خاموشی (دوسری قسط)

اگر آپ کو درست ہونے اور مہربان ہونے میں سے کسی ایک کو چننا پڑے، تو مہربان ہوں،کہ یہ اللہ کی صفت ہے ۔

دانش: یہ لو تمہاری چوڑیاں۔
شفق: اچھا۔(ہاتھ آگے کرتے ہوئے)
دانش:ارے ایسے تھوڑی دوں گا ،میں خود پہناوں گا۔
شفق : پاگل ہو تم ، نیچے جا کر امی کو کیا بتاوں گی چوڑیاں آسمان سے اُتری ہیں۔
دانش : وہ میں نہیں جانتا۔تم جانو ۔کیا کہو گی؟
شفق: اچھا ،جلدی پہناو۔یہ نہ ہو ربیعہ اوپر ہی آجائے۔
دانش : میری طرف دیکھنے کی بجائے تم نیچے ہی دیکھ رہی ہو لگا تار۔
شفق: میں اوپر کتابیں لینے آئی ہوں ، اتنی دیر رک رہی ہوں۔ امی پوچھیں گی مجھ سے ، تو کیا کہو گی۔
دانش : اچھا ہاتھ میں چوڑیا ں پہناتے ہوئے۔
شفق: اللہ حافظ
دانش : ارے رک رکو۔
(شفق کی چوڑیوں والی کلائی کو پکڑ کر)
دانش :اب کب ملو گی۔
شفق: پرسوں مشین لگاوں گی تو آو ں گی نا ۔شام کو ،اب جاو۔(ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے)
دانش : چار چوڑیاں ٹوٹی ہیں ۔یہ میں اپنے پاس رکھوں گا۔
شفق : اُتار کر دے دوں ۔کچھ اور وہ بھی رکھ لو۔(ہنستے ہوئے،اس نے اپنی کلائی سے چوڑیاں اُتارنے کے لیے دوسرا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پہنی سرخ چوڑیوں پر رکھا،جیسے واقعی چوڑیاں اُتار کر دانش کو دینے لگی ہو)
دانش: کیسی آن رومینٹک ہو یار۔(اپنے نیچے کے ہونٹ کو اپنے دانتوں سے کاٹتے ہوئے دانش نے افسردگی سے کہا)
شفق:اچھا، میں جا رہی ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراد: خوشی ، مجھے حساب کے سوال سمجھ میں نہیں آ رہے۔ سمجھا دے۔
خوشی : مجھے نہیں آتے ،جا یہاں سے۔ میں سبق یاد کر رہی ہوں۔(غصے سے خوشی نے منع کر دیا)
مراد: ٹھیک ہے ۔ میں ابو کو بتاوں گا ۔ تو نے میری کتابیں اُٹھا کر پھینکی اور مجھے حساب کے سوال نہیں سمجھائے ، پھر دیکھنا کیسی کٹ پڑتی ہے تجھے ، خوشی کی بچی۔
خوشی: دفع ہو یہاں سے ، مجھے پڑھنے دے۔
صبا: خوشی تیر ا چھوٹا بھائی ہے۔ سمجھا دے نا۔ اِتنی لائق ہے میری بچی۔ بھائی کی مدد نہیں کرئے گی۔میری خاطر کر دے ،میں چاہتی ہوں ،میرا بیٹا افسر بنے۔
خوشی :ابو کی تڑیاں دے رہا ہے ، کمینہ ، خبیث ہے ،چھوٹا بھائی۔ہوں
(سر کو سائیڈ پر گماتے ہوئےخوشی نے کہا ،میں کسی سے نہیں ڈرتی، دل ہی دل میں اُسے خوف محسوس ہوا ۔مراد سچ کہہ رہا تھا۔مراد ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی صابر کو بتاتا تھا۔صابر اس کی ہر بات کا آنکھ بند کر کے اعتبار کرتا تھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی وہ خوشی کو مار کھلوا نے کا سبب بن چکا تھا۔ خوشی اس وقت گیارہ سال کی تھی۔ وہ مراد کو امی کے کہنے پر بلانےصحن میں آئی تھی ، بارش ہو رہی تھی ۔ مراد نے منع کیا ،خوشی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تو وہ گِر گیا،خوشی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ چلنے کی بجائے گِر جائے گا۔گھڑے پر گِرنے کی وجہ سے اس کے سر پر زخم آ گیا ۔ اس نے سب کو چھوٹ کہا کہ ،خوشی نے اسے دھکا دے کے جان بوجھ کے گھڑے پر پھینکا ہے، صابر نے مراد کے سر پر بندھی پٹی دیکھی تو غصے سے پاگل ہو گیااور خوشی کو بہت مارا ،یہ پہلی مار تھی جو خوشی کو پڑی تھی۔ خوشی اس مار کے بعد مراد کو ناپسند کرنے لگی تھی۔ وہ مراد سے دور ہی رہتی تھی ، دوسری بار پتنگ اُڑانے پر اُسے مار پڑی تھی)
صبا نے پاس آکر خوشی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور منت کرنے والے انداز سے اسے کہنے لگی۔
صبا:میری پیاری بچی ،مراد کو سوال سمجھا دے نا۔چھوٹے بھائی کی مدد کر دے۔ اللہ کو مدد کرنے والے لوگ اچھے لگتے ہیں ۔
خوشی : آ ،مر۔(خوشی نے مراد کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اپنی چھٹی کی حساب کی کتاب لا کر خوشی کے پاس بیٹھ گیا)
مراد: خوشی یہ دیکھ ، یہ میں نے سارا ٹھیک کیا ہے بس جواب ٹھیک نہیں آ رہا۔
خوشی:سارا غلط ہے تو جواب غلط آ رہا ہے نا۔(دیکھتے ہی خوشی نے فیصلہ سنا دیا ،جو بلکل ٹھیک تھا ،وہ اتنی لائق تھی کہ ایک نظر میں اسے سمجھ آگئی تھی۔ کہ وہ کیا غلطی کر رہا ہے)
مراد: اچھا۔(منہ بناتے ہوئے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شفق اپنے ہاتھوں میں چوڑیوں کو اُٹھا کر بیٹھی ہے،ربیعہ کمرے میں آتی ہے ،اسے کھویا ہوا دیکھ کر ،قریب آکر پیچھے سے ذور سے شفق کہتی ہے،شفق ڈر جاتی ہے ، غصے سے اس کی طرف دیکھتی ہے)
شفق:میرے اللہ،ربیعہ ۔
ربیعہ : آپی آپ تو ایسے ڈر گئی ، جیسے میں نے آپ کی چوری پکڑ لی ہو۔
شفق: چوری ،کیسی چوری۔(شفق نے چوڑیوں کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا)
ربیعہ: ارے آپ تو پریشان ہو گئی ، میں تو مذاق کر رہی تھی۔پتہ ہے آج ماموں سے امی کی بات ہو رہی تھی، نانی بہت بیمار ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ امی نانی سے ملنے کے لیے جلد اذ جلد اسلام آباد پہنچیں۔
شفق: اچھا ،تو کیا امی جائیں گی؟دھیرے سے شفق نے کہا۔
ربیعہ :آپ بھی جانا چاہتی ہیں؟ہمارے ایک بھائی بھی تو ہیں نا وہاں۔
شفق : نہیں ، مجھے کوئی شوق نہیں ، مجھے تو اسلام آباد ہی پسند نہیں ۔کراچی کی تو بات ہی اور ہے۔
ربیعہ: جانا تو آپ کو وہاں ہی ہے ۔ اب آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔
شفق: ضروری نہیں ،کل کیا ہوتا ہے ،کوئی نہیں جانتا۔
ربیعہ :طے تو ہم ہی کرتے ہیں نا کہ جانا کہاں ہے۔جہاں کا ٹکٹ لیا ہو بس وہیں جاتی ہے آپی۔
شفق: ٹکٹ منسوخ بھی ہو سکتا ہے ۔ مسکراتے ہوئے۔
