کہیں کچھ ہوجائے کچھ بدطینت مردوں عورتوں نے اپنے خبث
باطن کے اظہار کا موقع کبھی ضائع نہیں کیا۔ مشال خان کیوں قتل ہوا؟ ابھی تک
اس سوال کا جواب قوم کو نہیں ملا۔ مفتی نعیم نے بلا تحقیق شہید کا فتویٰ
جاری کردیاجبکہ ملک کے دیگر مفتیاں عظام مشال قتل کی وجوہات کی انتظار میں
ہیں۔ ایک لبرل یونیورسٹی اساتذہ اور طلبا لبرل پھر اس واقعہ کے پس منظر میں
ناموسِ رسالت ایکٹ 295-Cکو نشانہ بنانا قادیانیوں، یہودیوں اور صلیبیوں کی
سازش ہے کہ جنہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکی کو فتنہ انگیزی کی جڑبنایا۔ جگہ
جگہ یورپ والوں نے اس کی تشہیر کی اور اب بھی کررہے ہیں۔ کفر پینترے بدل
بدل کر اسلام پر حملے کررہا ہے لیکن مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی اکثریت
دین ایمان اور غیرت سبھی کچھ دنیاوی آسائشوں کے بدلے کفار کے آگے بیچ چکے
ہیں۔ پاکستان کہنے کو اسلام کا قلعہ ہے ۔ جو کچھ یہاں خدا و رسول کی
نافرمانیاں ہورہی ہیں تو قہر خداوندی سے بھی بچا ہوا ہے جو محض اسکے قیام
میں خونِ مسلم کے قائم و دائم اثرات ہیں۔ فاحشہ عورتیں اور مرد مقام رسالت
کے خلاف زبان درازی کرنے کے لیئے بہانہ چاہتے ہیں۔ کیونکہ مقامِ عظمتِ رسول
ہی اسلام ہے۔ ان لوگوں کے دلوں میں کفر بھرا ہوا ہے۔ 295-C توہین رسالت
کرنے والوں کے لیئے قانون تو ہے لیکن عمل درآمد کرانے والے بے ایمان ہیں ۔
اس قانون کے نفاذ سے آج تک سینکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور
سزائیں بھی سنائی گئیں لیکن ایک بھی کیس ایسا نہیں کہ کسی خبیث کو سزائے
موت دی گئی ہو۔ حکمران ، سیاستدان حرام کے پلے ہوئے ہیں ، عدلیہ میں بھی
ایسے ہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے توہینِ رسالت کرنے والوں کی ضمانتیں لیں اور
انہیں بیرونِ ملک بھجوادیا گیا۔ پھر فاحشہ عورتیں اور مرد بھونکتے ہیں کہ
اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اس میں ترمیم کی جائے۔ میں ان شیطان صفت
لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ اس کااستعمال ہوا کب ہے ؟ کوئی ایک کیس بتادو؟
آسیہ ملعونہ کو بڑے شفاف طریقہ سے دو عدالتیں سزائے موت دے چکی ہیں لیکن
سپریم کورٹ نے کس کو خوش کرنے کے لیئے اس کی سزائے موت روک رکھی ہے؟ ججوں
کو اپنی قبر میں اکیلا جانا ہے اور رسول اﷲ ﷺ کا سامناکرنا ہے۔ پھر وہاں
اہل یورپ اور انکے گماشتے ہمارے حکمران ان کی مدد کو نہ آئیں گے۔ سلمان
تاثیر ملعون نے اس قانون کی مذمت نہیں کی بلکہ اس نے سرور عالمین ﷺ کی ذات
اقدس کے خلاف زبان درازی کی ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظتی گارڈ میں سے اپنا
ایک بندہ منتخب کیا اور اسکے مبارک ہاتھوں ستائیس گولیاں ملعون کے جسد پلید
کو ریزہ ریزہ کرگئیں۔ اگر اس قانون پر عمل ہوتا تو یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔
اب یہ بات تو مسلمہ حقیقت بن گئی ہے کہ ہمارے حکمران و دیگر سیاستدان عظمتِ
رسول پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں، جبکہ ججوں میں بھی انکے کچھ ساتھی ہیں۔ ان
حالات کی روشنی میں مسلمان اپنے عقیدے کو تحفظ خود کریں گے ۔ جو خبیث بھی
ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی جسارت کرے گا اس کا حشر کعب بن اشرف اور
ابورافع یہودی ، راجپال ہندو، دیگر اور سلمان تاثیر جیسا ہوگا۔ اب حکومت
اور فاحشہ لوگ اس قانون میں ترمیم کا غم نہ کھائیں بلکہ 295-C کو مکمل طور
پر ختم کردیں۔ کیونکہ اسکی موجودگی میں توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے
واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جب قانون نہ ہوگا تو اہل ایمان کے لیئے تھانے اور
عدالتوں کے تکلفات کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔جہاں جس نے زبان درازی کی کیفر
کردار کوپہنچا۔ رہی بات یہ کہ حکمران اور جج سزائے موت دیں گے ۔ یہ کوئی
نئی بات نہ ہوگی کیونکہ اسلامی ہند پر کافرانہ قبضے کے بعد گستاخیوں میں
اضافہ ہوا ۔ ملعونوں کو واصل جہنم کرنے والے عاشقانِ رسول شہادت کے مرتبے
پر فائز ہوتے رہے ۔پاکستان بننے کے بعد کفار کے غلاموں کی حکمرانی میں بھی
وہی کچھ ہوا کہ خبیث گورنر پنجاب کو واصل جہنم کرنے والے غازی ملک محمد
ممتاز حسین قادری کو شہید کردیا گیا۔ اصل ملزمہ ابھی تک زندہ ہے۔اس ملک کے
حکمرانوں اور عدلیہ سے پوچھا جائے کہ تم عمل درآمد کروگے یا ہم کریں گے۔
ناموسِ رسالت کا معاملہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے ۔ مسلمان اپنا سب کچھ
اور جانِ عزیز جانِ ایمان آقا کریم شافع یومِ جزا ﷺ پر قربان کرنے کو حق
سمجھتا ہے۔ حکمران فی الفور اس قانون کو ختم کریں تاکہ عاشقانِ رسول کا
راستہ صاف ہوجائے ۔ |