’جرم مسلمانی کی سزا ہے یہ‘

گزشتہ دنوں دہلی میں بھینس لے جارہے مسلمانوں کو مارڈالا گیا یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ آسام میں دو مسلم نوجوانوں کو گائے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ وہیں گجرات اسمبلی قانون پاس کرتی ہے کہ گئو کشی کرنے والے افراد پر جرمانہ عائد کیاجائے گا۔لیکن یہ قانون کہیں نہیں بنتا کہ جو مسلمان کو بنا خطا کے مارے گا، انہیں ہراساں کرے گا انہیں سزا ہوگی۔ بی جے پی کے حکومت میں آتے ہی مسلمانوں پرافتاد کا سلسلہ چل پڑا جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے شرعی معاملوں میں بھی مداخلت کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کے عائلی مسائل پر اعتراض کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچای جارہی ہے۔ طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر مسلم خاتون کی ہمدردی کا راگ الاپنے والی بی جے پی اگر ذکیہ جعفری،گمشدہ نجیب کی ماں ، سفاکی کے شکار اخلاق کی ماں او رپہلو خان کی نابینا ماں کی سوچے انہیں انصاف دلائے تو کہا جاسکتا ہے مودی نے انصاف کی راہ ہموار کی ،مسلم خاتون کی بہبودی کے لیے سوچا ،لیکن نہیں ان کا مقصد مسلم خاتون سے انصاف کرنے کا صرف ڈھنڈورہ پیٹنا ہے انہیں تو شریعت میں مداخلت کرنی ہے۔ کیا مودی جی بتا سکتے ہیں دو ہزار دو کی گجرات فسادات میں ان کے زیر سرپرستی بلوائیوں نے کتنی مسلم خاتون کی عصمت دری کی تھی، کتنے مائوں کو خون کے آنسوں رونے پر مجبور کیا گیا تھا، کتنی خاتون کو بیوگی پر مجبور کردیا ہے ۔ کیا وہ سب مسلم خاتون نہیں تھیں، کبھی ان کے لیے آپ نے انصاف کی آواز کیوں نہیں اُٹھائی ؟تین طلاق پر آپ انہیں انصاف دلانے کی باتیں کررہے ہیں پہلے اپنی جشودا بین کو انصاف دلا دیں ان کے سونے ہاتھوں کو بھردیں تو ہم کہیں گے آپ نے انصاف کا دامن تھام لیا ہے،نہیں کرسکتے نہ ؟ تو پھر یہ ڈھنڈوڑا نہ پیٹیں مسلم عورتوں کو پروپیگنڈہ کے ذریعہ ’رام‘ نہ کریں۔

’جرم مسلمانی کی سزا ہے یہ‘

بابری مسجد کے انہدام نے ہندوستان کو فرقہ پرستی کی نذر کردیا ،اس کے بعد سے آج تک مسلمان فرقہ پرست عناصر کے نشانہ پر ہیں، صرف ہندوستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی یہی صورت حال ہے ، خصوصیت کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں پر کچھ زیادہ ہی مصیبتیں آئی اور اس مصیبت میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب آر ایس ایس کی شاخ اسرائیل میں کھلی اور یہاں کے اس وقت کے نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی نے وہاں کا دورہ کیا تھا اس وقت سے کچھ زیادہ ہی پریشانیاں ہندوستانی مسلمانوں کو لاحق ہوئی ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ آر ایس ایس کو اپنے اسرائیلی آقائوں کی سرپرستی حاصل ہے ، اور ملک میں بی جے پی کی حکومت قائم ہے۔ اسرائیل اور آر ایس ایس کا مظالم ڈھانے میں یکساں کردار ہے فلسطین سے لے کر کشمیر تک پتھروں کی کہانی یہ عیاں کرتی ہے کہ دونوں خطوں کے افراد پر یکساں ظلم ہورہا ہے۔ ادھر اسرائیل ادھر بی جے پی۔ جب بی جے پی کی حکومت یہاں قائم نہیں تھی تو وہ اپنے بیرونی آقائو ں کے حکم کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن اب جب کہ یہاں انہیں اقتدار حاصل ہے، طاقت و قوت حاصل ہے ،ان ہر تدبیر کارگر ثابت ہورہی ہے ، ایوان میں ان کی بالادستی ہے ،وہ جب چاہتے ہیں جس وقت چاہتے مسلمانوں کو ہراساں کرتے ہیں انہیں ظلم و ستم کی چکی میں پیستے ہیں ، انہیں تکلیف دینے کا کوئی موقع نہیں گنواتے ۔