فداسدفاسدفدسفاد

حضرت نوح ؑ ایک کیسی کشتی بنائی وہ آج بھی ترکی کے ایک پہاڑ موجود ہے ۔حضرت نوحؑ نے اپنے قوم اسلام کی دعوت دی لیکن ان کی قوم ان کو ستایا۔اوراب رب تعالیٰ نے آپ کو ایک زبردست اورسرکش طوفان کے آنے کی خبردی تاکہ نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزادی جاسکے اور ساتھ ہی حکم بھی دے دیا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو غرق ہونے سے بچانے کے لئے ایک کشتی تیار کیجئے۔چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کشتی تیار کرنے میں لگ گئے ۔قوم کے لوگ آتے جاتے آپ کو کشتی بنا تے دیکھتے تھے انہیں حیرت بھی ہوتی اورآپ کا تمسخر بھی اڑاتے(کہ آس پاس نہ دریا نہ سمندر تو پھر اس میدانی خطہ میں کشتی کیکیا ضرورت؟اور پھر ہونے کا کیا جو کشتی بنانے بیٹھ گئے)اور کہتے کہ ،اچھا ! یہ ہے وہ کشتی جو آپ کو اورآپ کی قوم کو بچانکلے گی اور یہ سن کر وہ اور بھی زیادہ مذاق اڑاتے کہ انہیں نافرمانی کی سزا ملنے والی ہے جو بصورتِ طوفانی سیلاب ہوگی ،جو آسمان سے اگلے بر سے گا اور زمین سے الگ پھوٹے گا،گر دو پیش کا جائزہ لیتے تو اس کا وقوع محال نظر آتا تو پھر ان کے دانت اور بھی زیادہ کھل جاتے ۔

لیکن آپ بھی ان کی حق سے غفلت اورحماقت و بلادت پر ہنستے کہ یہ لوگ خود کو عذاب خدا سے بچا نے کے لئے کچھ بھی تو کرنے کو تیار نہیں (حق سے دور ،اتباع سے گریزاں بت پرستی پر پکے ،ہدایت سے متنفر ،نافرمانی کے رسیا ،دلائل کے منکراور پریشان سوچوں کے پیرو کار ہیں) آپ بھی انہیں عذاب خدا سے خوب ڈرانے لگے۔

