ٹیم ورک ۔ ہمارے اکابر علماء کرام کی خوبی ہے

ایک ٹیم کے ساتھ کام کرنے ، دوسروں کے ساتھ ہاتھ بٹانے اور کسی کے بقیہ کام کی تکمیل کو ٹیم ورک کہاجاتا ہے،ٹیم ورک سے کئی اہم مقاصد کی تکمیل میں آسانی ہوتی ہے، مثلا کام میں نکھار پیدا ہوتا ہے، کام تیزی کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، کم وقت میں زیادہ کام ہوتا ہے ،کام میں پختہ مہارت حاصل ہوتی ہے اور اعلی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔یہ ساری خوبیاں انفرادی کام میں مفقود ہوتی ہی

اگر کوئی عالم دین تمام نیکی کے کام انجام دے اوراس میں ہر اچھی خوبی پائی جائے تو بیشک ایسا عالم دین ایک ممتاز اور قابل قدر عالم ہے، لیکن علمی تحریک کی ترقی اور امت کی بیداری کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ علم اور امت؛ اجتماعی کوششوں اور سرگرم توانائی کا تقاضا کرتے ہیں، اور اس تقاضے کی تکمیل اُسی وقت ممکن ہے ، جب ایک عالم دین دیگر علماء کے ساتھ ہاتھ بٹائے اور علم میں اپنے ہم عصر علماء اور سابقین کی کوششوں پر سنجیدگی کے ساتھ نظر رکھے۔

ایک ٹیم کے ساتھ کام کرنے ، دوسروں کے ساتھ ہاتھ بٹانے اور کسی کے بقیہ کام کی تکمیل کو ٹیم ورک کہاجاتا ہے،ٹیم ورک سے کئی اہم مقاصد کی تکمیل میں آسانی ہوتی ہے، مثلا کام میں نکھار پیدا ہوتا ہے، کام تیزی کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، کم وقت میں زیادہ کام ہوتا ہے ،کام میں پختہ مہارت حاصل ہوتی ہے اور اعلی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔یہ ساری خوبیاں انفرادی کام میں مفقود ہوتی ہیں۔

ہمارے اکابر علماء کرام کے نزدیک ٹیم ورک کی اہمیت تھی، انھوں نےتمام میدانوں میں علمی زندگی کو ترجیح دی اور ملی، تہذیبی اورثقافتی انقلاب برپا کیا۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ٹیم ورک کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، آپ کے مسلک کا چرچا ہوچکا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ حماد بن سلیمان کے تعلیمی حلقے میں حاضری دیتے تھے، اپنے شیخ حماد کی وفات کے بعد ان کے تعلیمی حلقے کی ذمہ داری آپ نے خودسنبھالی توحماد کے شاگرد پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علمی چشمے سے سیراب ہونے لگے،لیکن اب اپنے حلقے میں مسائل کے حل کرنے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا طریقہ کار خاص تھا، آپ درس کے آغاز سے ہی مسئلے کی وضاحت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اپنے طلباء کی ٹیم کے حوالے وہ مسئلہ کردیتے تھے، پھر ہر شاگرد اس مسئلے پر اپنی رائے دیتا تھا، امام صاحب ان سب کی رائے کو جمع کرتے تھے اور پھر ان پر بحث کرتے تھے اور اخیر میں جو حل زیادہ مناسب اور صحیح ہو اس کو ہری جھنڈی دکھاتے تھے، اس اجتماعی عمل سے علمی کام میں حُسن پیدا ہوتا تھا اور افضل سے افضل ترین حل تک رسائی ہوتی تھی۔