ربیعہ: تو کیا آپ کو فیصل بھائی سے شادی نہیں کرنی؟
شفق: دیکھیں گئے۔(شفق نے چوڑیاں اُٹھائیں اور کمرے میں موجود الماری میں رکھنے لگی۔ اسے دانش کا چوڑیوں کے ٹکڑئے چننا یا دآیا وہ مسکرانے لگی۔
ربیعہ : آپی ، بغیر وجہ سے ہنسنا اور رونا پیار ہونے کی نشانی ہے۔
شفق: تم یہ انڈین سوپ کم دیکھا کرو، پیار کی نشانی ۔
شفق نے پیار سے ربیعہ کی پیٹھ کو تھپتھپایا۔
ربیعہ : تو آپ ہنسی کیوں ؟
شفق : مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا تھا۔
ربیعہ : مجھے بھی سنائیں۔
شفق:وہ اب میں بھول گئی ہوں۔(شفق یہ کہہ کر جلدی سے کمرے سے نکل گئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شایان فیس بک استعمال کر رہا ہے۔آفان کے آنے پر وہ اسے ناگواری سے دیکھتا ہے۔)
شایان: آفان جاو یہاں سے تم ، میں کہہ رہا ہوں نا۔
آفان : مجھے بھی دیکھنا ہے نا، بھائی آپ کیا جواب دو گئے؟
شایان: شی اِذ مائی فرینڈ ،ناو ،یو گو۔ (شایان نے غصے سے آفان کو دھکا دیا)
آفان:میں ماما کو بتاوں گا ،آپ فیس بک پر چیپ چیٹ کرتے ہیں۔
شایان:او ۔ریلی، ابھی جا کر بتا آو ،پر جاو یہاں سے۔
آفان : کمپیوٹر کے نزدیک سے جاتے ہوئے ، اِٹ اِذ ناٹ فیر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی: تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ خوشی نے کاغذ کو ٹکڑے کرتے ہوئے کہا۔
وقاص: وہ میں ، وہ اصل میں ( مریم ، نے خوشی کو کندے سے ہلایا ،اور کلاس کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ، جو کسی کی پروا کیے بغیر وقاص کے، لو لیٹر کو دیکھ کر آگ بگولا ہو رہی تھی، رومیو کی اولاد ،کبھی اپنی شکل دیکھی ہے آئینہ میں ، ڈفر۔ خوشی اسے سنانے میں اس طرح مگن تھی کہ اسے کلاس میں دوسرے طلباو طالبات کا خیال ہی نہیں رہا۔ تم جیسے لوگوں کی وجہ سے لوگ ، کو ایجوکیشن کو ناپسند کرتے ہیں ۔ محبت ، محبت کیا ہوتی ہے ؟مجھ سے آگے نکل نہیں سکتے تو سوچا میرا دھیان کسی دوسری چیز میں لگ جائے گا تو شاہد تب ہی تم مجھ سے جیت پاو گئے ، یہ ہی بات ہے نا)
مریم: خوشی، چپ کر ،چپ میڈم آ رہی ہے۔
خوشی:مجنوں کہیں کا۔ ناک صاف کرنی آتی نہیں ہے۔ محبت کرئے گا۔کمینہ( خوشی بڑبڑاتے ہوئے اپنے ڈیکس کی طرف چلی گی)
مریم: کیا ضرورت تھی، تجھے سب کے سامنے اپنا ، تماشابنانے کی۔اگر یہ بات تیرے گھر پہنچ گئی تو۔ اس کا تو کچھ نہیں جانا ، تیرے ابو تیر ا سکول ختم کر دیں گئے۔
خوشی : کیوں ، میں نے تو نہیں لکھا خط اسے ، اس نے غلطی کی تو ،سزا مجھے کیوں ملے گی۔کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔
(واقعی ، یوں تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا، اس کے ابو سزا دیتے ہوئے یہ تھوڑی نہ دیکھیں گئے کہ اس کی غلطی ہے یا نہیں )
مریم:تو نے وہ محاورہ نہیں سنا ،چھری خربوزے پر گِرے یا خربوزہ چھری پر کٹتا تو خربوزہ ہی ہے، چھری کا کچھ نہیں جاتا۔ میری امی کہتی ہیں کہ خواہ لڑکی کیسی بھی پاکباز ہو ،ذرا سی بات لڑکی سے منسوب ہو جائے تو سب لڑکی کو ہی بُرا کہتے ہیں ، لڑکے کی کوئی عزت تھوڑی ہوتی ہے،کہ کوئی لوٹ لے۔
خوشی : کیوں ،لڑکوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔
مریم: پتہ نہیں ، میری امی تو یہی کہتی ہیں۔
خوشی: یہ ساری امیاں ناں ،سمجھ سے باہر ہیں۔کچھ بھی بول دیتی ہیں ، جب وجہ پوچھو تو خاموشی ، یہ خاموشی ہی جواب ہوتا ہے ۔ ان کا۔
مریم: چپ چپ میڈم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق: امی آپ کتنے دن کے لیے جا رہی ہیں؟
مہناز: ایک ہفتہ کے لیے ، اتوار کو کوچ میں بیٹھوں گی اور واپس۔
شفق: اِتنا لمبا سفر ہے، کیسے اکیلے ،آپ رفیق بھائی کو ساتھ لے جائیں نا۔
مہناز: پاگل ہوں کیا؟ جوان لڑکیاں اکیلی چھوڑ کر جاوں گی۔
رفیق: امی لے آیا ہوں ،ٹکٹ ، آپ ان دونوں کو بھی ساتھ لے جاتیں۔
مہناز : بہت خرچہ ہو جائے گا ،بیٹا
رفیق کیاماں اپنی ماں کو دیکھنا چاہتی ہے ، چارسال سے وہ ان سے نہیں ملی ، اس کے بھائی فرحان نے اسے اطلاع دی ہے ،کہ وہ بہت بیمار ہیں، مہناز اپنے بیگ کو پیک کرتے ہوئے ، رفیق کو کہتی ہے کہ وہ گھر کا خیال رکھے اور اگرمیری ماں جی کوکچھ ہو گیا تو ،وہ بہنوں کو لے کر ماموں کے گھر آ جائے۔ رفیق اپنی روتی ہوئی امی کو سہارا دیتا ہے ، اللہ کرم کرنے والا ہے امی۔ ہر کام میں کچھ نا کچھ مصلحت ہوتی ہے۔ موت زندگی کا ناگزیر پہلو ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی:امی کیا لڑکوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔
صبا: یہ تمہیں کس نے کہا، ہوتی ہے بیٹا سب کی عزت ہوتی ہے۔
خوشی : مریم کہہ رہی تھی۔اس کی امی کہتی ہیں کہ لڑکوں کی کوئی عزت تھوڑی ہی ہوتی ہے جو لٹ جائے۔
صبا: کس بات کو لے کر وہ ایسا کہہ رہی تھی۔؟
خوشی : وہ امی۔
(کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے دماغ نے سچ بولنے سے انکار کر دیا،وہ کیسے امی کو بتاتی کہ اسے وقاص نے لو لیٹر دیا ،خوشی نے اس کی بےعزتی کر کےاپنی بھڑاس نکالی ہے)
خوشی : وہ امی ،مریم کو وقاص نے لو لیٹر دیا۔ تو
صبا: تم لوگ وہاں پڑھنے جاتے ہو یا یہ سب کرنے جاتے ہو؟ تیرے ابو پہلے ہی تیرے پڑھنے پر مجھ سے خفا ہیں ، میں بس چاہتی ہوں تو دس کر لے۔تو مریم سے دور رہ ۔ ایسی لڑکیوں سے دور رہتے ہیں بچہ۔
خوشی: پر امی مریم کا کیا قصور اگر وقاص نے اسے خط لکھا ہے تو؟
