کس نے معصوم کے ہاتھوں میں اوزار دئیے ہیں؟

مزدورسمجھ کے جہاں سے نکالاگیامجھے
آج اسی بزم میں میراآشیانہ ہے
پوری دنیاکی طرح ہمارے پیارے ملک میں بھی مزدورڈے منایاجارہاہے یاد رکھئیے کہ یکم مئی ایک عظیم دن کہلاتاہے یہ دن ان لوگوں کے نام ہوتاہے جومحنت مشقت کر کے اپنے بچوں کے پیٹ کوپالتے ہیں یعنی رزقِ حلال کی تلاش میں وہ لوگ نہ کرمی کودیکھتے ہیں نہ سردی کو،ان کے ہاتھوں کودیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے وہ اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم تونہیں دلاسکتے البتہ اسی حسرت میں صبح آنکھ کھولتے ہیں اورگلی محلے کے بچوں کوخوبصورت لباس میں دیکھتاسکول جاتے ہوئے نظردوڑاتے ہیں کہ کاش میرابیٹابھی سکول جاتااورڈاکٹربنتا۔کاش میرابیٹابھی سکول جاتاتوانجنئیربنتا،کاش میرابیٹابھی سکول جاتاتوپائیلٹ بنتالیکن ان کی یہ حسرت دل ہی دل میں دم توڑجاتی ہے اورایک وقت آتاہے کہ ان کے بیٹے اپنے اباکے ساتھ مشقت والے کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جسم کی کپکپی انہیں اپنے والد کاہاتھ بٹانے سے بھی مجبور نہیں کرتی ،گردوغباراپنے باپ کے چہرے کی دیکھ کر ان معصوم بچوں کواورحوصلہ ملتاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے
؂کس نے معصوم کے ہاتھوں میں اوزاردئیے
کھیل ہی کھیل میں سارے جگنو ماردئیے

ان معصوم پھولوں کے والدین یکم مئی کوبھی مجھے اسی جوش وخروش کے ساتھ ایک چوک میں مل جاتے ہیں جس طرح روزانہ فجر کی نماز کے بعد ہاتھ میں اوزارلیے نظر آتے ہیں
عجب کمال ہے کہ یکم مئی کومزدورسارے کام پراورافسرسارے چھٹی پرکیابات ہے!
اس شہر میں مزدورجیسادربدرکوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کاگھرکوئی نہیں

میرے کانوں میں آمنہ کے لال عبداﷲ کے دریتیم محمدمصطفیٰ ﷺ کاپیاراحکم آج بھی سنائی دیتاہے کہ مزدورکی مزدوری اس کاپسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی دے دیاکرو(ابن ماجہ)مگرافسوس کی بات ہے کہ کام کے بعد مزدورمالک کے گھر کے سامنے روتاہوابھی دکھائی دے رہاہے شاعر نے اسی منظر کودیکھ کر یوں کہا
؂اس ملک کے مزدور کی آزادی نہ پوچھو
جس ملک کاسردار بھی آزاد نہیں ہے
ہر شخص کے لب لوہے کی تاروں سے سلاکر
کہتاہے کہ کوئی مائل فریاد نہیں ہے

مزدورکے ذہن میں یہ بات بدرجہ اتم موجود ہے کہ ایک دن آئے گاکہ ہماری فریاد رسی ہوگی اورہمارے ہاتھوں کی لکیریں چھالوں سے نکل کے باہر آئے گی اسی تمناکے ساتھ
؂چھینے گئے بے انت نوالوں سے سحر ہوگی
مزدورتیرے ہاتھوں کے چھالوں سے سحر ہوگی
سہمے ہوئے جینے کی چکاچوندسے سورج
ابھرے گاپسینے کی چکاچوندسے سورج
خوابوں سے سحر ہوگی ،خیالوں سے سحر ہوگی
مزدورتیرے ہاتھوں کے چھالوں سے سحر ہوگی
زخموں کی مسیحائی سے بدلے گازمانہ
اب درد کی رسوائی سے بدلے گازمانہ
مجبوری کے افسردہ حوالوں سے سحرہوگی
مزدورتیرے ہاتھوں کے چھالوں سے سحر ہوگی

مزدورکی بیٹی بھی اپنے باپ کوگلے شکوے نہیں کرتی کیونکہ اس کومعلوم ہے کہ شام کوباپ کاپسینہ اس کے اندر چھپی ہوئی کئی امیدیں ظاہر کردیتاہے وہ بیٹی اپنے باپ کے ہاتھوں کے چھالوں کواپنے لیے سوناسمجھتی ہے اوراپناہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر پیاسدھارجاتی ہے ،باپ بیچارہ اپنی بیٹی کوپیتل کی بالیاں پہناکر ڈولی میں ڈال دیتاہے یہی منظر مجھے یہاں نظرآہی گیا
؂پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اورباپ کام کرتاتھاسونے کی کان میں

دنوں کومناناآسان ہے مگراس دن کے تقاضے کوبھی دیکھناہوگاکہ کیااس دن سے ان لوگوں کوبھی کوئی فائدہ ہواجن کے نام سے یہ دن موسوم کیاگیا،یکم مئی کے دن سے مزدورکوکتنافائدہ ہواکیااس کواس دن امیرشہر کی طرف سے کوئی صلہ ملا؟کیامزدورآج کے دن اپنی بچوں کے ساتھ گھر میں رہااورامیرشہر نے اس کے گھر کھانابھجوایا؟کیامزدورکے بچوں نے آج کے دن اپنے باپ کے ماتھے پہ پسینہ نہیں دیکھا؟
اگر یہ سب کچھ ہے توپھریوم مزدور ڈے مزدوروں کومبارک ہولیکن ایساہوتاہوااس دیس میں دکھائی نہیں دیا
؂گندم امیرِشہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹامگر غریب کافاقوں سے مرگیا

مزدورکی ایک شان ہے اس کی ایک پہچان اورامیرشہراورعوام شہرپہ اسی مزدورکااحسان ہے بس خوشی اورغم میں ہمیں اس کاہاتھ بنناہوگا

اﷲ پاک ہمیں ان لوگوں کی خدمت اوران کی قدرکی توفیق عطافرمائے (آمین)
 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 85887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.