جمہوریت کا جنازہ نکل گیااور ہندستانی جمہوریت خطرے
میں ہے ، جیسے جملے تو خاصے عرصے سے اخباروں وغیرہ کی زینت بنتے رہے ہیں
اور بہت سے درد مند دل رکھنے والے مفکروں نے بھی سماج و سیاست کے مطالعے و
مشاہدے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ اس کے اشارے دیے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ اگر
واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت خطرے میں ہے تو سیکولر افراد کیا کر رہے
ہیں؟ یعنی اس خطرے کو دور کرنے کے لیے کیا لائحۂ عمل طے کیا گیا ہے ؟ ایسا
تو نہیں کہ اس خطرے کو نشان سے اوپر نکل جانے کا انتظار کیا جا رہا ہے ؟ایسے
بہت سے سوالات ہیں جو لاکھوں کروڑوں ہندستانیوں کے ذہن و دماغ میں گردش
کرتے رہتے ہیں اور جن کا جواب اُنھیں نہیں ملتا۔
2014ء میں مودی حکومت بر سرِ اقتدار آئی اور جس طرح اس نے دیگر پارٹیوں کو
پچھاڑا، وہ کوئی چمتکار سا ہی تھا، جس پر لب کشائی ہی نہیں چو طرفہ چے مے
گوئیاں بھی ہوئیں، سوالات اٹھے بھی اور دب بھی گئے ۔جب کہ شاردا یونیورسٹی
میں تحقیق اور تکنیکی ترقیات کے شعبے میں پروفیسر ارون مہتا کا واضح طور پر
کہنا تھا کہ ای وی ایم میں کمپیوٹر کی ہی پروگرامنگ ہے اور اسے بدلا بھی جا
سکتا ہے ، آپ اسے بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن یہ بھی دیکھیں کہ
ہیکر بھی تیز ہوتے جا رہے ہیں، اس کے باوجود مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی
ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔نتیجۃً گذشتہ دنوں دیگر ریاستوں اور اب یوپی میں
وہی چمتکار پھر دیکھنے کو ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن علاقوں میں بھی بی
جے پی کو کامیابی مل گئی جہاں اس کی شکستِ فاش یقینی تھی۔ پہلے کی طرح اس
پر واویلا ضرور ہوا، ایک شور بھی سنائی دیا، ای وی ایم پر گڑبڑی کے دعوے
بھی کیے گئے ، اس کی جانچ کی مانگ تقریباً پورے اپوذیشن سے اٹھی، سوشل
میڈیا پر بھی فقرے کسے گئے ، الیکشن کمیشن سے بھی سوال کیے گئے ، لیکن
انجام کار ہوا وہی جس کا عین امکان تھا،یعنی معاملہ بھی ٹھنڈے بَستے میں
چلا گیا، جب کہ مایاوتی نے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کو
چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ’ایمان دار‘ ہیں تو الیکشن کمیشن سے فوری طور پر
ووٹنگ کی گنتی روکنے اور روایتی ووٹ کے ذریعے دوبارہ انتخابات کرانے کا
اعلان کرنے کے لیے کہیں۔بات یہیں نہیں رکی، بلکہ اب (25اپریل 2017ء کو)دہلی
میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی کو پھر کامیابی مل گئی اور
دہلی کے وزیِر اعلیٰ اروند کیجریوال کی باتوں پر سابقہ روش کے مطابق ایک
بار پھر کان نہیں دھرے گئے ، یعنی ویلیٹ پیپر پر الیکشن نہیں ہوئے ،جس پر
جگہ جگہ اور موقع بہ موقع کچھ بیان بازیاں تو ہوئیں، لیکن مثبت نتائج کا
محض انتظار ہی رہا۔راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادو نے نتائج کے بعد
کہا کہ ای وی ایم میں گڑبڑی کی وجہ سے ایم سی ڈی الیکشن میں بی جے پی کی
جیت ہوئی ہے ،سبھی اپوزیشن پارٹیاں جب تک ایک ساتھ نہیں آئیں گی تب تک یہی
حال ہوگا۔لالو جی کے اس نُکتے کو سرسری سمجھنا ہمارے خیال میں یا تو خود