صبا: قصور ہے نا۔ تو نہیں سمجھتی۔ تو بہت بھولی ہے بیٹا ۔ اب پوری کلاس میں اس کی نظر مریم پر ہی کیوں گئی ، کسی اور پر بھی تو جا سکتی تھی نا۔ ضرور مریم اس کی طرف دیکھ کر ہنسی ہو گی یا کوئی ایسا اشارہ دیا ہو گا کہ اس نے خط لکھا۔ ورنہ کسی لڑکے کی ہمت ہوتی ہے وہ کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھے۔
خوشی: جی اچھا۔
( خوشی خاموشی سے اپنی ماں کے دلائل سنتی رہی ، وہ ایک لفظ نہیں بول پائی۔ وہ کہنا چاہتی تھی ، امی نہیں میں نے تو کبھی نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا وقاص کی طرف ۔اشارہ تو دور کی بات ہے ،مجھے تو کبھی خیال بھی نہیں گزرا کہ اسے دیکھوں۔ اسے کیسے ہمت ہوئی ۔مجھے خط لکھنے کی ،میں نہیں جانتی۔ امی کیسے آپ نے مجھے غلط لڑکیوں کی صف میں لا کھڑا کیا اور ایک بار بھی نہیں سوچا)
صبا: سنا ہے نا تو نے ،مریم سے دور رہیو۔تجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ،کسی ایسی لڑکی سے بات بھی کرنے کی ۔
خوشی: لیکن امی ، مریم نے تو وقاص کو خوب سنایا۔بُرا بھلا کہا۔ اس کو اچھا نہیں لگتا وہ۔
صبا:میں کیا کہہ رہی ہوں تو سمجھ نہیں رہی ہے۔اس قسم کی باتوں سے بھی دور رہ۔ ابھی نویں کے امتحان ہونے والے ہیں ،بس ایک سال ، گزر جائے تو ۔سکول تو جاتی ہے اور ڈر مجھے لگتا ہے ۔بچہ۔جہاں ہم رہتے ہیں نا۔بہت ظالم لوگ ہیں ، لڑکی کو کوئی معاف نہیں کرتا۔ایک دفعہ نام بدنام ہوا تو سمجھو زندگی برباد ہو گئی۔کوئی شادی نہیں کرتا پھر ایسی لڑکی سے جس کا نام کسی لڑکے کے ساتھ جڑ جائے۔بس تو دس کر لے۔
خوشی: امی دس کے آگے بھی گنتی ہوتی ہے۔ میری میڈم کہتی ہیں کہ اچھے نمبر آئے تو ہمیں اچھے کالج میں داخلہ ملے گا۔
صبا: کالج والج نہیں بھیجتے ہمارے خاندان میں۔ بے عزتی سمجھتے ہیں۔تو دس کر لے گی ۔تو ہی بہت ہے میرے لیے۔
خوشی: پر میرے لیے بہت نہیں ہے نا امی۔ میں استانی بنوں گی۔
صبا: اچھا چھوڑ پہلے دس تو کر لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنابیہ اور ڈاکٹر شیزاد کمرے میں ہیں ۔ عنابیہ رات کو سونے سے پہلے بال بنا رہی ہے۔ وہ ڈاکٹر شیزاد کو کتاب بند کر کے رکھتے ہوئے دیکھتی ہے۔ وہ بھی غیر دانستہ طور پر دیکھتے ہیں ، عنابیہ بھی ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہارا کام کیسا چل رہا ہے؟
عنابیہ:لاسٹ پروگرام جو ہم نے کیا، رونگٹے کھڑے ہو گئے دیکھ کر۔ میں تو سوچ نہیں سکتی تھی ، میرے اللہ گھریلو تشدد کی انتہا تھی ۔کیا بتاوں میں آپ کو۔(اس کے چہرے پر افسردگی چھائی تھی)
ڈاکٹر شیزاد: کیا ہوا۔ کیسا تشدد؟
عنابیہ: ایک فون کال آئی کہ ایک گھر میں ایک عورت پر کوئی تشدد کرتا ہے ۔عجیب و غریب آوازیں آتیں ہیں ۔ عورت کسی سے ملتی جلتی نہیں ، جب ہماری ٹیم پولیس اور ٹرسٹ سے متعلقہ آدمی اس پتے پر پہنچے جہاں پر معلومات کے مطابق عورت کو گھریلو تشدد کا سامنا تھا تو گھر پہنچ کر کافی دیردستک کرنے کے بعد بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ ٹیم کا ایک ممبر اور ایک پولیس والا گھر میں ہمسائیوں کے گھر سے داخل ہوئے ،گھر کے اندر کے گیٹ کو بھی تالا لگا تھا۔ اندر کے تما م دروازے بند تھے ۔ بہت ذیادہ دستک کے بعد ایک عورت نے دروازہ کھولا ،جس نے سر پر کس کر دوپٹہ باندھ رکھا تھا۔ جس کے بازو پر کپڑا لپیٹا تھا۔اسما نام تھا اس عورت کا ۔کوئی اٹھائیس انتیس سال کی عورت تھی۔اس کا شوہر اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ جب ہم نے اس سے تشدد سے متعلق سوال کیا تو اس نے انکار کر دیا ، اپنے شوہر کو دیفینڈ کر رہی تھی۔ اس نے کہا ، آپ کو کس نے کہا میرا شوہر مجھ پر تشدد کرتا ہے ، وہ تو بیمار ہے۔ آپ لوگ جائیں یہاں سے۔ہم سب نے کوشش کر کے سمجھایا کہ یہ موقع ہے اس کے پاس اپنے آپ کو ظلم سے بچانے کا ، ہم سب اس کے ساتھ ہیں ۔ لیکن وہ نہیں مانی۔
ڈاکٹر شیزاد: عجیب بات ہے ، میاں بیوی کے معاملے میں کوئی دوسرا کر بھی کیا سکتا ہے؟
عنابیہ: سنیں تو کیا ہوا؟ پولیس جو ساتھ تھی ۔ہم نے تدبیر کی اور اس آدمی کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا ۔ پھر جب اسماسےالگ جا کر سوال، جواب کیے گئے تو وہ رونے لگی۔ اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس کے بال کاٹ دیے ، اس کے آئی بروز کو بلیٹ سے اُتارا ۔ وہ زخم دینے کے بعد انہیں مذید گہرا کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارتا ہے۔
ڈاکٹر شیزاد : ماں ، باپ نہیں تھے اس لڑکی کے؟ ایسے کیسے ،کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے۔
عنابیہ: اس کی چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ وہ بتا رہی تھی کہ سوا دوسال پہلے شادی ہوئی تھی ۔شروع شروع میں تو سب ٹھیک تھا۔ پھر شادی کے چھ ماہ بعد اس کی بہن اس کے گھر میں آکر رہی تو ، اس کے شوہر نے اس کی بہن کے شربت میں کچھ ملا دیا۔ جب اسے ہوش نہیں رہا تو،اس کے ساتھ کچھ قابل اعتراض تصاویر بنا لیں ۔ اس کے بعد سے پورا خاندان ہی ناراض ہے ،سب اُسے اپنے شوہرکے ساتھ ملا ہوا سمجھتے ہیں ۔کوئی یہاں آتا جاتا نہیں ، اس کا شوہر جو جی میں آتا ہے ۔اس کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کےبازوں پر جلنے کے ایسے داغ تھے کہ ۔ہم اسے اس گھر سے لے آئے لیکن میرا ذہین اس جیل خانے میں ابھی تک اٹکا پڑا ہے۔اُس کے شوہر کو پولیس لے گئی۔
ڈاکٹر شیزاد: اللہ ہی بچائے ایسے نفسیاتی مریضوں سے ۔
عنابیہ:انسان ،اگر تہذیب کے دائرے سے نکل جائے تو جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیزاد: سچ کہہ رہی ہو ۔ (افسوس کے ساتھ منہ بناتے ہوئے)
