منگل 25 اپریل کو شوکت خانم کینسر اسپتال پشاور میں تقریب
سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے انکشاف کیاکہ پاناماکیس میں خاموشی اختیار
کرنے کیلئے نواز شریف نےانہیں 10ارب روپے کی آفردی تھی۔ بقول عمران خان کہ
اگر نواز شریف مجھے اتنے پیسےکی پیشکش کرسکتے ہیں توباقی اداروں کو کتنے
پیسوں کی آفر کریں گے؟ دوسری طرف ایک اور خبر یہ تھی کہ 26 اپریل کو پیپلز
پارٹی کے سابق کرپٹ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ کی طرف سے
دی گئی نااہلی کی سزا کی معیاد ختم ہوگئی تو پیپلز پارٹی کے جیالو ں نے جشن
منایا ،مٹھائی تقسیم کی کہ یوسف رضا گیلانی اب دوبارہ کرپشن کرسکیں گے۔
عمران خان کا کہناتھاکہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پرہم نے مٹھائی
اس لئے بانٹی کہ ہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار احتساب سے بھاگنے والے
ایک طاقتوروزیراعظم جس نے پولیس، بیوروکریسی سمیت تمام اداروں پر قبضہ کر
رکھا ہے، کی تلاشی کیلئے اپنی جدوجہد میں سرخرو ہوئے ہیں، ہمارا نکتہ نظر
ثابت ہوچکا ہے البتہ نواز لیگ کی طرف سے مٹھائیوں کی تقسیم سمجھ سے بالا تر
ہے۔چھپن دن کے بعد پنامہ کیس کا جو بھی فیصلہ آیا ہے اس کو کسی بھی زاویے
سے پڑھ لیں اس کا صرف ایک ہی مطلب نکل رہا ہے کہ نواز شریف ایک قومی مجرم
ہیں جو ملک سے پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے جہاں انہوں نے مہنگے ترین فلیٹ
خریدئے اور اپنے بیٹوں کو کاروبار سیٹ کرنے میں مدد کی، اس لوٹ کھسوٹ میں
انکی صابزادی مریم نواز بھی شامل ہیں۔
ایک مثال دی جاتی ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے جج نہیں، اور یہ بات سپریم
کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے پانچوں جج صاحبان نے ثابت کردکھائی ، فیصلے میں
پانچوں جج متفق پائے گئے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی بےگناہی ثابت نہیں
کرسکے، اور نہ ہی ان کے بچوں کے دلائل ان کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں۔ دو
سینیر ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے صاف الفاظوں میں لکھا ہے
کہ’’وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں رہے‘‘، جبکہ تین ججوں نے کہا
کہ ابھی ہم نے نا اہلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک کمیشن بنایا جائے، اور 60
دنوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے پاناما کیس کا
فیصلہ ماننے سے انکار کردیا اور وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کردیا، آصف
زرداری کہتے ہیں جب عدلیہ فیصلہ نہیں کرسکی تو گریڈ انیس کے افسر کیا کریں
گے۔اسلام آباد میں چیرمین پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ
پریس کانفرنس کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے سوال کیا کہ’’لوگ کس بات کی
مٹھائی بانٹ رہے ہیں؟‘‘، کیا اس بات کی مٹھائیاں کھلائی جارہی ہیں کہ دو
ججز نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا ہے؟۔ سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے
کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے جمہوریت اور انصاف کو نقصان پہنچا جب کہ عمران
خان کے ڈرامے کا سب سے زیادہ فائدہ وزیراعظم کو پہنچا۔
اس فیصلے کے بعد آصف زرداری اور شدومد سے شریف برادران کے خلاف اپنی سیاست
چلارہے ہیں۔آصف زرداری آجکل شریف برادران کےخلاف کرپشن کی مہم چلا رہے
ہیں اور کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے اس لیے
انہیں اب استعفی دے دینا چاہیے۔ زرداری آجکل ویسی ہی تقریرں کر رہے جیسی
کسی زمانے پنجاب کے خادم اعلیٰ زرداری کے لیے کیا کرتے تھے، آج زرداری
عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کی پارٹی آئندہ الیکشن جیت کر
حکومت بنائے گی تو ـ’’شوباز‘‘کے پیٹ سے پیسہ نکلوائوں گا۔ دکھا تا ہے رنگ
آسماں کیسے کیسے کہ کل کے مسٹر 99 پرسینٹ کرپٹ انسان آصف زردای خود کو
ایماندار سمجھ رہے ہیں اوراپنے ہی کرپٹ بھائیوں کے کپڑئے اتار رہے ہیں۔شیخ
