حوالہ ۔۔۔۔۔!

سبھی منظر ہیں ساکت چپ ہوا ہے
عجب نامعتبر سی یہ فضا ہے
مرا سینہ نہیں ہے کربلا ہے
یہاں دنیا کی یارو ہر بلا ہے
میں خود میں جھانک کر ہی لوٹ آیا
وہاں تو بس مرا ملبہ پڑا ہے
اسے کہہ دو ابھی تک جی رہا ہوں
بچھڑنے کی یہی کیا کم سزا ہے
ایسے ہی منفرد لہجے اور اسلوب کا مالک شاعر بے مثل نیازت علی نیاز کی کتاب حوالہ پڑھنے کو ملی ۔اس کی چاہتوں اور محبتوں کا ممنون ہوں کہ اس تیز رفتار دور میں بھی ا س نے مجھے یاد رکھا ۔میرا اور اس کا ساتھ بچپن سے ہے۔یہ دوستی اور محبت بھائی کے رشتے سے بڑھ کر ہے۔بچپن سے جوانی کا سفر اکٹھے طے کیا ۔ کم گو ،خاموش طبع اور اپنی ذات میں الجھا ہوا نیازت علی جس محفل میں بھی بیٹھتا اپنی حیثیت منوا کے اٹھتا تھا اور یہی اس کا خاصہ تھا ۔ادب سے لگاؤ شروع سے تھا اس لگاؤ کو جلا پیارے بھائی محترم جناب جان عالم کے طفیل ملی ۔ان کا شمارہ شعروسخن پوری دنیا سے داد و تحسین سمیٹ رہا ہے جتنی محنت ،محبت سے وہ یہ شمارہ ترتیب دیتے ہیں تو بے اختیار ان کی ہمت کو داد دیتا ہوں ۔جان عالم بلند پایہ شاعر ہیں بہت عرصہ قبل ان کی کتاب پیاس بجھتی نہیں سمندر کی آئی تھی ۔اس وقت کی ان کی محفلیں یاد ہیں اور سچ جانیں تو ان محفلوں کو اب ہم ترستے ہیں ۔دنیا جہاں کی باتیں ان محفلوں کا خاصہ ہوتی تھیں ۔ادب،سیاست ، سپورٹس،علاقائی ،ملکی اور بین الاقوامی حالات پر سیر حاصل تبصرے ہوتے تھے ۔سرد و گرم لہجے ہوتے تھے تلخ و شیریں باتیں ہوتی تھیں ۔محبت ہی محبت تھی ۔خلوص ہی خلوص ہوتا تھا ۔وہ چائے خانہ کبھی نہیں بھولتا جہاں جمعہ کی نماز کے بعد مخصوص ادبی نشست جمتی تھی اور وہاں ہم سب اپنے استاد محترم مانسہرہ سمیت ملک کی نامور شخصیت عظیم شاعر اور نثر نگار ڈاکٹر ارشاد احمد شاکر اعوان کا شدت و بے چینی سے انتظار کرتے رہتے تھے جو اس محفل میں آکے ہم سب نئے لکھنے والوں کا الٹا سیدھا لکھا ہوا پڑھتے بھی تھے سنتے بھی تھے اور اصلاح بھی فرماتے تھے ۔ان جیسی پر بہار اور سدا بہار شخصیت ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی ۔علم بانٹنے کا عمل ان کی طرف سے تاحال جاری ہے ۔دل کا رواں رواں ہمہ وقت ان کو صحت و تندرستگی کی دعائیں دیتا رہتا ہے ۔نیازت علی نیاز کے حوالہ کے پیش لفظ میں ان کا نام نہ دیکھ کر دکھ ہوا ۔جانیں وہ انہیں کیوں فراموش کر گیا ۔وہ تو سب کو یاد رکھنے والا اور سب کا خیال کرنے والا شخص ہے۔گو کہ وہ اپنی ذات میں چھپا رہتا ہے اور بڑے دکھ سے کہتا ہے کہ
ذہنی خلجان مار ڈالے گا
کل کا امکان مار ڈالے گا
میں نکلتا نہیں ہوں جنگل سے
کوئی انسان مار ڈالے گا
تو نہ آنا مری عیادت کو
تیرا احسان مار ڈالے گا