نوادہ فساد ، دادری، پہلو خان، حیدرآباد فساد ، اور پتہ نہیں کتنے ایسے معاملے ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کی کمر توڑی گئی انہیں برباد کیا گیا۔ ہندوستانی مسلمان اپنے ہی ملک میں غیروں کی طرح جینے پر مجبورہے، نت نئے انداز سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے، ہر ظلم وستم کو ان پر روا رکھنا جائز ہے، کوئی نہیں ہے جواس مظلوم قوم کا ہمدردہو،اس کے زخموں پر مرہم رکھے،اس کے حقوق کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ، ہرسیاسی پارٹی اپنے مفاد کی خاطر اسے استعمال کرتی ہے ،لیکن الیکشن کے بعد وہ انہیں بھول جاتی ہے، اور ان کے زخم پہلے ہی کی طرح رستے رہتے ہیں ، بلکہ ان پر نمک پاشی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ،اور پورے ملک میں صرف اور صرف مسلمان ہی ایسی قوم ہے جسے ہرجرم میں ملوث گردانا جاتا ہے ۔ مثلاً اگر کہیں کوئی بم دھماکہ ہو اس میں مسلمان شامل، اگر کہیں فرقہ وارانہ فساد ہو اس کا ذمہ دار مسلمان اخبارات ورسائل اور میڈیا ان کے مجرم ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ انہیں دہشت گرد بتایا جاتا ہے ،ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث بتایا جاتا ہے ،حالانکہ کتنی گرفتاریاں ایسی ہیں ،،جن کے پاس ٹوپی تسبیح کے سوا کچھ بھی نہیں تھا مگر وہ دہشت گرد قرار پائے ،اب سکہ کا دوسرا پہلو دیکھئے میرٹھ سے ایک شخص گرفتار ہوا اس کے پاس تباہی کا سامان بے انتہاء تھا ،بارود اتنا کہ پورا شہر تہس نہس ہوجائے ،اور یہ بارود ختم نہ ہو مگر نہ وہ دہشت گرد ،نہ ملک مخالف نہ آیس آئی کا فرد چونکہ اس کا مذہب اسلام نہیں تھا ،اس کے چہرے پر ڈاڑھی ٹوپی نہیں تھی ، حالانکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ مسلمان یہ سب کام نہیں کرتے لیکن پھر بھی مسلمانوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں ،انہیں دہشت پسند قرار دیتےہیں ، اپنے اسرائیلی وامریکی آقائوں کی خوشنودی کیلئے ۔ لہذا کوئی بھی مسلم تنظیم ایسی نہیں ہے جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہواس کے برعکس برادران وطن کی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو فرقہ پرستی میں آزادی کے بعد سے اب تک ملوث ہے، مثلاً آر ایس ایس، بی جے پی، شیوسینا، بجرنگ دل، وشواہندوپریشد وغیرہ۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اندرا جی کے قتل سے لے کر باپو کے قتل تک اور مالیگائوں بم دھماکے سے لے کر مکہ مسجد دھماکے تک تمام حادثات میں ان فرقہ پرست تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے، ملک میں جہاں کہیں بھی بم دھماکے ہوئے اس میں ان لوگوں کے شامل ہونے کے ثبوت ملے لیکن اس سے صرف نظر کرتے ہوئے نشانہ مسلمانوں پے ہی سادھا گیا۔ کیوں ؟ صرف اور صرف اسلئے کہ یہ مسلمان ہیں، ان کا جرم صرف یہی ہے۔ اب حالات ان کیلئے ایسے بنا دئیے گئے ہیں کہ بے چارے خود کو مجرم سمجھنے لگے ہیں۔ جہاں کہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے مسلمان اپنے آپ کو کچھ نہ کرتے ہوئے بھی گنہ گار سمجھنے لگتا ہے اور کیوں نہ سمجھے اسے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو یہ پولس والے اور سیاست کے کارندے بلاتردد انہیں کی گرفتاری کریں گے کیوں کہ وہ مسلمان ہیں، اب بے چارے اپنے حقوق کی بازیابی کو بھی جرم سمجھنے لگے ہیں، ان کے لئے احتجاج کرنا بھی جرم ہوگیا۔ ملک کے ہر صوبے میں ہرضلع میں مسلمان تعصب کا شکار ہے مسلمان اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی پرایا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ وہ جزیہ دے کر رہ رہا ہو۔ عوام پولس پربھروسہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے لیکن مسلمانوں کے ساتھ پولس بھی تعصب برتتی ہے۔ فی الحال پورے ملک میں گئو رکشکوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے ،دادری کے اخلاق سے شروع ہونے والا قتل کا سلسلہ نصف درجن سے زائد مسلمانوں کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے ،خدا جانے اخلاق کے پہلو میں اور کتنے مسلمان سوئیںگے ۔ لیکن ستم یہ کہ مقتول بھی مسلمان ہو ا اور ایف آئی آر بھی ان پر ہی درج کی جاری رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں دہلی میں بھینس لے جارہے مسلمانوں کو مارڈالا گیا یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ آسام میں دو مسلم نوجوانوں کو گائے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ وہیں گجرات اسمبلی قانون پاس کرتی ہے کہ گئو کشی کرنے والے افراد پر جرمانہ عائد کیاجائے گا۔لیکن یہ قانون کہیں نہیں بنتا کہ جو مسلمان کو بنا خطا کے مارے گا، انہیں ہراساں کرے گا انہیں سزا ہوگی۔ بی جے پی کے حکومت میں آتے ہی مسلمانوں پرافتاد کا سلسلہ چل پڑا جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے شرعی معاملوں میں بھی مداخلت کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کے عائلی مسائل پر اعتراض کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچای جارہی ہے۔ طلاق ثلاثہ کی آڑ لے کر مسلم خاتون کی ہمدردی کا راگ الاپنے والی بی جے پی اگر ذکیہ جعفری،گمشدہ نجیب کی ماں ، سفاکی کے شکار اخلاق کی ماں او رپہلو خان کی نابینا ماں کی سوچے انہیں انصاف دلائے تو کہا جاسکتا ہے مودی نے انصاف کی راہ ہموار کی ،مسلم خاتون کی بہبودی کے لیے سوچا ،لیکن نہیں ان کا مقصد مسلم خاتون سے انصاف کرنے کا صرف ڈھنڈورہ پیٹنا ہے انہیں تو شریعت میں مداخلت کرنی ہے۔ کیا مودی جی بتا سکتے ہیں دو ہزار دو کی گجرات فسادات میں ان کے زیر سرپرستی بلوائیوں نے کتنی مسلم خاتون کی عصمت دری کی تھی، کتنے مائوں کو خون کے آنسوں رونے پر مجبور کیا گیا تھا، کتنی خاتون کو بیوگی پر مجبور کردیا ہے ۔ کیا وہ سب مسلم خاتون نہیں تھیں، کبھی ان کے لیے آپ نے انصاف کی آواز کیوں نہیں اُٹھائی ؟تین طلاق پر آپ انہیں انصاف دلانے کی باتیں کررہے ہیں پہلے اپنی جشودا بین کو انصاف دلا دیں ان کے سونے ہاتھوں کو بھردیں تو ہم کہیں گے آپ نے انصاف کا دامن تھام لیا ہے،نہیں کرسکتے نہ ؟ تو پھر یہ ڈھنڈوڑا نہ پیٹیں مسلم عورتوں کو پروپیگنڈہ کے ذریعہ ’رام‘ نہ کریں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے دستخطی مہم کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے عائلی مسائل میں ہرگز مداخلت برداشت نہیں کرسکتی اور انہیں طلاق ثلاثہ سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ ایک قبیح عمل ہے لیکن جب حالات ناگزیر ہوجائیں تو طلاق دی جاسکتی ہے احسن طریقے سے۔ ہم مسلمانوں سے بھی کہناچاہتے ہیں کہ وہ طلاق دینے میں شریعت کی پاسداری کریں، غصے اور جذبات میں آکر اسلام کا مذاق نہ بنائیں آپ کی ان ہی جذباتی حرکتوں سے اسلام دشمن لوگوں کو شریعت میں مداخلت کا جواز ملتا ہے اورمسلم خاتون کو سرعام رسوائی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ خدارا اسلام کی حقانیت کو سمجھیں، اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں یقین مانیں جس دن ہم مکمل اسلام میں داخل ہوگئے دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو ہمارے شرعی مسائل میں مداخلت کی سوچے ۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68928 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.