رشید کہتے ہیں وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں ملی ففٹی ففٹی پروگرام ہے ، پی ٹی
آئی چیئرمین کو کہا تھا قانون سازی کریں پھر عدالت جائیں، عمران خان کے
ڈراموں سے نواز شریف کو فائدہ ہوا لیکن ناتجربہ کار سیاستدان نے بات نہیں
مانی ۔ اب عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو پانامہ کیس پر خاموشی اختیار
کرنے کے لیے نواز شریف کی طرف سے کسی واسطے کے زریعے دس ارب روپے کی آفر
ہوئی تھی۔ عمران خان کے اس تازہ الزام کے لیے جب ثبوت مانگا گیا اور’نام
بتاؤ،نام بتاؤ‘ شور اٹھا تو عمران خان نے بتایا کہ آفر دو ہفتے پہلے
آئی، لیکن نام نہیں بتاؤں گا، کیونکہ جو بندہ آفر لے کر آیا وہ شہباز
شریف کے قریب ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے نئے الزام نے سیاسی میدان میں طوفان برپا کردیا،مسلم
لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان الزام
نہ لگائیں، ثبوت دیں، نام بتائیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار
ولی نے دلچسپ پیرائے میں کہا کہ کم از کم ارب میں الف اور عین کا فرق ہی
واضح کردیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کے دعوئے کو رد کرتے ہوئے کہا
کہ پھر سب اس بات پر بھی یقین کرلیں مجھے بیس ارب روپے ملے ہیں۔ وزیر
اطلاعات مریم اورنگ زیب کہتی ہیں کہ عمران خان کو اگر حکومت نے 10 ارب روپے
کی پیشکش کی تھی تو انہوں نے سپریم کورٹ کو کیوں نہیں بتایا۔ پیپلز پارٹی
کے سینیٹر سعید غنی بولے کہ الزام بہت سنگین ہے، کون آیاجو دس ارب کی آفر
لایا؟کس نے آفر بھجوائی؟کس کا پیغام تھا؟ عمران خان ہوا میں تیر نہ
چلائیں،سب سامنے لائیں۔عمران خان کے اس الزام پر سب سخت تبصرہ نجم سیٹھی نے
کیا جو کہتے ہیں کہ عمران خان کا دس ارب روپے کی پیشکش کا الزام تو الزام
ہی ہے،مجھے ان کے دعوے کی سمجھ نہیں آتی۔عمران خان سے ان کی باتوں کی
وضاحت بھی نہیں مانگی جاسکتی ہے، عمران خان اس بارے میں کچھ تفصیلات تو
بتائیں کہ ان کے پاس دس ارب روپے کی آفر لے کر کون آیا اور انہیں کیسے
پتا تھا کہ اسے نواز شریف نے بھیجا،اب عمران خان پینتیس دفعہ اس بات کا ذکر
کریں گے اور یہ پینتیس پنکچر بن جائیں گے۔ عمران خان کو یہ الزام لگانے سے
پہلے سو دفعہ سوچنا چاہیے تھے کہ اگر آپ دس ارب روپے آفر کرنے والے کا نام
نہیں بتا سکتے؟ اور آگر آپ یہ ثابت ہی نہیں کر سکتے کہ آپ کو دس ارب روپے
کی آفر ہوئی ہے،تو یہ بات کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی تھی، یہ بات کرکے آپ
نے اپنا ہی سیاسی نقصان کیا ہے ۔
نواز شریف کے بارئے میں اب ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ ایک مجرم وزیر اعظم
ہیں لیکن ان کو ہٹانے کے لیے زرداری کے پاس اسٹریٹ پاور نہیں ہے اور بقول
شیخ رشید عمران خان کے ڈراموں نے نواز شریف کو فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ
عمران خان ایک ناتجربہ کار سیاستدان ہیں۔عمران خان 2014 سے نواز شریف کا
پیچھا کررہے ہیں، اپنے 126 دن کے طویل دھرنے میں انکو کامیابی یوں نہیں ملی
کہ ان میں تہمل بلکل نہیں ہے۔ ایک دن وہ کپتان کی انگلی اٹھواتے تھے تو
اگلے دن لوگوں کو سول نافروانی کا کہتے تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اتنے طویل
دھرنے میں کامیاب ہونے بجائے اپنے اوپر ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام
لیکر اٹھے۔پاناما سے متعلق گذشتہ سال سے شروع ہونے والی اس لڑائی کا عدالتی
فیصلہ کچھ اور آیا ہوتا تب بھی نوازشریف کے مخالفین اپنے الزامات سے کبھی
بھی سبکدوش نہ ہوتے۔جبکہ نواز شریف کے حامی پہلے بھی ان کو فرشتہ سمجھتے
تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں شخصیت کی پوجا کی
جاتی ہے۔ ویسے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معروف ناول ’’گاڈ فادر‘‘ سے ایک
اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا
ہے‘‘۔ جو ایک حقیقت ہے۔ انتظار کریں کہ اگلے 60 دن بعد جے آئی ٹی سے کیا
برآمد ہوتا ہے۔
|