بڑھاپے میں جوانی کا اصل راز

صبح آنکھ کھلتے ہی گھر میں بچوں کی شرارتیں اور سرگوشیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔کوئی ٹافی مانگتا ہے تو کوئی ببل گم کے لیے پاؤں پٹخ رہا ہوتا ہے ۔ کسی کا تقاضا ہوتا ہے کہ اسے ایک نہیں دو ٹافی دی جائیں ٗ تب وہ راضی ہو گا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعدپوتے پوتیوں نے مجھے تنہا نہیں ہونے دیا ۔وہ تنہائی کے اوقات میں میرے بہترین ساتھی ہیں ۔ صبح سے شام تک ایک ہنگامہ میرے ارد گرد لگا رہتا ہے ایک جاتا ہے تو دو چلے آتے ہیں ۔جس سے مجھے زندگی کا احساس رہتا ہے اور یہ سمجھ کر خوش ہوجاتا ہوں کہ میں تنہا نہیں ہوں بلکہ یہ ننھے منے پودے میری آنگن میں اپنی خوشبو پھیلاتے نظر آتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں وہ شخص نہایت بدقسمت ہے جن کو پوتے اور پوتیوں کا پیار نہیں ملا ۔ یہ وہ والہانہ محبت ہے جو بڑھاپے میں میڈیسن سے بھی زیادہ اثر دکھاتی ہے ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جتنے بچے بھی میرے بیڈ روم میں آتے ہیں ٗ سب کی گردنیں اس میڈیکل باکس کی جانب اٹھی ہوتی بلکہ انگلی کے اشارے سے مجھے بغیر زبان کھلے بتاتے ہیں دادا وہ .....میں بھی جان بوجھ کر انجان بن جاتا ہوں اور بار بار ان کو ستانے کے لیے پوچھتا ہوں ۔اوپر کیا ہے....... مجھے تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔پھر وہ اپنے اپنے انداز میں احتجاج شروع کرتے ہیں ۔ محمد موسف جو میرا پوتا ہے ٗ جہاں کھڑا ہوتا ہے وہیں کھڑ ے کھڑے قریب ترین مقام پر ٹکریں مارنا شروع کردیتا ہے ۔ حالانکہ اس کی عمر بمشکل ڈیڑھ سال ہوگی لیکن وہ پہلے زمین رینگتا ہوا میرے پاس چلاآتا تھااور اب ڈگمگا کر چلتا ہوا پہنچ جاتاہے ۔ میرے قریب پہنچ کر پہلے وہ مسکراتا ہے پھر اگر میں اس کی بات نہ سنوں اور جان بوجھ کر اس کی طرف توجہ نہ دوں تو فورا احتجاج شروع کردیتا ہے اس میں عمران خان کی طرح برداشت کا مادہ بہت کم ہے ۔طبیعت میں عدم برداشت کے کافی جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ عمران خان نے چار سال تک دھرنے اور احتجاجی جلسے کرکے بچوں کو خراب کردیا ہے ۔ جس کو دیکھو وہ دھرنا دینے لگتا ہے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے پوتے اور پوتیاں مجھے عمران کی طرح بلیک میل کرتی ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے میں نے تاکید کررکھی ہے جب ٹی وی پر بکواس نامہ شروع ہوتو فوری طور پر بچوں کو ٹی وی لاؤنج سے ان کے بیڈ روم میں بھیج دیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں ان میں بڑوں کی باتوں کو سننے ٗمحسوس کرنے اور نقل کرنے کی صلاحیت بڑے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے وہ بھی بندر کی طرح نقلیں اتارنے کے ماہر دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ اب ٹی وی اب الزام نامے کی شکل دھار چکا ہے ۔ کچھ ٹی وی چینلز تو قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ پہلے خبر دکھاتے ہیں پھر اس کے ردعمل میں نصف درجن افرادکے تاثرات پیش کرنانہیں بھولتے یوں خبرکو چھوڑ کر ذہن میں ایسی کھچڑی پکنے لگتی ہے کہ دماغ میں درد ہونے لگتا ہے ۔

