اسلام میں طلاق کا نظام بلاشبہ موجود ہے جو سدا سے
غیرمسلموں کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے،جدید ذہن کے کچھ مسلمان بھی شک وشبہ
میں مبتلا ہیں ۔ اللہ تعالی کا قانون، فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں
سراسر انسان کی بھلائی ہے ، اس پر ہمارا ایمان ہونا چاہئے ۔ قانون طلاق بھی
فطرت انسانی کے عین مطابق ہے خواہ اس کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔اس کا
ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ طلاق کا غلط استعمال کریں ۔ بات بات پہ بیوی کو
طلاق کی دھمکی دینا، معمولی معمولی بات پہ طلاق دینا ، مختلف کاموں کو طلاق
سے مربوط کردینا۔ ہمیں عورتوں کے بارے میں اللہ کا خوف کھانا چاہئے اور
اپنے اہل وعیال کے لئے بہترین کردار ادا کرنا چاہئے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
خيرُكم خيرُكم لأهلِه وأنا خيرُكم لأهلِي(صحيح ابن ماجه:1621)
ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہواورتم میں سے
سب سے بہتر اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرنے والامیں خود ہوں۔
اس لئے مرد اور عورت دونوں آپس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی کوشش کریں
اور حتی الامکان طلاق کی نوبت آنے سے بچیں۔
اسلامی ضابطہ طلاق کے مطابق ایک آدمی کو تین طلاق کا اختیار ملا ہے جو ایک
مجلس میں تینوں نہیں دے سکتا ہے ، اگر غلطی سے کسی نے ایک مجلس میں تین
طلاق دے بھی دیا تو ایک ہی واقع ہوگی کیونکہ جس طرح انسان کے اختیار میں
چار طلاق نہیں ہے ، اسی طرح اس کے اختیار میں ایک مجلس میں تین طلاق دینے
کا اختیار بھی نہیں ہے ۔
جس نے اپنی بیوی کو پہلے وقفہ وقفہ سے دو طلاق دے دی ہواور اس نے اب تیسری
طلاق بھی دیدی تو اس سے متعلق احکام نیچے ذکر کئے جاتے ہیں ۔
تیسری طلاق کے بعد رجوع: تیسری طلاق کے بعد مرد کو رجوع کا حق نہیں ہوتا،
رجوع صرف پہلی اور دوسری طلاق پہ ہوتا ہے ۔اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ
فرمان ہے:
ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمسَاكُۢ بِمَعرُوفٍ أَوۡ تَسرِيحُۢ بِإِحسَٰن
(بقرة:229)
ترجمہ: رجعی طلاق دوبار ہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی
بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔
تیسری طلاق کی عدت: تیسری طلاق کے بعد عورت کی عدت تین حیض ہے (اگرحاملہ
نہیں)جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَالمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
(بقرہ:228)
ترجمہ: اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین حیض کی مدت اپنے آپ کو روکے
رکھیں۔
یہ تین حیض خواہ تین مہینہ میں آئیں یا اس سے کم اور زیادہ مدت میں ،اعتبار
حیض کا ہوگا۔
حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ(الطلاق:4)
ترجمہ: اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے ۔
جنہیں حیض نہ آتا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے، اللہ کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ
فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ (الطلاق:4)
ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں ، اگر
تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع
ہی نہ ہوا ہو۔
عدت گزارنے کی جگہ : تیسری طلاق کی عدت عورت اپنے میکے میں گزارے گی کیونکہ
تیسری طلاق کے بعد عورت کو طلاق مغلظہ پڑ جاتی ہے جس کے بعد مرد نہ رجوع کر
سکتا ہے اور نہ ہی (بغیر حلالہ شرعیہ کے )نکاح کرسکتا ہے ۔ اس لئے اس عدت
میں عورت نان ونفقہ اور سکنی کا مستحق نہیں (سوائے حاملہ کے کہ اس کے لئے
رہائش اور نفقہ دونوں ہے)۔
حضرت فاطمہ بنت قیس سے منقول ہے کہتی ہیں کہ میں نے کہا:
يا رسولَ اللهِ ! زوجي طلقني ثلاثًا . وأخافُ أن يُقْتَحَم عليَّ . قال :
