شاعری تفریح طبع کا سامان تھی ،عرصۂ دراز سے شعر حسن
وعشق عارض و کاکل کی ستائش بیان کرتے تھے ،عشقیہ خیالات ہی کو شاعری میں
مرکزیت حاصل تھی ،قلبی جذبات و احساسات کو لفظوں کا پیراہن عطا کیا جاتا
تھا،خوشی تھی تو محبوب سے وصل کی ،غم تھا تو معشوق کی جدائی کا ،سیاہی تھی
،تو زلف یار کی خوبصورتی تھی ،تو چہرہ دلدار کی ،شاعر کے خیال کے مطابق
دنیا میں جو کچھ تھا سب عشق کا جلوہ جمال اور اسی کا پرتو تھا ،دریاؤں کی
روانی ،ہوا کا بہاو ،چمن کی لالہ زاری ، وادیوں کی شادابی کہساروں کی بلندی
،صحراؤں کی طولانی ،چاند کی ضیاء پاشی ،ہر شئی میں اسے اپنے محبوب کے
اوصاف اس کی ادائیں ،اس کی شوخیاں محسوس ہوتی تھیں ،اور یہی احساس شاعری کا
لباس پہن کر کاغذ کے سینہ پر رقم ہو جاتا تھا ،زمانہ گذر رہا تھا ،تغیرات
ہورہے تھے ،خیالات میں پختگی آرہی تھی۔ شاعری میں بھی فکری بلندی کے نمونہ
ظاہر ہورہے تھے ، مگر ابھی غم ذات درد کائنات میں تبدیل نہیں ہوا تھا ،اگر
چہ غالب نے فلسفہ تصوف اور عشق کا حسین امتزاج پیش کیا تھا ،اور شاعری کے
دامن کی وسعت کا احساس کرایا تھا ،مگر ابھی شاعری دربار کی دہلیز پھلانگ
نہیں پائی تھی ،ابھی اس نے غریب کا گھر نہیں دیکھا تھا ،اس کادرد تکلیف اور
اس کی کڑھن اور ظالم سماج کا بدنما چہرہ نہیں دیکھا تھا ،ابھی اسے معاشرہ
کی وہ گندگیاں نظر نہیں آئیں تھیں ،جو مال و دولت کے دبیز پردوں میں چھپی
ہوتی ہیں ،ابھی اس نے بیوہ کی مایوسی یتیم کا درد اور تنگ دست کے گریہ کو
محسوس نہیں کیا تھا ،ابھی تو وہ باد صبا کے جھونکے کی مانند خوشگوار تھی
،تلخیاں کڑواہٹیں ابھی اس کے نرم و نازک مزاج کے قریب سی بھی نہیں گذری
تھیں ،لیکن غالب نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ادب شاعری جمود و تعطل کا شکار
نہیں ہوتے ،اس میں سیلانی ہے ،بہاو ہے ،یہ ایسا دریا یہ ایسا سفینہ جسے
ملاح تند و تیز ہواؤں کے درمیان محنت کے بل پر آگے لے جاسکتا ہے ،چنانچہ
بیسوی صدی کے ابتداء میں جب مشرق پر مغرب کی حکمرانی کے پنجہ سخت ہوگئے اور
غریب مزدور کا خون چوسا جانے لگا ،سرمایہ دار مال کی ہوس میں مزدوروں کی
زندگی کو اپنی ضروریات سے کم تر خیال کرنے لگے ،ترقی یافتہ طاقت ور ممالک
نے کمزور ملکوں کو بموں کے دھماکوں سے دھلا دیا ،انسانیت دم توڑنے لگی
،حیوانیت و درندگی طاقت ور اور توانا ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی ،کمزور طاقت
ور کا لقمہ بننے لگا ،تو ادباء و شعراء کے ذہنوں کا جمود و تعطل ختم ہوگیا
، اور اسے ٹھرے ہوئے دریا روانی آگئی ۔ ان کی نگاہیں خون میں لتھ پتھ
لاشیں دیکھ کر اشکبار ہوگئیں ،وہ بلک اٹھے اور پرچم انسانیت بلند کرنے پر
آمادہ ہوگئے ،چنانچہ 1936میں چند نامور ادیبوں نے پہلی کانفرنس منعقد کی
اور ادب کی مقصد انسانیت سے وابستگی پر اظہار خیال کیا ،کمزور مفلس مزدور
طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی داد رسی کابیڑا اٹھایا ،اور ایک ایسا
کارواں تشکیل دیا گیا ،جو انسانیت کی اقدار کی حفاظت کرے ،اور بامقصد ادب
