روزہ اور فطرت انسانی:
اسلام دین فطرت ہے،اس لیے اسلامی قوانین کا انسانی فطرت سے گہرا ربط
ہے،اسلام کا کوئی بھی قانوں انسانی فطرت سے متصادم نہیں ہے، اسلام نے
انسانوں کو عبادات کا جو حسین گلدستہ عطا فر مایا ہے اس میں کہیں بھی فطرت
ِ انسانی کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ اسلامی عبادات جہاں مالک
حقیقی کی بارگاہ میں اظہار عبودیت کےمظاہر ہیں وہیں انسانوں کے فطری جذبات
کی تسکین کے ذرائع بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نےبندوں کے اندر مختلف قسم کے
احساسات، جذبات اور کیفیات پید اکیے ہیں ۔ڈر،خوف، رحم ، غیض وغضب، بر ہمی ،
خودرفتگی،عشق،محبت ، دیوانگی یہ سارے اوصاف انسانی فطرت کا حصہ ہیں، لیکن
اللہ تعالیٰ نے فطرت ِ انسانی کے ان مظاہر کو اسلامی عبادات میں کس طرح
سمودیا ہے،ذرا ملاحظہ فر مائیں، نماز انسان کے خوف اور عاجزی وانکساری کو
ظاہر کرتی ہے ، زکات وصدقات انسان کے جذبہ رحم وکرم کا عکاس ہے ، جہاد
سےغصہ ،بر ہمی اور غیض و غضب کا اظہار ہو تا ہے،اسی طرح روزہ اللہ تعالیٰ
سے حد درجہ محبت اور عشق و وارفتگی کا مظہر ہے ۔گویا روزہ انسانی فطرت کی
تسکین کے ساتھ ایک محبِّ صادق کا اپنے محبوب کی بارگاہ میں ایک خاموش
نذرانہ بھی ہے ، روزہ دار کونہ تو کسی کی تعریف وتوصیف کی فکر ہوتی ہے اور
نہ ہی کسی سے جزا کی طلب۔روزہ دار کی بس اتنی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا رب اس
کے اس خالص نذرانے کو اپنی بارگاہ میں قبول فر مالے ، خالق کائنات ارشاد فر
ماتا ہے الصوم لی واجزی بہ۔روزہ میرے لیے اس کی جزا میں خو دعطا کروں گا۔
روزہ کا ایک اہم پیغام:
روزہ جہاں حکم خدا وندی کی تعمیل کے لیے بھوک وپیاس کی شدت برداشت کر نے کا
نام ہے وہیں روزہ سے ہمیں کئی طرح کے پیغامات بھی ملتے ہیں ۔ اسلامی معاشرے
کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا جامع نظام قائم کیا
ہے جو ہر جہت سے مکمل اور بے مثال ہے، ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ وہ ہے جو
مکمل طور پر خوش حال ہے ، دولت کی ریل پیل ہے، عیش وعشرت کے سارے سامان
مہیا ہیں ، دوسرا طبقہ وہ ہے جو غربت وافلاس کا مارا ہے ،اسےدو وقت کی روٹی
بھی نصیب نہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے طبقے کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے
زکات وصدقات کا نظام قائم کیا ہے ، لیکن عیش وآرام میں زندگی بسر کر نے
والوں کو ان مفلسوں کے کرب واضطراب کا اندازہ کہا ں ہو تا ہے ، وہ اپنی
ضروریات کی تکمیل کے لیےلاکھوں خرچ کرتے ہیں ،لیکن سماج کے غربت زدہ ا فراد
کے لیے ان کا جیب تنگ ہو جاتا ہے ، اسلام نے بندوں کے اندر دوسرے انسانوں
کی بھوک وپیاس کی شدتوں کااحساس پیدا کر نے کے لیے روزے فرض کیے، تاکہ ایک
مہینے تک بھوک وپیاس کی صعوبتوں کو برداشت کر نے والا ان لاچار اور مجبور
انسانوں کی کلفتوں کا اندازہ لگا سکےجو پورے سال اس مصیبت کا سامنا کرتے
ہیں ۔ گویا روزہ ہمیں درس دیتا ہے کہ سماج کے غریب اور مفلوک الحال لوگوں
کی امداد وتعاون کے لیے ہمیں آگے آنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کر دہ
مال ودولت کا ایک حصہ اس کے نادار بندوں پرخرچ کر کے ان کی شکم سیری کا
انتظام کر نا چاہیے ۔ہم خودتو شکم سیر ہوں اور ہما را پڑوسی نانِ شبینہ کو
ترسے، یہ ہمارے لیے بڑی بے غیرتی کی بات ہے ۔
رمضان المبارک کاموسم بہاراں اور ہماری ذمے داریاں :
رمضان المبارک خیر وبرکت کا موسم ہو تا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں
