ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشب برأت کہاجاتا ہے شب کے
معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں،چونکہ اس
رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراﷲ تعالیٰ کی رحمت سے
بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں،
اس رات کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور
کی رات اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے ۔(لطائف
المعارف/ 145)
اورجس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے
آسمان میں دوعیدیں ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں
عیدالفطر اورعیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات
کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں(غنیتہ
الطالبین)
شب برأت کے متعلق سیدہ عائشہ ؓ کی روایت :
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات رحمت عالم صلی اﷲ
علیہ وسلم سیدہ عائشہؓ کی باری کے موقع پر ان کے حجرے میں آرام فرماتھے ،
ام المومنین فرماتی ہیں کہ رات کے کسی حصہ میں میری آنکھ کھلی تو حضور ﷺکو
موجود نہ پایا، تو گھبراکر آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی اور ازواجِ مطہرات کے
حجروں میں تلاش کرتی ہوئی مدینہ طیبہ کے قبرستان (جنت البقیع) میں پہنچی،جو
قریب ہی ہے ، دیکھا تو حضور ﷺ اپنی امت کی بخشش کے لیے دعا مانگ رہے تھے ،فراغت
کے بعدآپ ﷺ نے پوچھا: عائشہ! جانتی بھی ہو آج کونسی رات ہے ؟ فرمایا کہ
پندرہویں شعبان (شب برأت ہے )جس میں ربِ کریم قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے
بالوں سے زیادہ گنہگار (مسلمانوں)کی مغفرت فرماتے ہیں،اس قبیلہ میں بکریوں
کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے آپ ﷺ نے مثالاً بیان کر کے فرمایاکہ یہ وقت
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فیوض وبرکات، انوارات و تجلیات،
انعامات ونوازشات اور مغفرت و رحمت طلب کرنے کاہے ، اس لیے میں نے چاہا کہ
ایسے مبارک اور مقدس وقت میں اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر امت کے
گنہگاروں کے لیے بخشش کی دعائیں مانگوں ۔
شب ِبرأت کی خصوصیت :
اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں کے بعد حضرت محمدﷺ کی دعاؤں سے اس رات کی فضیلت میں
گویا چار چاند لگ گئے اور عام راتوں کے مقابلہ میں اس کی قدرو عظمت اور
منزلت و خصوصیت اور بڑھ گئی، چنانچہ علماء نے کتاب و سنت کی روشنی میں
اجمالی طو رپر اس کی دو خصوصیتیں بیان فرمائی ہیں: (۱)اﷲ تعالیٰ کے
(خصوصی)فیصلے کی رات۔ (۲) اﷲ تعالیٰ کے (خصوصی)فضل کی رات۔ جہاں تک اﷲ
تعالیٰ کے خصوصی فیصلوں کی بات ہے تو اس سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا
کی دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شب برأت میں اہم ترین امور کے فیصلے جو
علم الٰہی اور تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے ان کی تنفیذ جن
فرشتوں کے واسطہ سے ہوتی ہے(حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور
حضرت عزرائیل علیہم السلام) اس رات میں خدائی بجیٹ ان کے سپرد کیا جاتا ہے
، مثلاًکون کون اس سال میں پیدا ہوں گے ؟ کون کون مریں گے ؟ کون اچھے عمل
کریں گے اور کون برے عمل کریں گے ؟ کن کو کس قدر رزق دیا جائے گا
؟وغیرہ۔(مشکوٰۃ/ص:۵۱۱)
شب ِبرأت میں اﷲ تعالیٰ کی پکار :
اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شب برأت میں بھی شب قدر کی طرح شروع سے اخیر تک
ربِ کریم کی خصوصی رحمت نازل ہوتی ہے ، چنانچہ ابن ماجہ میں سیدنا علی کرم
اﷲ وجہہ ؓسے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(حدیث
قدسی)اس حدیث قدسی میں فرمایا:جب شب برأت ہو تو بہتریہی ہے کہ تم اس کی رات
میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیوں کہ اس رات میں
غروبِ آفتاب ہی سے (یعنی عام راتوں کی طرح آخر ِرات میں نہیں بلکہ شروع رات
میں) حق تعالیٰ آسمانِ دنیا پراپنی رحمت کا نزول فرماتے ہیں اوربار بار یہ
ارشاد فرماتے ہیں کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ؟کہ میں اس کی مغفرت کردوں
،اور ہے کوئی رزق کا طلب گار؟ کہ میں اسے رزق دوں، اور ہے کوئی مبتلائے
مصیبت ؟کہ میں اسے عافیت دوں، اور ہے کوئی ایسا اور ویسا …یہ آواز صبح تک
آتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس رات میں شروع ہی سے ربِ کریم اپنی رحمت کو عام
فرما کر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، اور گویا اس کی رحمت گنہگاروں کے
دروازوں پرآکر دستک دیتی ہے کہ گنہگارو! آؤ میری رحمت تمہاری منتظر ہے ،
کیا چاہتے ہو؟ آج تمہاری ہر جائز مراد پوری کی جائے گی ۔
تمہارا رب تمہیں دینے کے لیے آج شروع ہی سے بلاتاہے او روعدہ کرتاہے کہ مجھ
سے مانگنے والوں کو سب کچھ دیا جائے گا اور کچھ نہیں لیا جائے گا ۔میرے
بندو ! آؤ جلدی کرو میرے دربار کی طرف دوڑ لگاؤ۔ فَفِرُّوْا اِلٰی اللّٰہِ
پر عمل کرو،آج تمہارا روٹھا ہوا مولیٰ تم سے راضی ہونا چاہتا ہے ۔ اب جو
بندہ شرمندہ ہو کر سر جھکا کر آنسو بہا کر ہاتھ اٹھا کر آئے گا تو مجھے غضب
ناک نہیں، مہر بان پائے گا، وہ میری طرف ایک ہاتھ متوجہ ہوگاتومیری رحمت اس
کی طرف دو ہاتھ متوجہ ہوگی، وہ چل کر آئے گاتو میری رحمت دوڑ کر اس کا
استقبال کرے گی، خواہ وہ کوئی ہو،میں معافی مانگنے والوں کو محروم نہیں
کرتا ، بلکہ میں تو معمولی بہانوں سے بھی معاف کر دیتا ہوں۔
اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کاایک عجیب واقعہ :
چنانچہ اس کی عنایت اورمغفرت کاایک عجیب واقعہ منقول ہے ، حضرت عبد الوہاب
ثقفی ؒفرماتے ہیں کہ میں نے ایک جنازہ دیکھا جس کو تین مرد اور ایک عورت نے
اٹھایا تھا، میں نے فوراً عورت کی جگہ لے لی، او رجنازہ کو قبرستان پہنچا
کر دفن کردیا، بعدمیں اس عورت سے (پس پردہ) معاملہ دریافت کیا، تو اس نے
کہاکہ مرحوم میرابیٹا تھا، لیکن یہ مخنث (ہیجڑا) تھا اس لیے پاس پڑوس کے
سبھی لوگ اسے نہایت حقیر سمجھتے تھے ، جس کی وجہ سے اس کے مرنے کے بعد بھی
کسی نے کفن اورکندھادینا پسند نہ کیا۔شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس رات خواب
میں سفید لباس میں ملبوس ایک شخص دیکھا جس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی
طرح چمک رہاتھا، اس نے آکر میرا شکر یہ اداکیا اور کہا: میں وہی ہوں جسے آج
تم نے دفن کیا،اﷲ تعالیٰ نے میری مغفرت اس لیے فرمادی کہ لوگوں نے مجھے
حقیر سمجھ کر چھوڑدیا(کتابوں کی درس گاہ میں/ص:۵۶)
حدیث قدسی ہے :بلا شبہ اﷲ جل شانہ نے اپنی مخلوق کو پیداکرنے سے پہلے یہ
تحریر لکھی دی ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ تحریر اس کے
سامنے عرش پر موجو دہے ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اکثر اپنے بندوں کے ساتھ
رحمت و عنایت ہی کامعاملہ کرتاہے ، جیساکہ خودبھی ارشاد فرمایا :قَالَ