تخلیق کرے ،اس کا احساس ان جملوں سے ہوتا ہے ،جو اس کانفرنس میں کہے گئے
ملاحظہ کیجئے ،"ہماری انجمن کامقصد یہ ہے کہ ادبیات اور فنون لطیفہ کو
قدامت پرستوں کی مہلک گرفت سے نجات دلائیں ،اور ان کو عوام کے دکھ سکھ اور
جد و جھد کا ترجمان بناکر روشن مستقبل کی راہ دکھائے ،جس کے لئے انسانیت اس
دور میں کوشاں ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے
بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ،یہ بھوک افلاس سماجی پستی اور غلامی کے
مسائل ہیں ،جدید نظم حالی سے میراجی تک(صفحہ 256) مضمون: حکمت سے ہے لبریز
تو حیرت بھی بلا کی اس کارواں میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے ،انہوں نے
اپنی شاعری میں سماج کی گندگی معاشرہ کا کرب اور مفلسوں کا درد پیش کیا ہے
،کائنات میں جہاں بھی ظلم و ستم کے واقعات پیش آئے انہوں نے اسے اپنی
شاعری کا مضوع بنایا اور غم و اندوہ میں ڈوب گئے ،فلسطینی بچے کی لوری ،اس
دعوی کی دلیل ہے ،جس میں انہوں نے فلسطین کی زار کو نرالے انداز اور اچھوتے
پیرائے میں بیان کیا ہے ،اور ایک بچے کی لوری میں وہاں کے حالات کئے ہیں
،اس لوری میں وہ ایک بچے کی ڈھارس بندھا رہے ہیں ،اس کی امید زندہ کررہے
ہیں اسے خوف ہراس غم واندوہ سے چھٹکارہ دلانے میں مصروف ہیں ،اور کچھ اس
طرح گویا ہیں ،امی ابا باجی بھائی/ چاند اور سورج/روئےگا تو اور بھی تجھ کو
رولوائیں گے /تو مسکائےگا تو شاید سارے ایک دن بھیس بدل کر/ تجھ سے ملنے
لوٹ آئینگے /اس میں فیض جہاں پوری طرح ترقی پسند خیالات کی پیروی کرتے نظر
آتے ہیں ، وہیں خاص طور پر ایک شئی یہ ابھر کرآتی ہے ،کہ فیض نعرہ زن
نہیں ہوتے احتجاج نہیں کرتے ،بچے کے دل میں لاوا پکانے کی کوشش نہیں کرتے
،بلکہ اسے پر امید کرتے ہیں ،اور صبر کا پہلو ان کے ان اشعار میں پیوست نظر
آتا ہے ،فلسطین ہی نہیں جہاں جہاں بھی مصائب کا طوفان ہے ،اس پر فیض خاموش
نہیں ہے ،ان کا غم آفاقی ہے ،وہ کسی خطہ علاقے یا مخصوص فکر کے محافظ نہیں
ہیں ،فلسطینی شہداء پر نظم ،ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لئے ،ایک ترانہ
مجاہدین فلسطین کے لئے ،یہ وہ نظمیں ہیں ، جو اس فکر کی عکاسی کرتی ہیں
،اور ان کی فکری بلندیوں اور وسعتوں کو واضح کرتی ہیں ،البتہ جب ہم فیض کا
مطالعہ کرتے ہیں ،اور ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں ،تو ذہن پر یہ خیال ثبت
ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ فیض رومانی شاعر ہیں ،عشقیہ جذبات کے ترجمان ہیں ،
نسخہ ہائے وفا کا پہلا شعر دیکھئے ،اور آپ بھی محسوس کیجئے ، رات یوں دل
میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے جیسے
صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے اور
جوں جوں یہ سفر آگے بڑھتا ہے ان خیالات میں پختگی آتی جاتی ہے ،اور دل
چاہتا ہے کہ فیض کے شاعر رومان ہونے کا اعلان کردیا جائے ، فیض زندہ رہیں
وہ ہیں تو سہی کیا ہوا گر وفا شعار نہیں اور اس بھی بڑھ کر حسینہ خیال سے
مجھے دے دے مضمون: مودی حکومت میں اردو کا زوال رسیلے ہونٹ معصومانہ پیشانی
