پاکستان کوپچھلے قدموں پرڈالنااوراس کے قومی اہداف
کاراستہ روکنا،اس کیلئے پاکستان میں دہشت،مایوسی اوراندرونی چپقلش کوفروغ
دینا،اہم سنگ ہائے میل ہیں۔یہ نہ توالل ٹپ ہے اورنہ ہی عارضی۔ بظاہریہ ایک
نئی جنگ کاآغازہے۔اس کاپہلااوربنیادی ہدف سی پیک ہے۔ ہم سی پیک پرلاکھ
باتیں بناتے رہیں،دشمن کو اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ بھارت سمجھتا ہے
کہ سی پیک کی تکمیل سے وہ دفاعی، سفارتی اورتجارتی اعتبارسے الگ تھلگ
ہوجائے گاکیونکہ اس کے اوروسط ایشیائی منڈیوں کے بیچ ایک مستقل رکاوٹ سامنے
آسکتی ہے۔دوسری جانب ایران کے متعلق بھی اسے تشویش ہوچلی ہے کیونکہ یمن جنگ
میں امریکاکی براہ راست شمولیت اورصدرٹرمپ کے معاندانہ پالیسی بیانات کے
بعد ایران کا روس وچین اتحاد کی طرف مکمل طورسے جھک جانابعیدازقیاس نہیں۔
شائدیہی وجہ ہے کہ ایران نے چاہ بہارکوگوادرکے مقابل لانے کے بجائے اس کے
پارٹنر کادرجہ دے کرسی پیک میں شامل ہو نے کاعندیہ دیاہے۔سفارتی سطح پر
بھارت کوپہلے ہی چین سے بہت شکایات ہیں کیونکہ اس نے نہ صرف این ایس جی میں
بھارت کی شمولیت پرغیرلچکدارموقف اپنارکھاہے بلکہ وہ پاکستان کی خاطر(ایک
فرد تک کیلئےبھی)سلامتی کونسل میں اپناویٹوکاحق استعمال کرنے کوآمادہ رہتا
ہے۔
ادھر سی پیک واقعی تیزی سے عملاًشرمندہ تعبیرہوتانظرآرہاہے جس سے چین
اورپاکستان مشترک مفادکی ڈورمزیدمضبوط ہوگئی ہے جوبھارت کے علاقائی
اورعالمی عزائم کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہی نہیں، افغانستان کے حوالے
سے چین، روس، پاکستان اور ایران کے مابین کسی درجہ تعاون کی بات بھی بھارت
کے لیے ایک ڈراؤنا امکان ہے کیونکہ بھارت افغانستان کی سرزمین سے خود سامنے
آئے بغیر پاکستان کو زک پہنچارہا ہے ۔ تاہم بھارت کے پاس وقت بہت کم ہے،
اسے جو کچھ کرنا ہے۲۰۱۷ء کے دوران ہی کرنا ہے۔ اگر ایک بار سی پیک کے فلیگ
شپ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچنے لگے تو پھر معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے
کیونکہ پھر چینی مفادات کو ضرب کا مطلب چین سے براہِ راست مخاصمت ہے،جس
کابھارت اس وقت متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیےبھارت اس وقت وہ سب کچھ کرے گا
جووہ کرسکتا ہےکیونکہ اس کیلئےسب برائیوں کی جڑیہی سی پیک ہے،یہاں تک کہ
ایک کھلی جنگ بھی۔ لیکن آخر الذکرایک بہت بڑاجواہوگا۔ وہ اس جوئے تک جائے
گاضرورلیکن صرف اس صورت اگر پلان اے فیل ہوگیا۔ پلان اے وہی ہے جس پربھارت
ٹی ٹی پی اور بی ایل اے وغیرہ کی مددسے پہلے ہی سرگرم چلا آرہا ہے۔ بھارت
پوری شد ومد کے ساتھ ایک بارپھرپراکسی اورنفسیاتی جنگ کا محاذ گرم کرے
گااورہروہ حربہ اپنائے گا،جس سے وہ پاکستان کوشکست خوردگی کاشکارکرسکے
اوراس کابین الاقوامی تاثرخراب سے خراب ترکرسکے۔یادرہے کہ شکست خوردگی کے
لیے شکست کاہوجانالازم نہیں لیکن اس کااثراور نقصان اصل شکست سے کم نہیں
ہوتا۔
اس سلسلہ میں گزشتہ سال جنوری میں قندھارمیں ہونے والابم دھماکانہایت اہمیت
کاحامل تھااورماہرین کے مطابق یہ''را''کاانڈرکورآپریشن تھا۔اس میں متحدہ
عرب امارات کے سفارتکارمارے گئے اوراس واقعہ میں زخمی اماراتی سفیر بھی
خالق حقیقی سے جا ملے۔ بظاہراس حملہ کامقصدیہ تھاکہ اسے طالبان کے اثروالے
علاقے میں طالبان حملہ آوروں کے ہاتھوں امارات کے لوگوں کاقتل دکھایا جا
