افسانہ: نور بخاری
کوئی سمجھے تو عشق توفیق ہے، گناہ نہیں۔ ثمن نے سوچا اور اس کے لبوں پر
مسکراہٹ تیر گئی۔ ماہم کی اداس رہنے والی آنکھیں اب ایک دم سے جگمگا اٹھیں
تھیں۔ یوں لگنے لگا تھا کہ ماہم کی آنکھوں میں بھی کچھ خوابوں نے بسیرا
کرلیا ہے اور وہ بھی ماہم کی اجازت کے بغیر ہی پورے استحقاق کے ساتھ۔
ثمن سمجھ گئی کہ پاس میں ہی کہیں سینئرز کا گروپ ہے۔تبھی تو اس خاموش اور
پیاری سی لڑکی کی آنکھیں جگمگا اٹھیں ہیں ۔ کچھ ہی دیر بعد اونچی آواز میں
باتیں کرتا اور قہقہے لگاتا سینئرز کا گروپ ساتھ والی میز پر آکر بیٹھ گیا۔
یہ گروپ 5افراد پر مشتمل ایک ذہین ، مغرور اور خودسر گروپ سمجھا جاتا تھا۔
گروپ کے تمام لوگوں کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا۔ یہیں وجہ تھی کہ یونیورسٹی
کے دوسرے اسٹوڈنٹس ان سے بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔احمد رضا، فرخ چودھری،
شرجیل اور دو انتہائی مغرور لڑکیاں رمشہ علی اور نادیہ رضوی پر مشتمل یہ
گروپ شاید ہی دکھ یا ناکامی جیسے لفظوں سے آشنا تھا۔ تبھی تو بہت مغرور اور
ہر ایک کا مذاق اڑاتا تھا۔
اس وقت گروپ میں نمایاں اور لاپرواہ شوخ سا لڑکا احمد رضا ہی تھا جو ماہم
کی نظروں کا مرکز تھا ۔ثمن نے ماہم اور احمد کو دیکھا اور پھر کچھ سوچتے
ہوئے لکھنے میں مصروف ہوگئی۔
ماہم بی ایس کمپیوٹر کے فرسٹ ائیر میں تھی اور یونیورسٹی میں پہلے دن جب وہ
اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف آرہی تھی تو تھرڈ ائیر کے احمد رضا کے گروپ نے اسے
رستے میں ہی روک لیاتھا۔ سینئرز گروپ کے تمام افراد طرح طرح سے باتیں کر کے
اس کا مذاق اڑاتے اسے نروس کرنے کی کوشش کر تے تھے ۔ماہم خاموشی سے کھڑی اس
اجنبی لڑکے کو ایسے دیکھتی رہتی تھی جیسے وہ کوئی شناسا سا چہرہ ہو۔
ہر طرف روشنی پھیلتی جارہی تھی اور مسحور کر دینے والی خوشبو بکھر کر ہواؤں
کے سنگ رقص کرتے پھولوں سے ٹکرا کر اٹھکیلیاں کرنے لگی تھی۔ محبت کے فرشتے
نے آہستہ سے ماہم کو اپنے نورانی پروں سے ڈھانپ لیا۔
ادھر دو لوگوں کو محبت کی خوشبو کی بھنک لگ گئی تھی۔ نادیہ نے ماہم پر خوب
غصہ نکالا مگر ماہم چپ چاپ رہی۔ ثمن کو بھی اس محبت کا اندازہ ہوگیا تھا۔
وہ دور کھڑی ماہم کو دیکھ کر رک سی گئی۔ وہ محسوس کر سکتی تھی آسمانوں سے
محبت کا اترنا ایک انجانا سا جذبہ ہے جو کسی کسی کو ملتا ہے۔ ایک ایسا جذبہ
جو بہت ہی نایاب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ثمن ماہم کو کھینچتے ہوئے وہاں سے
دور لے گئی۔ پر ماہم سر جھکائے ایک ہی کیفیت میں گم لگ رہی تھی۔
ثمن سوچ رہی تھی کہ ماہم ایک خاموش سی شرمیلی سی لڑکی ہے ۔دوسروں کا خیال