عنابیہ: میرا بس چلے تو میں ایسے انسان کاویسا ہی حال کروں ،جو وہ اپنی بیوی کے ساتھ کرتا رہا ہے ۔ ایسے آدمی کو ایسے مارنا چاہیے کہ ،کسی کو مارنے کے لائق ہی نہ رہے۔
(ڈاکٹر شیزاد کے پاس بیڈپر آ کر بیٹھتے ہوئے اس نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور دایاں ہاتھ اس ہاتھ پر رکھ کرکہا ،میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے آپ جیسا شوہر ملا، شاہد ہی کوئی میرے جیسی خوش قسمت عورت ہو ، ڈاکٹر شیزاد اس کی بات پر مسکرائے،پیار سے عنابیہ کی طرف دیکھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش اور محلے کا ایک اور لڑکا راشد دوکان پر کھڑے تھے۔ رفیق کو اس کی امی نے کچھ سامان لانے کے لیے بھیجا۔
دانش : کہاں ہوتے ہو یار آج کل دیکھائی ہی نہیں دیتے۔
رفیق: ہاں۔یار وہ مجھے ایک کام مل گیا ہے ،تو وہاں ہی ہوتا ہوں ، تم لوگ سناو ،سگریٹ نہ پیا کرو ، بہت بُری عادت ہے۔کچھ حاصل تو ہوتا نہیں اس سے۔
راشد: تم کش لو تو پتہ چلے نا کیا رکھا ہے اس میں۔
دانش: یار یہ راشد بھی نا ۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اسی نے لیے ہیں سگریٹ ۔
رفیق: راشد کبھی کبھی کے مزے زندگی بھر کے روگ بن جاتے ہیں ، تم جانتے ہو عادات کس قدر اہم ہوتی ہیں۔ کسی بھی انسان کی ترقی میں۔
راشد : مجھے کیا پتہ یار ، ویسے ترقی نہ بھی ملے تو کیا ہے، جو ترقی کرتے ہیں کیا مرتے نہیں؟
رفیق : کیسی فضول بات کی ہے۔بھلا مرنے سے ترقی کا کیا واسطہ؟
راشد : یار میرا تو ایک ہی فنڈا ہے ، جو وقت مزے سے گزرے وہی بھلا ۔
رفیق: تم یہ کش لگانے کو مزہ بول رہے ہو، کل جب عادت پڑھ جائے گی تو چاہ کر بھی نہیں چھوڑ پاو گے۔
راشد : چھوڑنا بھی کون کمبخت چاہتا ہے ،مجھے تو سگریٹ کے دھواں میں کبھی قرینہ نظر آتی ہے تو کبھی کیٹرینا۔
رفیق: تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔
دانش:تمہارا آگے پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے۔ جو کام کرنے لگے ہو۔
رفیق : کیوں نہیں یار۔ ابھی فارغ ہوں۔ تو سوچا کہ کچھ کر لوں ،کوئی جاب میری مرضی کی ملی ہی نہیں ،جو تعلیم سے متعلقہ ہو ،مجبورا ً ڈرائیور کی جاب ہی کر لی۔ وقت ضائع کر دوں، اس سے تو بہتر ہی تھا ۔اس لیے۔تم کیا کر رہے ہو۔
دانش : رذلٹ کا انتظار۔
راشد: عشق بھی تو کر رہا ہے ، وہ نہیں بتائے گا۔
رفیق:کیا کہا؟
راشد: آج کل جناب کو عشق ہو گیا ہے؟
دانش : چھوڑو نا یار، کچھ بھی کہتا ہے یہ تو ۔
راشد: ملتا ہے اس سے۔ ایک ہم ہیں۔ کوئی ملتی ہی نہیں ٹائم پاس کرنے کو۔
رفیق: کیسی بات کر رہے ہو۔ لڑکیاں ٹائم پاس نہیں ہوتی۔(رفیق کے چہرے کی رنگت بدل گئی، وہ اپنے غصے کو چھپا رہا تھا)
راشد: تو کیا ہوتیں ہیں۔
رفیق: ہر لڑکی کسی کی بہن ، بیٹی ہوتی ہے ، عورت کی عزت کرنا سیکھو۔اچھی سوچ اچھے عمل کو جنم دیتی ہے۔
راشد: ارے ، یہ کیا بات ہوئی ، اب ہر لڑکی کسی نہ کسی کی تو بہن ہو تی ہی ہے ۔
رفیق : مجھے دیر ہو رہی ہے ،میں چلتا ہوں۔
دانش : میں بھی چلتا ہوں۔
راشد : ہاں تم تو جاو ہی گئے نا،اس کے ساتھ۔ جاو جاو ۔
دانش : چلو،تم لو ۔جو لینا ہے ، پھر چلتے ہیں۔
رفیق: ہاں۔
( دوکان سے سامان لینے کے بعد دونوں چل دیتے ہیں ،تھوڑی دور جانے کے بعدرفیق دانش کو کہتا ہے) کوشش کرو، دانش اس لڑکے سے دور رہو ، اس کی سوچ محدود اور سطحی ہے ،انسان اپنی سوچوں سے اچھا یا برا بنتا ہے ۔ اچھی کتابیں پڑھا کرو۔ اگر کچھ بہتری چاہتے ہو تو۔ کیا واقعی کسی کو پسند کرتے ہو تم؟
(دانش نے کچھ سوچتے ہوئے ،دھیمی آواز میں کہا۔)
دانش: ہاں
رفیق: اس عمر میں جی چاہتا ہے،کسی سے دوستی کا ۔یہ مخالف جنس سے کشش کی بنا پر ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے دور رکھنے میں بھلائی ہے۔ آپ جب کسی قابل بن جاتے ہیں تو خود بخود کوئی نہ کوئی اچھی لڑکی آپ کو مل ہی جاتی ہے ۔
دانش: اگر محبت ہو جائے تو پھر انسان کیا کرئے۔
رفیق :یہ جذبات کا چکر ہے ، محبت ۔تم نے دیکھا ہے ،کبھی کسی کالی ،بھیک مانگنے والی ،لڑکی سے کسی کالج جانے والے لڑکے کو محبت ہو گئی ہو۔ ہم خوبصورت خوبصورت لڑکیاں ہی محبت کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔
دانش:انسان اپنے محبوب کو سب سے خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔
رفیق: محبوب کو نہیں ،انسان اپنی ہر چیز کو ہی سب سے بہتر دیکھنا چاہتا ہے، مگر چاہت کے لیے محنت کرنی چاہیے۔کوئی بھی چیز بغیر محنت کے نہیں ملتی،خواہ وہ اچھی گاڑی ہو، اچھی نوکری یا پھر اچھی شریک حیات ، فسٹ ڈیزو دین ڈیزائر۔
دانش: محبت تو ایک انمول جذبہ ہے ،اس کا محنت سے کیا تعلق یار تم بھی نا۔ بہت ذیادہ کتابیں پڑھنا بھی اچھا نہیں ہوتا ۔
(دانش نے مسکراتے ہوئے کہا)
رفیق : یہ بات تمہیں اس وقت سمجھ آئے گی ۔جب تم اس محبوبہ کے لیے رشتہ بھیجو گئے۔ اس کے ماں باپ ،تمہاری حثییت کو جانچیں گئے ،تمہاری ڈگری کو دیکھیں گئے ،تمہاری قابلیت کو پرکھا جائے گا ۔تو سمجھ میں آئے گا کہ محبت بھی بغیر محنت سے حاصل نہیں ہوتی ۔
دانش: تم نے محبت کی نہیں ہے نا ،تم نہیں جان سکتے کہ محبت کیا ہوتی ہے۔اللہ جب کسی کو آپ کے دل میں بسا دے ،تو بندہ کیا کرئے ۔ بندہ تو بےبس ہے نا۔
