ذرائع ابلاغ کو معاشرے کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔ 3مئی
کو عالمی سطح پر اس چوتھے ستون کا عالمی دن منا یا جاتا ہے ۔ عالمی یوم
آزادی صحافت کواقوام متحدہ نے 1993میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں طے کیا تھا
۔ اسی یوم کے حوالے سے نمیبیا میں اک سیمینار بھی منعقد ہوا۔ جس میں عوام
کی بات کو مختلف ذرائع سے حصول کے بعد آزادانہ انداز میں سامنے لانے کیلئے
عمل پر زور دیا گیا ۔ آزادی پریس کی اہمیت کو بڑھانے اور اسے جاری رکھنے
کیلئے تب سے اب تلک اس دن کو دنیا بھر کی صحافی برادری بھرپور اپنے انداز
میں مناتی آئی ہے ۔
وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں یکم مئی کو مزدور وں کا عالمی دن منائے جانے
کے بعد 3مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت کو منایا جاتا ہے ۔ مختلف سمینار ،
مذاکرئے ، مظاہرے اور تقاریب سمیت اس حق کے حصول کیلئے قراردیں بھی پیش اور
پاس کی جاتی ہیں ۔ ان صحافیوں سمیت اسی شعبے سے متعلق تمام ان افراد کو
حراج تحسین پیش کی جاتا ہے جنہیں اسی شعبے میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے
نتیجے میں اپنی زندگیوں کی قربانی دینی پڑی ۔ جنہیں قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کرنا پڑیں۔
شہر قائد میں بڑے نجی ٹی وی چینل کے صحافی فیض اللہ خان کا نام بھی انہی
صحافیوں میں شامل ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے انجام
دہی کے دوران قید و بند کے دن گذارے۔ چند برس قبل صحافتی سرگرمیوں کے سلسلے
میں انہیںافغانستان کی حکومت نے جیل سے رہاکیا تھا ۔ ان کی رہائی کیلئے شہر
قائد ہی کی نہیں وطن عزیز کے سبھی صحافیوں نے بھرپور کاوشیں کیں تھیں ۔ سخت
محنت اور مشقت کے بعد کامیابی کا حصول ممکن ہوجاتا ہے ۔ بسا اوقات ایسا بھی
ہوتا ہے کہ وہ محنتیں رنگ نہیں لاپاتیں اور صحافیوں کی زندگیوں کو انہیں
اغواکرنے والے مخص اپنے مقاصد کے حصول کیلئے قربان کر دیتے ہیں ۔
عالمی یوم آزادی صحافت میں فیض اللہ جیسے دیگر صحافیوں کو ان کی قربانیوں
سمیت آگے لایا جاتا ہے اور عوام سمیت حکمرانوں کو یہ بتا یا جاتا ہے کہ
ذرائع ابلاغ کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی
معاشرے میں ایک چوتھے ستون کی حیثیت سے وہ کس ذمہ داری کے ساتھ اپنے کاموں
کو سرانجام دیتے ہیں ۔ قیام پاکستان کی مہم میں بھی مولانا محمد علی جوہر
جیسے متعدد لکھاریوں اور صحافیوں نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ انہوں نے آزادی
کا احساس مسلمانوں میں اجاگر کرنے اور اس کے ساتھ اسے آگے بڑھانے کیلئے
احسن انداز میں اپنے کاموں کو سرانجام دیا ۔
وطن عزیز میں اک دور ایسا بھی گذرا کہ جب صحافی اپنی بات کو لکھتے اور
بولتے ہوئے بہت سوچ بچار سے کام لیا کرتا تھا ایک ٹی وی چینل ہو کرتا تھا
کہ جس میں ساری خبریں حکومت کی اور مثبت انداز میں ہی پیش کی جاتی تھیں
تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ،ساتھ صحافت کو آزادی ملتی رہی جس کے باعث اخبارات
میں اضافے کے ساتھ ٹی وی چینل میں بھی اضافہ ہوا ۔عوام آواز کے ساتھ ان کے
مسائل ، باصلاحیت عوام کی پذیرائی ، غلط کاموں کی روک تھام اور مثبت کی
ترویج و اشاعت کو منظم انداز میں آگے لایا گیا ۔ اس وقت بھی ا گر دیکھا
جائے تو قومی ٹی چینل کے بجائے عوام کی بڑی تعداد ان ٹی وی چینل کو زیادہ
دیکھنا پسند کرتی ہے جس میں انہیں آزادی دیکھائی دیتی ہے۔ اس پیشے کی اہمیت
کا احساس دنیائے کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی شاہد آفریدی کو بھی ہے
جنہوںتعلیم کے میدان میں اپنی خدمات جامعہ کراچی کے اسی شعبے میں پیش کیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبہ ابلاغ کے ذمہ دار اس دن کو منانے کے ساتھ اس
بات کو اپنے سامنے مستقل رکھیں کہ انہیں کشمیر سمیت جہاں کہیں بھی مسلمان
مظلوم نظر آرہے ہوں ، ان کی خبروں کو ان پر اپنے قلموں کو کسی بھی طرح سے
ازخود یا دباﺅ میں آکر ختم یا کم نہیں کریں گے بلکہ وہ معاشرے کے چوتھے
ستون کی ہی حیثیت سے احسن انداز میں ان کیلئے کام کریں گے۔ اک صحافی جب حق
اور سچ کیلئے لکھے گا ، اس کیلئے کھڑا ہوگا ، اسی حوالے سے خبر دیگا تو اس
عمل کے مثبت اثرات بڑھنے کے ساتھ مترب ہوتے چلے جائیں گے۔ |