خاموشی(تیسری قسط)

اس نے درست ہونے کی بجائے مہربان ہونے کو چنا اور خاموشی اختیار کی تا کہ اس کی بہن دل کھول کر رو لے ،اس کا غم ہلکا ہو جائے۔کافی دیر رونے کے بعد شفق کمرے میں چلی گئی ،رفیق کی انکھوں سے نیند اُڑ چکی تھی ۔ صبح چھ بجے اس کی امی کا فون آیا ، انہوں نے روتے ہوئے ،اپنی ماں کی موت کی خبر دی اور رفیق کو ،شفق اور ربیعہ کے ساتھ اسلام آباد آنے کا کہا۔ رفیق نے جا کر دیکھا ،ربیعہ سو رہی تھی جبکہ شفق قرآن کی تلاوت کر رہی تھی۔ اس نے قریب جا کر شفق کی طرف دیکھا جو شاہد ساری رات روتی رہی تھی ،اس کی انکھیں سوجی ہوئیں تھیں۔
رفیق: شفق،امی کا فون آیا تھا ، نانی جان فوت ہو گئی ہیں ،ہمیں آج ہی نکلنا ہو گا ، اسلام آباد کے لیے۔
شفق: جی،
(شفق نے قرآن پاک کوبند کر کے چوما اور اس کی انکھوں سے آنسو بہنے لگے۔رشتے بھی انسانوں کی طرح ہی مرتے ہیں ،بس ان کی قبریں ،دل کےکسی کونے میں بنتی ہیں ،یاد قبر پر موجود دیے کی طرح کبھی جلا لی جاتی ہے تو کبھی بجھا دی جاتی ہے۔محبت کے اجزا ، چاہت ،دلچسپی ، ضرورت اور عادت کو جوچیز چپکا کر رکھتی ہے وہ اعتبار ہے ،شفق کو اپنی محبت کے سارے اجزابہتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔اس کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دانش اس سے ایسی باتیں بھی کر سکتا ہے۔ کاش وہ چھت پر جاتی ہی نہیں۔ کبھی بھی گئی ہی نہ ہوتی۔ کاش۔وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی انکھیں چھلک گئی، رب نے کیسی معقول وجہ بنا دی تھی اس کے لیے ،وہ اپنی نانی کی میت پر اپنی محبت کا ما تم دل کھول کر کر سکتی تھی ۔ اُس نے بیگ پیک کر دیے۔ رفیق نے تین دن کی چھٹی لی،پھر اتوار تک واپس آنے کا سوچا۔پاکستان کوچ کے ٹکٹ لے کر سب روانہ ہو گئے۔ سفر کے دوران ،شفق ہر تھوڑی دیر بعد رونے لگتی ، ربیعہ اسے تسلی دیتی۔ نانی کی اب عمر ہو گئی تھی ،انہیں تو جانا ہی تھا۔ اللہ نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ رفیق سوچ رہا تھا ،شاہد رشتو ں کی بھی عمربھی ختم ہو جاتی ہے ،تب ہی وہ بھی ٹوٹ کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں ،فقط یاد بن کر رہ جاتے ہیں ، مر جانے والوں کی طرح، وہ شفق کو رونے سے منع نہیں کر رہا تھا ،وہ جانتا تھا ، شفق جتنا ذیادہ رولے گی ، اس کے لیے اُتنا ہی اچھا ہے۔ اس کا غم ہلکا ہو جائے گا۔اس کی خاموشی ہی ،اس کی بہن کے لیے اس کی طرف سے مرہم تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی: امی نیلم کی شادی نہ کرو نا اکبرے سے ، وہ اچھا نہیں ہے۔
صبا: تو کس سے کروں ،تو کروائے گی ، شادی اس کی ۔مسکراتے ہوئے۔
خوشی: امی میری استانی کی تو ابھی شادی نہیں ہوئی ، پتہ ہے،وہ نیلم سے کتنی بڑی ہے۔ بس آپ نیلم کی شادی نہ کرو۔
صبا: بچہ یہ فیصلے مرد کرتے ہیں عورتیں نہیں کرتیں۔
(خوشی کو اب اپنی ماں کی باتوں سے چڑھ ہونے لگی تھی ۔ آخر یہ مرد اور عورت کا تضاد کیوں ہے۔وہ سوچ رہی تھی۔آخر کیا ہے ،مرد میں کہ اللہ نے اسے افضل بنایا ہے ، عورت کو افضل کیوں نہیں بنایا ۔ وہ اپنے ناپختہ ذہین پر دباو دے کر سوچ رہی تھی (جس بات کا جواب دماغ میں موجود نہیں تھا وہ نکلتا کہاں سے ،اس نے اپنی کتابیں اُٹھائیں اور کمرے سے نکل گئی ،وہ چھت پر بیٹھی ،دیوار پر آن بیٹھے کبوتروں کو دیکھ رہی تھی، بہت خوبصورت کبوتر اور کبوتری تھے ۔ کبوتر موٹا اور کبوتری سے ذیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔اسے شام کے وقت چھت پر چھلانگ لگا کر گزرنے والا بلہ بھی بلیوں کے مقابلہ میں ذیادہ خوبصورت محسوس ہوتاجو چھت پر وقتاً فوقتاً آتے جاتے رہتے تھے ،وہ اکثر ان کو دیکھتی تھی، کبوتر اپنی جگہ سے اُڑ گئے ، وہ عادتاً فاخرہ آنٹی کے چھت کو دیکھنے کے لیے دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔وہاں اکثر مرغی اپنے چوزوں کو دانے کھلا رہی ہوتی تھی ،اسے یہ منظر بہت پسند تھا۔چھوٹے چھوٹے ننھے منے چوزے، اپنی ماں کے آس پاس دانے کھانے کے لیے اس کی ٹانگوں کے درمیان سے گزرتے ،اسے ان کی آواز اپنے آس پاس ہی سنائی دیتی۔ وہ اکثر عصر کے وقت یہ منظر دیکھنے کے لیے کچھ منٹ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی۔آنٹی کی چھت پر باقی مرغے مرغیاں پنجرے میں ہی بند ہوتے ۔بس چوزوں والی مرغی ہی آزاد گھومتی نظر آتی ۔پنجرہ کا رخ نیچے جانےوالی سیڑھیوں کی طرف تھا۔ اسے کبھی خبر بھی نہ ہوئی کہ اس پنجرے میں کل کتنی مرغیاں ہیں۔
نائلہ:او ۔(پیچھے سے آ کر نائلہ نے ذور کی آوازیں نکالیں)۔
خوشی :تیرا دماغ ہے ، میرا دل نکال دیا۔
نائلہ : کیا دیکھ رہی ہے۔ چوزے۔
خوشی : ہاں تو ،
نائلہ چھت کی دوسری طرف چلی گئی جہاں کوئی فصیل نہ تھی اور ایک چھت پر رکھے بہت بڑے کبوتروں کے جالے کو دیکھنے لگی۔
خوشی: تو کیا دیکھ رہی ہے۔ (نائلہ کے پا س آ کر خوشی نے کہا)
نائلہ: کبوتر ،وہ پنجرے میں ، تو نے کبھی کبوتر کی گول گول انکھیں دیکھی ہیں ۔ مجھے تو وہ بہت اچھی لگتی ہیں۔ سفید کبوتر تو سب سے پیارے ہوتے ہیں ، جب میری شادی ہو جائے گی تو میں کبوتر رکھوں گی اپنے گھر۔
خوشی : کیا کہا تو نے، شادی؟
نائلہ : ہاں تو ، نیلم کے بعد میری باری ہی ہے نا۔
خوشی:تجھے اچھا لگے گا شادی کر کے؟ابا کی طرح تیرا شوہر بھی روز مارا کرے گا تجھے۔
نائلہ : پیار بھی تو کرے گا نا۔
خوشی : پیار، وہ کیسے کرتے ہیں۔
نائلہ کچھ دیر خوشی کے منہ کی طرف دیکھتی رہی ۔پھر اس نے کبوتروں کے پنجرے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ،جہاں بیٹھے کبوتر صاف نظر آتے تھے گلی کے دوسری طرف ہی تو گھر تھا ۔ڈبل سٹوری اس گھر کی چھت پر ایک چھوٹا سا کمرہ اور اس پر لگا ہو ابڑا سا پنجرہ، احسان چاچاکا ۔جن کو کبوتر لڑانے اور پالنے کا شوق تھا ،وہ کبوتروں کو بیچتے بھی تھے ،ان کی افزائش کا خاص خیال رکھتے تھے ، ان کی بیٹی نائلہ کے ساتھ پڑھتی تھی ،اس کی دوست تھی ،جب نائلہ سکول جاتی تھی تو احسان چاچاکی بیٹی اسے کبوتروں سے متعلق باتیں بتاتی تھی۔
نائلہ وہ دیکھ ،تو نے کبھی دیکھا نہیں ۔
خوشی : کیا؟
نائلہ : ہنستے ہوئے۔وہ کبوتر ،وہ کبوتر کیا کر رہا ہے ،کبوتری کے ساتھ۔
خوشی : کیاکر رہاہے؟