رفیق: اللہ نے ایسے ہی انسان کو اشرف المخلوق نہیں کہا ،اس نے مکمل اختیاردیا ہے انسان کو ،وہ چاہے تو اچھا بنے اور چاہیے تو بُرا ، بندہ کبھی بے بس نہیں ہوتا ، اسے وہی ملتا ہے جو وہ لینا چاہتا ہے ، وہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ ہونا چاہتا ہے۔ تم جانتے ہو ہم جو چیز سوچتے ہیں وہ ہماری زندگی میں بڑھنے لگتی ہے ، مثلاً میں ترقی کا سوچتا ہو ں تو میرا دماغ ترقی سے متعلق خاکے بنانے لگتا ہے ، میں کیا کروں ،جس سے میری شخصیت ذیادہ اچھی ہو، میں کیا کروں جس سے میری آمدنی ذیادہ ہو،نئے نئے خیال آتے ہیں،میرے ذہین میں۔ محبت کرنے کا جی میرا بھی چاہتا ہےکسی سے فون پر رومینٹک باتیں کروں ،مل بھی جاتی ہے کوئی نہ کوئی ،لیکن اس کے لیے وقت ہی نہیں ہے میرے پاس۔
دانش: محبت کے لیے وقت نہیں، دل چاہیے۔ تم نہیں سمجھو گئے۔ جس بندے نے کبھی بھی گلاب کی خوشبو اپنے قلب میں نہ اُتاری ہو۔ اسے گلاب میں خوشبو ہوتی ہے۔یہ سمجھانا نا ممکن ہے۔ تم نے جو چیز چکھی نہیں، اس کے ذائقہ کے بارے میں نہیں جان سکتے ،کوئی تمہیں سمجھا بھی نہیں سکتا۔میں یہ کوشش بھی نہیں کروں گا۔ کیوں کہ میری امی پروفیسر نہیں ہیں ، نہ ہی میں نے تمہارے جتنی کتابیں پڑھی ہیں۔( مسکراتے ہوئے)
رفیق۔تمہاری بات بھی ٹھیک ہے۔میں آج جو بھی ہوں ،اپنی امی کی وجہ سے ہوں۔ میری امی نے ایک دفعہ مجھے کہا تھا جب میں میٹرک میں تھا۔ لازمی نہیں ہوتا کہ انسان جو سمجھتا ہو کہ اسے معلوم ہے وہ اسے معلوم بھی ہو ۔سیکھتا وہی انسان ہے جو اپنی ذات پر سوالیہ نشان لگا کر خود تجزیہ کرتا ہے کہ جو اس کی سوچ ہے وہ درست بھی ہے کہ نہیں ،اور رہی بات چیز کے پاس ہونے پر اسے جاننے کی ،تو چراغ تلے اندھرا ہی ہوتا ہے، بعض اوقات جس چیز کو ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم سمجھ گئے اس کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ چلو گھربھی آگیا۔
دانش : تمہارا مطلب ہے کہ مجھے محبت کا پتہ ہی نہیں۔
رفیق: نہیں ممکن ہے کہ کچھ پتہ بھی ہو ۔(مسکراتے ہوئے اس نے دروازے پر دستک دی)۔
دانش:مسکراتے ہوئے، اچھا یار پھر ملتے ہیں۔
مہناز:دانش تم ،بیٹا کیسے ہو؟
رفیق : امی یہ دوکان پر مل گیا مجھے ، پھرساتھ ہی آئے ہیں۔
مہناز:آو بیٹا اندر آو۔
دانش: پھر کبھی آوں گا ۔ ابھی چلتا ہوں آنٹی۔(اپنے گھر کی بیل دیتے ہوئے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی:امی امی میرا نویں کا رذلٹ بہت اچھا آیا ہے ،فسٹ ڈویژن ہے میری۔
(خوشی ،کی خوشی دیدنی تھی ،وہ پہلی دفعہ اتنی اونچی آواز میں چہک رہی تھی۔ جیسے ہی اسے پتہ چلا صابر گھر ہے۔ وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی۔وہ ہر خوشی اور غم میں آئینہ کے سامنے کھڑی ہو جاتی ، اپنی نیلی نیلی انکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی ،وہ کیا محسوس کر رہی ہے ، اکثر اپنے آنسووں سے آئینہ میں موجود اپنے عکس کو صاف کرنے کی کوشش کرتی ،آج جب وہ آئینہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی تو اپنے ہونٹوں کا اپنے کانوں تک پھیلنا محسوس کر رہی تھی ، اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ وہ انتہائی خوبصورت اور ذہین لڑکی ہے ،جس کا مقابلہ اس کے گھر ، اس کی کلاس میں کوئی نہیں کر سکتا ۔وہ اپنے حدوخال کا جائزہ لے رہی تھی کہ نائلہ کمرے میں داخل ہوئی ، خوشی کو خوش دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تجھے ایک اور خوشی کی خبر دوں ، ثریا پھوپھو نے اپنی نیلم کا رشتہ ڈالا ہے ،ابا کو۔ )
خوشی : کیا کیا۔ اکبر کے لیے نیلم کا رشتہ پھوپھو نے اپنے لڑکے کی شکل دیکھی ہے؟
نائلہ:ابو نے ہاں بھی کر دی ہے۔ اگلی اتوار کو نکاح ہو گا اور دو ماہ بعد تو ۔تو تو ،،،تاں تاں تاں۔مزا آئے گا۔
خوشی: نیلم نے کچھ نہیں بولا۔
نائلہ: ابو کے آگے کون بولے گا۔
خوشی : وہ تو پانچ بھی نہیں پڑھا۔
نائلہ: تو نیلم بھی تو آٹھویں فیل ہے ۔کیا ہو گیا؟ پڑھائی کا شادی سے کیا تعلق۔
خوشی:اچھا ۔
(نیلم کمرے میں آتے ہوئے، نائلہ اور خوشی نے اس کی طرف یوں دیکھا ۔جیسے نیلم کی شکل اچانک بدل گئی ہو)
نیلم : کیا ہوا ؟کیوں گھور رہی ہو دونوں؟
خوشی: تو !کیا اکبرے سے شادی کرئے گی۔ وہ کالا کلوٹا،پیر بھی گھسیٹ کر چلتا ہے ،اس سےشادی کر لے گی تو؟
نیلم: تجھے پتہ ہے۔پھو پھو اور پھوپھانکاح کے لیے جوڑا دے کر گئے ہیں ۔وہ سرخ ہے ،چھوٹے سنہری گوٹوں والا ،جالی کا دوپٹہ ہے اور بڑی سی چادر بھی۔
خوشی : میں تجھ سے سالن کا پھوچھ رہی ہو تو مجھے پلیٹ کی کندہ کاری دیکھا رہی ہے۔عجیب ہے۔
نیلم : جو چیز دیکھانے والی ہے وہی دیکھاوں گی نا۔تو بھی۔
صبا کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے خوشی کی طرف دیکھ کر کہا۔
صبا :خوشی تیرے نمبر کتنے آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق:امی آپ کا جانا ضروری ہے مگر میری نئی نوکری ہے ،چھٹی نہیں لے سکتا۔
مہناز:میں اکیلی چلی جاوں گی۔ تم فکر نہ کرو۔میں ایک دفعہ پہلے بھی گئی تھی تم لوگوں کو لے کر اکیلی ،جب تم چھوٹے تھے۔سوچتی ہوں ربیعہ کو لے جاوں ساتھ لیکن۔
رفیق : نہیں امی ۔اس طرح تو شفق اکیلی ہو گی ، میں بھی پانچ بچے سے پہلے گھر نہیں آ سکتا ، اس لیے ۔۔۔
مہناز:تم مجھے کوچ کے ٹکٹ لا دینا ،کل ،تا کہ پرسوں نکل جاوں میں صبح۔
رفیق: جی ٹھیک ہے ۔ امی ایک ہفتہ سے ذیادہ نہ رہیے گا۔
مہناز: اچھا ،تم شفق اور ربیعہ کا خیال رکھنا۔ شفق کو میں نے کالج سے چھٹی لینے کا کہا ہے ۔ بیٹا اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو کوچ کے ٹکٹ کر کے تم اپنی بہنوں کے ساتھ آ جانا ۔اسلام آباد ، نوکری کا نہ سوچتے رہنا۔ کچھ چیزیں انمول ہوتی ہیں ،ان کی قیمت نہیں ہوتی ،رشتے ایسی چیزوں میں سب سے اوپر ہیں ،تم سمجھ رہے ہو نا ۔میں کیا کہہ رہی ہوں۔
رفیق : جی امی۔
