ترکی کے صدر طیب رجب اردو نے پاکستان اور بھارت کے مابین
بنیادی مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی پیش کش کر کے پاکستان سے اپنی
تاریخی دوستی کے تسلسل کا ثبوت دیا ہے۔ طیب اردوان نے گزشتہ ہفتہ بھارت کا
خیر سگالی دورہ کیا۔ اپنے دورہ میں ترکی سے روانگی کے طیب اردوان نے دیگر
باتوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے دروازے
کھولنے اور اپنی ثالثی کی پیش کی۔ یہی نہیں بلکہ جب انہوں نے بھارت کی
سرزمین پر قدم رکھا اس وقت بھی انہوں نے اپنے انہی خیالات کو دھراتے ہوئے
پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت اور اپنی ثالثی کی
پیش کش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ترکی کے دوست ہیں
اور وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کے عمل
کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کشمیر کے تنازعہ کے لیے کثیر الجہتی حکمت
عملی اپنانے اور بھارت کے قبضے میں کشمیر میں فوری طور پر امن قائم کرنے پر
زور دیا۔پاکستانی قوم ترک صدر طیب اردوان کے اس جذبہ کو قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں ، حکومت پاکستان نے بھی طیب اردوان کی اس پیش کش کا خیر مقدم
کیا ۔لیکن ہٹ دھرم بھارت نے اپنے سابقہ طرز عمل کو اپناتے ہوئے ترک صدر کی
اس پیش کش کے جواب میں ٹال مٹول سے ہی کام نہیں لیا بلکہ طیب اردوان کی اس
پیش کش کو پاک بھارت دو طرفہ معاملہ قرار دیتے ہوئے کشمیر کا بنیادی تنازعہ
کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کرنے کو بنیاد قرار دیا۔ یہ بات روز روشن
کی طرح عیاں ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی بنیاد بھارت کی وہ ہٹ دھر می ہے جس
کے تحت اس نے کشمیر کو اپنی جاگیر بنا رکھا ہے اور نہتے کشمیروں پر گزشتہ
70سال سے بد ترین مظالم ڈھائے چلا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے
پاکستان کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت
کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتاچلا آرہا
ہے۔ترک صدر طیب اردوان کے علم میں ہے کہ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے
درمیان تین باقاعدہ جنگیں ہوچکی ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت بھارت نے سابقہ
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نہتے
کشمیریوں پر بھارت کے مظالم سے دنیا واقف ہے۔ دنیا کی طاقت ورقوتیں امریکہ،
روس، برطانیہ، چین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے
درمیان کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جب تک کشمیریوں کو ان کا جائز حق
نہیں مل جاتا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی۔ دنیا اس بات سے
آگاہ ہے کہ یہ دنوں طاقتیں یعنی پاکستان اور بھارت اب جوہر ی قوت بھی ہیں۔
ان کے مابین کشیدگی بڑھنے کی صورت میں اب معاملا روایتی جنگ تک محدود نہیں
رہے گا۔ اس لیے دنیا کے بڑے شعور رکھنے والے ممالک دونوں ملکوں کے مابین
کشیدگی سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے دونوں ممالک کو اپنے
درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ یعنی کشمیر کے مسئلہ کو باہمی گفت و شنید سے
حل کرنے کی اپیلیں بھی کرتے رہے ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان نے بھی انہی خطرات
کے پیش نظر اپنے دوست اسلامی ملک پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے۔
ترکی ہی نہیں بلکہ عالمی بڑی طاقت امریکہ کی موجودہ قیادت نے بھی کشمیر
جیسے اہم مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش کی ، بھارت امریکہ کی پیش کش کو بھی خطر
میں نہیں لایا اور اب اس نے ترکی کی پیش کش کو بھی ہوا میں اڑا کر رکھ دیا
ہے۔ ترکی ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہو کہ پاکستان
حق پر ہے جب کہ بھارت ہٹ دھرمی اور بلاوجہ مسئلہ کشمیر کو پرتشدد بنارہا
ہے۔ امریکی سفیر نے اپنی ثالثی کی پیش کش پر بہت درست کہا تھا کہ اس سے
پہلے کہ کچھ ہوجائے یعنی ہمیں کچھ ہو جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اس سے
پہلے ہی فعال ہوجانا چاہیے۔ یہ بہت ہی مناسب بات ہے۔ امریکہ، ترکی اور دیگر
عالمی طاقتیں بھارت کو کسی بھی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کرنے پر آمادہ کر
لیتی ہیں تو یہ دنیا میں امن کی جانب بہت بڑا قدم ہوگا ۔ دونوں ملکوں کے
درمیان تنازعہ کی بنیادمسئلہ کشمیر ہے جو ہندوستان کی تقسیم کا نا مکمل