کشتی تیار!!:بلا ٓخر کشتی تیار ہوگئی ،عذاب خدا کا وقت موعود بھی آپہنچا جس کا اندازہ آپ نے اس علامت سے لگا لیا جو خدا نے آپ سے بیان کی لتھی اور جس کی کسی دوسرے کو خبرنہ تھی وہ یہ کہ آپ کے گھر والوں کا وہ تنور جس میں روہ روٹیاں لگاتے تھے اس میں سے پانی ابلنے لگا،خدا نے حکم بھیجدیا کہ اب آپ اس کشتی میں اپنے خاندان کے سب لوگوں کو اور ہر قسم کے جانوروں اور پرندوں میں جوڑا جوڑا لے کر اس کشتی میں سوار ہوجائیے۔اور قوم کے ایما ن لانے والوں کے ساتھ لے لیجئے جوتھوڑے ہی تھے کسی نے ان کی تعداد چھ اور کسی نے چالیس بتلائی ہے۔البتہ اس کشتی میں آپ کی ایک بیوی سوارنہ ہوئی جو نا فرمانوں کے ساتھ تھی۔جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو آسمان نے اپنے دہانے کھول دیئے اورزمین نے اپنا سینہ کھول دیا۔جا بچا چشمے ابل پڑے،سطح آب بلند ہونے لگے،رفتہ رفتہ پانیوں نے کشتی کواٹھالیا اور جب تک خدانے چاہا کشتی پانیوں کے سینوں پر چلتی رہی یہاں تک کہ طوفان نے کائنات ارضی کو غرض کردیا اور اس پر بسنے والا کوئی انسان اورحیوان باقی نہ رہا۔پھر یہ کشتی کوہ جودی پر جاکر ٹھہر گئی۔جو جبال ار اراط کے سلسلہ کی ایک پہاڑی تھی۔(زمین کا چپہ چپہ غرق ہوتا جارہا منکرین میں افرا تفری مچی ہے سب لوگ جان بچانے کو ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں کوئی جائے پناہ نظر نہیں آتی)انہیں نافرمانوں میں پسر نوح بھی ایک طرف ضد اور عصیان کا پیکربن کر کھڑا ہے اور سر پر ناچتی موت اور ہلاکت دیکھ کر بھی عبرت ونصیحت کی آنکھ کھولنے کو تیار نہیں۔چنانچہ جب آپ کشتی میں سوار ہونے لگتے تو پدرانہ شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا بیٹے ! میرے ساتھ کشتی میں چلا آ،ان نافرمانوں کا ساتھ مت دے۔مگر اس سرکش بیٹے نے باپ کی شفقت کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے فلاح ونجات کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ دراصل اسے ابھی تک تک اپنے باپ کی اس وعید پر پورا یقین ہی نہ تھا کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کشتی میں سواریہ معدودے چند لوگ توبچ جائیں گے اور یہ اتنی بڑی دھرتی اور اس پر بسنے والے ان گنت انسان اورحیوان ہلاک ہوجائیں گے۔؟اس لیے اس نے بڑے و ثوق سے کہا گھبرا ئیے نہیں ! کچھ ہونے والا نہیں! آخر یہ طوفان کہاں تک چڑھے گا؟ریگستان ،نخلستان ،درے ،جنگل ،گھاٹیاں ،ودایاں ،پہاڑیاں،آخر کس کس چیز کو یہ طوفان ڈبوئے گا میں سامنے پہاڑی سے جالگو ں گا اور بچ ہی جاؤں گا ۔لیکن افسوس کہ پسر نوح رب کی قدرت کوسمجھ نہ سکا اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں جاپڑا ۔بیٹے کی سفارش:رب تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے اس بات کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے گھر والوں کو اس طوفان اورعذاب سے نجات دے گاتو آپ نے رب کی جناب میں اپنے بیٹے کی نجات کے وعدے کی تکمیل کی درخواست کی اور اس کے لئے سفارش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے یہ بھی میرے گھر والوں میں شامل ہے۔اور آپ کا وعدہ سچا ہے اور آپ سب سے بڑے حاکم ہیں۔رب تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس سفارش کو منظور کرنے سے انکار کردیا کہ اسے اپنے گھر والوں میں شمار مت کیجئے اور اس بات پر عتاب فرمایا کہ جس بات کا علم نہ ہو اس کی بابت سوال مت کیجئے! بات یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ بات جان لینی چاہے تھی کہ یہ وعدہ کشتی سے باہر رہ جانے والوں کے لئے نہیں۔یہ سمجھتے ہی حضرت نوح علیہ السلام نے فوراً توبہ کی غلطی کا اعتراف کیا اوررب تعالیٰ سے رحمت ومغفرت کو طلب کیا۔غرض کشتی اپنی مدت پوری کر کے جو خدا کے ہاں طے تھی کوہ جودی پرجا ٹکی جو’’دیارِبکر‘‘میں ہے اور حکم خدا سے کشتی سے اترے ،رب تعالیٰ نے آپ کے اتر نے کو مبارک بنایا اور زمین تباہ وبرباد ہونے کے بعد ایک بارپھر آباد ہوئی خدا نے آپ کی نسل کو بے پناہ پھیلا یا۔یادر ہے کہ کشی میں سوار ہونے والوں میں سے صرف آپ کی اولاد کی نسل ہی آگے چلی (اس لئے آپ کو آدم ثانی بھی کہتے ہیں) اس بات خود خدانے قرآن میں بیان فرمایا ہے کہ ہم ان کی نسل کو ہی باقی رکھا۔

