پانامہ پر فیصلہ آگیا اس فیصلہ پر بحث جب تک سورج
چاند رہے گا اس وقت تک ہوتی رہے گی…… پانامہ کیس پرفیصلے کو 20 سال یاد
رکھا جائے گا، یہ عدالت عظمی کے معزز ججز صاحبان کے ریمارکس تھے، ایک دو دن
کم دو مہینے تک پانامہ کا فیصلہ محفوظ رکھا گیا…… آیا تو واقعی عدالت عظمی
کے معزز ججز صاحبان نیاپنے ریمارکس کو سچ ثابت کر دکھایا کہ پانامہ کیس کے
فیصلے کو پاکستانی قوم برسوں یاد رکھے گی،چند شرارتی دوستوں نے تو یہاں تک
کہا ہے کہ یہ فیصلہ 20 سال نہیں صدیوں تک پاکستانی قوم کے اذہان سے محو
نہیں ہوپائے گا۔
حکمران اور ان کے ساتھیوں نے مٹھائیاں تقسیم کرکے جشن تشکر منایا ……نواز
لیگ یعنی حکومتی جماعت کے راہنماؤں اور ورکروں کی خوشی دیدنی ہے، ہو بھی
کیوں نہ کہ عدالت کے تین ججز نے انہیں فوری طور پر نااہل نہیں کیا اور چند
مہینوں کی مہلت مرحمت فرمادی ہے……پی پی پی ،پی پی پی پی ،جماعت اسلامی اور
تحریک انصاف کے دوستوں نے اس لیے مٹھائیاں تقسیم کیں کہ کہیں نواز لیگ یہ
سمجھے کہ سپریم کورٹ سے انکا تابوت برآمد ہوا ہے۔
عدالت عظمی سے تابوت تو برآمد ہوا ہے بس فرق یہ ہے کہ ججوں نے تابوت پر
ماتمی چادرڈالنے کی بجائے اس پر کناری گوٹے اور چکمتے سلمہ ستارے سے مزین
چادرڈالی ہوئی ہے،کچھ لوگوں نے اسے پانامہ کی بارات سمجھا اور جشن منایا
اور کچھ لوگوں نے امراء کے ہاں بڑوں کے تابوتوں کو ’’کام والی چادروں میں
لپٹے نکلتے دیکھا ہے تو انہوں نے عدالت عظمی سے تابوت برآمد ہوتا سمجھ کر
وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر
اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے، وہ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب
ہیں یا نہیں ؟ یہ الگ بحث ہے۔
پی پی پی کے شریک چیئرمین اور پی پی پی پی کے مکمل صدر جناب آصف علی زرادری
سمیت دیگر راہنماؤں نے 20 سال تک یاد رہنے والے فیصلے پر متفق ہیں کہ اس
فیصلہ میں عدالت عظمی نے نواز شریف اور ان کی فیملی کو راہ فرار فراہم کی
ہے،اور فیصلے کے اس حصے پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ،جے آئی ٹی وزیر اعظم
اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کو طلب کرے اور ان سے تحقیقات
کرے۔
عدالت عظمی کی جانب سے جے آئی ٹی کو وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو طلب
کرنے ،ان سے سولات پوچھنے کی نصیحت یا فیصلے پر کہا جا رہا ہے کہ عدالت
عظمی کے معزز جج صاحبان یا تو بہت زیادہ معصوم ہیں کہ جو کام وہ خود نہیں
کرپائے وہ جے آئی ٹی کو کرنے کا حکم دے رہے ہیں،’’ کوئی ان کی سادگی پر مر
جائے‘‘ پانامہ فیصلے کے حوالے سے اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وزیر اعظم
اور انکا خاندان فی الحال مکھن میں سے بال نکالنے کی طرح صاف شفاف بچانکالے
گئے ہیں۔
لوگ حیران اور پریشان ہیں کہ فیصلے کی ابتداء میں برطانوی ناول ’’ گارڈ
فادر کے ذکرسے ہوئی ہے کہ’’ ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم کی داستان چھپی ہوتی
ہے‘‘ لیکن قطری خط کو مسترد کرنے کے باوجود فیصلے میں’’ لندن کے فیلٹس میں
چھپی دولت کے پیچھے چھپے جرم ‘‘کو بے نقاب کرنے کے لیے جے آئی ٹی قائم کرنا
تحقیقاتی کمیشن کے مترادف ہے، اس کا مطلب عرف عام میں یہ لیا جائے گا کہ
’’کھوتا کھوہ میں‘‘ ڈالدیا گیا ہے، معروف دانشور اور صحافی جناب انور سن
رائے کے بقول ’’بھینس پانی میں بٹھا دی گئی ہے‘‘
پانامہ فیصلے کو سمجھنے کے لیے دو نظیریں سمجھنا ضروری ہیں،پہلی نظیرآصف
علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایس جی ایس اور کوٹیکنا ریفرنسز پر
لاہور ہائی کورٹ کے مشہور زمانہ جسٹس ملک محمد قیوم کے فیصلے کے خلاف اپیل
پر سپریم کورٹ کے جسٹس جناب منیر اے شیخ اور جسٹس جناب بشیر جہانگری کا
فیصلہ اور دوسری نظیر مشہور زمانہ ایئر مارشل اصغر خان کیس کا سولہ سترہ
سال بعد سنائے گئے فیصلہ کا انجام۔
رحمان ملک کی فراہم کردہ سیف الررحمان اور جسٹس ملک محمد قیوم کی بے نظیر
