حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ “ تو اللہ
سے رزق مانگے یا نہ مانگے“ تیرے نصیب کا رزق تیرے پاس دوڑا چلا آئے گا“۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک جب ایک زاہد اور عابد نے سنا تو
اسنے سوچا کہ اس ارشاد اقدس کو آزمایا جائے۔ وہ اپنا گھر چھوڑ کے ایک سنسان
بیابان میں چلا گیا۔ جہاں نہ پانی تھا۔ اور نہ ہی کچھ کھانے کو تھا۔ وہ ایک
پہاڑٰ کے دامن میں تھوڑٰی سی جگہ بنا کے لیٹ گیااور سوچنے لگا اللہ مجھے
یہاں کیسے رزق عطا فرمائے گا؟
ابھی اسے وہاں لیٹے کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی کہ ایک قافلہ بھول کر ادھر آنکلا۔
انہوں نے دیکھا یہ آدمی پہاڑی کے دامن میں دنیا مافیہا سے انجان یہاں پڑا
ہے۔ ان سب کو بہت حیرانی ہوئی کہ اس انسان کو کسی جانور کا بھی کوئی خوف
نہیں ؟ معلوم نہیں زندہ بھی ہے یا نہیں۔ قافلے میں سے ایک آدمی نے اسے آگے
آکر ہلایا جلایا مگر وہ جان بوجھ کر نہ اٹھا، بلکہ ہلکی سی جنبش بھی نہیں
کی۔ اسکی یہ حالت دیکھ کر قافلے والوں کو اس پر بہت ترس آیا۔ وہ سمجھے کہ
یہ بہت دنوں کا بھوکا پیاسہ یہاں پڑا ہے اور مارے نقاہٹ اور کمزوری کہ اسکا
یہ حال ہو گیا ہے انہوں نے اسکے کھانے کا انتظام کیا اور نوالے بنا بنا کر
اسکے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی، مگر اسنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد
کی سچائی جاننے کے لئے منہ زور سے بھینج لیا۔
قافلے والے اسے کھانا کھلانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ وہ سمجھے کہ یہ بھوک
کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ اگر کچھ نہ کیا گیا تو یہ مر جائے گا۔
قافلے میں ایک عقلمند شخص بھی تھا۔ اس نے انہیں مشورہ دیا کہ چھڑی کی مدد
سے منہ کھول کر اس مٰیں نوالے ڈالے جائیں۔ عابد زاہد نے جب چھڑی کا سنا تو
وہ ڈر گیا۔ مارے خوف کے فورًا منہ کھول دیا۔ ان لوگوں نے اسے کھانا کھلانا
شروع کیا اور تب تک کھلاتے رہے جب تک وہ حلق تک نا بھر گیا۔ اس عابد زاہد
نے اپنے دل سے کہا “ اے دل! اگر میں اپنے جسم کو بے جان کئے لیٹا ہوں مگر
حقیقت تو تجھ پر ظاہر ہوگئی ناں؟
دل نے جواب دیا “ ہاں! میں نے فقط یہ آزمائش اس لئے کرائی کہ تو کبھی بھی
توکل سے منہ نہ موڑے۔ یاد رکھنا لالچ اور حوس بلکل گدھاپن ہے۔“ اسکے بعد اس
شخص نے توبہ کر لی اور یہ بات مان لی کہ ہر کسی کو اپنے اپنے نصیب کا رزق
مل کر رہتا ہے۔ دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام ۔
حکایت رومی:
|