سپردگی اور کم ہمتی کی دلیل ہے یا منافقت کی۔
بی جے پی کی اس فتح میں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پارٹی کی طرف سے کھڑے پانچ
میں سے ایک بھی مسلم امیدوار پارٹی کو جیت دلانے میں ناکام رہے ہیں، جب کہ
مجموعی طور پر 14 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ؛ کانگریس سے 5 ، عام آدمی
پارٹی سے 8 اور بہوجن سماج پارٹی سے ایک۔اس طرح بی جے پی کے پانچ میں سے
ایک بھی امیدوار کے کامیاب نہ ہوسکنے کے بعد زعفرانی پارٹی میں مسلمانوں کے
مستقبل پر پھر سے سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں ۔ خیال رہے کہ اترپردیش میں بڑی
کامیابی اور وہاں سے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہ دینے کے بعد بی جے پی پر
کافی تنقید ہوئی تھی اور اسی کی وجہ سے بی جے پی نے ایم سی ڈی الیکشن میں
پانچ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا، جن میں سے ایک بھی کامیاب
نہیں ہوسکا ، البتہ بی جے پی نے مسلسل تیسری بار دہلی میونسپل کارپوریشن کے
انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے شمال و جنوب اور مشرق کُل 270 وارڈوں
میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ 184سیٹوں پر قبضہ جما لیا ہے ، جس کے لیے پاٹی
نے پہلی بار تمام نئے امید واروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا اور پرانے
جیتے ہوئے چہروں میں سے بھی کسی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔اس وقت ہار جیت سے
بڑا مسئلہ شاید یہ ہے کہ جن ای وی ایم مشینوں پر ملک کی پورے اپوذیشن اور
اکثر عوام کو اعتماد نہیں ہے ، کیا جبراً اس کے ذریعے الیکشن کا کرانا
جمہوریت کو زک نہیں پہنچانا نہیں ہے ؟ اگر ایسا ہے تو آخر ای وے ایم کا
مسئلہ حل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا ایسا نہیں کہ جان بوجھ کر یہ سب کیا جا
رہا ہے ، کیوں کہ یوپی الیکشن کے بعد یہ خبریں بھی گردش میں تھیں کہ الیکشن
کمیشن نے ای وی ایم مشینوں کا متبادل لانے کے لیے تیس مہینوں کا وقت مانگا
ہے ، جس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ 2019ء کے ہونے والے قومی انتخابات کا
نتیجہ آنے کے بعد ہی اس طرح کی اصلاحات پر توجہ کی جائے گی۔اگر ان خبروں
میں صداقت ہے تو یقیناً یہ صورتِ حال ملک کی جمہوریت کے لیے گھن کی حیثیت
رکھتی ہیں، جس سے ملک کو بچانے کے لیے تمام سیکولر افراد کو تگ و دو کرنا
لازم ہے ۔آخر جس نظام پر عوام کا اعتماد ہی نہ ہو، اسے جمہوری ملک میں باقی
رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
ویسے پوری طرح قصور وار ای وی ایم کو سمجھنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ
اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ اپوذیشن کی کم ہمتی اور خود سپردگی بھی ہے ، جس کی
بڑی دلیل پورے منظر نامے سے قابلِ اعتماد قیادت کا غائب رہنا ہے ۔ نیز دہلی
کارپورشین انتخاب میں عآپ جیسی پارٹیوں کے پاؤں محض نا تجربے کاری کی وجہ
سے ڈگمگا گئے ہیں، تس پر منافقین کے چہروں سے نقاب سرکنے کا سلسلہ بھی
مسلسل جاری ہے ، ان حالات میں منجے ہوئے اور قابل سیاست دانوں کو سامنے آنا
ہوگا۔ |