بھٹو اور آصف علی زرداری کو عبرتناک سزائیں دینے کی گفتگو پر مشتمل آڈیو
ٹیپس سننے کے بعد عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان جناب جسٹس (ریٹائرڈ) منیر
اے شیخ اور جناب جسٹس(ریٹائرڈ) بشیر جہانگیری نے فیصلے میں لکھا کہ’’ لاہور
کورٹ کے فیصلے کے اوپر دودھ پر ملائی کی طرح ججز کا تعصب تیرتا دکھائی دے
رہا ہے‘‘ اس فیصلے میں دونوں جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کی سنائی گئی
سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور کیس دوبارہ سماعت کے لیے واپس لاہور ہائی
کورٹ کو بھیج دیا۔اور پھر جو کچھ اس کیس کے ساتھ ہوا……اس سے ہم سب بخوبی
آگاہ ہیں۔پانامہ فیصلے میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
دوسری نظیر میں سابق چیف جسٹس (ریٹائرڈ) جسٹس افتخار محمد چودہری نے عوامی
دباؤ پر ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی پٹیشن پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے کیس
سپریم کورٹ کی الماریوں سے نکال کرایف آئی اے کو عمل درآمد کے لیے بھیج کر
’’یادوں کے قبرستان‘‘ میں دفنا دیا۔ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس کئی برس زیر
سماعت رہنے کے بعد آصف زرداری اور ان کے شریک ملزمان باعزت بری ہوگئے۔ اور
ایئر مارشل اصغر خان کیس کا فیصلہ چار پانچ سال گزرنے کے باوجود آج بھی ایف
آئی اے کے کسی ماتحت اہلکار کی الماری میں محفوظ پڑا ہے۔
ان دونوں نظیروں (مقدمات )میں ملزمان کو وقتی ریلیف فراہم کرنا اور قانون و
انصاف کے کٹہرے لانے اور سزاؤں سے بچانا مقصود تھا،سو ایسا ہی ہوا، نہ آصف
زرداری اور ان کے رفقائے کار کو ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس میں سزائیں
ہوئیں اور ناہی آج تک ایف آئی اے کے افسران وزیر اعظم اور دیگر ساتھیوں کو
شامل تفتیش کرسکے ہیں، وزیر اعظم کو شامل تفتیش کرنا تودور کی بات ہے وہ
وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد یا جاتی امراء کے شاہی محل کے شاہی دروازے پر
طلبی کے نوٹس چسپاں کرنے کی جرآت نہیں دکھا سکے۔
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف وزیر اعطم نواز شریف کو مٹھائی کھلا تے
اور مبارکباد پیش کر تے ہوئے دکھائے گئے ہیں، لوگوں نے اس پر بھی سولات
اٹھائے ہیں اور دریافت کیا ہے کہ یہ سب کچھ کس خوشی میں ہو رہا ہے، حکمران
فیصلے کے کس پیرا گراف کو اپنے حق میں تصور کرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں
سماء رہے؟اس سوال کا جواب بندہ ناچیز نے دو مثالیں دیتے ہوئے واضح کردیا
ہے، کہ حکمران اس بات کی خوشی منا رہے ہیں کہ فوری طور پر اقتدار کے خاتمے
سے بچ نکلے ہیں۔اور اب انہیں کئی ماہ اگلے انتخابات کی انتخابی مہم چلانے
اور سرکاری وسائل بروئے کار لانے کی مہلت مل گئی ہے۔
اس فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت کرنے والے پانچوں ججز
نے لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے فراہم کردہ منی ٹریل کو سند قبولیت دینے
سے انکار کدیا ہے، اور جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ اور جسٹس جناب گلزار احمد
نے اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کو ٹرائیل کورٹ تسلیم کیا ہے جب کہ باقی
تین جج صاحبان جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس جناب شیخ
عظمت سعید نے سپریک کورٹ کے اس بنچ کو ٹرائل کورٹ تسلیم نہیں کیا، اور چند
سولات کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو مذید وقت دینے کے لیے
جے آئی ٹی قائم کرنے کی ضرورت تسلیم کی ہے،۔
یہ بات بھی درست ہے کہ اس کیس میں پانچوں ججز نے وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں
کو بری قرار نہیں دیا اگر ایسا ہوتا تو جے آئی ٹی قائم نہ کی جاتی…… اگر
کوئی دیوانہ اس فیصلے کو اپنے لیے کلین چٹ سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ جے
آئی ٹی کے روبرو پیش نہ ہو۔ |