فأمرها فتحولتْ .(صحيح مسلم:1482)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں (یعنی
الگ الگ) مجھے خطرہ ہے کہ کوئی چور اچکا دیوار نہ پھلانگ آئے لہٰذا آپ نے
مجھے اجازت دے دی اور میں خاوند کے گھر سے منتقل ہوگئی۔
نان و نفقہ کا حکم : تیسری طلاق کے بعد جیسے سکنی کا عورت مستحق نہیں اسی
طرح نفقہ کا بھی مستحق نہیں ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، في المطلقةِ ثلاثًا . قال : " ليس
لها سُكنى ولا نفقةٌ (صحيح مسلم:1480)
ترجمہ: حضرت فاطمہ بنت قیس سے منقول ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مطلقہ
ثلاثہ کے متعلق فرمایاہے : اس کے لئے نہ تو سکنی (رہائش)ہے ، نہ ہی
نفقہ(خرچ) ۔
حمل والی عورت کا نفقہ وضع حمل تک مرد کو برداشت کرنا ہوگا۔ اللہ کا فرمان
ہے :
وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ
حَمْلَهُنَّ( الطلاق :6)
ترجمہ: اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا
کرو۔
نفقہ میں عورت کی رہائش ، ولادت کا خرچہ ، کھانے پینے اور پہننے کا خرچہ،
دودھ پلانے کی اجرت اور بچہ کے لئے دوا وغیرہ کا خرچہ وضع حمل تک مرد کے
ذمہ ہے ۔
عورت کا مال: طلا ق کے بعد مرد عورت کے ذاتی مال میں سے یا جو مہر کی صورت
میں یا ہدیہ کی شکل میں اسے دیا تھا اس میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا ہے،
اللہ تعالی فرمان ہے :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آَتَيْتُمُوهُنَّ
شَيْئًا(البقرة:229]
ترجمہ:طلاق رجعی دو مرتبہ ہے ،اس کے بعد یاتو نیک نیتی کے ساتھ بیوی کو روک
رکھو ، یا بھلائی کے ساتھ اسے چھوڑ دو ،اس صورت میں تمہارے لئے حلال نہیں
کہ تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ واپس لو۔
یہ تو اس مرد کا معاملہ ہے جس نے پہلے مہر کی ادائیگی کردی ہو ، آج کل مہر
صرف طے کیا جاتا ہے ادا کرنے کی کوشش کم ہی لوگ کرتے ہیں جبکہ مہر عورت کا
حق ہے اسے جلد ازجلد ادا کردینا چاہئے ۔ طلاق کی نوبت آنے تک جس نے مہر ادا
نہ کیا ہووہ طے شدہ مہر کی رقم مکمل ادا کرے ۔ اسی طرح جو مال عورت نے شوہر
کو بطور قرض دیا تھا خواہ گھربنانے میں ، کچھ سامان وغیرہ خریدنے میں اسے
بھی لوٹانا واجب ہےلیکن جو مال عورت نے یونہی خوش دلی سے دیا تھا اس کا
مطالبہ کرنا جائز نہیں ہےالبتہ مرد اگر چاہے تو لوٹاسکتا ہے ۔اس وقت عورت
بے سہارا ہونے کی وجہ سے مال کا زیادہ محتاج ہوتی ہے۔
میراث: پہلی یا دوسری طلاق کی عدت کے دوران اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت
شوہر کے میراث کا مستحق ہوگی لیکن اگر تیسری طلاق (بائن) ہوجائے تو اس کی
عدت یا بعد میں کبھی، مرد کے انتقال ہونے سے میراث کا مستحق نہیں ہوگی
کیونکہ میاں بیوی کی قرابت ختم ہوچکی ہے جو میراث کا سبب بنتی ہے ۔
اولادکی پرورش کا حقدار: طلاق کے بعد اولاد کی پرورش کا مسئلہ پیش آتا ہے
کہ اس کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ اسلام میں عورت کو ہی بچے کی پرورش
کا زیادہ حق ملا ہے لیکن عورت عدت گزارکر کسی اور مرد سے دوسری شادی کرلے
تو اس صورت میں بچے کی پرورش کا حقدار بچوں کاباپ ہوگا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
أنَّ امرأةً قالَت يا رسولَ اللَّهِ إنَّ ابني هذا كانَ بطني لَه وعاءً
وثَديي لَه سِقاءً وحجري لَه حِواءً وإنَّ أباهُ طلَّقني وأرادَ أن
ينتزِعَه منِّي فقالَ لَها رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنتِ
أحقُّ بِه ما لم تَنكِحي(صحيح أبي داود:2276)
ترجمہ: ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یہ
میرا بیٹا ہے اس کے واسطے میرا پیٹ برتن تھا اور اس کے واسطے میری چھاتی
مشک تھی اور میری گود اس کے لئے گھری ہوئی رہی اس کے والد نے مجھ کو طلاق
