اس کی حالت دیکھتے ہوۓ اس رات اس کی سہیلی اس کے پاس ہی
رک گئی۔ تقریباً آدھی رات کے وقت شور سے اس کی سہیلی کی آنکھ کھلی۔ شور کیا
تھا، یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی کسی کا گلہ دبا رہا ہو اور اس کے گلے
سے تکلیف سے سانس کھینچنے کی آوازیں آ رہی ہوں۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ
تو اسی کی آواز تھی جو ساتھ سو رہی تھی۔ اسے جنجھوڑ کر اٹھایا گیا۔ پوچھنے
پر معلوم ہوا کہ وہ دمہ کی مریضہ بھی ہے اور جس کا کبھی علاج نہیں کرایا
گیا۔ صبح بڑی مشکل سے اسے ہسپتال چلنے کے لۓ راضی کیا گیا۔ وہاں اس کی خراب
حالت دیکھتے ہوۓ اسے داخل کر لیا گیا۔ اس کی سہیلی نے ایک ہمدرد لیڈی ڈاکٹر
کو اس کی زندگی کے کچھ حالات بتاۓ تاکہ مستقبل میں اس کی تمام بیماریوں کا
علاج ہو سکے۔ رات تک ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ جانے سے پہلے لیڈی ڈاکٹر
اس سے بہت پیار سے ملی اور یہ یقین دلایا کہ وہ بہت جلد ٹھیک ہو جاۓ گی۔ یہ
سننا تھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ یہ دوسری بار تھا کہ کبھی
نہ رونے والی اس قدر بے بسی سے رو رہی ہو۔ یہ دوسرا شگاف تھا جو اس کے بناۓ
بند میں پڑا تھا۔ دو روز میں اس کی سہیلی کو اتنی کامیابی تو ہو گئی تھی کے
وہ اس کے اندر کے گھاؤ دیکھ سکے۔ وہاں سے واپس آ کر اس کی سہیلی نے فون پر
رابطہ رکھا۔ علاج شروع ہو چکا تھا۔ اسے کئی قسم کی بیماریاں تھیں جو وقت کے
ساتھ ساتھ ٹھیک ہونے لگیں۔ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی حالت بھی
سنبھلی۔ اب وہ کچھ ایسے فیصلے بھی کرنے لگی جو اسے سالہا سال سے اس کی
سہیلی سمجھاتی آ رہی تھی۔ خاندان کے لوگ اس کی سہیلی کی محنت کو سراہتے ہوۓ
اسے کہتے تھے کہ تمھاری باتوں نے اس کے اندر وہ آگ لگا دی ہے جس نے نہ صرف
اس کے اندر جینے کی خواہش اجاگر کر دی ہے بلکہ اس نے زندگی کی طرف قدم
بڑھانے بھی شروع کر دۓ ہیں۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس نے زندگی
کی طرف لوٹنے میں بہت دیر کر دی تھی۔ وہ چند سال بھی نہ گزارنے پائ اور موت
سے جا ملی۔ زندگی نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ چند سال اپنی مرضی سے
گزارتی۔ علاج نے اس کی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کو تو دور کر دیا تھا مگر ایک
جان لیوا بیماری نے اسے جینے کی مہلت نہ دی۔ ساری زندگی اس نے خاموشی سے
کولہو کے بیل کی طرح دوسروں کے کام کۓ۔ جسم وجان، دل و دماغ پر جبر و ظلم
کرتی رہی، دعاؤں کی قبولیت کا انتظار کرتی رہی۔ اور جب عقل آئ تو پانی سر
سے گزر چکا تھا۔
زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا پڑتا
ہے۔ قدم جما کر چلنا پڑتا ہے۔ جہاں آپ غافل ہوۓ، لوگ آپ کے قدم اکھیڑ کر آپ
کو زمین بوس کر دیں گے اور پیچھے آنے والی پوری خلقت آپ کے اوپر سے پاؤں
رکھ کر گزر جاۓ گی۔ اس وقت یہ آپ کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اگر کوئ ہاتھ
بڑھا کر سہارا دینے والا مل جاۓ تو خدارا اس ہاتھ کو تھام لینے میں دیر نہ
کریں اور سہارا لے کر اٹھ کھڑے ہوں اس سے پہلے کے آپ میں اتنی ہمت ہی نہ
رہے۔
آپ سب سے میری التجا ہے کہ زندگی میں چاہے کتنی بھی آفتیں، مصیبتیں یا
مشکلیں آئیں، ہمت نہ ہاریں اور اپنے حوصلے بلند رکھیں۔ جتنا بلند حوصلہ،
اتنی ہی کامیابی۔ اتنے بیمار ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو بھی ہمت اور
حوصلے کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ہمت ہارنے سے بیماری بڑھ تو سکتی ہے مگر
گھٹتی نہیں۔ خدا پر بھروسہ رکھیں اور حوصلے سے بیماری کا مقابلہ کریں۔
زندگی میں کبھی مایوس نہ ہوں چاہے کتنی بڑی مصیبت یا بیماری آپ کو گھیر لے
کیوں کہ ہر وقت گزر جاتا یے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وقت کبھی بھی کہیں ٹہر
گیا ہو۔ بوڑھے ہیں تو اپنا فرض نبھائیں اور اپنی نسلوں کو وہ اچھی باتیں دے
کر جائیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں۔ نوجوان ہیں تو دلوں میں سچے
جذبوں اور حوصلوں سے آگے بڑھنے کی لو لگائیں۔ ہمت نہ ہاریں اور حوصلے بلند
رکھیں۔ خاص طور پر خواتین چاہے وہ بیٹی، بہن، بیوی یا ماں ہے، قدرت کے عطا
کردہ اپنے اپنے مقام پر، اپنے فرائض نبھاتے ہوۓ، اپنے حقوق کی حدود میں رہ
کر آواز اٹھائیں۔ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کریں۔ دوسروں کے نہیں، اپنے ذہن سے
سوچیں۔ خاموش رہ کر سب کچھ سہنا اپنی ذات پر ظلم ہے۔ زندگی کی طرف جانے
والے راستوں کو اپنائیں۔ محنت اور لگن جاری رکھیں پھر دیکھیں راستے خود
بخود کھلتے نظر آئیں گے۔ اپنے ذہن کو ہر وقت مثبت سوچوں پہ لگاۓ رکھیں۔ بہت
جلد آپ کا ذہن ہی آپ کو ایسا راستہ دکھاۓ گا جو آپ کے تصور میں بھی نہیں
ہوگا۔ زندگی کی طرف پہلا قدم بڑھائیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر سفر
شروع کرنے کے لۓ پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے۔ قدم بڑھائیں، زندگی آپ کا
انتظار کر رہی ہے۔ پہلا قدم ہی مشکل ہوتا ہے اس کے بعد چلنا آسان ہوجاتا ہے
تو اس سے پہلے کہ دیر ہو جاۓ، زندگی کی طرف اپنا سفر شروع کریں۔
آخر میں، میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ اس کی وہ "سہیلی" میں تھی۔ کہانی میں
اپنی جگہ سہیلی اس لۓ لکھا کہ مجھے بار بار اپنا ذکر کرنا دکھاوا سا محسوس
ہو رہا تھا۔ کیوں کہ یہ ایک سچی کہانی ہے اس لۓ آخر میں یہ بتانا بھی ضروری
تھا۔ |