کوہِ جودی کہاں ہے ؟
یہ دیارِ بکر(جو دجلہ اور فرات کے درمیان ہے اوربغداد تک مسلسل چلاگیا ہے۔)کے نواح میں بلادِ الجزیرہ میں ہے۔یہ علاقہ جبالِ آرمینیا کے متصل ہے۔صاحب القاموس المحیط لکھتے ہیں:جودی ،الجز یرہ کا ایک پہاڑ ہے جس پر سفینۂ نوح آکر ٹھہرا ،تورات میں اس پہاڑ کانام’’اراراط‘‘ہے۔

کشتی نوح کا حجم
قرآن کریم نے کشتی نوح کی لمبائی چوڑائی ،اونچائی اور گہرا ئی کی بابت کوئی گفتگو نہیں کی بس اتنا بتلایا ہے کہ وہ بھری ہوئی تھی اورتختوں اور کیلوں والی تھی،البتہ تو رات میں اس کی قدرے تفصیل آتی ہے۔

عمر نوح ؑ
قرآن کریم بتلاتاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نوسو سال اپنی قوم میں دعوت الی اﷲ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے جبکہ تورات نے نو سوتیس سال کا عرصہ بتلایا ہے،تورات یہ بھی بتلاتی ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے حیاتِ مستعار کی چھ صدیاں بیتالیں تو ساتویں صدی کے پہلے سال میں قدم رکھتے ہی طوفان آگیا۔حضرت نوح علیہ السلام کے علاوہ بھی دیگر متعدد پیغمبروں کو بڑی لمبی لمبی عمریں ملیں۔

ایک زمانہ گزرگیا ہے کہ اب انسانوں کو اتنی لمبی طبعی عمریا اس سے نصف بھی نہیں ملتی بلکہ اس کی چوتھائی عمر ملنا بھی اب تعید ازقیاس اورخلافِ عقل لگتا ہے،فراعنۂ مصر کی ملنے والی ممیاں بتلاتی ہیں کہ ان کے جسم ،ڈبل ڈول ،قد کاٹھ ،ہمارے ہی جیسے تھے اوران کی عمریں بھی ہمارے جتنی تھیں ،اور یہ فقط چار ہزار سال پرانی لاشیں ہیں یہ تاریخی شواہد بتلا تے ہیں کہ آج سے چند ہزار قبل تک اتنی طویل عمریں نہیں ہوا کرتی تھیں۔پھر حضرت نوح علیہ السلا م کی اتنی طویل عمر کیو نکر ہوئی۔