اس کے باوجود کہ تمام پوتے اور پوتیاں مجھے بلیک میل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں لیکن میں یہاں فرد اً فرداً سب کی الگ الگ دھمکیوں اور غنڈہ گردیوں پر پردہ اٹھنا چاہتا ہوں تاکہ سب پر مشترکہ الزام لگا کر میرا کیس کمزور نہ ہوجائے ۔ شرمین فاطمہ پوتے پوتیوں میں سب سے بڑی ہے ۔وہ میرے بڑے بیٹے شاہد اسلم کی بڑی بیٹی ہے ۔ یہ بچپن سے ہی بہت نٹ کھٹ اور شرارتی چلی آرہی ہے ۔ خوش شکل اس قدر کہ جو بھی دیکھتا ہے اسے پیار کیے بغیر رہ نہیں سکتا ۔ باپ کی حیثیت سے بیٹے شاہد کی وہ جان ہے ۔وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے لیکن اپنی اس بیٹی کو پریشان نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ جان سے بھی زیادہ اسے عزیز رکھتاہے ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ باپ اپنی اولاد کو جتنا پیار کرتا ہے اس پیارکو ماپنے کے لیے شاید دنیامیں کوئی پیمانہ نہیں بنا ۔ یہ باپ ہی ہوتاہے جو گردن تک ڈوب کر اپنی بیٹی کو کندھوں کی بجائے سر پر بیٹھاکر دریا پار کرواتا ہوا نظر آتا ہے ۔وہ بیٹی کی خوشیوں کے لیے جھلساتی ہوئی دھوپ میں محنت مزدوری کرتا دکھائی دیتاہے تاکہ بچوں کی زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں ۔ ہر باپ کی طرح بیٹا شاہد بھی اپنی بیٹی شرمین کی تفریح طبع کے لیے ابتداء ہی سے بہت محتاط رہا ہے ۔ جب ابھی باقی بچے دنیا میں نہیں آئے تھے تو اس کا چھٹی والا سارا دن شرمین فاطمہ کے ساتھ ہی گزرتا ہے ۔ وہ بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر کبھی جیلانی پارک جا پہنچتا اور وہاں پھولوں میں کھڑا کرکے اس کی رنگ برنگی تصویریں بناتا تو کبھی اس کو آئس کریم کھلانے کے لیے آئس بار لے جاتا۔ شرمین فاطمہ کو آئس کریم بہت پسند ہے ۔اس لیے جب بھی وہ باپ کی آغوش میں چڑھتی تو اس کا پہلا تقاضہ آئس کریم کا ہوتا ہے اور وہ بھی مینگو فلیور ۔

شرمین میرے پوتے پوتیوں میں سب سے بڑی ہے ۔ جب وہ 26 دسمبر2010ء کو شیخ زید ہسپتال میں پیدا ہوئی تو بیٹے شاہدنے مجھے کال کرکے مبارک باد دی اور کہا ابو آپ دادا بن گئے ہیں ۔ یہ خوشخبری سننے کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے بجلیاں میرے جسم میں دوڑنے لگی ہوں ۔میں اسی وقت تیار ہوکر ہسپتال جاپہنچا ۔ سردیوں کی اس شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور سورج مغرب کی پستیوں میں ڈوب رہا تھا ۔شرمین کا نانا نثار احمد خان نہ جانے کب سے ہسپتال کے باہر سیمنٹ کے ٹھنڈے بینچ پر بیٹھا اپنی جان سے پیاری بیٹی کے لیے زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ بیٹیاں باپ کو کس قدر پیاری ہوتی ہیں ۔یہ رشتہ ہی ایساہے کہ بیٹی سے والہانہ محبت ہر باپ کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے ۔حسن اتفاق سے میرا بیٹا بیٹی کا باپ بن کر ہسپتال کے اندر خوشیاں منا رہا تھا تو میری بہو "تحسین " کا باپ ہسپتال سے باہر یخ بستہ سردی میں اپنی بیٹی کی سلامتی کے لیے خدا سے بھیک مانگ رہا تھا ۔ اﷲ تعالی نے دونوں باپ کو خوشیاں عطا فرمائیں ۔

بیٹیوں کے بارے میں میرے یہ احساسا ت اس لیے تھے کہ میں خود ایک بیٹی کاباپ ہوں۔ اور جانتا ہوں کہ باپ کے دل میں بیٹی کی محبت کا سمندر کس قدر گہرا اور وسیع ہوتا ہے ۔میرے لیے وہ لمحہ زندگی کا کربناک ہوتا ہے جب مجھے اپنی بیٹی کی بیماری یا تکلیف کی خبر ملتی ہے ۔ اس لمحے جی چاہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو خوشیاں دینے کے لیے پوری دنیا سے ٹکرا جاؤں مجھے ہر وہ چیز حقیر دکھائی دیتی ہے جو میری بیٹی کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ جنہوں نے انتہائی تکلیفیں برداشت کرنے کے لیے بھی کسی کو بددعا نہیں دی تھی لیکن جب آپ ﷺ کی بیٹی کو تکلیف پہنچی تو آپ نے تکلیف پہنچانے والے کے لیے بددعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور رب العزت نے اپنے نبی کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو شرف قبولیت بخشی ۔ اور نبی ﷺ کی بیٹی کو تکلیف دینے والے کا حشر کتوں جیسا ہوا-
.............