( خوشی نے پہلی دفعہ، کبوتروں کے پنجرے کو بغور دیکھنے کی کوشش کی ،جہاں بہت سے کبوتر بیٹھے تھے ، کچھ ایک دوسرے کو دانے کھلا رہے تھے ، کچھ تھوڑی دیر بعد اُڑ کرپنجرےکے اُوپر لگے ہوئے ڈنڈوں پر بیٹھ جاتے ،کافی بڑا پنجرا تھا ، کبوتروں کے پروں کے نیچے رنگ لگے تھے ،پیلے ،سرخ ،سبز، وہ ان کی حرکات وسکنات کا بغور مشاہدہ کرنے لگی ۔کچھ کبوتر پنچرے سے باہر بھی ایک غول کی صورت میں اُڑ کر جاتے اور پھر فضا میں کچھ دیر اُڑنے کے بعد واپس پنجرے کی طرف لوٹ جاتے۔ نیچے کے ڈنڈے میں بیٹھے ہوئے دو کبوتر ایک دوسرے کو دانے کھلا رہے تھے ،ایک کبوترآگے آگے چل رہا تھا جبکہ دوسرا اس کے پیچھے پیچھے، کبھی اُڑ کر کبوتر کے ایک طرف بیٹھتا تو کبھی دوسری طرف، پھر اچانک وہ کبوتر جو بار باراُڑ رہا تھا ،کبھی دوسرے کبوتر کی ایک سائیڈ پر بیٹھ رہا تھا کبھی دوسری سائیڈ پر ،وہ کبوتر دوسرے کے اوپر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بیٹھ کر اُٹھ گیا ، جبکہ نیچے والا کبوتر گرا بھی نہیں اور اپنے پروں کو ذور ذور سے اس نے باہر کی طرف جھاڑا ، جیسے کوئی چیز اپنے آپ سے دور پھینک رہا ہو۔ کچھ دیر میں اس نے مشاہدہ کیا کہ پنجرے میں موجود ہر تھوڑی دیر کے بعد ،یہ ہی عمل جاری تھا ،مختلف کبوتر اسی طرح کر رہے تھے ،مگر اس کی سمجھ میں اب بھی کچھ نہیں آیا ۔
نائلہ:کیا دیکھ رہی ہے، خوشی۔ہنستے ہوئے۔
خوشی : یہ ہی کہ ، جب کوئی کبوتر کسی دوسرے کبوتر کے اوپر بیٹھ جاتا ہے تو نیچے والا کبوتر گِرتا کیوں نہیں؟
نائلہ :پکڑ کر رکھتا ہے نا ۔کبوتر ،کبوتر ی کو اس لیے۔
خوشی : تجھے کیا پتہ ، نیچے کا کبوتر ،کبوتر نہیں کبوتری ہوتی ہے؟
نائلہ : تو بھی پاگل ہے خوشی ، اگر نیچے کبوتری نہیں ہو گی۔ تو انڈے کیسے دے گی؟
خوشی نے حیرت سے نائلہ کی طرف دیکھا
خوشی :انڈے۔
نائلہ : سمجھ یہ کبوتر جب کبوتری کو اس طرح پیار کرتا ہے تو پھر کبوتری انڈے دیتی ہے، سمجھی۔بغیر کبوتر کے کبوتری انڈے تھوڑی ہی دیتی ہے۔
خوشی : تجھے کس نے بتایا یہ ؟
نائلہ : امی نیلم کو سمجھا رہی تھی، اس کی شادی جو ہونے والی ہے ۔تو میں نے سب کچھ چھپ کر سن لیا۔
خوشی: امی کیا سمجھا رہی تھی نیلم کو۔ کبوتری انڈے کیسے دیتی ہے؟
نائلہ : نہیں ،تو کہاں کی لائق ہے، پتہ نہیں فسٹ کیسے آتی ہے ، تیرے پلے تو کچھ پڑتا نہیں ہے۔ امی سمجھا رہی تھی کہ شادی کے بعد بچے کیسے ہوتے ہیں۔
خوشی :کیسے ہوتے ہیں؟
نائلہ : تورہنے دے ، تو نے کون سی شادی کرنی ہے؟جب تیری باری آئے گی تو امی تجھےبھی سمجھا دے گی۔
(نائلہ چھت سے نیچے اتر گئی لیکن خوشی پھر کبوتروں کو ہی دیکھتی رہی اور اس کی سمجھ میں نائلہ کی باتیں آنے لگی۔ اپنی بیالوجی کی کتاب کا سبق اس کے دماغ میں گھومنے لگا ۔ اللہ نے ہر شے کے جوڑے بنائے ہیں ،نر اور مادہ ۔ کروموسوم کے ملنے سے جو جینز ملتے ہیں ، غالب جینز کے تحت بچے کی تخلیق ہوتی ہے۔نئے پیدا ہونے والے پر نر اور مادہ کےجینز کا اثر ہوتا ہے۔اگر نر کی انکھوں کا رنگ کالا ہو اور مادہ کی انکھوں کا رنگ بھورا ہو تو بچے کی انکھوں کا رنگ غالب امکان ہے کہ کالا ہو گا ، کیوں کہ غالب جینز حاوی ہوتے ہیں۔اسے اب وہ باتیں جو سمجھ میں نہیں آتیں تھیں ،صاف سمجھ آنے لگیں۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی ،یہی وجہ تھی کہ امی ،مجھے ہمشہ لڑکوں سے دور رہنے کا کہتی تھی۔ مطلب شادی سے پہلے کسی لڑکے کے ساتھ رہنا ،بغیر کسی رشتے کے منہ کالا کروانا ہوتا ہے،اس کے دماغ میں الجھے دھاگے بلکل سیدھے ہو چکے تھے، مرد کے بغیر عورت ماں نہیں بن سکتی ، وہ جو ہم ہمشہ پڑھتے آئے ہیں ،جنت ماں کے قدموں میں ہے تو اس جنت کا مالک عورت کو بنانے والا کوئی اور نہیں رب کے بعد کوئی مرد ہی ہوتا ہے) ۔وہ کافی دیر تک حیرت کا مجسمہ بن کر چارپائی پر بیٹھی رہی۔ اس کی بہن نے فطرت کا سہارا لے کر اُسے خاموشی سے ایسی بات سمجھائی تھی ۔جو اس کی ماں ہزار کہانیاں بتانے کے بعد بھی اسے سمجھا نہ پائی تھی۔ خوشی کو خبر بھی نہ ہوئی کب اندھرا چھانے لگا )
صبا:خوشی کتنی آوازیں دیں ہیں تجھے، تو سنتی ہی نہیں ۔چل نیچے اس اندھرے میں تجھے کیا نظر آ رہا ہے جو تو کتابیں لیے بیٹھی ہے۔
خوشی : جی
(وہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے نیچے اُتر آئی)
(کسی بھی چیز کا علم دماغ کی تمام معلومات کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ، انسان کے سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے طریقے کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کرتا ہے ،خوشی کی سوچوں کے سمندر میں نائلہ کے مارے پتھر نے ہلچل مچا دی تھی، وہ اپنی ماں کو اور اپنے پاپ کو نر اور مادہ ، کبوتر اور کبوتری کے پہرائے میں دیکھ رہی تھی، رب نے کیا عجیب نظام بنایا ہے،وہ سوچ رہی تھی ،نیلم کی کچھ دنوں میں شادی تھی۔ مطلب سب کی شادی ہو جاتی ہے،اللہ نے سب کا جوڑا بنایا ہے۔کیا میری بھی شادی ہو گی ،کبھی نہ کبھی،یہ سوچ آتے ہی وہ چونک گئی۔ اس نے اونچی آواز میں کہا)
خوشی : نہیں۔
نیلم : کیا ہوا خوشی؟تو ٹھیک ہے۔
خوشی:ہاں،تجھے ڈر نہیں لگ رہا ؟
نیلم: کس چیز سے؟
خوشی:تیری شادی ہو رہی ہے نا؟
نیلم : اس میں ڈرنے کی کیابات ہے؟
خوشی: وہ تجھے مارے گا ابو کی طرح۔
نیلم:کیاپتہ نہ مارے ،پیار کرے۔
خوشی: اگر مارا تو۔
نیلم :کچھ نہیں ہوتا ،سب چلتا رہتا ہے۔ مار سے بندہ مر تھوڑا ہی جاتا ہے۔
خوشی: تو شادی کیوں کر رہی ہے۔ مطلب تجھے کیا ملے گا ۔ شادی کر کے۔
نیلم : امی کہتی ہے ،ماں باپ ساری عمر تو بیٹی کو بیٹھا کر نہیں کھلا سکتے نا ،جب وہ مر جائیں تو کوئی تو ہو جو ان کی بیٹی کو دو وقت کی روٹی دے ،بچے بھی تو ہوتے ہیں، شادی کے بعد ،بس امی کہہ رہی ہیں تو کر رہی ہوں۔ کیوں تو نہیں چاہتی میں جاوں یہاں سے؟
خوشی: ہاں میں نہیں چاہتی تو جائے یہاں سے۔کتنا خیال رکھتی ہے تو سب کا۔
نیلم : نائلہ سنبھال لے گی کام ۔تو فکر نہ کر، اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دے ،امی بہت چاہتی ہے کہ تو دس کرئے۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ تو ،تو دس کر لے ،ہم بہنوں میں سے کوئی تو دس پاس ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق : امی اللہ آپ کو صبر دے۔(شفق اپنی امی کے گلے لگ کر وہ رورہی تھی)
رفیق نے اپنی نانی کی میت کے پاس جا کر منہ دیکھا ، ایسے لگ رہا تھا طویل سفر کے بعد مسافر سور ہا ہو۔اپنی نانی کے چہرے کو دیکھ کر اسے اپنے ابو کا چہرہ یاد آ رہا تھا۔ دُکھ کیسے دوسرے دُکھوں کو اپنے پاس بُلا لیتے ہیں ، انسانی ذہین کے لیے کتنا مشکل ہے ،ایسے عمل کو روکنا وہ کفن میں لپٹی اپنی نانی کی لاش کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، اسے اپنے ابو کا چہرہ یاد آنے لگا ،جو چار سال پہلے انہیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ اس کے ماموں نے اسے تسلی دی ، اپنے سینے سے لگا لیا۔