»اﷲ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مشرک قوم کی طرف مبعوث کیا مگر مسلسل کفر کی وجہہ سے اﷲ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا پھر ایک عظیم طوفان سے پوری دنیا کے کفار ہلاک کردے گئے ۔اور یہ کشتی کوہِ جودی پہاڑ پر آ کرٹک گئی یہ کشتی آج کہاں ہے۔اور اس کی اصل حقیقت کیا ہے آج سے کم وہ بیش 50سال قبل جب ترکی کے ایک پہاڑ پر مہم جوتوں نے اس کشتی کو دریافت کر کے اس کی تصاویر اخبار ات میں جاری کئے تو پوری دنیا میں یہودی ،عیسائی اور نام نہاد روشن خیال بحریوں کے درمیان ایک بڑی بحث کا آغاز ہوا ۔کشتی کا انکار کرنے والو نے بہت ہی اہم اعتراض اُٹھا ئیں جس کا تسلی بخش جواب دینے میں یہوداور عیسائی نہ کام رہے لیکن قرآن میں ان اعتراضات کا تسلی بخش جواب موجود ہے۔انکار کرنے والے بحریوں نے پہلا اعتراض یہ اُٹھایا ۔کہ بغیر کسی ٹیکنالوجی(Technology)کے چھ ہزار سال قبل اتنی عظیم الشان کشتی بنانا نہ ممکن ہے جو مہینوں تباہ ہوئی بغیر سمندر میں اتنا وزن لیکر سفر کرسکیں۔قرآن کی سورہ قمر میں اسکا تسلی بخش جواب اس طرح دیا ہے کہ’’اور ہم نے نوح کو ایک کشتی میں سوار کیا تھا جو تختوں اور کیلو سے تیار کی گئی‘‘۔(سورۃ القمر آیت نمبر13)حالیہ تحقیقات کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلو اور تختوں کے اثار ملے۔پھر انکار کرنے والوں نے دوسرا اعتراض یہ کیا کہ۔یہ کیسی ممکن ہے کہ چھ ہزار سال قبل اتنی بڑی کشتی بنائے جائے جس میں دنیا جہاں کے جانور وں کے جوڑے سوار ہو۔لیکن قرآن نے سورہ ھود میں یوں بیان کیا’’اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو (سورۃ ہود آیت نمبر40)اب حالیہ تحقیقات سے قرآن کے اس انکشاف کی بھی تصدیق ہوگئی کہ کشتی نوح کوئی معمولی کشتی نہ تھی وہ تین منزلہ تھی۔جن میں جانوار ترتیب وار سوا ر تھے۔اوراتنی بڑی تھے کہ اس میں 522ریل کے ڈبے سوار کئے جاسکتی ہیں۔اس میں کم و بیش 25ہزار جانو روں کی جگہ موجود ہے ۔اوراُن بحریوں نے تیسرا اعتراض یہ اٹھایا کہ اتنے عظیم الشان طوفان میں اتنی عظیم الجسہ کشتی بغیر لنگروں کے مدد سے تیر ہی نہیں سکتی ۔لیکن اﷲ اس سے واقف تھا۔اسلئے اُس نے سورہ ھود میں فرمایا۔(اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجاؤ)اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اُسی کے نام سے اس کا لنگرانداز ہونا ہے۔(سورہ ہود آیت نمبر41)اور حیرت انگیز طورپر جس پہاڑ پر کشتی ٹہری ہوئی ہیں۔اسی پہاڑ کے نیچیں وادی میں بڑی بری چٹانوں پر مشتمل لنگر دریافت ہوئے ہیں یہ کشتی نوح کے لنگر ہیں ۔اور سب سے بڑا اور اہم اعتراض یہ اٹھا یاجاتا ہے کسی لکڑی کی کشتی کا چھ ہزار سال تک کسی پہاڑ کی چوٹی پر باقی رہنا نہ ممکن ہے اس اعتراض کا جواب بھی سورہ قمر میں یہ کہہ کردیا ہے کہ اورہم نے اس (کشتی کو آنے والوں کے لئے اپنی)نشانی بناکر چھوڑا ہے(سورہ القر آیت نمبر15)اور حالیہ تحقیقات سے یہ حیرت انگیز بات سامنے آئیں ہے ۔اس پُرے پہاڑی سلسلے میں برف اسی چوٹی پر ہیں جہاں اسی برف کی وجہہ سے محفوظ ہے۔


اسلامی تہذیب وتمدن کے بارے میں یورپی دانشور نے لکھا ہے کہ ’’عربوں نے صدیوں تک عیسائی قوم کی رہنما ئی کی اوریہ عربوں کا احسان ہے کہ ہم روم اور یونان کے قدیم علوم سے واقف ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تعلیم کے میدان میں عربوں کی تصنیفات کواپنی زبان میں منتقل کر کے۔اس سے فائدہ اٹھایا۔اور ایک یورپین جس نے اپنی کتاب تاریخ سائنس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ گیارہویں صدی عیسویں میں علم وحکمت کاحقیقی ارتقاء مسلمانوں کے کارہنِ منت ہے۔اسی طرح سے رابر بریفولٹ نے اپنی کتاب میکنگ آف ہیومینٹی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ موجودہ دنیا پر اسلامی علوم وفنون کا بڑا احسان ہے۔عربوں نے علم کے تمام چشموں سے علم سے ہم کو فیضیاب کیا۔

