سونامیوں اور جیالوں نے تو بڑی تیاریاں کر رکھی تھیں، بڑے
بڑے پروگرام ترتیب دے رکھے تھے کہ خوب دھوم دھڑکا ہوگا، میوزیکل کنسرٹ ہوگا
اور سونامی پورے ملک پہ چھا جائے گی لیکن ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو
سُنا افسانہ تھا ‘‘۔ ہوا ’’ککھ‘‘ بھی نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ 540 صفحات پر
مشتمل یہ فیصلہ ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا ، بارہ آنے ‘‘ ہی
رہا ۔ اگر 32 سماعتوں اور اُس کے بعد 57 دنوں کے بعد یہی فیصلہ آنا تھا کہ
جے آئی ٹی بنے گی تو یہ فیصلہ اُسی دِن ہی کر دیتے ، اتنے دن لٹکایا کیوں۔
ویسے اِس لحاظ سے تو یہ فیصلہ واقعی صدیوں تک یاد رہے گا کہ 57 دن یہی طے
کرتے گزر گئے کہ جے آئی ٹی بنے گی یا نہیں۔
کمیشن کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو میاں نواز شریف کو ’’پھڑکا‘‘ ہی
دیا تھا لیکن جسٹس اعجاز افضل خاں آڑے آ گئے اور اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا
کہ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا اِس لیے مزید
تحقیقات ضروری ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید نے بھی جسٹس
اعجاز افضل خاں کا ساتھ دیا حالانکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو میاں
نوازشریف کو مافیا ڈان ہی بنا دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں
اطالوی ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا حوالہ دیا ، جس کی کہانی ایک مافیا ڈان کے گرد
گھومتی ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ اپوزیشن اِس جے آئی ٹی کو ماننے کو تیار
نہیں ۔ اُس کا مطالبہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے وزیرِاعظم ہوتے ہوئے جے
آئی ٹی کا کوئی فائدہ نہیں اِس لیے وزیرِاعظم پہلے استعفےٰ دیں لیکن ایسا
ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ میاں نوازشریف نے تو اُس وقت بھی اپنے استعفے پر
دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جب پرویز مشرف کے’’ بندوقوں والے‘‘ اُن پر
بندوقیں تانیں کھڑے تھے ۔ سابق صدر غلام اسحاق خاں مرحوم کے ساتھ ’’پھڈے‘‘
پر بھی میاں صاحب ڈٹ گئے اور بالآخر دونوں کو گھر جانا پڑا ۔ اِس لیے یہ تو
طے ہے کہ میاں صاحب استعفےٰ نہیں دیں گے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ’’اندرکھاتے
‘‘ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کو ’’ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘ بنانے کی
تیاریاں زور پکڑ رہی ہیں ۔ مطالبہ دونوں جماعتوں کا ایک ہی ہے کہ میاں صاحب
استعفےٰ دیں۔
اُدھر بلوچ سردار نے 23 اپریل سے سندھ میں دھرنے دینے کا اعلان کیا تو
اِدھر کپتان صاحب نے اپنی سونامی کو پکارتے ہوئے 28 اپریل کو اسلام آباد پر
حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ آصف زرداری تو سپریم کورٹ کے فیصلے
پر کچھ زیادہ ہی بھڑک اُٹھے ہیں۔ اُنہوں نے شرم وحیا کی چادر تار تار کرکے
میاں نوازشریف کو دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں ۔ اُنہوں نے کہا ’’میاں صاحب
کو سوائے پائے کھانے اور سرکاری روٹیاں توڑنے کے اور کچھ نہیں آتا ۔ وہ گھر
نہیں جائیں گے ، کہیں اور جائیں گے ۔ ہم لانڈھی جیل میں اُن کو روٹی
پہنچائیں گے‘‘۔ آصف زرداری تو خیر ایسی بڑھکیں مارتے ہی رہتے ہیں ۔ اُنہوں
نے تو کسی کی ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے ‘‘ کی بڑھک بھی ماری تھی لیکن پھر
’’نِیویں نِیویں ‘‘ ہو کر ملک ہی سے فرار ہو گئے ۔آصف زرداری صاحب نے خیر
جو کہا ، سو کہا لیکن سیاسی نَومولود بلاول زرداری نے تو انتہا کر دی ۔ اُس
نے میاں نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا ’’اگر آپ میں تھوڑی سی بھی شرم ، تھوڑی
سی بھی حیا ہے تو استعفےٰ دیں ‘‘۔ اپنے بڑوں کے لیے ایسے غیرپارلیمانی
الفاظ استعمال کرتے ہوئے بلاول کو تھوڑی سی شرم ، تھوڑی سی حیا اور تھوڑی