جونہی میں شیخ زیدہسپتال پہنچا تو نثار احمد خان بے حد خوش تھے ۔میں ان کے ساتھ چلتا ہوا اس وارڈ میں پہنچا جہاں میری بہو "تحسین شاہد" زچگی کے مراحل سے گزر کر موجود تھی ۔ بچی ابھی لیبر روم میں ہی تھی ۔ ہم سب اس کا شدت سے انتظار کرنے لگے۔ اسی اثنا ء میں نرس چاند جیسی بچی کو اپنی آغوش میں لیے وارڈ میں داخل ہوئی تو بیٹے شاہدنے آگے بڑھ کر بچی کو پہلے خود پیار کیا پھر میری گود میں ڈال دیا ۔ میں نے بوسہ لے کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔نہ جانے خون میں کشش اس قدر کیوں ہوتی ہے ۔ میں اس دن بہت خوش تھا۔میں نے ہی اس کے کانوں میں اذان اور اقامت پڑھی ۔ چند دنوں کے بعد بہو اپنی بیٹی اورمیری پوتی کولے کر گھر پہنچ گئی ۔ سخت سردی کاموسم تھا ۔گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ یہ میری اولاد میں پہلی پیدائش تھی۔بچی کا نام رکھنے کا اعزاز ممتاز عالم دین اور جامع مسجد مکہ کالونی کے امام ڈاکٹر فیض احمد چشتی کے حصے میں آیا ۔ان کے مطابق شرمین فاطمہ کا مطلب حضرت فاطمہ ؓ کا پھول ہے ۔اس وقت جبکہ ہم بہت خوش تھے تواچانک شرمین کے نانا جس نے سردی کے موسم میں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر چار پانچ دن گزارے تھے ٗ اچانک بیمار ہوگئے ۔تین چار دن ان کا علاج پہلے سروسز ہسپتال اور پھر عمر ہسپتال میں جاری رہا۔ ایک شام وہ ہم سب کو چھوڑکر ایسی دنیا میں جابسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔میری بہو "تحسین شاہد"کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا جس کا اظہاراسکے چہرے سے عیاں تھا لیکن قدرت کے آگے سب بے بس تھے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ جدائی برداشت کرنی پڑی ۔

شرمین فاطمہ بچپن سے ہی انتہائی شرارتی اور دادا کی جان ثابت ہوئی ۔باپ کی محبت کا حساب تو لگایا نہیں جاسکتا ۔جو بیٹی کی خوشنودی کے لیے کبھی نغمہ گانے والی گڑیا لارہا تھا۔ تو کبھی نت نئے کپڑوں کے انبار لگ رہے ہیں ۔اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ ہمارے گھر میں شرمین فاطمہ کی شکل میں ایک کھلونا ہاتھ آ گیا تھا ۔اس کاوالد تو صبح سے رات گئے تک اپنی دفتری مصروفیات میں مگن ہوتا لیکن میری تمام تر توجہ کامرکز شرمین فاطمہ ہی ہوتی ۔ جن دنوں میں بنک میں ابھی ملازمت کررہا تھا تو دن میں کتنی ہی بار میں شرمین کی آواز سننے کے لیے گھر فون کرتا ۔کبھی اس کا موڈ ہوتاتو بات کرلیتی ورنہ ریسومیز پر رکھ کر کھیل میں مصروف ہوجاتی ۔ وہ اپنی توتلی زبان میں جب دادا کہہ کر مجھے پکارتی تونہ جانے کتنی محبت میرے وجود کا حصہ بن جاتی ۔ایک شام میں جب بنک سے گھر لوٹا تو شرمین فاطمہ کو سخت ناراض دیکھا وہ منہ بنائے سب کے ساتھ ناراض تھی ۔ مجھے دیکھ کر میری جانب لپکی اورمیر ی ٹانگوں سے چمٹ گئی ۔ ایک شاپرمیں چند پرانے قاعدے اس کے ہاتھ میں تھے ۔ میں گھر آتے ہوئے شرمین کے لیے بطور خاص ٹوفیاں اور بسکٹ لے کر آیا کرتا تھا جب وہ والہانہ اندازمیں میری ٹانگوں کو چمٹی تو میں نے اٹھاکر پہلے اپنے سینے سے لگایا پھر پیار کرکے ٹوفیاں اور بسکٹ اسے پیش کیے ۔ اس دن ٹوفیاں اور بسکٹ بھی اس کو خوش نہ کرسکے ۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولی ۔ دادا...... میں نے ابھی اور اسی وقت سکول جانا ہے ۔ میں نے کہا میری جان۔ اس وقت شام کے سات بجے ہیں سب سکول بند ہوچکے ہوں گے۔ کل میں تمہیں سکول لے کر جاؤں گا ۔ میرے سمجھانے کے باوجود اس کا ضد اپنی جگہ قائم رہی ۔بلکہ اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر رونے لگی کہ میں نے ابھی سکول جانا ہے بس ...... میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب اسے کہاں لے کر جاؤں ۔بہرکیف بائیک پر بٹھا کر میں اسے گھر سے روانہ ہوا راستے میں ٹوفیوں کی دکان آتی تھی وہاں بائیک روک لی اور دکاندار سے کہا یہ جو مانگتی ہے اسے دے دو تاکہ سکول جانے کی ضد ختم ہو۔ دکاندار نے تمام ٹوفیاں اور بسکٹ شرمین کے سامنے رکھے لیکن شرمین کی ایک ہی ضد تھی کہ سکول جانا ہے اور ابھی جانا ہے ۔ سردیوں کی اس شام میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کس طرح اپنی پوتی کی ضدکوپورا کروں۔ پھرخیال آیا کہ مکہ کالونی میں ایک کیمپوٹر کالج ہے جو شام کو کھلا ہوتا ہے۔ اس کا پرنسپل خرم صاحب میرا دوست ہے۔میں شرمین کولے کر اس کمپیوٹرکالج میں جا پہنچا اورپرنسپل کی کرسی کے بالمقابل بٹھا دیا ۔ پرنسپل صاحب نے پیار کرکے ہم دونوں کے لیے جوس منگوائے جسے شرمین نے مزے لے کر پیا اورشاپر سے کاپی نکال کر کچھ دیر تک الٹی سیدھی لکیریں مارتی رہی ۔دس پندرہ منٹ جب گزر گئے تو پرنسپل نے کہا جاؤ اب چھٹی ہوگئی ہے ۔ شرمین چھٹی ملنے پر بہت خوش ہوئی پھر ہم دونوں ایک بک شاپ پر جا پہنچے وہاں شرمین کے لیے نئے قاعدے اور رنگ والی پنسلوں کی ڈبی خریدی تاکہ وہ دل بہلا سکے ۔پڑھائی کی ابتداء تو شرمین فاطمہ نے ممتاز میموریل سکول گلبرگ تھرڈ سے کی تھی۔

19 جون2014ء کو ہم مکہ کالونی کا گھرفروخت کرکے قادری کالونی والٹن روڈ کے نئے گھر میں شفٹ ہوگئے تو یہاں اسے شریف میموریل سکول میں داخل کروادیاگیا۔جہاں وہ پونے تین سال تک پڑھتی رہے ۔نرسری سے پریپ اور پریپ سے پہلی جماعت تک جا پہنچی ۔اس سکول میں اپنی پارو کو چھٹی کے وقت گھر لے کرآنے کی ذمہ داری اکثر میری ہی ہوتی کیونکہ میں بنک آف پنجاب اور اردو ڈائجسٹ سے ریٹائر ہوچکا تھااورگھر میں سوائے لکھنے پڑھنے اورنماز ادا کرنے کے مجھے اور کوئی کام نہیں تھا۔جب میری شرمین فاطمہ چھٹی کرکے سکول کے گیٹ سے باہر نکلتی تو اس کا ہشاش بشاش چہرہ ہوتا ہے ۔وہ بات بات پر رونے دھونے والی لڑکی نہیں ہے بلکہ حالات کا بہت جواں مردی سے مقابلہ کرنے والی ہے ۔راستے میں کبھی وہ مٹھائی کھانے کا مطالبہ کرتی تو کبھی آئس کریم ۔ مسجداﷲ کی رحمت کے سامنے دکان تو اس کی فیورٹ تھی جہاں وہ بائیک سے اتر کر خودمن پسندخریداری کرتی ۔