ماں کے چلے جانے کا دُکھ تو وہی جانے جس کی ماں نہیں رہتی ،ماموں رفیق کو تسلی دیتے ہوئے خود رونے لگے۔ رفیق تیری نانی تجھے بہت یاد کر رہی تھی۔ تم لوگ اگٹھے آ جاتے تو ان سے مل لیتے ، رفیق تم آجاتے نا بیٹا ،وہ روتے روتے اپنے دل کی باتیں رفیق سے کر رہے تھے۔
شفق اپنی تمام خالہ سے باری باری گلے لگ کر رو چکی تھی۔جو باری باری اسے کمرےسے باہر ہی مل گئی تھیں ،اب وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں میت میں اس کی نانی لپٹی ہوئی تھیں ۔ ان کےجبڑے کو پٹی سے باندھ دیا گیا تھا۔ تاکہ منہ نہ کھلے،انسان بھی کیا چیز ہے شفق دل ہی دل میں اپنی نانی کی میت کو دیکھ کر سوچنے لگی۔ انسان چاہنے والوں کی یادوں میں کبھی نہیں مرتا، نہ ہی روح مرتی ہے، رب کا نظام کیسا ہے۔ موت کیسی اٹل حقیقت ہے۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، ابو بھی اسی طرح سب چھوڑ کر چلے گئے اور نانی بھی ،اس نے ایک سرد آہ بھری ،مگر اپنی سوچوں کے بہاو کو نہ روک سکی ،ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ ہم سوچتے بھی نہیں کبھی مر جائیں گئے ،اور ایک وقت یہ ہوتا ہے، جب لوگ ہمیں غسل دے کر ہماری آخری منزل کی طرف ہمیں روانہ کر دیتے ہیں ،نانی کو بھی پہلا غسل دیا جا چکا ،بس کچھ دیر باقی ہے ۔ایک انسان زندگی سے دور کہیں زندہ رہے گا، ایک اور انسان انسانوں کی دنیا سے کوچ کر چکا ہے۔ایک بچہ میت کی چارپائی کے قریب سے گزرا تا کہ اپنی ماں کےقریب پہنچ سکے ،شفق نے دیکھا اس کی نانی کے پاوں سے چادر بچے کی شرٹ میں لگے ایک ہک کے ساتھ پھنس کر اسکے پیچھے جا رہی ہے۔ شفق فورا بچے کی طرف لپکی اور ہک سے چادر نکال کر اپنی نانی کے پاوں پر ڈالنے لگی۔ اس کا ہاتھ نانی کے ٹھنڈے یخ پاوں سے مس ہوا ،اس نے اپنے پورے جسم میں ایک لہر سی اُٹھتی محسوس کی۔ وہ اپنی نانی کے ناک میں موجود روئی کو دیکھ رہی تھی۔اس کی انکھیں مذید رونے سے انکار کر رہی تھیں ،وہ انکھوں میں درد محسوس کرنے لگی۔اپنی تکلیف کے اگے دنیا کی ساری تکالیف ہچ ہیں ،مگر اپنوں کے معاملے میں نہیں، ہم جنہیں پیار کرتے ہیں ان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، جسمانی تکالیف یا روحانی تکالیف کی پرواہ نہیں کرتے۔ شفق نے اپنی امی کی طرف دیکھ کر سوچا ۔جو رو رہی تھیں ،شفق نے چاہ کہ وہ اب صبر کر لیں ،یہ نہ ہو ان کی طبعیت خراب ہو جائے۔ لاکھ چاہنے کے باوجود ہم ایسے انسان کے کرب کو نہیں بانٹ سکتے ۔جس سے ہم بہت محبت کرتے ہیں ،ہر انسان کو اپنے حصے کے غم ،تکالیف اور مصائب کو خود ہی جھیلنا ہوتا ہے۔کاش کہ ہم کسی کی تکلیف کو بھی لے سکتے۔مگر ایسا نہیں ہوتا ،اگر ایسا ہوتا توچاہنے والوں کے لیے ایک کڑی آزمائش ہوتی،شفق کے دماغ میں بیک وقت بہت سی چیزیں چل رہیں تھیں ۔ اب وہ رو نہیں رہی تھی، وہ تکلیف تو محسوس کر رہی تھی لیکن اس کے آنسو تھم چکے تھے۔نانی کو اب آخری غسل کے لیے لے جارہے تھے۔شفق امی کے قریب آگئی۔
شفق: امی میں بھی مدد کروں آپ کی غسل دینے میں۔
مہناز:نہیں بیٹا ،میں اور تمہاری ممانی دیں لیں گئے غسل اور پانی ڈالنے کے لیے مسجد کے امام کی بیوی آئی ہے۔ تم سپارا پڑھو، دُعا کرو اپنی نانی کی مغفرت کے لیے۔ (روتے ہوئے مہناز نے ناک صاف کیا)
شفق: غسل خانے کے باہر کھڑی ہو گئی ۔ سورت یس کی تلاوت کرنے لگی ،اس کے دماغ کو سکون محسوس ہوا۔انکھیں بدستور جل رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلینڈ میں رفیق کے ماموں نے تمام فیملی کے ٹکٹ کروا لیے ہیں ،اپنی ماں کا آخری دیدار کرنا چاہتے ہیں ،عمران فاروق پچھلے سولہ سال سے انگلینڈ میں آباد ہیں ، رفیق کے ابو کی وفات پر وہ یہاں آئے تھے ، انہیں کچھ کام بھی تھا ،یہاں پر انہوں نے جو پلاٹ لے رکھا تھا اسے سیل کرنا تھا، انہوں نےمہناز کو پچاس ہزار روپے بھی مدد کے طور پر دے کر کہا تھا کہ اگر کوئی اور مدد کی ضرورت ہو تو بھی بولنا ،ویسے میرا ہاتھ بھی آج کل تنگ چل رہا ہے۔ مہناز کو بہت افسوس ہوا تھا ، کیونکہ وہ بہت امیر تھے ۔ انگلیند میں انہوں نے اپنا گھر لے رکھا تھا۔وہ ایک بہت بڑے سٹور میں حصے دارتھے ،اب جب وہ اپنی ماں کی میت کو کندھا دینا چاہ رہے تھے تو،ان کے بچے پاکستان نہیں آنا چاہ رہے تھے ۔پچھلے دس سال میں وہ ایک دفعہ بھی پاکستان نہیں آئے تھے۔ رفیق کے ماموں نے انڈیا کی ،ایک مسلم فیملی کی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ جو کافی عرصہ سے انگلینڈ میں آباد تھی۔حبیبہ انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں پندرہ سال رہی تھی۔اس کے باپ نے غیر قانوی طور پر انگلینڈ میں ا ٓ کر ایک انگریز عورت سے شادی کر لی تھی ، جب وہ لیگل ہو گیا تو اس نے انگریز عورت کو کافی پیسہ دے کر جان چھڑا لی اور اپنی فیملی کو انگلینڈ لے آیا ۔ حبیبہ ذیادہ پڑھی لکھی نہ تھی۔اس کے باپ کو یہاں اس کی شادی کے لیے بہت مشکل ہو رہی تھی ،انگلینڈ ایسا مسلمان نوجوان ڈھونڈنا مشکل تھا جو ایسی لڑکی سے شادی کر لے جو ذیادہ پڑھی لکھی اور خوبصورت نہ ہو۔ حبیبہ کی عمر بھی تیس سے اوپر کی ہو چکی تھی۔ جب عمران فاروق اس کے باپ کےایک انگریز دوست کے سٹور میں ملازم تھا ،باتوں باتوں میں اس کے ساتھ عمران کی جان پہچان ہو گئی۔ اس نے عمران کو اپنے گھر کھانے پر بلایا ، وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے عمران اس فیملی کے قریب ہوتا گیا اور پھر حبیبہ سےشادی کر لی۔اس کے بچے صاف اردو بولتے تھے، اگرچہ ان کا لہجہ انگریزوں والا تھا۔
ارسل ،امامہ اور میشا ان کے تین بچے تھے۔ سب کے سب پاکستان آنے کےلیے منع کر رہے تھے ،ان کی ماں انہیں سمجھا رہی تھی ،ہم صرف پندرہ دن کے لیے جا رہے ہیں ،پاکستان گھوم بھی لیں گئے، پھر واپس آ جائیں گئے۔
ارسل:ماما،ڈیڈہمیں کیو ں لے کر جا رہے ہیں ،خود جائیں۔آئی ڈونٹ لائیک پاکستان ، آئی ڈونٹ وانٹ ٹو سی دیٹ پلیز۔
میشا: ماما دیس اذ ناٹ فیر ، ہم جانتے تک نہیں ،کیا کرئیں گئے فیونرل میں جا کے؟
امامہ: ماما انڈیا چلتے ہیں نا، مجھے تاج محل دیکھنا ہے۔