سی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا لیکن
شاید اُسے بزرگوں نے یہی سکھایا ہے۔ میاں نوازشریف سے استعفےٰ مانگنے سے
پہلے اگر وہ اپنے باپ سے یہ سوال کر لیتا کہ بمبینو سینما میں ٹکٹیں بلیک
کرنے والا یکایک کھرب پتی کیسے بن گیا؟ تو شاید اُسے تھوڑی سی شرم آ ہی
جاتی۔ ویسے بلاول جتنی جلدی ممکن ہو یہ طے کر لے کہ وہ ’’بھٹو‘‘ ہے یا ’’زرداری‘‘۔
کیونکہ یہ قوم کسی ’’دوغلے‘‘ کو پسند نہیں کرتی۔
بقول چودھری شجاعت حسین اس سب کچھ پر ’’مٹی پاؤ‘‘۔ ہمیں تو خوشی اِس بات کی
ہے کہ اب ایک دفعہ پھر دھوم دھڑکا ہو گا، میوزیکل کنسرٹ ہو گا،
غیرپارلیمانی زبان ہو گی اور بڑھکیں ہوں گی اور ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ
بھرنے کے لیے ڈھیروں ڈھیر مواد مِل جائے گا۔ اگر ایسے میں افراتفری ہوتی ہے
، انارکی پھیلتی ہے ، ملک اندرونی طور پر کمزور ہوتا ہے دشمن کو کھل کھیلنے
کا موقع ملتا ہے ، سی پیک پر کام کی رفتار سست پڑ جاتی ہے تو ہماری بلا سے۔
ہم نے کون سا الیکشن لڑ کے ملکی سربراہ بن جانا ہے جو ہمیں یہ پریشانی لاحق
ہو کہ اگر خاکم بَدہن ملک نہ بچا تو ہمارا کیا بنے گا۔ یہ سوچنا تو اُن
لوگوں کا کام ہے جو اپنے آپ کو قومی رہنما سمجھتے ہیں اور جن کے دِل ، جگر
اور پھیپھڑے قومی درد سے معمور ہیں۔ جنہیں اقتدار کا کوئی لالچ نہیں، وہ تو
محض اِس لیے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں کہ نیا پاکستان بنا سکیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے سبھی گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ نعرے لگاتے رہتے
تھے کہ اُنہیں سپریم کورٹ پر اعتبار ہے اور اُس کا ہر فیصلہ منظور لیکن
جونہی فیصلہ آیا تو نامنظور بھی کر دیا ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں
اپوزیشن نے پاناما کیس کے فیصلے کے تناظر میں زبردست ہنگامہ آرائی کی اور
جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا ۔ اپوزیشن لیڈر سیّد خورشید شاہ نے کہا ’’جے آئی
ٹی بڑے شرم کی بات ہے، یہ کھوکھلی تفتیش ہو گی، وزیرِاعظم مستعفی ہوں۔ ہم
استعفے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے‘‘۔ کپتان صاحب تو پہلے ہی استعفےٰ کا
مطالبہ کر چکے ہیں اور اب اسے مشترکہ اپوزیشن کے فیصلے میں ڈھالنے کی کوشش
کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار علی نے کہا کہ پاناما کیس کا مکمل فیصلہ ابھی
نہیں آیا لیکن مخالفین لڑائی چاہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اختلافی نہیں
، متفقہ ہے ۔ جے آئی ٹی پر سارے جج متفق ہیں ۔ چودھری نثار علی خاں نے
ٹیکسلا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے ہاں اچھے سے زیادہ
بُرے کام کی تشہیر ہوتی ہے ۔ معاملہ اب عدالت میں ہے، اِسے عدالت پر ہی
چھوڑ دینا چاہیے۔ نوازشریف کے خلاف اُلٹی گنگا بہائی جا رہی ہے اور کہا جا
رہا ہے کہ ثبوت بھی خود دیں۔ مخالفین پھڈے بازی چاہتے ہیں۔ یہ قیامت کی
نشانی ہے کہ آصف علی زرداری لوگوں کو ایمانداری اور دیانت پر لیکچر دیں۔ آج
عجب کرپشن کی غضب کہانی والے لوگ وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں
۔ غیب کا علم میرے پاس نہیں لیکن میرے سامنے اگر اِس حکومت میں کرپشن ہو
رہی ہوتی تو میں بہت پہلے ہی اِن کو چھوڑ چکا ہوتا۔ اپوزیشن رہنماء شروع ہی
سے جے آئی ٹی بنانے کا کہہ رہے تھے لیکن جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تو اب
شور ہو رہا ہے۔ ہمارا موازنہ فرشتوں کی بجائے پچھلی حکومت کی کارکردگی سے
کیا جائے۔ اب تو چیونٹیوں کو بھی پَر لگے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی خواہش کے
مطابق فیصلے کے معنی چاہتا ہے ‘‘۔ چودھری نثار علی خاں نے جو کچھ کہا،
بالکل سچ کہا اور سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے اِسی لیے اپوزیشن، خصوصاََ
پیپلزپارٹی ہمہ وقت اُن کی مخالفت پر تُلی رہتی ہے لیکن چودھری صاحب بھی
اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے عادی ہیں۔ |