نیازت علی نیاز سوچتا ہے اور بہت گہرائی میں سوچتا ہے ۔دوستوں کی محفل جب بھی جمتی تو اختلافی پہلو بہت سے جا نکلتے تھے اور پھر گھنٹوں یہ پہلو زیر بحث رہتے تھے۔محفل ختم بھی ہو جاتی کچھ دنوں بعد ملاقات ہوتی تو نیازت وہیں سے بات شروع کر دیتا جہاں ختم ہوئی تھی میں ہنس پڑتا اور مذاق میں کہتا کہ بابا اب جاگ جاؤ صبح ہو گئی ہے۔تو اسے سخت غصہ آتا اور پھر جھوٹ موٹ کا غصہ ہم پہ نکالتا رہتااور کہتا کہ میں اتنے دن یونہی اسی پہلو پہ سوچ سوچ تھک گیا ہوں اور تم لوگ ہو کہ سنتے ہی نہیں ہو۔ایسی ہی محبت بھری لڑائیوں میں کئی ماہ و سال گزر گئے میں وطن سے باہر چلا گیا ۔یہ محفلیں ،یہ تسلسل،یہ ربط ،یہ تعلق سچ مچ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔میرے جانیں کے بعد نیازت علی نیاز نے مجھ پہ بھی اک نظم لکھی کسی دور میں احمد خان ساگر کے نام سے شعر وشاعری بھی کیا کرتا تھا ۔سکہ بند اور تول والی شاعری مجھ سے کبھی نہ ہو سکی تھی میرا اور نیازت علی نیاز،محترم جان عالم کا یہی اختلاف چلتا رہتا تھا ۔جان عالم بھائی سے تو میں اب چھیڑنے کے لیے یہی کہتا رہتا ہوں کہ جب سے آپ نقاد بنے ہیں آپ نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔زیر ،زبر ،پیش کے چکروں سے نکل کر آزاد نظمیں لکھا کرتا تھا ۔اب بھی کبھی کبھی خیالات کی شرارت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔مسعود شوق بھی اسی لیے شاعری سے دور بھاگ گیا ۔اس موضوع پہ پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی ۔نیازت علی نیاز نے مجھ پہ نظم لکھی وہ کتاب حوالہ میں موجود ہے۔
احمد خان کے نام
میرے وطن کا سرمایہ
جو جان چھڑکتا تھا مٹی پر
اپنے وطن کی مٹی پر
ارض پاک میں ڈاکو،چور لٹیرے سارے
ہر اک دور میں رہبر تھے
اور وہ سیدھا سادا سااک سچا پاکستانی
لکھتا
اور ہمیشہ آس امید کی باتیں لکھتا
کہتا
تم لکھنے والے گند کے ڈھیر پہ جا کر ہی کیوں
قلم کی نوک سے الٹ پلٹ کر بدبوئیں پھیلاتے ہو
اچھا سوچو،اچھا لکھو،اچھے وقت کی بات کرو
آج دیار غیر میں ہے وہ

نیازت علی نیاز کی نظمیں اور غزلیں ایک نیا پن لیے ہوئی ہیں۔وہ درد لکھتا ہے اور درد لکھتے لکھتے وہ بہت بے درد ہو جاتا ہے۔وہ اپنے درد دوسروں کو نہیں دیتا بلکہ خود اذیتی کا شکار ہو کر اسی کا حظ اٹھا تا رہتا ہے۔ اور اسی تباہ کن حظ کو وہ لفظوں میں پرو دیتا ہے۔اسی لیے تو وہ اپنے بارے میں لکھتا ہے
میں کہ ہوں الجھا ہوا
ہوں نہیں کے درمیاں
ایک پل میں ہوتا ہوں
ایک پل نہیں ہوتا

نیازت علی نیاز اپنی ذات میں ڈوبا ہوا ایسا شخص ہے جو خود کو بھی نہیں مانتا ۔اس کی جنگ خود سے بھی جاری رہتی ہے۔وہ اپنے بارے میں بھی اتنا سوچتا ہے کہ خود سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے۔اسے شہرت کی ہوس نہیں وہ خود ہی میں سمٹا رہتا ہے ۔اس کی یہ غزل پڑھ کر آپ بھی سر دھنیں گے یہی اس کا کمال ہے۔
الٹے سیدھے سوال کرتے ہو
آپ بھی تو کمال کرتے ہو
خواب جن کی نہیں کوئی تعبیر
زندگی کو نڈھال کرتے ہو
چند آسائشوں کی خاطر لوگ
اپنا جینا محال کرتے ہیں
زیست کرتی ہے وار جب غم کے
تیری یادوں کو ڈھال کرتے ہیں
کام کچھ اور ہو نہ ہو ہم سے
شاعری بے مثال کرتے ہیں

ایسی ہی منفرد شاعری سے مزین نیازت علی نیاز کی کتاب حوالہ صاحب ذوق افراد کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں ۔نیازت علی نیاز اردو شاعری کے ساتھ ساتھ ہندکو شاعری بھی کمال کی کرتا ہے مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد ہم سب لیے اپنی ہندکو شاعری کو بھی کتابی صورت میں لائے گا ۔میری نیک تمنائیں اور دعائیں اپنے پیارے دوست پیارے بھائی نیازت علی نیاز کے لیے کہ اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

Akhlaq Ahmed Khan
About the Author: Akhlaq Ahmed Khan Read More Articles by Akhlaq Ahmed Khan: 7 Articles with 7518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.