عقیدہ ختم نبوت اسلام کے اصولی عقائد میں سے ایک ہے۔
نبی کریمﷺ کے دور سے لیکرآج تک ہر مسلمان کا عقیدہ رہا ہے کہ بغیر کسی
تاویل وتخصیص کے محمدﷺاﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹادعوی کیا تو
اس کے خلاف جنگ یمامہ ہوئی ۔اس جنگ میں صحابہ کرام و تابعین میں سے بارہ سو
افراد نے عقیدہ ختم نبوت کے دفاع اور تحفظ کیلئے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں
سے سات سو کے قریب حفاظ کرام صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین تھے۔یہ ایک
تلخ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں کئی ایک گمراہ اوربد بخت گزرے جنہوں نے
نبوت کے جھوٹے دعوے کیے۔ لیکن امت مسلمہ نے اجماعی طور پر انہیں دائرہ
اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا۔ ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں مسیلمہ
کذاب، اسواد عنسی، اسحق اخرس، حارث کذاب دمشقی، مغیرہ عجلی، بیان بن سمعان
تمیمی، علی بن محمد خارجی، بابک بن عبداﷲ اور عبدالعزیز طرابلسی۔ جب یہ
فتنہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوی نبوت کے نتیجے میں برصغیر میں اٹھا تو
مسلمان عوام اور علماء نے روز اول سے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ قیام پاکستان
کے بعد کئی سال تک اس فتنے کے سد باب کیلئے تحریک ختم نبوت زور شور سے چلتی
رہی جبکہ 1953کی’’ تحریک ختم نبوت‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔اس تحریک میں مسلمانوں
کے تمام مکاتب فکر کے زعماء ہم آہنگ تھے۔ بقول علامہ ابن خلدون ’’جب ایسے
کسی فتنے کو حکومت وقت کی آشیرباد حاصل ہو تو اہل حق کیلئے اس کے سد باب کے
راہ میں کئی رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں۔ کچھ اس سے ملتے جلتے
حالات یہاں بھی تھے۔ اس کے باوجود تحریک ختم نبوت کے جان نثاروں کی
قربانیاں اور کاوشیں رنگ لائیں۔بالآخر 30 جون 1974 کو علامہ شاہ احمد
نورانی صدیقی رح نے تمام مکاتب فکر کی معاونت سے بحیثیت ممبر قومی اسمبلی
قادیانیوں کے احمدی اور لاہوری گروہوں کے خلاف ایک تاریخی قرارداد پارلیمنٹ
میں جمع کرائی کہ ’’ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ
حضرت محمدﷺ اﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ لھذا اس باطل عقیدے کی وجہ
سے انہیں غیر مسلم اقلیت قراردیاجائے‘‘۔ یہ قرارداد پارلیمنٹ سے منظور ہوئی
اور 7 ستمبر 1974 کو وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو کے دور میں
قادیانیوں کے دونوں گروہوں احمدیوں ا ور لاہوریوں کو غیر مسلم اقلیت قرار
دیاگیا جو کہ 1973 کے آئین کا حصہ ہے۔ دلچسب بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی
اسمبلی میں قرادادِ ختم نبوت اس سے ایک سال پہلے 29 اپریل 1973کو اس وقت کے
ممبر اسمبلی میجر ایوب خان مرحوم نے پیش کر دی تھی۔ وہ قرارداد پاس بھی
ہوئی لیکن بوجوہ اس پر قانو ن سازی کیلئے پیش رفت نہ ہوسکی۔ 44 سال بعد
آزاد جموں و کشمیر اسمبلی نے بدھ 26 اپریل 2017 کو ممبر اسمبلی صاحبزادہ
پیر سید محمدعلی رضا شاہ بخاری کی پیش کردہ تاریخی اور جامع’ ’قرار داد
تحفظ ختم نبوت‘‘ کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تحفظ
ناموس رسالت کے حوالے سے پاکستان میں جملہ نافذ شدہ قوانین آزاد جموں و
کشمیر میں بھی نافذ العمل ہوں گے۔ پیش کردہ قرارداد کے متن سے کچھ اہم نکات
یہ ہیں کہ مکہ مکرمہ میں 140 مسلمان تنظیمات کے 6تا 10 اپریل 1974 کے اجلاس