حبیبہ :تم لوگ سمجھتے کیو ں نہیں ہو ، میں تنگ آ گئی ہوں ، تم اپنے ڈیڈی سے خود بات کر لینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھا۔اسے احساس تھا کہ اس نے شفق کا دل توڑ دیا ہے ،شاہد وہ اب کبھی اس سے نہ ملے ۔اپنے کمرے میں لیٹا ،کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ خود کو دو تھپڑ مارے ، کاش کہ یہ سب کچھ نہ ہوتا ،اس کی نگاہوں میں بار بار شفق کی انکھوں سے گرتے آنسو ،اپنا اس پر غصہ کرنا ،تمام کا تمام منظر گھوم رہا تھا۔
اس نے خود سے کہا،رفیق ٹھیک کہتا تھا ،اپنی سوچ کو گٹیا ماحول اور لوگوں سے محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے، جب انسان اپنی سوچوں کو ٹھیک نہیں رکھتا تو عمل خود بخود خراب ہو جاتے ہیں ۔ ارشد کی سوچ کا اثر اس پر کچھ پل کے لیے ہو گیا تھا مگر شفق کے تھپڑ نے اسے غلط اور صیح کا فرق سمجھا دیا تھا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے گا۔ اپنے عمل کو کیسے ختم کر سکتا ہے جو ہو چکا۔ انسان بہت بے بس ہے۔وہ ماضی میں ہو جانے والی غلطی پر شرمندہ تو ہو سکتا ہے مگر اسے اپنے دل و دماغ سے دور نہیں کر سکتا ۔ کاش فلم کی طرح کچھ حصہ ڈیلیٹ ہو سکتا مگر یہ ممکن نہیں ، شفق کیا سوچتی ہو گی ، شاہد اس کی نگاہوں میں میں ہمیشہ کے لیے گِر گیا ہوں وہ خود سے ہمکلام تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔دانش دانش ،ارے دانی سن کیوں نہیں رہے کہاں ہو۔دانش کی امی کلثوم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دانش کو پکارا۔
کلثوم : کیا چھت کو گھور رہے ہو۔ باہر بلا رہی ہوں تمہیں ۔
دانش:کیا ہوا ،امی؟
کلثوم : باہر ارشد کافی دیر سے کھڑا ہے ،تم سے ملنے آیا ہے۔
دانش : آپ کہہ دے میں گھر پر نہیں ہوں۔
کلثوم: میں کہہ چکی ہوں کہ تم گھر پر ہو۔
دانش : اچھا (اپنے دانتوں کو پیستے ہوئے ،دروازے پر خراماں خراماں چلتا ہوا گیا)۔
ارشد: ارے تم نہیں ملے تو میں ہی آگیا ۔ چلو، دو چار کش لگائیں ۔دولے کی دوکان پر چلتے ہیں۔
وہ قریب کی دوکان جو عبداللہ نامی نوجوان چلاتا تھا۔ وہاں جانے کو بول رہا تھا۔
دانش : نہیں میرا جی نہیں چاہ رہا۔
ارشد : تم چلو تو سہی۔
دانش : اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلنے لگتا ہے۔
ارشد : تم نے بتایا ہی نہیں اپنی رنگین رات کا حال ۔بتاونا ۔کیا کیا ہوا؟
( اس کو کونی مارتے ہوئے)
دانش: کچھ بھی نہیں ہوا ،وہ ناراض ہو کر چلی گئی ، روتے ہوئے۔
ارشد: تم نے ایسا کیا کیا؟کہ وہ رونے لگی ہاں۔(ہنستے ہوئے)
دانش : چھوڑو ،کوئی اور بات کرو۔ (تلخی سے اس نے آگے پیچھے دیکھنا شروع کر دیا)۔
ارشد: بتاو نا یار کیا کیا ہوا۔ ہو سکتا ہے میں تمہیں کوئی مشورہ دوں۔
دانش ؛ مجھے کوئی کام ہے پھر ملتے ہیں۔
(دانش یہ کہہ کر وہ سے تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا ،گھر کی طرف آنے لگا ، ارشد اس کے پیچھے پیچھے آیا )
ارشد: کیا لڑکیوں کی طرح نخرے دیکھا رہے ہو، بتاو تو سہی ہوا کیا۔
دانش: اسے بہت بُرا لگا میرا اس کو ،اس قسم کی بات بھی کہنا۔اس نے میرے منہ پر تھپڑ مار کر یہ بات ثابت کر دی کہ وہ میری طرح گٹھیا سوچ نہیں رکھتی، بہت باکردار لڑکی ہے وہ ، ایسی لڑکیوں کی طرح نہیں ،جنہیں تم جانتے ہو۔مجھ سے غلطی ہو گئی جومیں تمہاری باتوں میں آگیا۔ میں بہک گیا تھا ، شفق کے تھپڑ نے میری آنکھیں کھول دیں۔
ارشد: افسوس سے ۔یہ تو بہت بُرا ہوا یار ۔
دانش : اگر مجھے اندازہ بھی ہوتا کہ یہ سب ہو گا ۔تو میں اس سے ایسی بات تک نہ کرتا ۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔ آج آٹھ دن ہو گئے ہیں ، وہ اوپر بھی نہیں آئی ۔ تھرڈ ایر کے پیپرز کےبعد چھٹیاں ہیں ۔وہ کالج بھی نہیں جاتی کہ معافی مانگ لوں ، پتہ نہیں معاف بھی کرئے گی یا نہیں۔
ارشد: کیسی بات کر رہے ہو۔ معافی کیوں مانگو گئے۔لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے۔
دانش: میں پیار کرتا ہوں اس سے ، اس جیسی کوئی نہیں۔
ارشد: ارے اندھرے میں سب ہی ایک جیسی ہوتی ہیں ،تو چلنا میرے ساتھ ،میں تجھے وہ دیکھاوں گا کہ شفق وفق کو بھول جائے گا۔مرد ہو کہ لڑکی سے معافی مانگے گا۔(اس نے اپنے سر کو جھٹکا)
دانش:نام نہ لو اس کا تم اپنی ذبان سے۔
( ایک دھکا دے کر اس نے ارشد کو خود سے دور کر دیا)۔
ارشد: ارے ، تم سنو دانی ،آدھی رات کو اکیلے ملنے والی لڑکی تم سے سنبھالی نہیں گئی،تم اسے تھوڑا ڈرا بھی سکتےتھے نا ،کہ اس کی تصویریں تمہارے پاس ہیں ،تم نے اس کی آواز ریکارڈ کی ہوئی ہے ،پھر دیکھتے کیسے تمہاری بات نہیں مانتی۔
دانش : میرے پاس اس کی ایسی کوئی چیز نہیں تھی ۔
ارشد: یہ تم جانتےتھے،وہ تھوڑی ہی جانتی تھی۔اگر تم ڈراتےتو ڈر جاتی ۔لڑکیاں بڑی ڈرپوک ہوتیں ہیں ۔
دانش:مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ تم میرے دوست ہو ،تمہارے گندے خیال ہی تھے ،جن کی وجہ سے ہم میں لڑائی ہو گی ،پتہ نہیں اب وہ راضی بھی ہو گی یا نہیں۔ہر کسی کی محبت کپڑے اُ تارنے پر مبنی نہیں ہوتی ،پرتم یہ نہیں سمجھ سکتے۔جاویہاں سے۔
ارشد: محبت یہ ہی ہے۔بس کوئی دس سال لگا کر یہاں پہنچتا ہے تو کوئی دس دنوں میں یہ انگور،کھا کے نکل لیتا ہے۔
دانش: کاش میں رفیق کی بات مان لیتا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا ، اپنی سوچوں کو درست رکھو۔ اچھی سوچ اچھا عمل کروا دیتی ہے ۔ آئندہ مجھ سے کبھی نہ ملنا ،اپنے خیالات اور سوچیں مجھ سے دور رکھو۔ تم ایک بیمار ذہین کے مالک ہو ۔ ارشد۔ مرد ہونے کا مطلب یہ ہرگرز نہیں کہ آپ عورت کو محض اپنی تفریح کا سامان سمجھیں ،تمہاری اور میری ماں بھی عورتیں ہی ہیں۔
وہ انتہائی غصے سے اپنی بات کہتے ہوئے وہاں سے گھر چلا گیا۔ ارشد خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میت کو غسل دیا جا رہا تھا۔ رفیق کو اس کے ماموں نے گاڑی کی چابی دی ، تم جا کر عمران ماموں کو لے آو ۔ائیر پورٹ سے۔ اُن کی فلیٹ لیٹ تھی ، رفیق نے چپ چاپ چابی ہاتھ میں لی اور اسلام آباد ائیرپورٹ کے لیے نکل گیا۔ وہ پہلے بھی ایک دفعہ ائیر پورٹ آ چکا تھا۔ اپنے نانا کی وفات پر جب وہ آٹھویں میں پڑھتا تھا ۔ اس کےابو حیات تھے۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے سوچ رہا تھا ،زندگی بھی کس قدر بے وفا ہوتی ہے۔اچانک سے کوئی اپنا کیسے سب کچھ چھوڑ کر چلا جاتا ہے ،انسان اپنی تمام ترقوتوں کے باوجود کسی کوجانے سے نہیں روک سکتا ، ائیر پورٹ قریب آ گیا تھا ۔ اسےاپنے ابو اپنے ساتھ ساتھ محسوس ہو رہے تھے۔وہ ان کے بہت قریب تھا،ابو کی آواز اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔
رفیق یہ انٹر نیشنل فلائیٹ کا کاونٹر ہے ،جب تم بڑے ہو جاو گئے تو میں تمہیں اعلی ٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھیجوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ جو میں نہیں کر پایا تم کرو۔ ابو آپ کیا نہیں کر پائے ، رفیق کو اپنی آواز بھی ایک گونج کی طرح دماغ کے کونے سے اُٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اعلی ٰ تعلیم ، تعلیم بہت ضروری ہے بیٹا آپ کو اگر نئی رائیں چاہیں تو تعلیم ہی سے ممکن ہیں ، ورنہ راستے سمٹ جاتے ہیں۔منزلیں محدود ہو جاتی ہیں ۔ رفیق کی انکھیں آنسووں سے بھر گئیں ۔ اس نےگالوں پر گِرتے ہوئے آنسووں کو صاف کرنے کے لیے دائیں بازوں کو آنکھو ں پر سے گھسیٹ کر چہرے کو صاف کیا ،مذید گرنے والے آنسو بھی اس کی شرٹ کے بازو میں سما گئے۔جب اس نے بازو نیچے کی تو ماموں عمران کو درواے سے نکلتے ہوئے دیکھا جن کے پیچھے ایک بھاری بھرکم خاتون تھی،ا ن کا رنگ کافی گہرا تھا۔کالے رنگ پر ان کا سفید دوپٹہ ان کے رنگ کو مزید گہرا کیے ہوئے تھا، جن کی طرف گردن موڑ کر وہ کوئی بات کر رہے تھے۔ رفیق نے انہیں دیکھ کر ہاتھ اُٹھا کر لہرایا تا کہ انہیں اپنے ہونے کا اشارہ دے سکے۔
عمران فاروق نے رفیق کو دیکھا ،اپنے بیگوں کوگھسیٹ کر وہ سب لوگ باہر کی طرف آرہے تھے،رفیق ان کی طرف بڑھا اور اپنے ماموں اور ارسل کے گلے لگ کر ان سے ملا۔ باقی سب کواسلام علیکم کہہ کر ماموں کے ہاتھ سے اس نے بیگ لے لیا ، ساتھ چلتے ہوئے ،انہیں گاڑی کے پاس لے آیا،سامان کو گاڑی میں رکھنے لگا تو میشا نے کہا،یہ رہتا ہے ،اس نے امامہ کا چھوٹا بیگ رفیق کی طرف بڑھایا ،میشا ،شفق کی ہم عمر تھی۔میشا کے بال اس کی گرد ن پر پڑے تھے، اس نے نیلے رنگ کی جین پر لونگ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ گہرے سانولے رنگ کی پتلی سی لڑکی تھی۔ شکل و صورت کے اعتبار سے ،وہ خوبصورت لڑکیوں کے دائرے کے قریب بھی نہیں آتی تھی ،لیکن بد صورت بھی نہ تھی ۔رفیق نے بیگ اس سے لے لیا اور ڈگی میں رکھ دیا۔
وہ لوگ کافی پھنس کر پچھلی سیٹ میں بیٹھے ، کیونکہ حبیبہ سراپے میں بہت موٹی خاتون تھی۔
عمران فاروق: تم لوگ کراچی سے کب آئے۔
رفیق۔ جی آج صبح ،امی کچھ دن پہلے آئی تھیں ،نانی کو دیکھنے۔
عمران فاروق:اچھا مہناز یہاں ہی تھی۔ آہ بھرتے ہوئے۔ بس جس کا نصیب ہو ۔میری تو میری ماں سے دو ماہ پہلے فون پر بات ہوئی تھی۔
رفیق:آپ کا سفر ٹھیک رہا؟رفیق کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ان سے کیا اور کس طرح کہے۔
عمران فاروق: جنازہ ہو گیا کیا؟
رفیق : نہیں ،جب میں ائیرپورٹ کے لیے نکلا تو جنازے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔آپ کا انتظار کریں گئے،فرحان ماموں کہہ رہے تھے۔
عمران فاروق :اللہ تیرا شکر۔
(باقی کے تمام راستے گاڑی میں خاموشی چھائی تھی،پھر کچھ دیر میں فرحان ہاوس کا بورڈ نظر آیا اور رفیق نے گلی کی ایک سائیڈ پر گاڑی پارک کر دی ۔سب لو گ گھر میں پہلے سے کھلے ہوئے گیٹ میں داخل ہوئے،فرحان نے جب ،عمران کو دیکھا تو آکر فوراً ان سے لپٹ کر رونے لگے ،عمران بھی اشکبار تھے ،اگرچہ حبیبہ کے گلے کوئی عورت نہ لگی تھی ،اس نے اندر جا کر مہناز اور اپنی دوسری نندوں کو افسوس کیا جو رو رہیں تھیں،اپنی ساس کا منہ دیکھا ،میشا اور امامہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ،میت کے ارد گردموجود عورتوں میں سے اکثر انہیں گھور رہی تھیں ۔ ،جنازہ تیار تھا۔ میت کو اُٹھا نے کے لیے فرحان ،عمران ۔فیصل رفیق ،سعادت جو رفیق کے خالو تھے،منور جو رفیق کے دوسرے خالو تھے آگے آئے۔کلمہ شہادت کہہ کر انہوں نے میت اُٹھا لی۔ عورتیں بین کرتی ہوئی پیچھے رہ گئی ،جیسے جیسے جنازہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا،صحن بھی خالی ہو رہا تھا ، عورتیں کمروں کی طرف چل دیں۔ حبیبہ کو فرحان کی بیوی نے کمرہ دیکھایا ۔
سحریش :آپ لوگ یہاں آرام کر لیں ،بچے تھک گئے ہوں گئے ۔(انہوں نے میشا اور امامہ کو پیار کیا۔ارسل کی پیٹھ پر ہاتھ پھرا ،یہ تو ماشا اللہ جوان ہو گیا ، اچھا قد کیا ہے اس نے)۔وہ کمرے سے چلی گئیں۔
میشا: او مائی گا ڈ ،کیسےروتی ہیں یہ عورتیں۔
حبیبہ : خاموش رہو ، کوئی ایسی بات منہ سے نہیں نکالنا۔ جس کی وجہ سے مجھے ان لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔
ارسل: ماما مجھے تو جیٹ نائٹ فیل ہو رہا ہے۔ آئی وانٹ ٹو سلیپ ناو۔(وہ اپنے جوگرز اُتارنے لگا ،اس کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنابیہ: آپ کون سے ایریا میں کیمپ لگا رہے ہیں اس دفعہ؟
ڈاکٹر شیزاد:بنگاری کا ایریا ہے ۔ جہاں کیمپ لگا رہے ہیں۔ اس کے سامنے ہی جگیاں ہیں ۔ آگے پیچھے بھی اس جگہ میں غریب لوگ رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر میرے دل میں آتا ہے کہ اگر ہم لو گ ان کے ایک بچے کا بھی خرچہ اُٹھا لیں تو ،قوم کا ایک ہونہار شہری بنا سکتے ہیں ، مگر سب لوگوں کو اپنی پڑی ہے ،عجیب نفسا نفسی ہے ۔
عنابیہ: وہ تو ہے ، آپ یہ تین دن ہمیں بھی تو دے سکتے ہیں ،اتنا عرصہ ہو گیا ،ہم اوٹ آف سٹی نہیں گئے۔
ڈاکٹر شیزاد: ہاں مگر ،یہ کیمپ ذیادہ ضروری ہے۔ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہو گا اس سے۔ مفت دوائیاں ۔نظر چیک کروانے کی سہولت اور بہت سے فائدے ہو ں گئے ۔ غریب لوگوں کے لیے۔
عنابیہ: آپ کو کیا ملے گا۔
ڈاکٹر شیزاد: دُعا ملے گی اور اس سے بڑھ کر کیا چاہیے؟
عنابیہ: آپ کی طرح ہر ایک کی سوچ نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹرشیزاد: تم اپنی بولو، تم کیا سمجھتی ہو ،یہ اچھا ہے؟ میں تم لوگوں کوسیر پر نہ لے جا کر یہ وقت غریب بچوں کو دے رہا ہوں ،وہ بھی مفت ۔
عنابیہ :اب میں کیا کہوں ،آپ کی خوشی اسی میں ہے تو۔ویسے دو چار فری میڈیکل کیمپ لگانے سے کیا ہو گا۔ میرا نہیں خیال اس سے کوئی سدھار آ سکتا ہے۔
ڈاکٹر شیزاد: ہم اپنی کوشش کر سکتے ہیں ،سب کی زمہ دار ی نہیں لے سکتے۔میرے ساتھ بہت سے ڈاکٹر بھی میری طرح ہی فری خدمت فراہم کر رہے ہیں ۔اس کا مطلب تو یہ ہی ہے کہ سدھار آرہا ہے ،مذید آئے گا بھی ،مجھے تو یہ ہی امید ہے۔ اچھائی اچھائی کو اپنی جانب کشش کرتی ہے۔
عنابیہ: ہاں شاہد ، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
ڈاکٹرشیزاد: انسان کو انسانیت کے لیے قربانی دینے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔
عنابیہ :ڈاکٹر کا تو کام ہی انسانیت کی خدمت ہے نا۔
مسکراتے ہوئے۔
ڈاکٹرشیزاد: ہاں ،مگر ہم ڈاکٹر ایسا کرتے نہیں ہیں ۔ اکثر،کبھی تو خواہشات کے زیر اثر اور کبھی ضرورتیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہیں ۔ ہم
ڈاکٹر بھی محض دوسرے پیشہ ور لوگوں کی طرح ہو چکے ہیں۔
عنابیہ: یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ڈاکٹر ز سے متعلق ہی تھامیراپچھلے ہفتے کا ایپی سوڈ ، گردے نکال کر فروخت کیے جاتے تھے ایک ہوسپٹل میں ،غریب آدمی کی تو کوئی بھی نہیں سنتا۔
ڈاکٹرشیزاد: ہاں آج کل ڈاکٹر بھی قصائی جیسے ہو چکے ہیں ، احساسات نام کی چیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔میں خود دیکھتا ہو اپنے ارد گرد ایسے ڈاکٹر بھی بہت ہوتے ہیں، اب میرے ایک دوست نے ہی کیمپ میں شامل ہونے کے لیے قیمت کا مطالبہ کیا ہے۔ حا لا نکہ وہ جانتا ہے کہ یہ کیمپ صرف انسانیت کی خدمت کے لیے ہے۔ مال بنانے کے اور بھی بہت سے ذرائع ہو سکتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنابیہ: ہر کوئی آپ کی طرح نہیں ہو سکتا نا؟
ڈاکٹر شیزاد : تمہارا کیا مطلب ہے ،میری طرح ہونا چاہیے یا نہیں؟
عنابیہ: ہونا چاہیے، کیوں نہیں ہونا چاہیے۔
وہ مسکرائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق: امی مجھے واپس جانا ہے ، میری صرف تین دن کی چھٹی تھی۔مجھے اتوار تک ہر حال میں کراچی پہنچنا ہے۔
مہناز: اچھا ،میں سوچ رہی ہوں کچھ دن اور رُک جاوں ، شفق کی بھی چھٹیاں ہیں ،ربیعہ نے بھی ایک ہفتہ کی چھٹی لی ہوئی ہے، وہ اپنی دوست سے کہہ دے گی۔درخواست دینے کا۔میری چھٹی کا بھی ہو جائے گا ۔تم چلے جاو۔
رفیق: ٹھیک ہے امی میں پھر ٹکٹ لے آتا ہوں ۔
عمرآن فاروق: کیا باتیں ہو رہیں ہیں۔ ماں ،بیٹے میں ؟
مہناز : اسے کچھ کام سے واپس کراچی جانا ہے۔ وہی کہہ رہا ہے۔
عمرآن فاروق : کیوں بھائی ،کچھ دن رہو نا ،ہمارے ساتھ بھی۔ہم صرف پندرہ دن کے لیے آئے ہیں۔
رفیق: وہ ماموں میری چھٹی ختم ہو رہی ہے ۔
عمرآن فاروق: کیا کام کرتے ہو ؟
رفیق: ڈرائیورہوں۔
عمرآن فاروق: اچھی بات ہے بیٹا ، کام کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔انسان محنتی اور خودار ہو نا چاہیے ،وہ کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔میں بھی جب انگلینڈ گیا تھا تو وہاں پر ہر کام کیا ، برتن دھونے سے لے کر باتھ روم صاف کرنے تک ،آج پانچ کڑور کے گھر میں رہتا ہوں۔پڑھائی چھوڑ دی ہے تم نے؟
رفیق : نہیں ،وہ میرا رذلٹ آ جائے پھر یہ نوکری چھوڑ دو ںگا ۔کوئی اور کام کروں گا۔
عمرآن فاروق : کیا کرنے کا ارادہ ہے۔
رفیق : ایک دوست کے ساتھ مل کر ٹیوشن سینڑ کھولنے کاسوچ رہا ہوں ، مجھے پڑھنے پڑھانے سے دلچسپی ہے۔
عمرآن فاروق : یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میری میشا کو بھی پڑھنے پڑھانے سے بہت لگاو ہے۔
مہناز: ماشااللہ جوان ہے میشا میری، شفق کی طرح ۔ فرحان بھائی تو کہہ رہے ہیں کہ فیصل اور شفق کی شادی کر دیں ،پڑھائی ہوتی رہے گی۔ انہیں جلدی ہے، وہ فیصل دُبئی جا رہا ہے نا۔ تو وہ چاہتے ہیں کہ شادی کر کے جائے۔
عمرآن فاروق: ہاں فیصل کی عمر بھی ہے ،پانچ سال بڑا ہے نا وہ رفیق سے۔
مہناز : مگر شفق نے تو تھرڈ ایر کے پیپر دیئے ہیں۔ میں تو چاہتی ہوں ،بی اے کر لے بچی۔
عمرآن فاروق: ہاں تو شادی کے بعد کر لے گی نا۔ فرحان کون سا غیر ہے ،اگر کہہ رہا ہے کہ شادی کے بعد بھی شفق پڑھ سکتی ہے تو پھر ٹھیک ہے ، میرا خیال ہے کہ تمہیں دیر نہیں کرنی چاہیے ،ممکن ہے کہ فیصل نے کہا ہو ماں باپ سے۔ آج کل لڑکیوں کے لیے اچھا رشتہ ملنا مشکل ہوتا ہے ۔
(یہ کہہ کر عمرآن فاروق نے غور سے رفیق کی طرف دیکھا،جو معقول شکل و صورت کا لڑکا تھا ، سنجیدہ اور زمہ دار اسے رفیق میں داماد بننے کی ہر خوبی نظر آ رہی تھی۔ اس کے بات جیت کرنے کا انداز ،طور طریقے ،اسے بہت پسند آئے۔)
رفیق: امی پھر میں چلتا ہوں۔ (یہ کہہ کر رفیق وہاں سے اُٹھ گیا۔ عمرآن فاروق کی نظر نے اس کا کچھ دیر تعاقب کیا اور پھر وہ مہناز سے مخاطب ہوا۔
عمرآن فاروق:تم نے رفیق کے لیے کوئی رشتہ دیکھا ہے۔
مہناز : کہاں بھائی ، اپنے پاوں پر تو کھڑا ہو جائے ،کچھ ہو گا تو شادی کا سوچوں گی نا۔ آج کل پیسے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ رفیق کے ابو کی انکھیں کیا بند ہوئیں ،اس کے چچا نے پورے گھر پر قبضہ کر لیا،پہلے تو کرایہ دیتے تھے ،اب کچھ بھی نہیں دیتے۔ کرایہ کے گھر میں رہنے والے لڑکے کوکو ن رشتہ دے گا۔ مگر بہت محنتی ہے میرا بیٹا ، مجھے یقین ہے ،سب کچھ بنا لے گا ،پھر میں دھوم دھام سے شادی کروں گی اس کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(رفیق گاڑی چلاتے ہوئے ، ڈاکٹر شیزاد کے فری میڈیکل کیمپ کی طرف جاتے ہوئے ،اُن کے ساتھ ہے۔)
ڈاکٹر شیزاد :تمہارا رذلٹ کب آ رہا ہے۔
رفیق :بس ایک ماہ اور بارہ دن۔
ڈاکٹر شیزاد: تمہارے لیب ٹاپ کے پیسے پورے ہوئے۔
(رفیق نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا)
رفیق : جی نہیں ،وہ نانی امی کی وفات کی وجہ سے کرایہ پر کافی پیسے لگ گئے۔
ڈاکٹرشیزاد : کتنے پیسے کم ہیں ۔
رفیق: بائیس ہزارآٹھ سو۔
کیمپ آ گیا۔ ڈاکٹر شیزاد نے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ سے لیب ٹاپ اُٹھایااور رفیق کی طرف بڑھا کر بولے ،یہ پکڑو۔ رفیق نے لیب ٹاپ کے بیگ کو تھام لیا۔
ڈاکٹر شیزاد: یہ مجھے میرے ایک دوست نے دیا ہے، میرے پاس پہلے سے لیب ٹاپ موجود ہے ،تو یہ تم رکھ لو۔
رفیق : جی ،میں رکھ لوں۔
ڈاکٹر شیزاد: ہاں۔
رفیق: آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شیزاد : تمہیں اس کی ضرورت ہے ۔ بہت دفعہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کا رب ارادہ کر لیتا ہے ،پھر کسی انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ وہ ذریعہ بن جائے ۔ مجھے ذریعہ بن کر خوشی ہو گی۔
رفیق :آپ کا بہت بہت شکریہ۔
رفیق نے لیب ٹاپ کے بیگ کو غور سے دیکھا۔
