ترجمہ:
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے،وہ سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بڑی
عزت وغلبہ بڑی حکمت والا ہے۔(۱)اے مومنو!تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم
کرتے نہیں ہو؟(۲)اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم کہو ایسی بات
جو کرو نہیں ۔(۳)اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح
صف بستہ ہو کر جنگ کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔(۴)اور وہ
وقت یاد کرو جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا کہ میری قوم تم کیوں
مجھے اذیت دیتے ہو؟حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا
بھیجا ہوارسول ہوں،پس جب وہ لوگ حق سے منحرف ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں
کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا( انہیں منزلِ مقصود تک
نہیں پہنچاتا)۔(۵)اور اس وقت کو یاد کیجئے جب عیسیٰ بن مریم ؑ نے کہاکہ اے
بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں(اہلِ کتاب میں حضرت
عیسیٰ ؑ کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔یہود نے حضرت عیسیٰ(علیہ
السلام)کی شان میں مجرمانہ حد تک کمی کی اور ان کی معجزانہ پیدائش کو تسلیم
کرنے کی بجائے حضرت مریم (علیہا السلام)پر بہتان لگایااور حضرت عیسیٰ(علیہ
السلام) کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی۔اس طرح عیسائیوں نے بھی حضرت عیسیٰ ؑ
کی بغیر باپ کے معجزانہ پیدائش کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی،حالانکہ ان کے
سامنے حضرت آدم ؑ کی بغیر ماں باپ کے پیدائش کی مثال موجود تھی لیکن اسکے
باوجود انہوں نے حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کو ایک عجیب چیستان بنا دیا،عیسائی
فرقہprotestantکے نزدیک وہ اللہ کے بیٹے ہیں،عیسائی فرقہcatholicکے نزدیک
وہ تین خداؤں میں سے تیسرے ہیں اور عیسائی فرقہorthodoxکے نزدیک وہ اللہ
ہیں۔الغرض یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی شان میں تفریط کی اور عیسائی آپ کے
بارے میں افراط کا شکار ہوئے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ(علیہ
السلام)نہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے ہیں اور نہ ہی یہود کے مطابق آپ کسی
غیر پاکبازماں کے بیٹے ہیں۔بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور صرف بنی
اسرائیل کی طرفبھیجے گئے ہیں جیسا کہ بائیبل سے بھی واضح ہے:میں صرف بنی
اسرائیل کی بھٹکی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں(متی)۔حضرت عیسیٰ ؑ صرف
بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے ،کیونکہ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے
کہا اور اسی کا اپنے حواریوں کو حکم دیا ،مگر یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک
نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث نہیں ہوئے تھے
کیونکہ آپﷺ کے اعلان نبوت کے بعد ہر ایک کیلئے آپ ﷺ پر ایمان لانا لازم
ہے)،میں اس کتاب کی جو مجھ سے پہلے بھیجی گئی ،یعنی تورات کی تصدیق کرنے
والا ہوں(اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صیح ہیں،اول کہ میں کوئی الگ
دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ ؑ لائے تھے،میں تورات کی
تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اسکی تصدیق کر رہا ہوں ،جس طرح ہمیشہ سے
اللہ کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں،سو کوئی
وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو،دوئم یہ کہ میں ان
بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق تورات میں موجود ہیں،لہٰذا
تمہیں تو اس بات کا خیرمقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء
نے دی تھی وہ آگیا،اس فقرے کو بعد والے فقرے سے ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی
یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمدﷺ کی آمد کے متعلق تورات کی دی ہوئی
بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں )اور ایک
رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد
(ﷺ)ہے(احمد کے دو معنی ہیں:وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا
ہواور دوسرے معنی وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو،حضور پرنورصلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اسم گرامی صحابہؓ میں معروف تھا،چنانچہ حضرت
حسان بن ثابتؓ کا شعر ہے:اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جھمگٹا لگائے ہوئے
فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے بابرکت احمدﷺ پر درود بھیجا ہے،تاریخ سے
بھی یہ ثابت ہے کہ حضورﷺ کا نام مبارک صرف محمدﷺ ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی
تھا،انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی
اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے،ایک مسیح ،دوسرے ایلیاہ اور تیسرے وہ نبی
جس کی خبر تورات میں دی گئی ہے یعنی احمدﷺ)پھر جب وہ(رسولِ آخر
الزماںﷺ)واضح نشانیاں لیکر ان کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے یہ تو
کھلا جادوہے۔(۶)اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گاجو اللہ پر جھوٹے
بہتان باندھے؟حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینے)کی دعوت
دی جارہی ہو ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔(۷)یہ(منکرینِ
حق)چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ(کی پھونکوں)سے بجھا دیں جبکہ
اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند
کریں۔(۸)وہی تو ہے کہ جس نے اپنے رسول(ﷺ)کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ
بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے چاہے مشرکوں کو برا ہی
لگے۔(۹)اے ایمان والو!کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتادوں جو تم کو دردناک
عذاب سے بچا لے؟(۱۰)(وہ یہ ہے کہ)تم اللہ اور اسکے رسول(ﷺ)پر(کامل)ایمان
رکھواور اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ،یہی تمہارے حق میں
بہتر ہے اگر تم جانتے ہو(یعنی یہ تجارت تمہارے لئے دنیا کی تجارتوں سے
زیادہ بہتر ہے)۔(۱۱)اگر تم یہ کام کرو گے تو وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا
اور تمہیں جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور
نہایت عمدہ رہائش گاہوں میں ٹھہرائے گا جو جناتِ عدن(یعنی ہمیشہ رہنے کی
جنتوں)میں ہیں،یہی زبردست کامیابی ہے ۔(۱۲)اور(اس اخروی نعمت کے علاوہ)ایک
دوسری(دنیوی نعمت بھی عطا فرمائے گا)جسے تم بہت چاہتے ہو وہ اللہ کی جانب
سے مدد اورجلد ملنے والی فتح ہے اور (اے نبیﷺ!)آپ مومنوں کو خوشخبری سنا
دیں(یہ فتح مکہ اور فارس وروم کی فتوحات کی شکل میں ظاہر ہوئی)۔( ۱۳)اے
ایمان والو!اللہ کے مددگار بنو،جس طرح عیسیٰ ابن مریم ؑ نے حواریوں کو خطاب
کر کے کہا تھا کہ اللہ کی طرف بلانے میں کون میرا مددگار ہے؟اور حواریوں نے
جواب دیا تھا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں اس وقت بنی اسرائیل کا ایک
گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے کفر اختیار کیا ،سو ہم نے ان لوگوں کی
جو ایمان لے آئے تھے ان کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہو گئے۔(۱۴) |