دے دی ہے، اور اب و ہ اسے مجھے سے لینے کا ارادہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تو اس کی پرورش کرنے کی زیادہ حق دار ہے جب تک
کہ تو کسی سے نکاح نہ کرے۔
لیکن جب بچہ باشعور ہوجائے تو اسے اختیار ہے ماں باپ میں سے جسے اختیارکرے
۔ ابومیمونہ سلمی کا بیان ہے کہ ایک فارسی عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اس حال
میں کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دیا تھااور میاں بیوی دونوں بچے کے
دعویدار تھے تو نبی ﷺ نے بچے سے کہا:
هذا أبوكَ وهذهِ أمُّكَ فخذ بيدِ أيِّهما شئتَ فأخذَ بيدِ أمِّهِ فانطلقَتْ
بهِ(صحيح أبي داود:2277)
ترجمہ: یہ تیرے والد ہیں اور یہ تیری والدہ ہیں تو دونوں میں سے جس کا چاہے
ہاتھ پکڑ لے اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا وہ اس کو لے گئی۔
بچہ ولادت کے بعد جہاں بھی رہے اس وقت سے بلوغت تک اس کا خرچ باپ کے ذمہ ہے
جو اس آیت سے پتہ چلتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ
لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ
بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ
ذَٰلِكَ ۗ(البقرۃ:233)
ترجمہ: اور بچے کے باپ پر ان کا کھانا کپڑا ہے دستور کے موافق کسی شخص کو
اس کی گنجائش سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے گی نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے
نقصان دیا جائے گا ، نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے اور( اگر بچے کا باپ نہ
ہو تو باپ کے) وارث پر ایسا ہی(کھانا ،کپڑا ) ہے۔
تیسری طلاق کے بعد نکاح : تیسری طلاق دیتے ہی عورت مرد سے جدا ہوجائے گی ،
اب وہ عورت اس مرد سے شادی بھی نہیں کرسکتی ۔ شادی کرنے کی ایک صورت ہے ،
اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عورت دوسرے مرد سے شادی کرے (یہ شادی گھربسانے کی
نیت سے ہو نہ کہ سازشی ) ، وہ مرد اس عورت سے جماع کرلے اور پھر (کسی کے
کہنے سے نہیں)اپنی مرضی سے طلاق دیدے تو عدت گزارکر عورت پہلے مرد سے شادی
کرسکتی ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا
غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا
إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ
يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ(البقرۃ:230)
ترجمہ: پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دیدے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب
تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے ، پھر اگر وہ بھی طلاق دیدے
تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ یہ جان لیں کہ
اللہ ککی حدود کو قائم رکھ سکیں گے ، یہ اللہ تعالی کی حدود ہیں جنہیں وہ
جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے ۔
تیسری طلاق پہ مروجہ حلالہ : اپنے سماج میں تین طلاق یا تیسری طلاق پہ
حلالہ کا یہ طریقہ رائج ہے کہ کسی قریبی مرد سے ایک رات کے لئے مطلقہ کی
شادی کرادیتا ہے اور صبح اسے طلاق دلاکر پہلے مرد سے پھر سے شادی کرادیتا
ہے ۔اس طریقہ سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی کیونکہ شرعی
حلالہ ہواہی نہیں ، مروجہ حلالہ زنا ہے اور اس طرح حلالہ کرنے کرانے والوں
پر اللہ کی لعنت ہے ۔ شرعی حلالہ کا طریقہ یہ ہے کہ عورت گھر بسانے کی غرض
سے کسی مرد سے شادی کرے وہ مرد عورت سے جماع بھی کرے اور اگر کبھی طلاق کی
نوبت آجائے تو یہ عورت پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہے ۔
ایک ساتھ تین طلاق کا حکم : یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جس عورت کو ایک
لفظ میں تین طلاق دی گئی یا ایک مجلس میں تین طلاق دی گئی ہو وہ تین شمار
نہیں ہوگی ، ایک ہی شمار ہوگی ۔ ایسی عورت سے مرد تین حیض کے دوران رجوع
کرسکتا ہے ، اگر رجوع کی مدت (تین حیض ) گزرجائے تو نئی شادی کے ذریعہ پھر
سے بیوی بناسکتا ہے ۔ |