مہناز: رفیق ،تمہارے ماموں کہہ رہے تھے کہ ایف ۔ اےکا امتحان دینے کے بعد شفق کی رخصتی کر دیں ہم ،آگے کی پڑھائی وہ وہیں کر لے گی ۔مگر میں نے ٹال دیا ۔ میں چاہتی ہوں ۔ شفق بی ۔اے کر لے ۔وہ بتا رہے تھے کہ فیصل تو کہتا ہے کہ اُسے ذیادہ پڑھی لکھی لڑکی نہیں چاہیے۔وہ کہہ رہے تھے کہ ہم یہاں کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں ،وہاں اسلام آباد آ جائیں ۔وہ تمہاری نوکری کا کوئی نہ کوئی بندوبست کر دیں گئے۔ تم کیا کہتے ہو کیا ہمیں وہاں چلے جانا چاہیے۔
رفیق: امی جہاں تک شفق کی بات ہے تو جو آپ کو بہتر لگے وہی کریں۔ میں کراچی میں ہی رہنا چاہتا ہوں ۔ ابوکاگھر ہےیہاں ،جب بھی بکے گا ہمیں بھی تو حصہ ملے گا۔ رہی بات وہاں جا کر نوکری کرنے کی تو کام کرنے والوں کے لیے کمی نہیں ہوتی کام کی ،میں خود کچھ نہ کچھ کر ہی لوں گا۔ آپ کی بھی تونوکری ہے ۔ یہاں ۔
مہناز: میں نے کچھ نہیں جواب دیا ۔اُنہیں ۔ بھائی کے ساتھ ساتھ بیٹی کے ہونے والے سسر بھی تو ہیں تمہارے ماموں۔
رفیق: آپ نے شفق کی رائے لی وہ کیا کہتی ہے اس بارے میں ، اس سے پوچھیں امی۔ آج وہ زمانہ نہیں کہ جہاں دل میں آئے لڑکی کا رشتہ دے دیا جائے۔ اس کی مرضی ضرور معلوم کیجئے گا۔
مہناز: اُسے بھلا کیا اعتراض ہو گا۔ لاگھوں میں ایک ہے میرا فیصل۔شکل میں ہی نہیں کردار میں بھی اس جیسا لڑکا ملنا مشکل ہے۔
رفیق : پھر بھی امی ،ایک دفعہ اس کی رائے لیجئے گا۔
مہناز: اچھا بیٹا لوں گی ۔اس کی رائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنابیہ: مجھے سمجھ میں نہیں آرہی ،پانچ ہزار روپے تھے میرے دراز میں گئے کہاں۔ سغرہ تو نہیں نکال سکتی۔دراز کو تالا لگا ہوتا ہے اور چابی میرے پرس میں دوسرے ددراز میں ہوتی ہے ،سغرہ کو تو پتہ بھی نہیں ،پھر کون لے سکتا ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ڈاکٹرشیزاد :تم نے بچوں سےپوچھا۔
عنابیہ: ارے بچے کیوں لینے لگے ،انہیں ضرورت ہو گی تو مانگ لیں گئے نا ۔
ڈاکٹر شیزاد:پھر بھی بچوں کو بلاو ،پوچھو۔
(شایان ،آفان بیٹا یہاں آو ، ڈاکٹر شیزاد نے آواز دی)
عنابیہ: آپ بھی نا۔ بچے کیوں لیں گئے بھلا اِتنے پیسے۔ میں ڈھونڈتی ہوں ۔
ڈاکٹر شیزاد: آفان ،شایان بیٹا آپ کی ماما کو ان کے پیسے نہیں مل رہے ، آپ ان کی ڈھونڈنے میں مدد کریں، عنابیہ ایک گلاس پانی لا دو گی پلیز
(عنابیہ الماری سے دور جا تے ہوئے ، شایان اور آفان الماری کے پاس آتے ہوئے)
(شایان نے الماری کا وہ دارز کھولا جس میں پیسے تھے ، کچھ دیر دیکھا اور پھر پلٹ کر بولا یہاں تو کچھ نہیں ، پھر آفان الماری کے اوپر ،نیچےاور سائیڈ کے دراز کھول کھول کر دیکھنے لگا۔
ڈاکٹر شیزاد: شایان آپ کو پتہ تھا کہ آپ کی امی کہاں پیسے رکھتی ہیں۔
شایان:سوچنے لگا، پھر کچھ دیر بعد بولا نہیں مجھے تو نہیں پتہ ۔
ڈاکٹر شیزاد لگا تار اس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔شایان نے یہ بات محسوس کی وہ کچھ پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
عنابیہ: یہ لیں آپ کا پانی۔
شایان: ڈیڈی میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔
ڈاکٹر شیزاد: وہ مجھے نہیں معلوم ،وہ تو مجھے تم بتاو گئے کہ ماما کے پیسے تم نے کیوں لیے۔
عنابیہ : آپ کیا کہہ رہے ہیں شیزاد ، یہ کیوں لے گا ،کرے گا کیا پانچ ہزار کا؟
ڈاکٹر شیزاد : وہ تم اسے ہی بتانے دو۔ تو بتاو بیٹا؟
شایان : نیچے دیکھنے لگا۔
ڈاکٹر شیزاد: بولو بیٹا ، (کچھ غصے سےکھڑے ہوتے ہوئے)
شا یان : رونے لگا ،وہ ڈیڈی سوری وہ ۔
ڈاکٹر شیزاد: سوری نہیں مجھے وجہ چاہیے ۔ جس کی وجہ سے تم نے اپنے ہی گھر میں چوری کی۔ اگر پیسے چاہیے تھے تو مانگ لیتے۔
شایان :مانگے تھے ،ہزار روپے ۔ماما نے منع کر دیا تھا۔
عنابیہ : کب مانگے تھے۔
شایان: دو ہفتے پہلے۔
عنابیہ : لاٹری کے ٹکٹ لینے کے لیے، اوہ میرے اللہ،تم نے پانچ ہزار کے لاٹری کے ٹکٹ لیے ہیں کیا؟
شایان : روتے ہوئے ،جی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ کوئی بھی نہیں نکلے گا۔
ڈاکٹر شیزاد: تمہیں کس نے کہا تھا کہ لاٹری کے ٹکٹ لو۔
شایان : میرے دوست نے پانچ سو کا ایک ٹکٹ لیا تھا ، اس کےایک ہزار روپے نکلے ،اس نے مجھے بتایا، اس نے تین ہزار کے لاٹری کے اورٹکٹ لیے ہیں ۔تومیں نے ماما سے کہا تھا کہ ،وہ مجھے پانچ سو روپے دیں ،ماما نے نہیں دیے۔
عنابیہ: یہ سب فراڈ ہوتا ہے ،تم نے جو ٹکٹ لیے کوئی نکلا، کیا ان میں سے ۔
شایان: نہیں
ڈاکٹر شیزاد : تمہارا وہ دوست کہاں ہے۔ مجھے ملنا ہے اس سے۔
شایان:اس نے جو ٹکٹ دوسری دفعہ لیے تھے ،اس میں سے بھی کوئی نہیں نکلا۔
ڈاکٹر شیزاد: تم لوگوں نے ٹکٹ لیے کس سے تھے ؟
شایان :وہ ہمارے ایک ان لائن فرینڈ سے ۔
ڈاکٹر شیزاد : اوہ مائی گاڈ۔ اِٹ اِذ رڈیکولس۔
شایان:وہ سکول سے باہر ہمارے آرڈ ر کرنے پر آیا تھا۔ کچھ اور دوستوں نے بھی ٹکٹ لیے تھے ۔جنہوں نے پہلی بار لیے تھے ۔صرف انہی کے ٹکٹ نکلے ۔ مجھے لگتا ہے ڈیڈی اس نے ہمیں ٹریپ کیا ہے۔ ایم سوری ڈیڈی ۔ میں کبھی دوبارہ ایسا نہیں کروں گا۔
ڈاکٹر شیزاد : انسان اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے ۔ بیٹا آپ کے ماں ، باپ آپ کو ہمیشہ اچھا مشورہ ہی دیتے ہیں ۔ مجھے بھی یقین ہے کہ آئندہ آپ رونا نہیں چاہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش: دیکھو تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔
شفق : کیا ہے؟ڈبہ میں موبائل ۔ کیوں؟مجھے نہیں چاہیے۔
دانش : موبائل ہے،تاکہ تم سے بات کر سکوں جب بھی میرا جی چاہے۔