عَذَابِیْ أُصِیْبُ بِہِ مَنْ أَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ
شَیْءٍ(الأعراف)اپناعذاب تو میں اسی پر نازل کرتاہوں جس کو عذاب دینا
تقاضائے حکمت ہوتا ہے ، رہی بات میری رحمت کی تو وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی
ہے ۔ دنیامیں تو ہر کسی کو اس سے فائدہ ہوتاہے ۔پھر یہ بھی تو اسی رحمت
کاایک حصہ ہے کہ وہ اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کرنے کے لیے مواقع اور
بہانے عطا کرتاہے ۔
شب برأت میں محروم القسمت :
چنانچہ شب برأت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے گنہگاروں کے لیے ایک مہلت اور بہترین
موقع ہے ،اگربندہ اسے غنیمت جان کر سچی توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت
گنہگاروں کی منتظررہتی ہے ۔
حدیث میں چند ایسے محروم القسمت لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کی اس رات بھی
مغفرت نہیں ہوتی ،جب تک وہ سبھی توبہ نہ کر لیں ،ان میں (۱)مشرک(۲)کینہ
رکھنے والا(۳)قاتل (۴)قطع رحمی کرنے والا(۵)والدین کا نا فرمان(۶)شراب
کاعادی(۷)زنا کا عادی(۸)ٹخنوں کے نیچے پاجامہ لٹکانے والا مرد(۹)خود کشی
کرنے والا (۱۰)غیب کی باتیں بتلانے والا۔ نیز کاہن او رنجومی(الترغیب و
الترہیب )
یہ وہ محروم القسمت لوگ ہیں جو شب برأت و شب نجات میں بھی اﷲ تعالیٰ کی
رحمت سے محروم رہتے ہیں(العیاذ باﷲ)روایتوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے
کہ اس رات تمام صغائر تو معاف کر دیے جاتے ہیں، البتہ کبائر کی معافی کے
لیے سچی توبہ شرط ہے ۔ ہاں اگر اﷲ تعالیٰ کسی کو محض اپنے فضل و کرم سے
معاف کر دے تو اور بات ہے ۔
شب ِبرأت کے اعمال و احکام :
علماء نے فرمایا کہ اس رات میں مطلقاًعبادت کرنا اوردن میں روزہ رکھنا بھی
مستحب ہوگا،البتہ سنت یہ ہے کہ ہرماہ کے ایامِ بیض کی طرح شعبان میں بھی اﷲ
تعالیٰ توفیق دیں تو ۱۳،۱۴ اور ۱۵ تاریخ میں روزہ رکھا جائے ، اس کے علاوہ
عبادات کا کوئی مخصوص طریقہ منقول نہیں ہے ،لہٰذاجوعبادت آسان ہو انفرادی
طور پر اس کو کرے ، بہتر ہے کہ مغرب کے بعدمسجد میں ہو تواعتکاف کی نیت
کرکے صلوٰۃ الاوابین پڑھے ، اس کے بعد تلاوتِ کلام اﷲ اور ذکر کرلے ، تا کہ
اُتْلُ مَاأُوْحِیَ…الخ میں جو تلاوت ، نمازاو رذکر کی ترغیب آئی ہے اس پر
عمل ہوجائے ، پھر رات بھر جاگ کر عبادت کر سکتے ہوں تو فبہا، ورنہ نمازِ
عشاء باجماعت پڑھ کر شروع حصہ میں کچھ آرام کرکے آخری حصہ میں اخیر تک ذکر
و اذکار اور دعا و مناجات میں مشغول رہے ، جس کے ذمہ قضا باقی ہو اس کے لیے
ضروری ہے کہ پہلے قضا کا اہتمام کرے ، اسی کے ساتھ اس رات اپنے لیے او
رمرحوموں کے لیے دعاءِ مغفرت کرے ، موقع ہوتو قبرستان جاکر مرحومین کے لیے
ایصال ثواب اور دعاءِ مغفرت کرے ،اگر چہ اس کا بھی اہتمام و التزام ثابت
نہیں، کیوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا شب برأت میں قبرستان جانا اس رات
کی خصوصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ عام معمول کی وجہ سے تھا ،ورنہ آپ صلی اﷲ
علیہ و سلم کے ساتھ حضرات صحابۂ کرامؓ بھی ہوتے ۔
بہر کیف !شب برأت کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا یہی مطلب ہے کہ شریعت وسنت
کے مطابق اس رات کو گذاریں،جہالت و بدعت کے ساتھ نہیں،جیساکہ جہلاء کے یہاں
ہوتاہے ۔
حق تعالیٰ ہمیں اپنی توفیق خاص سے اپنی رحمت و عنایت کے مواقع عطا فرماکر
مغفرت و کامل رضا عطا فرمائے (آمین )
|