ایجنڈا ہے۔ جنگ تو ہے ہی نقصان کا سودا کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ جنگ کا وہ
دور جاچکا جب میدانی محازوں پر گولا باری ، توپ اور ٹینکوں کا استعمال،
ہوائی حملے، اینٹی ائر کرافٹ گن کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ اب دونوں ممالک
جوہری قوت ہیں ۔ ترکی اور مریکہ کواسی احساس نے ثالثی کا کرادار ادا کرنے
پر مجبور کیا ۔ ان کی سوچ میں تبدیلی کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے ۔ حقیقت بھی
یہی ہے کہ اب جس نے پہل کر دی میدان اسی کا ہوگا ، دوسرا فریق بھی پیچھے
نہیں رہے گا جس قدر جانی و مالی نقصان ہوگا اس کا اندازہ پہلی اور دوسری
عالمی جنگوں کی تاریخ اور اس کے مضمرات سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے۔ اللہ نہ
کرے کہ وہ وقت آئے ، نقصان پاکستان کا ہو یا بھارت کا اس میں بسنے والے
لوگوں کا نقصان ہوگا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
ترکی اور پاکستان دوستی کے قدیم تعلق میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ دوستانہ
تعلقات چند برس پر محیط نہیں بلکہ ان تعلقات کا آغاز قیام پاکستان سے قبل
ہی ہوگیا تھا۔جب برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے
خلاف ترکی کے مسلمانوں کے حق میں اپنا کردا ادا کیا تھا۔ قیام پاکستان کے
بعدترکی اور پاکستان کے مابین دوستی کا معاہدہ 1951 میں ہوا اورباہمی تعاون
کا معاہدہ 1954 میں ہوا اور 1960کی دہائی میں آر سی ڈی معاہدہ عمل میں آیا
، پھر 1980کی دہائی میں ترکی میں ہونے والی شورشوں میں پاکستان کی حمایت
اور عملی تعاون ترکی عوام کے ساتھ تھا۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی
پاکستان اور ترکی کے تعلقات میں مضبوطی آئی ہے ۔ترکی صدر طیب اردوان نے
پاکستان کا خیر سگالی دورہ کیا جس سے دونوں ملک دوستی کی کی زنجیر میں
اوربھی قریب آگئے۔ اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف اور اسے ختم کرنے میں
دونوں ملکوں کے باہم مل کر جدوجہد کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس موقع پر بھی ترک
صدر نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کے
پاکستان کے موقف کی تائید اور حمایت کا یقین دلا یا تھا۔جس طرح ترکی مسئلہ
کشمیرپر پاکستان کی حمایت اور تائید کرتا ہے اسی طرح پاکستان بھی ترکی میں
مسئلہ قبرص کے حوالے سے ترکی کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔ترکی میں ہونے والی
بغاوت پر پاکستان نے انتہائی تشویش رہی۔ طیب اردوان ترکی کے وہ واحد حکمراں
ہیں جنہیں تین بار پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کا اعزاز حاصل ہوا، وزیر
اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھی ترکی کا دورہ کیا جہاں انہیں عزت و
احترم سے نوازا گیا۔ المختصر یہ کہ پاکستانی عوام اور ترک عوام ایک دوسرے
کے مخلص، سچے،راست باز ،باوفا اور بے لوث دوستی کے رشتے میں بندھے ہوہے
ہیں۔ جب کبھی ترکی مشکل میں ہوتا ہے تو پاکستانی عوام اسے اپنا دکھ سمجھتے
ہیں اور جب کبھی پاکستانی عوام پریشان اور مشکلات میں ہوتے ہیں تو ترکی اور
اس کی حکومت پاکستانیوں کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھ کر دامے، درمے سخنِ
تعاون و مدد کرتے ہیں۔ ترکی سے پاکستانی عوام کی محبت کی ایک وجہ ترکی کے
عوام سے مذہبی عقائد، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، تاریخی پس منظر اورقدیم
روایات کارشتہ ہی نہیں بلکہ ترکی سے پاکستان عوام کو روحانی تعلق بھی
ہے۔ترکی وہ طاقت اور قوت ہے جو طویل عرصہ تک حجاز مقدس کے انتظامی امور کا
اختیار رکھے ہوئے تھی۔ بیت اللہ خانہ کعبہ کے صحن کے چاروں جانب پیلے رنگ
کے جو ستون اور مہراب بنے ہوئے ہیں جنہیں اب نئے سرے سے تعمیر کیا جارہا ہے
یہ پیلے رنگ کے ستون اور مہراب ترکی کی یادگاریں ہیں۔ ترک صدر نے اپنے دورہ
بھارت اور بھارت سے دوستی کی پرواکیے بغیر مسئلہ کشمیر میں بھارت کے مظالم
اور مسئلہ کو حل کرنے میں اپنی ثالثی کی پیش کش کر کے بھارت اور وزیر اعظم
نریندر مودو کو یہ احساس ضرور دلا دیا کہ ترکی بھارت کے ساتھ دوستانہ
تعلقات ضرور رکھنا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے دیرینہ دوست ملک پاکستان کے ساتھ
بھارت کی بلاوجہ کی مداخلت اور کشمیر میں زیادتی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔
اس کی دلی خواہش ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعہ اور اگر وہ
چاہے تو ترکی کی مصالحت سے اس مسئلہ کو حل کرسکتا ہے۔ ترکی پاکستان تعلقات
زندہ بعد۔ |