میں قادیانیوں کے احمدی اور لاہوری گروہوں کو بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج
قرار دیاتھا۔ اسی طرح آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 260کی ذیلی شق 3 کی
کلازز اے اور بی کے مطابق بھی قادیانیوں کے احمدی اور لاہوری گروہوں کو غیر
مسلم قرار دیا گیا ہے۔اس طرح تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے حوالے سے
پاکستان میں جو قوانین بنے اور مختلف ادوار میں ان میں ترامیم ہوئیں، انہیں
تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری کے تحت من و عن خطہ آزاد کشمیر میں فوری
طور پر نافذ العمل کیا جائے۔معزز ایوان کو فرض منصبی کے طور پر اس سلسلے
میں اقدامات کرنے ہوں گے۔خطہ آزاد جموں و کشمیر میں مقیم مرزایؤں (احمدی
اور لاہوری گروپ) کو بطور غیر مسلم شہری رجسٹرڈ کیا جائے۔ اسی طرح نیشنل
رجسٹریشن ایکٹ 1973 کے مطابق ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے۔ ان کے شناختی کارڈ
اور پاسپورٹ میں باضابطہ طور پر مذہب کے خانے میں غیر مسلم درج کیا جائے
تاکہ ان کی غیر مسلم کے طور پر شناخت ہوسکے۔ غلط بیانی کے طور پر غیر مسلم
ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے یا غلط معلومات فراہم کرنے کی صورت
میں کسی فرد یا افراد کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت فوری کاروائی بھی عمل
میں لائی جائے۔ یہ ایوان ریاست جموں و کشمیر میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے
سے مرزایؤں کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے۔ انہیں اپنی عبادت گاہ کو
مسجد کہنے یا لکھنے اور اذان دینے پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ ہر تھانے
کو ان کی تبلیغ اور نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھنے کا پابند کیا جائے تاکہ
مسلمانوں کو دھوکہ نہ دے سکیں۔ نیز 1984 کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کو مع
جملہ ترامیم کے من و عن خطہ آزاد جموں و کشمیر میں نافذ کیا جائے۔آزاد جموں
و کشمیر اسمبلی کے اراکین نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے ارتکاب کی شدید
الفاظ میں مذمت کی۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان اور پاکستان کی معزز عدلیہ
کی طرف سے جو کاروائیاں یا ہدایات جاری ہوئیں یا ہوں گی، انہیں من و عن
آزاد جموں و کشمیر میں بھی لاگو کیا جائیگا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ
فاروق حیدر، سپیکر شاہ غلام قادر اورمعزز ایوان کے مختلف پارٹیوں سے تعلق
رکھنے والے جملہ اراکین مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس
قرارداد کو منظور کرکے دور حاضر کے عظیم فتنے کی سرکوبی کی اور اپنے پیارے
نبی ﷺ سے وفاداری اور دین اسلام سے وفا شعاری کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے ذمے 44
سال سے یہ قرض چلا آرہاتھا جو انہوں نے 26 اپریل 2017کوچکا دیا۔ گزشتہ نصف
صدی میں حکومتوں کا آنا جانا تو لگا رہا لیکن نہ جانے اس اہم ترین اشو کو
زیر غورکیوں نہیں لایا گیا۔یہاں تک کہ علماء و مشائخ کی سیٹ پرمنتخب ہونے
والوں نے بھی اس طرف دھیان نہ دیا۔ صاحبزادہ پیر سید محمد علی رضا شاہ
بخاری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ بساہاں شریف یقینا ہزارہا بار ہدیہ تبریک
کے مستحق ہیں جن کی کاوشوں اور توجہ سے یہ قرارداد تیار ہوئی، ایوان میں
پیش کی گئی اور پھر اتفاق رائے سے منظور بھی ہوئی۔ |