حسیں آنکھیں کہ میں ایک بار پھر رنگینیوں غرق ہوجاؤں اختر شیرانی کی یاد
دلاتے ہوئے یہ اشعار آپ کے ذہن میں بھی فیض کے شاعر رومان ہونے کا وہم
پیدا کرسکتے ہیں ،لیکن نظم رقیب سے میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فیض کا عشق کس
سمت رخت سفر باندھ چکا ہے، ان کارومان کس ڈھب کا ہے ،اور عشق نے انہیں کیا
سکھایا ہے ،ملاحظہ کیجئے ،عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی یاس وحرماں کے
دکھ درد کے معنی سیکھے زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا سرد آہوں کے رخ
درد کے معنی سیکھے اس کے بعد فیض کی شاعری انسانیت کی آواز بنتی ،غریبوں
کے زخموں کا مرہم بنتی ہے ،ان کی تکلیفوں کے ازالہ کی تدابیر کرتی ہے ،اور
حسن و عشق کی کیفیات سے نکل یہ کہنے پر مجبور ہوتی ہے ، راحتیں اور بھی ہیں
وصل کی راحت کے سوا غم اور بھی ہیں زمانہ محبت کے سوا جوں جوں یہ سفر آگے
بڑھتا ہے ،اس لہجہ میں پختگی بڑھتی جاتی ہے ،اور سماج کی بدنما صورت حال
فیض کی شاعری میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے ،اب محبوب پر ان کی نگاہ نہیں
ٹھرتی بلکہ سماج کا ناسور ان کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا اور فیض اس
درد میں گرفتار ہوجاتے ہیں ،اور محبوب کے چہرے کی دلکشی رعنائی اب ان کے
لئے مسرت و شادمانی کا سامان مہیا نہیں کرپاتی اب تو وہ کسی اور دنیا کے
باشندہ ہوچکے ہیں ، اور اس انداز میں گویا ہوتے ہیں ، پیپ بہتی ہوئ گلتے
ہوئے ناسوروں سے لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے اب بھی دلکش ہے
تیرا حسن مگر کیا کیجئے سماج کا یہ وہ تلخ منظرنامہ جسے انسان ہردن صبح
وشام دیکھتا ہے ،مگر مستی اورخواہشات کی غلامی اسے انسانیت کے فرائض سے
بیگانہ کر دیتی ہے ، اس کے خیالات سے انسانیت کا کرب محو کردیتی ہے ،مگر
فیض کی نگاہیں ،اس منظر دل خراش پر ٹھریں ، اور اسی سے غم روزگار کی تلخیوں
کا اندازہ کررہی ہیں ،اس طرز پر فیض کی شاعری کا سفر زنداں نامہ تک پہونچتا
ہے ،اور وہ آبروئے انسانیت کے محافظ بن کر آگے بڑھتے ہیں ،مگر فیض کے
یہاں شدت نہیں گھن گرج نہیں ہے ،چیخ و پکار واویلا نہیں ہے ،جمالیات ہے
،موسقیت ہے ،اور اسی کے ساتھ امیدیں ہیں ،مگر کبھی کبھی زمانے کے حالات سے
وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے ہیں کہ نامیدی کہ گہرے غار میں ڈوب گئے اور "
تنہائی" جیسی نظم ان کے قلم سے نکلی ،جو انتہائی درجہ کی مایوسی کا اظہار
ہے ،یقینی طور سے یہ نظم فیض کی زندگی کے چند لمحات کی ترجمان ہوسکتی ہے
،عام طور پر ان کی شاعری مایوسی کی ایسی بھیانک اور ہولناک تصویر نہیں
بناتی ،وہ پر امید ہیں ،اور انسانیت کی آبیاری لوگوں کا دکھ درد ان کی
شاعری کا عنوان ہے، فیض کی شاعری ایک دریا کے مثل ہے ،جتنی گہرائی میں آپ
جاسکتے ہیں ،اتنے ہی گوہر آپ کو میسر آئینگے ،تحقیق کیجئے اور فیض کے
مقام کا اندازہ کیجئے ،ان چند جملوں سے اس عظیم شخصیت اور اس کے کمالات کا
تعارف ممکن نہیں ہے ۔ |