موسی بن شاکر کے فرزندان کی مثال : ٹیم ورک کی اہمیت ہمارے اکابرین کےنزدیک صرف شرعی علوم تک محدود نہیں رہی ، بلکہ لائف سائنس میں بھی انکا یہی طریقہ کار رہا ہے، عباسی خلیفہ مامون کے زمانے میں کرہ ارض کی پیمائش کے لیے مسلم علماء نے پہلی کامیاب کوشش کی تھی، اس کوشش میں علماء کی دو ٹیموں نے حصہ لیا تھا، اس میں موسی بن شاکر کے فرزندان کی ایک ٹیم تھی، اس سلسلے میں مستشرق نلینو کہتا ہے : عرب مسلمانوں کا کرہ ارض کی پیمائش کا کام پہلا کام ہے، جسے طویل مسافت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے براہ راست طور پر انجام دیا گیا، اور اس کام کو عرب مسلمانوں کی ایک بڑی ٹیم نے انجام دیا ،یہ عربوں کا ایک عظیم سائنسی کارنامہ ہے۔ (علم الفلک عند العرب)۔ علم ہندسہ اورمیکانزم کے موضوع پر لکھی گئی کتاب "الحیل" موسی بن شاکر کے فرزندان کی اجتماعی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے، یہ کتاب ٹیم ورک کی روح کو اجاگرکرتی ہے، اس کتاب میں جگہ جگہ آپ کو اس طرح کی عبارتیں دکھائی دیں گی "ہم چاہتے کہ اس مسئلے تک پہنچ جائیں"، اسی کی ہمیں کھوج تھی، اور اس کتاب میں زیادہ ترعربی زبان کے وہ صیغے استعمال کیے گئےہیں جن میں میں کے بجائے ہم کا استعمال ہوتا ہے جو اس ٹیم کی اجتماعیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، جیسے"ہم بیان کرتےہیں"، ہمارا کہنا ہے، ہم چاہتے ہیں، اس طرح کے الفاظ اجتماعیت اور ٹیم ورک کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ابن خلکان موسی بن شاکر کے فرزندان کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ تین بھائی تھے، جنھیں قدیم علوم کو حاصل کرنے کا بڑا حوصلہ تھا، انھوں نے ان علوم کو حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کیں، حتی کہ روم تک سفر کیا اور دور دراز سے علوم وفنون کی کتابیں جمع کیں اور حکمت ودانش کے رازوں کو کھولا۔ (ابن خلكان: وفيات العيان 6/161)۔ دراصل یہ ان تینوں بھائیوں کی ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔

ابن رشد اور ابن زہرکو میدان طب ومیڈیکل کے ماہرین کہاجاتا ہے، الکلیات ابن رشد کی طب کی مشہورکتاب ہے، اس کتاب میں اس نے علم طب کے نظریات اور علم امراض کی بنیادوں اور اصولوں کو جمع کیا ہے، اس نے جب اس کتاب کی تالیف کی تو اسے اس کتاب کی تکمیل کے لیے ایک اور کتاب کی ضرورت محسوس ہوئی،اس کے لیے ابن رشد نےاندلس کے مشہور طبیب ابن زہرکا رُخ کیا،یہ دونوں آپس میں دوست تھے،لہذا ابن رشد نے ابن زہر سے اپنی کتاب کی تکمیل کے لیے ایک اور کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی، ابن زہر نے دوست کی اس خواہش کی تکمیل کی اور "التيسير في المداواة والتدبير" نام سے ایک عظیم طبی انسائیکلوپیڈیا تیار کرلیا۔(عيون الأنباء في طبقات الأطباء 3/320،319)

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ ہمارے ملک کی ایک عظیم شخصیت ہے، علامہ سید سلیمان ندوی آپ کے شاگرد خاص تھے، استاد وشاگرد کی اس جوڑی نے سیرت کے موضوع پر اردو زبان میں ضخیم ومفصل اور مایہ ناز کتاب لکھی،لیکن اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی علامہ شبلی کی وفات ہوگئی تو آپ کے شاگرد خاص علامہ سید سلیمانی ندوی نے اس عظیم کام کی تکمیل کی اور یہ کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عنوان سے آج ہمارے کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

یہ اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو ٹیم ورک کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں، نہ صرف شرعی میدان میں بلکہ ہمارے اکابرین نے ہر میدان میں ٹیم ورک یعنی اجتماعی عمل کے نظریے کو اختیار کرکے اُمت کی ترقی، بیداری اور خوشحالی کے لیے کوششیں کیں،ان کی ان ہی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں اُمت کا چراغ روشن ہوا ۔آج بھی ہمیں اُمت کی بیداری، ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر میدان میں ٹیم ورک کے ذریعےکام کرنے کی ضرورت ہے، جس میں برکت بھی ہے اور خیر بھی۔

Mubassir Ur Rahman Quasmi
About the Author: Mubassir Ur Rahman Quasmi Read More Articles by Mubassir Ur Rahman Quasmi: 7 Articles with 18937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.