ویسے تو میں کوئی لکھاری نہیں بس جو دل و دماغ میں آتا ہے
۔اس کو صفحہءقرطاس پر رقم کرنے کی سعی کرتا ہوں ۔ بہت ممکن ہے جو میں سوچتا
ہوں آپ اس سے متفق نہ ہوں ۔ دراصل میں معاشرے کا سرجن ہوں ۔جہاں ضروری ہو
سرجری کی وہاں وہاں سرجری کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اب سرجری میں تکلیف تو
ہوتی ہے ۔ لیکن مریض کی جان بچ جاتی ہے عین ممکن ہے بہت سے دوستوں کو میری
تحریر سے تکلیف پہنچے ۔ کیوں کہ ہم ذہینی غیر فطری ہے ۔ ہر شخص کی فکروسوچ
کا پہلو مختلف ہوتا ہے ۔ مجھے خبر ہے کہیں کہیں فتووں کی زد میں بھی آ جاؤں
گا ۔
کل میں نے مسجد میں ایک نمازی کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا جلدی جلدی نماز سے
فارغ ہو کر اس کی نماز کو دیکھتا رہا ۔ اس نمازی کے دونوں بازو کندھے سے
نہیں تھے ۔ دراصل میں کوشش کر رہا تھا کہ اس کا مسلک جان سکوں ۔ کیوں کہ
مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس نے ہاتھ کہاں باندھے ہیں ۔ناف پر یا سینے پر ۔ کیا
باندھے بھی ہیں یا نہیں ؟وہ رفع یدین کر رہا تھا کہ نہیں ؟اگروہ کسی دوسرے
مسلک کا ہوگا تو مسلمان نہیں ہوگا ۔ کیونکہ کہ ہر مسلک دوسرے مسلک کی نظر
میں کافر ہے ۔ کیونکہ نماز اللہ کی نعمتوں کا شکر ہے ۔اوروہ دونوں بازوں سے
محرومی کے باوجود اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا ۔مزید یہ کہ اس نے اپنی
معذوری کو عذر نہیں بنایا ۔ میں اس بات سے لاعلم تھا وضو میں اس نے بازو
کتنی بار دھوئے ۔ اتنے میں وہ نماز سے فارغ ہوگیا ۔ لیکن یہ کیا اس نے دعا
کے لیے ہاتھ بھی بلند نہیں کیے ۔ کیا اس کی دعا ہوگئی ۔ اب سوال یہ تھا کیا
اس کی نماز ہوگئی ؟میرا جواب ہے ۔ سب نمازیوں سے اس کی نماز افضل تھی۔ اب
بلاؤ مفتیاں ِشہر کو کہ فتویٰ دیں کہ وہ کافر تھا کہ مسلمان تھا ۔جن باتوں
پہ وہ کفر کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ وہ ایک بھی اس میں نہیں تھی ۔
اللہ مذہبی منافرت اور فروہی باتوں پر فتاوے بند کریں ۔ اور مساجد کو مسلک
سے پاک رکھیں وہ اللہ کا گھر ہے ۔ جس کا دل چاہے وہ نماز ادا کرے ۔ اس سے
کوئی بحث نہیں کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں ۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کلمہ
۔ختم نبوت پر ایمان۔ شرک سے پرہیز ۔نماز ۔وضو ۔ قیام ۔ رکوع۔سجود اور رخ
قبلہ رو ہو ۔ وہ مسلمان ہے ۔ اس کو حق ہے وہ کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرے
۔ |