سکے چونکہ(بقول افغان وبھارتی حکام) افغان طالبان پاکستان کے کہنے پرچلتے
ہیں اس لیے اس میں پاکستان کاہاتھ ثابت کرکے دونوں ملکوں کے درمیان غلط
فہمیوں کوہوادے سکے۔گوطالبان نے اس واقعہ سے لاتعلقی کااظہارکیالیکن حکام
نے بہ اصراراسے طالبان/ پاکستان کے ذمہ لگایا۔اس تناظرمیں پاکستان کے
انٹیلی جنس اداروں نے بالآخراپنی محنت سے سرخروہوکر''را''کوننگاکردیا۔
بعدازاں ''را''کا اہداف میں پی ایس ایل کافائنل لاہورمیں ہونے سے
روکناتھاجس کیلئے لاہوراورسیہون کے علاوہ خیبرپختونخواہ میں بم دہماکے کئے
گئے لیکن پی ایس ایل بالآخربڑی کامیابی کے ساتھ لاہورمیں اپنے انجام خیر
کوپہنچا ۔اس کے علاوہ مردم شماری اس کااہم ہدف ہے،مردم شماری ایک نہایت اہم
پراجیکٹ ہے۔ انسداد دہشتگردی کاکوئی بھی پلان آبادی اورعوامی محل وقوع کے
درست اعداد وشمار کے بغیرممکن نہیں۔ پیرس، برسلزاورجرمنی وغیرہ میں اسی کی
بنیادپرمجرموں کافوری پتالگالیاگیا۔آپ یوں سمجھ لیجیے کہ بغیراس ڈیٹاکے
انسداد دہشتگردی کا ہرمنصوبہ محض منصوبہ ہی ہے لیکن فوج اسے دہشت گردی کے
خلاف ایک اورآپریشن سمجھ کراس کی تکمیل میں مصروف ہے ۔اس کے بعد''را''
کیلئے٢٣مارچ کی پریڈ کی منسوخی کو ایک ہدف تھالیکن اقوام عالم کوکامیاب
پریڈکے انعقادکے ساتھ ساتھ جدیدترین اسلحے کی نمائش کے ساتھ بھارت کوپیغام
پہنچادیا گیا ۔
بھارت اپنی پے درپے ناکامیوں کے باوجودنچلانہیں بیٹھااوروہ بغیرسامنے آئے
افغانستان کی زمین،اپنے وسائل اور امریکاکی آشیربادسے خطرناک ساشوں میں
مصروف ہے اوراسے توقع ہے کہ پاکستانی معاشرے کی پیچیدگیاں اورمیڈیا کی
بچگانہ آزادی اس کیلئے ممدو معاونت کاکام کریں گی۔ نفسیاتی جنگ میں سنٹرل
اتھارٹی کوزک پہنچانااہم ہوتاہے۔ پاکستان میں یہ پوزیشن حکومت کے ساتھ ساتھ
فوج کوبھی حاصل ہے اور وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں ہڑبونگ کارسیا میڈیا کس
طرح اس کاکام آسان کرسکتاہے۔ اپنے میڈیاکووہ گزشتہ ستمبر ٢٠١٦ء کی مبینہ
سرجیکل اسٹرائیکس کے ہنگام ٹیسٹ کرچکااوراس کی جانب سے اسے مکمل اطمینان
ہے۔
آخر میں یہ بات کہ کیاکرناہوگا۔اب یہ معاملہ کچھوااورخرگوش کی دوڑوالاہے
اور کچھوابننے میں ہی حقیقی کامیابی ہے۔جہدمسلسل،لامتناہی۔ہم نے دیکھاکہ جس
نے بھی خرگوش کی طرح فتح کے اعلان میں عجلت کی،اس نے اپنے لیے گڑھا کھود
لیا۔ افغان طالبان اورعراق کے حوالے سے امریکاکی مثال ہمارے سامنے ہے۔اس
جنگ میں کامیابی صرف یہ ہے کہ آپ کااندرونی سکیورٹی اورسیاسی نظام کس
قدرٹھوس ہے۔وہ جتناقابل بھروساہوگا،پراکسی وارمسلط کرنے والے کی کوشش
اورحوصلہ،دونوں ہی ناکامی سے دوچارہوتے رہیں گے جیسا کہ ماہرین غذا کہتے
ہیں کہ موٹاپاختم کرنے کیلئے ڈائٹنگ صرف وقتی افاقہ کاباعث ہو سکتی ہے بلکہ
بعض اوقات تویہ ایک خودفریبی ثابت ہوتی ہے کہ اسے ترک کرنے کے بعدوزن پہلے
سے بھی زیادہ بڑھ جاتاہے۔ وزن مستقل کم کرناہے تو پھرطرزِزندگی
بدلناہوگایعنی جوغذائی تبدیلی ہوپھربقیہ تمام عمراسی پربسرہو۔
یہی مثال انسداد دہشتگردی کی ہے،اسے ہمیشہ کیلئے ختم کرناہے تومستقل اور
طویل المعیاد(اسٹریٹجک)اقدامات لیناہوں گے۔طرزِزندگی بدلناہوگا،طرزِ حکومت
بدلناہوگا۔ریاست کے انتظامی اورامن عامہ کے نظام کوایک نیااورابدی رنگ دینا
ہوگا۔اب تک یہ دوڑسومیں سے سودفعہ کچھواہی جیتاہے۔خرگوش بننے کی کوشش
خودکشی ہے۔ |