آج سے کئی صدیوں پہلے یوروپ ایک پس ماندہ ملک تھا لیکن آج پوری دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے ۔اگر ہم یورپ کی تاریخ کواُٹھا کر دیکھیں گے تو ہم کوپتہ چلے گا کہ اصل میں یورپ کی ترقی کے پیچھے چھپے ہوئے ہم ہی ہیں جب اندلس(اسپین) کو ایک مردِ مجاہد طارق بن ضیاد نے فتح کیا تو مسلمان علماء ،دانشور،سائنسدانوں نے یہاں پر اشاعت اسلام کا مرکز قائم کیاا ور علم کاچراغ روشن ہونے لگا تو دنیا بھر سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیاکرتے تھے۔اوریہاں یوروپ سے بھی طالبِ علم تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ہم معلم تھے اور سب طالبِ علم تھے ۔

اور جب اندلس(اسپین) میں زوال کا وقت آپہنچا تو جب تک یورپ ایک معاشی قوت بن کے اُبھرنے لگا۔اوراندلس میں مسلمانوں کو شکست ہونے کے بعد یورپ کا ایک حصہ بنا اور آج بھی اندلس میں ہماری تعمیرات مساجد(خاص کر کے مسجد قرطبہ) ایک شاندار اور دلچسپ تعمیر کردہ آج بھی موجود ہے۔

لیکن افسوس درافسوس ہم ہماری تاریخ کے بارے میں ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
کس دور پہ نازاں تھی دنیا اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
غیروں کی کہانی یاد رہی ہم اپنا فسانہ بھول گئے

اصل میں ہم اپنی تاریخی واقعات کو بھلا بیٹھے ہیں اسلئے درد ر کی ٹھوکر یں کھارہے ہیں۔لیکن یوروپ نے ہمارے سائنس دانوں کے ذریعہ ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کارنامہ انجام دیا جو مسلمان سائنسدانوں نے اُس کی بنیاد ڈالی تھی ۔

ہمارے مسلمان سائنسدانوں کی بیشمار کتابیں کابہت سالوں پہلے ا یورپ کی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔آج بھی یوروپ کی یونیورسٹیوں میں وہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔مسلمان سائنس دانوں کے وہ ایجادات آج بھی موجود ہے۔

’’ابن الہیشم نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کیمرہ ایجاد کیا اور انہوں نے سائنسی دنیا میں ایک ایسی کتاب لکھی جو پورے سائنس کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ان کی کتاب المناظر یورپ میں بھی اس کا ترجمہ کیاگیا ہے ۔اورایسے کئی مسلمان سائنسدانوں کی کتابوں کایورپ میں ترجمہ ہواہے۔اور ان کتابوں سے یورپ آج تک فیضیاب ہورہا ہے۔لیکن آج کے مسلمانوں کی بڑی محرومی ہے کہ وہ اس ۔سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔

سائنس مرہُونِ منت ہے ،تہذہبِ حجاز کی
قُرونِ وسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی وہ فصل اب تیار ہوچکی ہے ۔ اورموجودہ دور اُس فصل کی کاشت کرتے ہوئے اُس کے گوناگوں فوائدے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔مسلمان جب تک علم کی روِش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام اور مقتداء رہے جو انہیں علم سے غفلت برتی ثریات سے ز مین پر آسمان نے ہم کو دے مارا،آج ہم اس کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں اورآج ہمارے اسلاف کا سرمایۂ علمی وفکری اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

آج مغرب اس بات کا مسلمہ طور پر اقرار کرچکا ہے کہ جدید سائنس کی تمام تر ترقی کا انحصار قرونِ وسطیٰ کے مسلماں سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر قائم ہے ۔مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کرنے کی ترغیب قرآن وسنت کی تعلیمات سے حاصل ہوئی تھی۔یہی منشائے ربانی تھا جس کی تکمیل میں مسلمانوں نے ہر شعبۂ علم کو ترقی دی۔آج اغیار کے ہاتھوں ہی علوم نکتہ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔آج ہم اپنے اجداد کے سائنس کا رہائے نمایاں کی پیررو کرنے یا کم از کم فخر کرنے کے بجائے اس سے لاتعلق ہوئے ہیں۔

مذہب اور سائنس دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اسلام کی پیروی سے مذہب اور سائنس دونوں دینِ مبین کا حصہ ہیں ۔