رکھتی ہے جبکہ احمد رضا ایک ذہین مگر فلرٹی لڑکا ہے۔ پیسے نے اسے خود غرض
بنا دیا تھا۔ دوسروں کو ڈی گریڈ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ احمد رضا کی
تو بہت سی لڑکیاں دیوانی تھیں اور احمد بھی اس بات کا بھر پور فائدہ اٹھاتا۔
ایک دن ماہم نے ایک کتاب لائبریری سے لی تھی ااور وہیں کتاب احمد ڈھونڈ رہا
تھا۔ ماہم خاموشی سے وہ کتاب سامنے ٹیبل پر رکھ کے آگئی۔ ایک مرتبہ کینٹین
میں ماہم چائے کا آرڈر دے کر کتاب لینے چلی گئی واپس آئی تو وہ چائے احمد
پی چکا تھا جس پر ماہم نے بل ادا کیا اور چپ چاپ وہاں سے چلی گئی۔
وہ اکثر سوچتی تھی کہ ماہم کیسے پہلی نظر میں ہی خود کو ہار بیٹھی تھی۔
شاید اسی کو تو محبت کہتے ہیں۔ یہ آسمانی تحفہ ہر کسی کو تو نہیں ملتا۔ ثمن
وہ سب دیکھتی مگر خاموش رہتی مگر وہ ماہم اور احمد کے حوالے سے تمام باتیں
قلمبند کرتی رہتی۔ کبھی سوچتی کہ احمد کو سب بتا دے ماہم کے متعلق پھر خود
ہی اپنے خیال کی نفی کر دیتی کہ کہیں احمد، ماہم کے پاکیزہ جذبوں سے کھیل
نہ جائے۔ وہ چاہتی تھی کہ محبت کی یہ کہانی اچھے انجام کو پہنچے۔
کچھ دنوں سے ماہم یونیورسٹی نہیں آرہی تھی ایک تو فائنل کی بھی ڈیٹ شیٹ مل
گئی تھی اور دوسرا ماہم کے نہ آنے سے ثمن کی کہانی بھی وہاں ہی رکی ہوئی
تھی۔ ثمن کی نظر سامنے جاتے ہوئے لڑکے پر پڑی وہاں احمد کھڑا تھا۔احمد
بالکل بدلا ہوا لگ رہا تھا۔ سست روی سے قدم اٹھاتا ہوا مین گیٹ کی طرف جا
رہا تھا۔ ایسے میں ربیعہ ثمن کے پاس آبیٹھی اور پوچھا۔ کیا تم جانتی ہو
ماہم یونیورسٹی کیوں نہیں آرہی؟ثمن نے نفی میں سر ہلایا تو کہنے لگی کہ میں
بتاتی ہوں۔اس کی شادی ہوگئی ہے اور شاید اب اسے مزید پڑھنے کی اجازت نہیں
ملی۔
ثمن شاکڈ رہ گئی۔پتا نہیں ربیعہ کب وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔ثمن ایسے ہی
اپنی گود میں رکھے فولڈر میں پڑے اپنے اوراق دیکھ رہی تھی۔ جس پر بے لوث
اور پاکیزہ خاموش محبت پر لکھے گئے لفظ موتیوں کی مانند جگمگا رہے تھے۔ اس
کے ذہن میں الجھا الجھا سا احمد آیا اور ماہم کے خوابوں نے تو یکدم یلغار
کردی۔ کتنا بے خبر نکلا احمد۔ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کو
کھو دے گا جو اس کی ہوتے ہوئے بھی اس کو نہ مل سکی۔ محبت کی کہانی تو ابھی
شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ تو یہ ایکدم سے کیا ہو گیا؟ ثمن کی آنکھوں سے مقدس
پانی کے چند قطرے اس کی گود میں رکھے ہوئے صفحات پر گرے۔ثمن نے کہانی کے
آخر میں یہ الفاظ لکھے۔ ’’شاید مخلص خاموش اور بے لوث محبتوں کی کہانیاں
اکثر ادھوری رہ جاتیں ہیں۔اور صفحات کو طے کر کے فولڈر میں رکھ لیا۔ |