکمران یا حکمرانی کے خواب دیکھنے والے نے کرپشن کیا ہے ، اس لئے اگر موجودہ حکمران کرپشن کرتا ہے تو اسے کوئی چھوٹ مل سکتی ہے۔ یہ بالکل نہیں ہو سکتا۔ مگر یہاں لوگ زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب لوگ جشن مناتے ہیں۔ سبھی مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں۔ سب کی آنکھنوں میں خوشی کے آنسو ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کون جیتا ہے اور کس کی ہار ہوئی۔ کہتے ہین سب کی جیت ہوئی ہے۔ وزیراعظم بھی بچ گئے اور وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کی امید رکھنے والوں کی امید بھی ختم نہیں ہوئی۔ انہیں یہ کہتا سنا گیا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ اب الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ لوگ الزام نہیں بلکہ کام دیکھتے ہیں۔ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ ملکی ترقی کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔سیاسی سکیمیں تقسیم ہو رہی ہین۔ بلکہ بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ جو چمچے تھے، مسلم لیگ کی جیت کا سارا کریڈٹ وہ لے رہے ہیں۔ بے چارہ وووٹر سر پیٹ رہا ہے۔ اس کے نام پر زور بیان رکھنے والے میلہ لوٹ رہے ہیں۔ انہیں سکیموں سے کوئی غرض نہیں، وہ اپنے لوگوں کو ٹھیکے دے رہے ہیں۔ ٹھیکدار علاقے کے مفاد کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مال کما رہے ہیں۔ اپنے عزیز و اقارب کی دیواریں لگا رہے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ ، بلدیہ، ایم ڈے اے سب اسی میں مصروف ہیں۔ میرٹ کا دعویٰ کرنے والے میرٹ کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ عوام کا ہمیشہ استحصال ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں بھی کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔

کہتے تھے ایسا فیصلہ آئے گا کہ صدیوں تک یا 20سال تک یاد رکھا جائے گا۔ قوم کا وقت ضائع کیا۔ پہاڑ کھودا گیا۔ مگر اس سے نکلا کیا۔ سب جانتے ہیں۔ گول مول عدالتی فیصلہ ہے۔ جیسا بھی سب کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ کوئی عدالت کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ ورنہ توہین عدالت کی زد میں آنے سے بچ نہ سکے گا۔ ججوں کے درمیان اختلاف رائے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ قانون و انصاف میں بھی اختلاف ہے۔ اس کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔ کوئی اس فیصلے کے خلاف بیان دے رہا ہے اور کوئی اس کے حق میں۔ عمران خان کے دھرنے بھی شروع ہو رہے ہیں۔ جلسے جلوس کے پروگرام طے ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن متحرک ہو رہی ہے۔ پی پی پی بھی لائحہ عمل تشکیل دے رہی ہے۔ کئی لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اﷲ کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ کئی لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عمران خان کے موقف کی تائید قرار دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ہاؤسز میں جشن کا سماں ہے۔ ،مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ کارکن ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے میں پہل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرے کر رہا ہے۔ وزیراعظم کے سیاسی مستقبل اور اپوزیشن کے کردار پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بال بال بچے ہیں۔ لیکن ابھی پریشانی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ کیا مسلم لیگ ن کو اس فیصلے سے کوئی دھچکہ لگا ہے۔ یا کیا عمران خان کی سیاست پر کوئی دھبہ لگا ہے۔ وزیرااعظم کی ناہلی کے لئے درکارثبوت کم ہیں یا ناکافی ہیں۔ مزید تحقیقات کامطلب صاف ہے۔ لوگ سیاست چمکائیں گے۔ کچھ عرصہ اپنے کام پر توجہ دیں گے۔ پھر سے نئی تحقیقات میں نئے باتیں سامنے آئیں گی۔ حکومت پر دباؤ بڑھا کر اپنے جائز ناجائز کام مکمل کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع ہو گی۔یاد رہے قومی مفاد ہر ادارے، پارٹی، علاقے، قبیلے غرض سب سے بالا تر ہے۔ اﷲ اس ملک اور قوم پر رحم اور فضل فرمائے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555228 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More