سائنس کا دائر کار مشاہداتی اورتجرباتی علوم پر منحصر ہے۔جبکہ مذہب اخلاقی وروحانی اور مابعد الطیبعیاتی اُمور سے متعلق ہے سائنس انسانی غور وفکر اور استعداد سے تشکیل پانے والا علم ہے جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم ہے ۔اس لئے سائنس کا سارا علم امکانات پر مبنی ہے۔جبکہ مذہب کا سارا علم سراسر قطعی ہے اورمذہب کی ہر بات حتمی اوراَمر واجب ہے ۔

خالقِ کائنات نے اس کائنات میں کئی نظام بنائے ہیں اور کائناتی نظام کے حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمع نظر ہے ۔اورمذہب یہ بتاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ساری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔سائنس کی ذمہ داری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے پیدا کردہ عوالم اوراُن کے اندر جاری وساری عوامل کا مطالعہ کرے اورکائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوعِ انسان کی فلاح وبہبودی کے لئے استعمال کرے۔

سائنس ،مشاہدے اور تجربے کا دوسرا نا م ہے۔سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف مسلمان سائنس دان ابو البرکات صبغت اﷲ بغدادی ہیں۔جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات اوراُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور وفکر کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔خدائے بزرگ وبر ترنے اپنے محبوب نبی اکرمﷺ کے ذریعہ اپنے بندوں کو کائنات کے اسرار ورموز پر غور خوض کا جا بجا حکم دیا ہے۔

حضرت محمد ﷺ نے اسلام کو معجزات ہی کے دائرے میں رکھنے کے بجائے اُسے غور وفکر اور تجربہ اور تجزیہ کرنے کی نمایاں عقلی وفکری چھاپ عطا کی ہے ۔مذہب خالقِ Creatorسے بحث کرتی ہے اور سائنس اﷲ تعالیٰ کی پیداکردہ خلق سے (Creatim)اگر انسان ساری کائنات پرغور وفکر اورسوچ وبچارمثبت اورصحیح انداز ے کرتا ہے تو اس تحقیق کے کمال پر پہنچنا انسان کو اﷲ تعالیٰ یعنی خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور بے اختیار پکار اُٹھے گا۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذا بَا طِلَا،(اے ہمارے رب !تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ہے )۔(ماخوذ:یوسف حسین )

سائنس سے دور مسلمانوں کی بڑی محرومی
مسلمانون کے عروج وزوال پر دنیا کے متعدد انشور وں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔اور بیشتر کاخیال ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی سے قربت اورپھر دوری ہی ان کے عروج وزوال کاسبب بنی۔ہندوستان کے مختلف علمائے کرام اور دانشور حضرت نے بھی زوال اسلامی کے کیاسباب پرروشنی ڈالنے کی سعی بھی کی ہے ۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی :مسلمانوں نے وقت کی قدر نہ کی اور صدیاں ضائع کردیں برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوں کی مسافت برسوں میں لگایا۔مسلمان اپنی علمی روشن بھول گیا او ر مقلدانہ اورروایتی ذہینت کا شکار ہوگیا اور اس طرح سائنس اورٹکنالوجی میں پیچھے رہ گیا اورمغرب نے اسے غلام بنادیا۔

مولانا ابو الکلام آزاد:غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں ۔اب خدا کے لئے بستر ہوشی سے سراٹھا کردیکھئے کہ آفتاب کہاں پہنچ چکا ہے آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اورآپ کہا پڑے ہوئے ہیں۔(غبار طاظر،ابو الکلام آزاد)۔اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرانہ جائیں اور اس لئے ہے کہ اس چیز کو محسوس کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کہاں تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم از کم یہ تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے۔