رشتے کیسے اپنا وجود بدل دیتے ہیں ،کبھی کبھی اپنے غیر اور غیر اپنے ہو جاتے ہیں ، رفیق کو اپنا وہ مشکل وقت یاد آیا ۔جب انہوں نے گھر کا کرایہ دینے کے لیے گھر کے برتن بیچے تھے ، اس کے چچا اور ماموں اچھے خاصے مالدار ہونے کے باوجود کیسے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ امی کی نوکری نہ ہوتی تو وہ سڑک پر آ گئے ہوتے۔ چچا نے امی کو کہا تھا کہ بھابھی آپ فرحان کے پاس چلی جائیں نا ۔ اِتنا چھوٹا سا گھر ہے ہمارا ،یہاں ہم رہ سکتے ہیں یا آپ ۔امی کو معلوم تھا کہ فرحان ماموں کے گھر جا کر رہنے کا مطلب اپنی خوداری کی قربانی ہو گی۔ وہ ڈاکٹر شیزاد کے متعلق سوچ رہا تھا۔ کیسے کچھ لوگوں میں خدائی صفات ہوتی ہیں ۔ دے کر پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے کہ کس کو کتنا دے کر جا رہے ہیں ، اس نے دل میں سوچا ، میں ضرور ایسا ہی بنوں گا۔اس نے اپنے دل میں جھانکا تو انکھوں سے آنسو اسے دل میں گرتے ہوئے محسوس ہوئے ، وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا ، اور اپنی انکھوں کو پھیلانے کی کوشش کرنے لگا تا کہ آنسو اس کی آنکھوں میں ہی رہیں ۔ مگر اس کے دل کی ایسی کیفیت ہو رہی تھی کہ اسے لگ رہا تھا ،کسی مالی نے زمین کی گدائی کر کے اسے نرم کر دیا ہو ۔ جوبیج بونے کے لیے بلکل تیار ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی اپنے کمرے میں بیٹھی ہے ، نیلم شادی کے بعد پہلی بار میکے آئی ہے۔ اکبر اس کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کی کلائی میں سُرخ اور سبز رنگ کی چوڑیاں ،ہیں ۔ نائلہ بھاگی ہوئی صحن میں جاتی ہے اور اکبر کو اسلام کہنے کے بعد نیلم کو ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے آتی ہے۔ صبا اپنے دامادکو آو بیٹا اندر آو کہہ کر ٹی وی والے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھاتی ہے۔ حال چال پوچھتی ہے۔صابر گھر پر نہیں ہے۔صبا ،صابر کو فون کر کے اکبر کے آنے کی اطلاع دیتی ہے۔
نیلم: خوشی ،کوئی آتا ہے تو باہر ہی نکل آتے ہیں ، اکبر کو اسلام ہی کر لیتی۔
خوشی: اکبر ےکے کون سے پر نکل آئے ہیں وہی ہے نا۔ مرغے لڑانے والا۔اسلام کیوں کرتی اسے۔ چڑاتا ہے مجھے پڑھاکو پُڑی کہہ کر۔
نیلم : اچھا تجھ سے تو بحث بے کار ہے۔
نائلہ : نیلم بتا نا اکبرے نے تجھے کچھ دیا ،سہاگ رات تھی آخر۔
نائلہ نے چھیڑتے ہوئے نیلم کو کہا۔
نیلم: نائلہ تو بھی نا۔ گجرے دیئے انہوں نے مجھے ، موتیے اور گلاب کے پھولوں کے۔
خوشی: اس سے بھی کوئی سستی چیز ہوتی تو وہ دیتا ۔تو بھی نا نیلم گجرے لے کر خوش ہو رہی ہے۔
نیلم : کون سا افسر ہے ٹھیلا لگاتا ہے وہ ۔ چاٹ اور گول گپے کا۔
خوشی : لگاتا ہے ، ابھی تو انہوں نے کہہ رہی تھی۔
نیلم : اب ہوتے ہوتے عادت ہو گی نا ، ویسے بھی شوہر کی عزت کرنی چاہیے۔ یہی اللہ کا حکم ہے۔
خوشی نے کتابیں اٹھائیں اور نیلم اور نائلہ کی چارپائی کے آگے سے گزر گئی ، مگر اب چھت پر کیسے جائے ، اکبر تو سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے لیے دروازے سے گزرنا گویا بہت مشکل ہو رہا تھا وہ ،دروازے کے ساتھ کتابیں لے کر کھڑی تھی ،اس نے ٹی وی والے کمرے میں جھک کر دیکھا ، اکبر کہاں دیکھ رہا ہے۔
نائلہ: تیرا گھر کیسا ہے۔
نیلم : ایسا ہی ہے ،جیسا یہ ہے۔
خوشی نے دیکھا کہ اکبراپنے پاوں میں ذری کے سینڈل دیکھ رہا ہے تو اس نے دل مضبوط کر کے گزرنے کی ٹھانی ، جیسے ہی وہ دروازے کے وسط میں پہنچی ،اکبر نے اسے آواز لگائی۔
اکبر: خوشی تو کہاں جا رہی ہے ،یہاں آپڑھاکو پُڑی۔
خوشی : منہ بناتے ہوئے کمرے میں آئی ،اسلام علیکم
اکبر: دیکھا ،کیا پڑھ رہی ہے۔
خوشی: آپ دیکھ کر کیا کرو گئے ،چھوڑو۔دسویں کی ہیں ۔
خوشی نے ایک ہاتھ میں کتابیں لے کر انہیں سینے سے لگایا اور کمرے سے باہر نکلنے لگی ۔ اکبر اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا ،اور اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔
اکبر: جا کیوں رہی ہے ، میں یہاں اکیلا بیٹھا ہوں ۔
خوشی کو اس کا ہاتھ پکڑنا بہت بُرا لگا ،اس کی انکھوں میں کبوتر ،کبوتری کا منظر گھوم گیا ، کبھی کبھی لا علمی کس قدر مفید ہوتی ہے ،اس کے دل میں خیال آیا ۔اس نے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے اکبر کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔ معلومات انسان کے سوچنے سمجھنے کے انداز کو بلکل بدل کر رکھ دیتی ہے۔ خوشی کے سوچنے کے انداز بھی بلکل تبدیل ہو چکے تھے۔ اس نے غصے سے اکبر کو دیکھا اور چھت پر چلی گئی۔
صبا : بیٹا یہ لو چائے۔ لو۔
اکبر: جی مامی، صابرماموں کہاں گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحان : فیصل کی شادی مجھے جلدی کرنی ہے ۔ آپ دیکھ لیں آپا۔
مہناز :ایک سال کی تو بات ہے ،بچی کو بی ۔اے تو پورا کرنے دو۔
فرحان: ہم نے کون سی نوکری کروانی ہے ۔فیصل کو تین ماہ بعد جانا ہے ،دُبئی ،اب میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ جلدی شادی ہو جائے۔ عمر بھی ہے اس کی ۔ اس نے تو کہا ہے کہ اگر پھو پھو نہیں مان رہیں تو کوئی اور لڑکی دیکھ لیں ۔مگر میں چاہتا ہوں کہ شفق ہی اس گھر میں آئے۔
مہناز: وہ ایسے کیسے کہہ سکتا ہے۔ فرحان
مہناز نے خاموشی اختیار کر لی۔فرحان بھی چپ چاپ کمرے سے چلے گئے۔عمرآن فاروق کچھ دیر بعد کمرے میں داخل ہوئے۔مہناز پریشان بیٹھی ہے۔عمرآن فاروق مہناز کے سامنے والے صوفہ پر آ کر بیٹھ گئے۔
عمرآن فاروق : کیا ہوا ،تم پریشان لگ رہی ہو۔
مہناز: فرحان بھائی کہہ رہے ہیں کہ اگر میں شفق کی شادی فیصل سے جلدی نہیں کروں گی تو وہ کوئی اور لڑکی دیکھ کر فیصل کی شادی کر دیں گئے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ۔
عمرآن فاروق : مسلہ کیا ہے ؟ کر دو نا بچی کی شادی ،فیصل سمجھدار ہے ،اچھا کماتا ہے۔ ایک لڑکی کی ماں کو اور کیا چاہیے؟
مہناز: میرے پاس شادی کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ جو جمع تھا وہ رفیق کے ابو کے علاج میں لگ گیا ،میرا سارا سونا، اور جمع پونجی سات ماہ میں کچھ بھی نہیں بچا اور نہ ہی وہ ذندہ رہے ۔ مہناز رونے لگی ،اگر یہ رشتہ نہ ہوا تو کہاں شادی کروں گی میں شفق کی ۔ اس شادی کے لیے بھی میرے پاس کچھ نہیں ، رفیق کوئی کام لگ جاتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرآن فاروق : تم فکر نہ کرو ،شادی کے لیے ایک لاکھ میں دےدوں گا۔ میری بھی بیٹیاں ہیں ،سمجھتا ہوں تمہاری پریشانی۔
عمرآن فاروق : مہناز تمہیں میشا کیسی لگی۔
مہناز : بہت پیاری بچی ہے۔
عمرآن فاروق :مجھے رفیق بہت پسند آیا ، میں سوچ رہا ہوں اسے کسی طرح انگلینڈ لے جاوں ، میشا کے ساتھ اس کی جوڑی اچھی لگے گی ۔ تمہارا کیا خیال ہے۔
مہناز: کیوں نہیں بھائی ۔ آپ کا بھانجا ہے ،اپنوں سے بڑھ کر کون ہوتا ہے بھلا۔ مگر میرے پاس تو شادی کےلیے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں جو کماتی ہوں ۔ اس میں تو دال روٹی پوری ہو جائے تو بہت ہے ،بچتا کچھ بھی نہیں۔
