تحریر۔۔۔ ڈاکٹرشمائلہ خرم
ماہ شعبان اسلامی مہینوں میں آٹھواں مہینہ ہے بہت عظمتوں،برکتوں اور رحمتوں
سے مزین مہینہ ہے اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ رجب بیج بونے کا ،شعبان آبپاشی کا
اور رمضان فصل کاٹنے کا مہینہ ہے رب کائنات نے مختلف دنوں اور راتوں کو الگ
الگ مقام،اہمیت اور فضیلت دے رکھی ہے انہی فضیلت بھری راتوں میں سے ایک رات
ماہ شعبان کی پندرہویں شب ہے ایک بار حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا
’’اے عائشہؓ ! کیا تم جانتی ہو شعبان کی پندرہویں رات کو کیا ہوتا ہے حضرت
عائشہ ؓ نے عرض کی میں نہیں جانتی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ بتائیں
اس شب میں کیا ہوتا ہے پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اس رات تمام دنیا
کے انسانوں کا پیدا ہونااور مرنا لکھا جاتا ہے جو فرشتے ان کے لئے مقرر کئے
جاتے ہیں ان کو اطلاع دی جاتی ہے جتنا رزق مخلوق کو ملنا ہے سب لکھا جاتا
ہے پندرہویں شب کو غروب سورج ہی اﷲ تعالی دنیا کے آسمان پہ آجاتا ہے اور
فرماتا ہے کہ مخلوق میں کوئی بندہ جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اس کو بخشش
دوں ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا تاکہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت
میں دعا مانگنے والا تاکہ میں اس کی مصیبت دور کر دوں پھر فرمایا اس رات
عبادت میں مشغول رہنا چاہئے اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے پندرہ
شعبان کو روزہ رکھیں اﷲ سب کو بخشتا ہے مگر کافر ،مشرک ،کینہ رکھنے والے
اور قاتل کو نہیں بخشتا‘‘۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’اے مسلمانو! شعبان کی پندرھویں رات کو عباد ت کے لئے جاگتے رہو اور اس
کامل یقین سے ذکر و فکر میں مشغول رہو کہ یہ ایک مبارک را ت ہے اور اس را ت
میں مغفرت چاہنے والوں کے جملہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ‘‘ ایک اور حدیث
مبارکہ میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں
کہ ’’جب شعبان کی درمیانی رات آئے تو رات کو جاگتے ہوئے قرآنِ کریم کی تلاو
ت کی جائے اور نوافل میں مشغول ہوا جائے ، روزہ رکھا جائے کیونکہ اس رات اﷲ
اپنی صفات رحمن و رحیم اور رؤف کے ساتھ انسانیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور
خدا کا منادی پکار رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے
معاف کر دوں، کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کر دوں، کوئی رزق
مانگنے والا کہ میں اسے حلال وافر رزق عطا کر دوں، اور یہ صدائیں صبح تک
جاری رہتی ہیں۔‘‘۔
ارشادِ ربانی ہے کہ ’’اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کر دیا جاتا
ہے۔(سورۃ الدخان) ‘‘
اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب
شعبان کی پندرہویں شب آجائے تو رات کو قیام کرواور دن کا روزہ رکھواﷲ غروب
آفتاب کے وقت دنیا کے آسمان پر آجاتا ہے اور خاص تجلی فرماتا ہے کہ ہے کوئی
بخشش مانگنے والا ہے کوئی رزق مانگنے والا ہے کوئی مجھ سے مدد مانگنے والا
‘‘( ابن ماجہ)۔
اْم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اﷲ
علیہ وسلم میں عرض کیا ’’یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ماہِ شعبان میں آپ
روزے رکھتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟ ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’عائشہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ باقی کے عرصے میں مرنے والوں کے نام ملک الموت
کو لکھ کر اس ماہ میں دے دئیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرا نام دیا
جانے لگے تو میں حالتِ روزہ میں ہوں۔‘‘(غنیہ الطالبین) ۔
اﷲ تعالی یہ سب طلوع فجر(تہجد)کے وقت فرماتے ہیں اسی طرح حضرت عائشہ ؓ
فرماتی ہیں کہ دو جہانوں کے سردار سرکار محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ماہ شعبان میں میرے پاس جبرائیل علیہ اسلام آئے اور کہا یہ پندرہ شعبان
کی رات ہے اﷲ تعالی اس رات جہنم سے اتنوں کو آزاد کرتا ہے جتنے قبیلہ بنی
کلب کے بکریوں کے بال ہوتے ہیں لیکن کافر،عداوت والے،رشتہ کاٹنے والے،کپڑا
لٹکانے والے ،والدین کی نافرمانی کرنے والیاور شراب کی مداوت کرنے والے کی
طرف اﷲ تعالی نظر رحمت نہیں کرتا ‘‘۔
اﷲ تعالی نے اس رات کو بہت اہمیت بخشی ہے رب کائنات نے اس رات میں ہمیں
اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا حسین ترین موقع فراہم کیامگر افسوس کہ ہم
یہ رات عبادت میں گزارنے کی بجائے آتش بازی،پٹاخے چلانے میں گزار دیتے ہیں
جبکہ آتش بازی شاہ نمرود کا عمل مردود اور اس کی ایجاد ہے ہمیں چاہئے پندرہ
شعبان کو نمرود کے عمل کو اپنانے کی بجائے ذکر الہی میں گزاریں کیا معلوم
کہ اگلی پندرہویں شعبان ہماری قسمت میں نہ ہو ہمیں اپنے رب کو منانے کا
موقع نہ ملے اپنے گناہوں کی معافیاں نہ مانگ سکیں۔ |