مولانا شبلی نعمانی :آج(1909)ہندوستان میں موجودہ سلطنت اورپوروپین علوم وفنون کے اثر سے قوم کے خیالات میں معلومات میں عظیم الشان انقلاب پیدا کیاہے ۔ایسی حالت میں کیا وہ علماء قوم کی رہبری کرسکتے ہیں جوآج کل کی تحقیقات آج کل کے خیالات اورآج کل کے حالات میں محض ناآشنا ہوں
مولانا سلیمان ندوی:جدید علوم سے بے خبر علماء اسلام کی سچی خدمت انجام نہیں دے سکتے ہیں ،آج ہم ایک تماشائی بن کرزندہ نہیں رہ سکتے ہیں ۔

سرسید : فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں میں اور کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ﷺ کا تاج سر پر ۔

حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری:اسلام باتوں سے نہیں قائم ہوسکتا ہے۔اگر دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا ہے تو جدید علوم سیکھنے ہوں گے۔جب کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا تو وہ نہ دین کی خدمت کرسکتا ہے اور نہ دنیا کی ۔

سید وقار حسینی :مسلمانوں نے اٹھا رویں صدی علم کو دو حصوں بانت دیا ۔ایک علوم شریعہ اور دوسرے علوم عقیلہ ،عقلی علوم میں اقتصادیات اور سائنس کو شامل کرکے اسے نچلا درجہ دیاگیا۔وہ بھول گئے کہ قرآن کی روح سے عقلی علوم کو معنویت (Legitimacy)اہمیت اورفرضیت حاصل ہے ۔مزید یہ کہ تمام شرعی علوم بھی عقلی علوم ہیں کیونکہ جب سے مسلمانوں نے اس علمی روشن کو ترک کیا اور غزالی ،ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کی واضح تحریروں سے منہ موڑ ا سائنس ان کی سرزمین سے منہ موڑ گئی اور خودان کا مذہب بھی زوال اورانحطاط پذیر ہوگیا۔

آج سے کئی صدیوں پہلے یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں مسلمان اپنے عہد عروج میں یورپ کو علم وثقافت کے چشموں سے سیراب کیا ۔اندلس (اسپین ) جسے یورپ کا استاد کہا جاتا ہے جنہوں نے اندلس میں اعلیٰ درجہ کی جامعات قائم کی اور پھر علم ودانش کی ان یونیورسٹیوں سے یورپ فیضیاب ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کی علمی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا۔یورپ کے روشن دماغ،دانشور اور فضلاء تھے جنہوں نے تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کو روشن کرنے کیلئے مسلمانوں کے چراغ سے اپنا چراغ جلایا ۔آج یورپ کی تہذیب ہماری اقدار کو نظرانداز کرتی ہے لیکن مغربی تہذیب اور وہاں کی تمدنی ورثہ کا سہرا مسلمانوں کے سربند ھاجاسکتا ہے ۔اُس زمانہ میں مسلمان ہی علم کے قافلہ کے سالار اورتہذیب وتمدن کے سرمایہ دار تھے۔علم کی روشنی اندلس ،اٹلی سے ہوتے ہوئی یوروپ تک پہونچی اسپین میں بہت سے علمی مراکز قائم تھے۔ان علمی اداروں میں مسلمانوں کی مشہور تصنیفات کا لاطینی زبان میں ترجمعہ کیا جانے لگا ۔صرف مسلمانوں کے مشہور اسکالر کی کتابوں کے ترجمے نہیں ہوئے۔بلکہ یونا ن کی معروف ومشہور کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے جن کو عربوں نے اپنی زبان میں منتقل کیاتھا۔مسلمانوں نے نہ صرف قدیم یونانی ورثہ کی حفاظت کی بلکہ اس میں قابل ذکر اضافے کئے پورے یوروپ پر عربوں کا احسان ہے اورپانچ صدیاں یوروپ میں ایسی گذری ہیں کہ وہاں کی یونیورسٹیاں عربوں کی تصانیف کے سواد وسرے علمی تراجم سے واقف ہی نہ تھیں ۔گویا یہ مسلمان عرب تھے جنہوں نے یوروپ کو علمی ترقی کار استہ دکھا یا۔

MD Mushahid Hussain
About the Author: MD Mushahid Hussain Read More Articles by MD Mushahid Hussain: 19 Articles with 30801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.