عمران فارو ق: ابھی فوری تو شادی کر بھی نہیں سکتے ،میشا کی رضامندی بھی تو چاہیے ۔ رفیق کو میں پڑھائی کے ویزہ پر لے جاوں گا۔ وہاں دونوں بچے ایک دوسرے کو سمجھ لیں ۔ میشا کو رفیق اچھا لگا تو میں دونوں کی شادی کروا دوں گا۔ اچھا تو لگے گا ۔بہت اچھی تربیت کی ہے تم نے اس کی۔
مہناز :میشا
(مہناز نے اپنے آنسو صاف کیے ،انہیں اپنی مالی پریشانیا ں ختم ہوتی نظر آ رہی تھیں ۔ عمرآن فاروق،اپنی بیٹی کے لیے ایک اچھا لائف پاٹنر خریدنے کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھے ۔ مہناز کو اپنے دن پھرتے نظر آ رہے تھے۔ اس کےچہرے پر خوشی پھیل گئی۔مہناز نے عمرآن فاروق کے کمرے میں سے جانے کے بعد رفیق کو فون کیا)
مہناز: رفیق،بیٹا تمہیں دوباریہاں آنا ہو گا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ شفق کی شادی کر دو ۔
رفیق: کیا کہہ رہی ہیں آپ ،ابھی تو نانی کا چوتھا بھی نہیں ہوا ۔ شفق کی شادی؟
مہناز: ہم نے کون سا بہت دھوم مچانی ہے۔ فیصل اور فرحان تو ویسے بھی باجوں گاجوں کے خلاف ہیں ۔ بس نکاح کرنا ہے اور لڑکی اگلوں کے حوالے کرنی ہے۔
رفیق : کیسی باتیں کر رہی ہیں امی۔ شادی پر ہزار خرچہ آتے ہیں۔
مہناز : وہ تم فکر نہ کرو ۔ عمرآن بھا ئی نے کہا ہے وہ دیں گے پیسے مجھے ۔ ستر ہزار تو میرے پاس بھی جمع ہے۔ہو جائے گا کچھ نہ کچھ بس ساری تیاری ہو جائے پھر میں تمہیں فون کروں گی آجانا۔
رفیق: امی شفق سے پوچھا آپ نے۔
مہناز : اس سے کیا پوچھنا ہے ؟ پتہ تو ہے اسے، تین سال ہو گئے ،شادی کی بات کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد: نام بتائیں ۔
مریض : جی ثریا۔
ڈاکٹر شیزاد : اپنا نہیں بچے کا نام بتائیں۔
ثریا: جی قاسم۔
ڈاکٹر شیزاد: آپ نے بچے کو کسی ڈاکٹر کو چیک نہیں کروایا ۔ اس کی بیماری اتنی بڑی نہیں ،بس علاج نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔
ثریا: جی میں وہ جوریل گزرتی ہے نا تھوڑی دور ،جو جگیاں ہیں وہاں رہتی ہوں ،صبح سے شام ہو جاتی ہے ، لوگوں کے گھروں میں کام کرتے شام کو آتی ہوں تو خود تھکی ہوتی ہوں ،ان کو روٹی پانی دیتی ہوں۔
ڈاکٹر شیزاد: میں پوچھ رہا ہوں کہ بچے کو کسی ڈاکٹر کو چیک نہیں کروایا ۔ اس کی ہڈیاں کلائیوں کی اور یہ پیروں کے اوپر کی دیکھ رہی ہو۔سوجن ہے ان میں۔
ثریا: وہی تو بتا رہی ہوں جی ۔ ہم غریب لوگ ہیں ۔روتاووتا نہیں تو میں بھی کہیں نہیں لے کر گئی ۔ نظر تو آتا ہے جی ۔اس کی جیسے دوسرے بچوں سےاس کی کلائیاں موٹی ہیں ۔
ڈاکٹر شیزاد: تمہارے بچے کو کچھ وٹامن کی شدیدکمی ہے ۔ خاص کر وٹا من ڈی کی ۔یہ سوجن بعد میں اسے مفلوج بھی کر سکتی ہے ۔اپائیج ہو سکتا ہے۔ یہ بچہ عمر بھر کے لیے ۔ میں دوائیں لکھ کر دیے رہا ہوں ۔اسے لگا تار دینا ۔ ناغہ نہ کرنا ۔انشااللہ ٹھیک ہو جائے گا۔
(ایک سال کے بچہ نے ڈاکٹر شیزادکی پنسل ٹیبل سے فوراً اُٹھا لی۔ اس کی ماں نے اس سے کھینچ کر ڈاکٹر شیزاد کو واپس کیٍ ، جی وہ یہ دوائیں کتنے کی ہوں گی۔ اس نے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا)
ڈاکٹر شیزاد نے کیمپ کے باہر کی سائیڈ پراشارہ کیا وہ باہر جو لڑکا بیٹھا ہے اس سے فری ملیں گیں ، تم سے کوئی پیسےنہیں لے گا ،جاو اور یہ دواتین ٹائم دینابھی اِسے۔ ایک مہینے کی دوا ہے اس کے لیے۔اس کی انکھوں میں فری کا لفظ سن کر چمک آگئی ۔ اللہ خوش رکھے ، اللہ بہت دے ۔ وہ دعائیں دیتی ہوئی نکل گئی۔ایک بوڑھی عورت مریض والی کرسی پر آن بیٹھی)
ڈاکٹر شیزاد: ماں جی بولیں، کیا بیماری ہے؟
بوڑھی عورت: کیا بولوں بیٹا بڑھاپاآپ ایک بیماری ہے۔
ڈاکٹر شیزاد : وہ تو ٹھیک ہے ماں جی ،یہاں کیسے آنا ہوا۔
بوڑھی عور ت: مجھے پتہ چلا کہ یہاں مفت دوائیاں ملتی ہیں تو سوچا لے لوں۔
ڈاکٹر شیزاد : مگر کس چیز کی دوا چاہیے۔
بوڑھی عورت: بیٹا بوڑھی ہو گئی ہوں ،کبھی سر درد کرتا ہے تو کبھی پاوں، کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ آخری ٹائم آ گیا ۔ بس تم دوا دے دو ، جب کبھی درد ہو تو لے لیا کروں ۔میرا بیٹا کہتا ہے۔ مائی اب تمہاری آگے جانے کی عمرہے درد تو ہوں گئے ہی نا۔ وہ اس وقت جب تکلیف ہوتی ہے،دوا لا کر نہیں دیتا ۔ سوچا لے کر رکھ لوں گی ،تو بعد میں کام دے گی۔
ڈاکٹر شیزاد: اچھا ماں جی ۔آپ کو دوا لکھ دیتا ہوں۔ جب جسم میں درد ہو تو ایک گولی لے لینا ماں جی پانی کے ساتھ ۔
(ڈاکٹر شیزاد نے وٹامن اور کیلشم کی چند گولیا ں لکھ کر دیں ، تا کہ بوڑھی عورت کو ذہنی سکون مل جائے کہ دوا مل گئی۔)
بوڑھی عورت : رونے لگی ،کیسی خوش قسمت ماں ہو گی ،تیری بیٹا،خوش رہ بیٹا،وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی پرچی کو مٹھی میں دبائے خراماں خراماں چل رہی تھی۔
شام ہو چکی تھی،کیمپ کا پہلا دن ختم ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر شیزاد جانے والی بوڑھی عورت کو دیکھ رہے تھے ۔ جو اپنے آپ میں ایک خاموش داستان تھی۔ اس کے جھکے ہوئے کندے جو اپنا بوجھ بھی سہارنے سے انکاری تھے ،جانے کتنے بچوں کا وزن سہار چکے تھے۔ اس کے جھریوں بھرے ہاتھ نے کاغذ کو کسی اعزاز کی طرح سنبھال رکھا تھا۔ وہ کسی درخت کی شاخ کی طرح چلتے ہوئے جھول رہی تھی،اس کا جھکاو زمین کی طرف تھا۔جیسے جیسے عمر ڈھلتی ہے انسان اپنی زمین سے آشنا ہونے لگتا ہے۔ مٹی اپنی طرف کشش کرنے لگتی ہے ۔رفیق ،ڈاکٹر شیزاد کے پاس آیا۔
رفیق : سر آپ گھر کتنے بجے جائیں گئے۔باقی سارے ڈاکٹر تو جا چکے ہیں۔
ڈاکٹر شیزاد: ہاں چلتے ہیں۔
اس علاقے میں موجود ایک گھر سے ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا گیا تھا ۔جہاں پر چیزوں کو رکھا گیا تھا کیمپ کو مذید تین دن تک جاری رکھنا تھا۔ ڈاکٹر شیزاد نے اپنے کمپاوڈر اعجاز کو وہاں رکنے کا کہا اور خود رفیق کے ساتھ،آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔گلیوں سے ہوتی ہوئی گاڑی نکل رہی تھی۔
رفیق: یہ گلیاں بہت تنگ ہیں۔
ڈاکٹر شیزاد:گلیوں سے ذیادہ یہاں رہنے والوں کی زندگی تنگ ہے۔

رفیق : کچرا کنڈی کے باہر سارا کچرا پھینکا ہوا ہے۔اِتنی گندگی ہے ۔ لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ یہ گندی ان کو ہی گندہ کرے گی۔
 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281073 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More