شفق: یہ تو ممکن نہیں ہے ، موبائل کسی نے دیکھ لیا میرے پاس تو۔
دانش : سنبھال کر رکھنا ۔نا ،کوئی کیسے دیکھے گا ۔
شفق: کسی وقت بھی بات کرنے کے لیے کوئی رشتہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ دانی۔وہ امی کہہ رہی تھی کہ ماموں ذور دے رہے ہیں کہ اب فیصل اور میری شادی ہو جائے ۔تم ہو کہ رشتہ ہی نہیں بھیجتے ہو ،میں کیسے تمہار اامی کے سامنےنام لوں۔ تم بات کرو نا اپنی امی سے۔اب امی اسلام آباد گئی ہیں تو ماموں پھر امی کو بولیں گئے ۔ فیصل اور میری شادی کے بارے میں۔
دانش : تمہاری امی کب گئی ،تم نے بتایا ہی نہیں مجھے۔
شفق: تین دن پہلے ،اتوار کو واپس آ رہی ہیں ، فیصل آ رہا ہے ان کے ساتھ میرا منگیتر۔
دانش : تو میں کیا کروں ، ڈنر پر لے جاوں اسے اور اس کے کھانے میں زہر ملا دوں ۔
شفق: تمہاری مرضی۔
دانش: رات کو ملنے آو نا، اوپر۔ جب ربیعہ سو جائے تو ،ویسے بھی امی گھر پر نہیں ہیں تمہاری ،جب ربیعہ سو جائے تو فون کرنا مجھے۔
شفق:کیوں ابھی بول دو نا جو بولنا ہے، مجھے اندھرے سے ڈر لگتا ہے۔
دانش : میرے ہوتے ہوئے۔ تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شفق: اچھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق ڈاکٹر شیزاد کے ساتھ تھا ،ان کو کسی میٹنگ میں جانا تھا۔ جہاں بہت سے نیک دل ڈاکٹر ایک ایسے علاقے میں کیمپ لگانے والے تھے جہاں غریب لوگوں کی اکثریت تھی۔تاکہ غریب لوگ علاج کی مفت سہولت سے فائدہ اُٹھا سکیں ، ڈاکٹر رفیق ، فون پر بات کر رہے تھے ،رفیق نے سنا تو اس کا دھیان ان کی باتوں کی طرف جانے لگا۔ ڈاکٹر شیزاد ، یار وہ لوگ جو بیمار ہونے کے باوجود دوائی نہیں لیتے ، اگر کیمپ لگے گا تو اپنا معائنہ فری کروا سکیں گئے ،اپنے بچوں کا معائنہ کر وا سکیں گئے۔ اسے کہو ایک دن کے لیے ہی آ جائے ، ہمارے پاس اس کے علاوہ کیمپ کے لیے کوئی انکھوں کا ڈاکٹر نہیں ہے ، اچھا ، ابھی کل تھوڑا ہی کیمپ لگانا ہے ،کافی دن ہیں ،اس ماہ کے اینڈ میں یہ کام کرتے ہیں ، آپ لوگوں کا دل نہیں کرتا ۔غریب لوگوں کی دُعا لینے کا ، ہاں ہاں مفت دواوں کا انتظام بھی ہو گیا ہے ، وہ ڈاکٹر خاور نے کہا ہے کہ اپنی طرف سے ، کیوں۔
کچھ دیر بات جیت کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا تو رفیق نے ان سے پوچھا۔
رفیق : سر آپ مفت میڈیکل کیمپ لگا رہے ہیں، اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا۔ میرا مطلب ہےآپ اور دیگر ڈاکٹر جو کیمپ لگا رہے، غریب لوگوں کے لیے فری علاج اورفری معائنہ کا ، اس کا مقصد کیا ہے۔
ڈاکٹر شیزاد : اس کا مقصد غریب لوگوں کو علاج کی فری سہولت دینا ہے اور کیا۔
رفیق : صرف ایک دن کے لیے ۔
ڈاکٹر شیزاد: نو نو ،تین دن کے لیے تو ہو گا نا۔اِیٹ لیسٹ۔
رفیق: اگر میں کسی کام آ سکوں،توضرور بولیے گا۔مجھےبھی اچھا لگتا ہے دوسروں کی مدد کر کے۔
ڈاکٹر شیزاد: اصل میں دوسروں کی مدد کرنا اپنی مدد کرنا ہی ہے، ذہنی سکون ،اطمینان اور دل کو جو خوشی ملتی ہے وہ ہی اصل قیمت ہوتی ہے،دوسروں کے کام آنے کی اچھائی اوربُرائی واپس آپ تک پلٹ کر ضرور آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش: یار راشد تمہارے کہنے پر فون دے تو دیا ہے ،اور رات کو ملنے کے لیے بھی بلایا ہے لیکن۔
راشد: لیکن کیا،اگر وہ لڑکی ہو کر آدھی رات کو تمہارے بلانے پر آرہی ہو تو مطلب چاہتی وہ بھی یہی ہے۔اب وہ تو نہیں کہے گئی نا تم سے، تم بھی پاگل ہو۔
دانش:پتہ نہیں یار ،اسے برا ہی نہ لگے۔
راشد : بُرا کیوں لگے گا وہ بھی تو محبت کرتی ہے یا لوٹ رہی ہے تمہیں ،گفٹ لے لے کر، کچھ دے بھی تو۔
دانش:یار کیسی باتیں کرتے ہو ،چھوڑو۔
راشد: یوٹیوب پر یہ ویڈیو دیکھو ،خاص لورز کے لیے ہے۔ دیکھوتو۔
دانش: پتہ نہیں یار یہ لوگ ایسی ویڈیوز بنواکیسے لیتے ہیں۔
راشد: سب چلتا ہے میرے بھولے صنم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق : ربی ٹی وی بند کرو اور سو جاو۔ امی نہیں ہیں، گھر میں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ اپنی ذمہ داری بھول جائے۔
ربیعہ : اچھا نا آپی ،آپ بھی امی کی طرح نوکری کر لیں ، استانی بن جائیں ۔(منہ بناتے ہوئے)۔
رفیق:کیا ہو رہا ہے ،ابھی تک سوئے نہیں آپ لوگ؟
شفق : امی جو نہیں ہیں ،نیند ہی نہیں آ رہی۔
رفیق: تمہارے پیپر ختم ہو گئے، اگلے سال فائنل ایگزیم ہے خوب تیاری کرو ،شفق۔تھرڈ ایر کے نمبر بھی فورتھ ایر کے نمبر میں شامل کر کے ڈویژن بنتی ہے۔
شفق: کر رہی ہوں۔مسکراتے ہوئے۔
ربیعہ: اچھا ہے ، کوئی آپ کو بھی کہنے والا ہے۔(شرارتی انداز میں کہہ کر ربیعہ نے ٹی وی بند کی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( سوا دو ہو رہے ہیں ، کیا کروں ، فون کروں یا نہ کروں ،دانش انتظار کر رہا ہو گا۔ میرے خدا سوا دو بجے ،اگر بھائی جاگ گیا تو کیا ہو گا۔ کیا کروں ،جاوں نہ جاوں ، چھوڑو نہیں جاتی ،نہیں چلی جاتی ہوں ،شفق موبائل پر ہاتھ رکھے اور ہاتھ پر تکیہ رکھے تکیہ پر سر رکھے،بڑی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اچانک سے وائبریشن ہوئی تو وہ سر سے پاوں تک کانپ گئی ،پھر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ دھیرے سے فون کا بٹن پریس کیا)۔
شفق: خاموشی۔
دانش: کون۔
شفق: کون کیا؟
دانش : اوپر آو نا میں کب سے یہاں بیٹھا ہوں۔
شفق : کیوں بیٹھے ہو، ربیعہ ابھی سوئی ہے ، رفیق بھی شاہد ابھی سو گیا ہو ۔آواز تو نہیں آرہی اب۔ لائیٹ بھی بند ہے۔ مگر جاگ سکتے ہیں نا۔آج نہیں آ سکتی۔