ایسی برکتیں رکھی ہیں کہ انسانوں کا دل خود ہی نیکیوں کی طرف مائل ہو تا ہے
، سال بھر ویران نظر آنے والی مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں ،سحری اور افطاری کی
بہاریں دلوں میں ایک عجیب کیف وسرور کا ماحول پیدا کرتی ہیں ،چہار سو رحمت
ومغفرت کا فیضان ہر بندہ مومن محسوس کرتا ہے ، لیکن اس موسم رحمت میں بھی
ہمارے معاشرے کے کچھ محروم القسمت لوگ دنیا میں اس طرح مگن نظر آ تے ہیں کہ
ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا ، انہیں نہ تو روزوں کا خیال ہو تا ہے
اور نہ ہی عبادات کی فکر، اس وبا میں اکثر وہ لوگ گرفتار ہیں جن کے یہاں
مال دولت کی افراط ہے ، ایسے لو گ دولت کے نشے میں اپنے رب کے حکم کو یکسر
فراموش کرکے اپنی عاقبت بر باد کرنے پر تلے ہو تے ہیں، بازاروں میں‘‘ مسلم
ہو ٹل ’’دن میں بھی کھلے رہتے ہیں اور ان پر پر دہ ڈال کر رمضان المبارک کا
مذاق اڑایا جاتا ہے ، بے غیرت مسلمان بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے ہو
ٹلوں سے شکم سیر ہو کر نکلتے ہیں ، غیر مسلم، مسلمانوں کی اس بے غیرتی پر
کس قدر خوش ہوتے ہوں گے ، کہنے کی بات نہیں ۔خدارا یاد رکھیں !دنیا چند
روزہ ہے ، آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے ،اخروی زندگی کو فراموش کر کے
روزوں سے صرف نظر کر لیناہماری تباہی کا ذریعہ ہے ۔علماے کرا م اورسماج کے
بااثر اسلامی بھائیوں کی ذمے داری ہے کہ رمضان کے دنوں میں کھلے عام کھانے
پینے والے اور بر سرعام رمضان کی بے حرمتی کر نے والے مسلمانون کو محبت سے
سمجھائیں اور انہیں غیر شر عی اعمال سے باز رہنے کی تلقین کریں ، پھر بھی
باز نہ آئیں تو ایسے لوگوں کا سماجی با ئیکاٹ کرکے ان کا دائرہ حیات تنگ کر
دیں ۔ رمضان المبارک میں ہوٹلوں میں پردہ ڈال کرپناہ گاہ فراہم کر نے والے
مسلم ہوٹل والوں کو بھی تنبیہ کریں اوربتائیں کہ ان کے اس عمل سے نہ صرف یہ
کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو تا ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کی بد نامی بھی ہو تی
ہے۔ رزاق اللہ تعالیٰ ہے وہی اپنے بندوں کو رزق عطا فر ماتا ہے ۔
رمضان المبارک میں کر نے کے کچھ کام :
رمضان المبارک میں اعمال خیر کا ثواب کئی گناہ ہوجاتا ہے ، متعدد احادیث
کریمہ میں اس کا ذکر موجو ہے، اس لیے ہمیں اس موسم خیرمیں زیادہ سے زیادہ
اعمال صالحہ انجام دینے کی کوشش کر نی چاہیے ۔جن لوگوں پر زکات فرض ہے ان
کے لیے ہر حال میں زکات کی ادائیگی لازم ہے ، رمضان المبارک اس کا بہتر وقت
ہے ، زکات تو ادا ہو گی ہی ، کئی گنا ثواب کا بھی مستحق ہو جائے گا ۔ رمضان
المبارک میں کثرت سے صدقہ نافلہ ادا کر کے رمضان کے فیوض و بر کات کو اپنے
دامن میں سمیٹنا چاہیے ، رمضان المبارک کو غم گساری اور ہم دردی کا مہینہ
کہا جاتا ہے،اس مبارک مہینے میں ہمیں اپنے اپنے پڑوسیوں اور قریبی مستحقین
کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے ، ہمارے یہاں افطار پارٹیاں بہت ہو تی
ہیں ، لیکن وہ بھی اب ریا ، دنیاداری اور سیاست کا نذر ہو کر رہ گئی
ہیں،افطار پارٹیوں میں عموما غریبوں اور ناداروں کو نظر انداز کر دیا
جاتاہے اور ایسے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو صاحب حیثیت اور مال دار ہوتے
ہیں ، طرفہ یہ کہ ایسی پارٹیوں میں بے روزہ دار اور غیر مسلموں کو بھی شریک
ہو تے دیکھا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں ہمیں اپنی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔رمضان
المبارک میں اکثر مساجد میں ختم تراویح کا اہتمام ہو تا ہے بعض مساجد میں
سورہ تراویح پڑھی جاتی ہے ، دیکھا یہ جاتا ہے کہ چند دنوں تک مسجد یں بھری
رہتی ہیں اور دھیرے دھرے نمازیوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے ، گویا یہ نمازی
اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ اپنی طیبعت کے تقاضے کی وجہ سے مسجد
آتے ہیں اور جب چند دنوں کے بعد طیبعت پر تراویح گراں گزر نے لگتی ہے تو
مسجد آنا بند کر دیتے ہیں ، اب نہ تو پنج گانہ نماز کی فکر ہوتی ہے اور نہ
ہی تراویح میں شرکت کا خیال ، یقینا یہ ہمارے لیے بڑی محرومی کی بات
ہے۔تلاوت قرآن ہر موسم میں بڑی بر کتوں اور سعادتوں کا باعث ہے ،لیکن ہمارا
معاشرہ تلاوت قرآن اور قرآن فہمی سے دور ہوتا جارہا ہے ، رمضان المبارک کے
سعید لمحات میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت اور مضامین قرآن کو
سمجھنے کی کوشش ہمارے لیے اخروی سعادتوں کا باعث ہو گا ۔
سحری کے اعلان میں احتیاط کی ضرورت:
رمضان المبارک کا موسم بہاراں کیا آتا ہے کہ رحمت وبر کت کے دروازے اپنی
تمام تر وسعتوں کے ساتھ کھل جاتے ہیں،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا رزق کشادہ
فرمادیتا ہے،بوڑھے بچے اورجوان سبھی سحری وافطار کا لطف اٹھاتے ہیں،اس گہما
گہمی میں ہم سے شعوری یا غیر شعوری طور کچھ ایسی غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں
جن سے اجتناب از حد ضروری ہے ۔
ملک کے طول وعرض میں رمضان المبارک کے مہینے میں اسلامی بھائیوں کو بیدار
کرنے کے لیے لاؤڈسپیکر کا استعمال ہو تا ہے ،مسلمانوں کو سحری کے لیے بیدار
کر نا ایک مستحسن عمل ہے، لیکن ہماری بے توجہی کے سبب یہ عمل دوسروں کے لیے
تکلیف کا باعث بنتا جارہا ہے ، مشاہدہ ہے کہ قریات وقصبات میں رات کے دو
ڈھائی بجے سے ہی تیزآواز میں لاؤڈسپیکر آن کر دیا جاتا ہے اورفجر کی اذان
تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہندوستان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے
، تقریبا ہرآبادی میں کچھ گھر غیر مسلموں کے ضرور ہو تے ہیں ، ظاہر ہے ایسے
میں ایک مہینے تک مسلسل دو بجے سے صبح تک کا ہنگامہ ان کے لیے تکلیف دہ اور
نیند میں خلل کا باعث ہو گا ۔ایسے میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے غیر ضروری
عمل کے ذریعہ برادرانِ وطن کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں اور اپنے عمل
وکردار سے انہیں یہ باور کرائیں کہ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے ، اسلام
پڑوسیوں کے حقوق کا اس قدر لحاظ کرتا ہے کہ ان کی نیند میں خلل ڈالنا بھی
پسند نہیں ہے ۔
میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ رمضان المبارک میں سحری کے لیے بیدار کر نے کے عمل
خیر کو بند کر دیا جائے ، منشا صرف یہ ہے کہ لاؤ ڈسپیکر کا استعمال ضروری
حدتک ہی کیا جائے، مسلسل دوتین گھنٹے تک ریکارڈنگ بجانے کے بجاے صرف اعلان
پر اکتفا کیا جائے وہ بھی ضرورت پر ، ور نہ آج حالات ماضی کے مقابلے میں
بہت حد تک بدل چکے ہیں ، مرغ کی بانگ سن کر سحری ختم کر نے کا زمانہ اب ختم
ہو چکا ہے، آج ہر گھر میں ایسے آلات موجود ہیں جو سوتوں کو جگانے کا کام
کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی بر کتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کی توفیق
عطا فر مائے ، آمین ، بجاہ حبیبہ سید المر سلین ۔
٭٭٭٭
|