دانش: پلیز آو نا۔ میں کب سے تمہارے لیے یہاں بیٹھا ہوں۔میرے لیے اِتنا نہیں کر سکتی ۔
شفق: اچھا صرف دو منٹ کے لیے۔
رفیق : چلو یوں ہی سہی آ تو جاو۔فون لانا ساتھ۔
(شفق دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(رفیق اپنی کتاب کی مشق کر رہا ہے وہ کچھ بھول جاتا ہے پھر چھوٹا بلب اون کر کے اپنی کتاب مائنڈ میجک پلس سے دوبارہ خواہش پوری کرنے سے متعلقہ مشق کو دیکھنے لگتا ہے۔ قانون کشش پڑھنے لگتا ہے۔کتاب میں لکھا ہے ،ہم جن چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ انہی سے متعلق سوچیں ، جو ہم پسند نہیں کرتے ، اس چیز سے متعلق اس واقعہ سے متعلق سوچیں بھی نہیں، وہ انکھیں بند کر کے سوچنے لگتا ہے ،وہ ایک بہترین آفس میں بیٹھا ہے۔ وہ اپنا سارا دھیان اپنے خواب پر دینے کی کوشش کر رہا ہے)
دانش:کتنی دیرانتظار کیا ہے میں نے ۔اب اس کے بدلے مجھے کچھ چاہیے۔(اس نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ شاپر کو اس طرح سے موڑا ہوا تھا کہ اس کی ایک سائیڈ تو انگوٹھے کے گرد گھومی ہوئی تھی اور دوسری سائیڈ کھلی تھی، اس نے دو دانے نکال کر منہ میں ڈالے ، وہ کوشش کر رہا تھا کہ جو وہ کہنا چاہ رہا تھا ،شفق سمجھ جائے۔
شفق نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
دانش:اپنا موبائل دو تمہیں کچھ دیکھانا ہے۔(ویڈیو سرچ کرتے ہوئے۔اس نے شفق کو مسکرا کر دیکھا)۔
شفق:یہ کیا سرچ کر رہے ہو تم ؟واٹ اِذ دیس؟
دانش: دیکھو تو۔
شفق: تم ایسی چیزیں دیکھتے ہو۔میرے اللہ۔
دانش: تو۔کیا ہوا؟
شفق : مجھے نہیں دیکھنا کچھ ، میں جا رہی ہوں۔
دانش : تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو اس کا ثبوت دو۔
شفق : کیسا ثبوت۔
(شفق نے قدے غصے سے اسے دیکھا)
دانش : تم سمجھ رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں ،بچی نہیں ہو تم۔
شفق: میں چاہتی ہوں کہ جب میرا شوہر میرا گھونگھٹ اُٹھائے تو میری انکھیں شرم سے بند ہو ں۔ شرمندگی سے نہیں۔
دانش: تو میں ہی بنوں گا نا تمہارا شوہر ۔ تو کیا فرق پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(رفیق کو کتاب پڑھتے ہوئے اپنا حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا ،جب وہ صحن میں پری فریج کے پاس پہنچا تو اسے چھت پر کسی کے بات کرنے کی سی آوازیں محسوس ہوئیں۔وہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا ،آواز اور صاف ہونے لگی)
شفق:تمہیں کیا ہو گیا ہے ،تم نے کبھی پہلے مجھ سے ایسی بات نہیں کی۔
دانش : تم کہیں مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہی۔ میں چاہتا ہوں تم ثابت کرو ،تم میری ہو ،سو میں سے بیس پرسنٹ ہی سہی۔
(ان کی بات جیت سن کر رفیق کی ٹانگیں لڑکھڑا گیں ،اس نے دانش کو شفق کے بلکل سامنے صرف دو قدم کے فاصلہ پر کھڑے دیکھا ، اس کے دل میں آیا کہ دونوں کو مار مار کر آدھ موا کر دے۔اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے)
شفق:تم کیسی باتیں کر رہے ہو ،میں اپنی ماں اور بھائی کا مان نہیں توڑ سکتی ۔ کبھی بھی نہیں۔
(رفیق کی ٹانگیں آگےبڑھنے سے رک گئی ،اس نے جب شفق کی بات سنی تو وہیں رُک گیا)۔
دانش : میں کچھ نہیں ہوں، تمہارے لیے؟
دانش نے موبائل بند کر کے شفق کے ہاتھ میں تھما دیا۔غصے سے دو چنے نکال کر منہ میں ڈالے۔
شفق : میں نے تمہیں ہزار دفعہ کہا ہے۔ تم رشتہ بھیجو۔ میں امی سے بات کروں گی۔
دانش : کیا بات کرو گی۔ میں کچھ بھی نہیں تمہارے لیے ۔ جانتی ہو۔ کتنا مہنگا موبائل لے کر دیا ہے تمہیں۔
شفق: اس بات کا کیا مطلب ہے ،میں نے کب کہا تم سے مجھے کچھ دو۔
دانش:مجھے پتہ ہے تم خواہ مخواہ کے نخرے دیکھا رہی ہو ۔ چاہتی ہو کہ میں تمہاری منت سماجت کروں۔ورنہ رات کے تین بجے میرے ساتھ چھت پر چنے کھانےتو نہیں آئی ہوتم۔اس نے شفق کو کمر سےپکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔
(رفیق کو دھچکا لگا، اس نے دیکھا کے شفق نے کھینچ کر ایک تھپڑ دانش کے منہ پر مارا اور اپنے ہاتھ میں اُٹھایا ہوا موباہل اس کے ہاتھ میں موجود شاپر میں ڈال دیا ۔جس میں چنے پڑے تھے ،نیچے کی طرف بھاگی۔دانش وہیں بے سدھ حیرت کی تصویر بنے شفق کو نیچے جاتا دیکھ رہا تھا، رفیق فوراً نیچے اُترا۔ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔لیکن اس کی نگاہ سیڑھی پر ہی تھی ، جہاں سے شفق نیچے آئی ۔وہ رو رہی تھی۔ رفیق کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایک غیرت مند بھائی کی طرح جا کر اپنی بہن کو رات کے تین بجے کسی غیر محرم سے ملنے پر زدو کوب کرے یا ایک انسان ہونے کے ناطے اس کو جو بے وفائی کا تازہ تازہ زخم ملا تھا ۔اس پر مرہم لگائے۔اسے اپنی پڑھی ہوئی ایک کتاب کا جملہ یاد آیا ،جس میں رائیٹرنے کہا تھا کہ اگر انسان کو درست عمل اور مہربانی پر مبنی عمل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو انسان کو درست ہونے کی بجائے مہربان ہونا چاہیے ۔ وہ فریج کے پاس کھڑی اپنی بہن کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا لیکن خاموش رہا۔اس کا چہرہ ہلکی ہلکی روشنی میں صاف دیکھائی دے رہا تھا ۔ وہ خاموشی سےرو رہی تھی۔اس کا پورا بدن اس کی ہچکیوں سے لرز رہا تھا لیکن اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔اس کا منہ آنسووں سے بھیگا ہو ا تھا،ہلکی ہلکی روشنی میں اُسے اپنی بہن کا چہرہ صاف دیکھائی دے رہا تھا۔
 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 263735 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More