اب اس کے والد (شاہد اسلم ) نے یہ کہتے ہوئے اسے قربان سکول داخل کروا دیا کہ شریف میموریل میں پڑھائی نہیں ہوتی ۔ یہ سکول شریف میموریل سے کہیں زیادہ دور اور راستے بھی کچھ الجھے ہوئے ہیں ۔ اس راستے کو شناخت کرکے گھر تک پہنچنا بچے کے لیے مشکل ہے ۔ اب ماشاء اﷲ شرمین سات سال کی ہوچکی ہے لیکن اسے اپنی بات منوانے کا ڈھنگ خوب آتا ہے جونہی وہ ناراضگی کااظہار کر تے ہوئے منہ بناتی ہے تو مجھے اس کی ہر بات ماننی پڑتی ہے ۔چونکہ یہ مجھے اپنی جان سے بھی پیاری ہے۔ اس لیے میں اس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھ سکتا اوراس کی ہر ضد کو پورا کرنے کی جستجو کرتاہوں ۔چاہے کتنی ہی بڑی فرمائش کیوں نہ وہ کردے۔

رومیسہ فاطمہ بھی بیٹے شاہدکی دوسری بیٹی ہے ۔ یہ شرمین فاطمہ سے چند سال چھوٹی ہے ۔ نئے گھر میں منتقلی کے فورا بعد جب میں گھٹنے کے آپریشن کے لیے نیشنل ہسپتال داخل تھا۔ بروزمنگل 8 جولائی 2014ء کے دن رومیسہ فاطمہ دنیا میں تشریف لائی اس دن ڈاکٹر علی رضاہاشمی میرا آپریشن کررہے تھے اور رمیسہ فاطمہ حجاز ہسپتال میں ایک آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئی ۔ابتداء میں بہت دبلی پتلی اور کمزور سی لڑکی تھی لیکن میری ٹافیاں کھاکھاکر ماشا ء اﷲ اب کافی صحت مند ہوچکی ہے ۔ جب سے اس نے زمین پر پاؤں رکھ کر چلنا شروع کیاہے تو میرے کمرے میں آتے ہی اس کا اشارہ اس ڈبہ کی جانب ہوتاہے جس میں ادویات کے علاوہ ٹوفیاں بھی رکھی ہوتی ہیں۔ جب بھی مجھے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو میں اسے ٹافیوں کاڈبہ دکھاتا ہوں تو رونے والا بچہ فورا رونا بھول کر ٹوفیوں کے لالچ میں خاموش ہوجاتاہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ادویات کا ڈبہ میرے پوتے پوتیوں کے لیے جادو کاڈبہ بن چکا ہے ۔ اگر میں کسی وجہ سے ٹافی نہ دوں تو اسی وقت رومیسہ کے ماتھے پر غصے کی شکنیں نمودار ہوتی ہیں۔ اس کے غصے سے بچنے کے لیے مجھے ٹافیوں کا ڈبہ ہی اس کے سپرد کرنا پڑتا ہے ۔ وہ اپنے موڈ کی لڑکی ہے۔ اس کے پیار اور غصے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا ۔وہ کسی بھی وقت پیار پر اتر سکتی ہے اور چند ہی لمحوں بعد مطلب پوراہونے پر رفو چکر ہوجاتی ہے ۔ مجھے وہ اس لیے پیاری لگتی ہے کہ وہ میری پوتی ہے اور میں اسے کبھی ناراض اور خفا نہیں دیکھنا چاہتا ۔ مجھے جب بھی اسکے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو نہ جانے کیوں میرا دل ڈوبنے لگتا ہے اور میں بلند آواز میں اپنی جگہ بیٹھا بیٹھا ہے ٗ رونے کی وجہ پوچھتا ہوں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی بیگم کی آواز آتی ہے کہ بچے تو روتے ہی رہتے ہیں۔آپ پریشان کیوں ہوجاتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں میری عدم موجودگی میں اگر رو لیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میرے ہوتے ہوئے کوئی روئے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ۔اپنی جان سے بھی پیارے پوتے پوتیوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کی میں ہمت نہیں رکھتا ۔ میری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر لمحے ہنستے مسکراتے رہیں ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ میری اہمیت اس وقت تک پوتے پوتیوں کی نظرمیں بہت زیادہ ہوتی ہے جب تک ان کے والد گھر واپس نہیں آتے ۔جیسے ہی باپ گھر آیا تو پھر ایسے نظریں بچا کر باپ کی آغوش میں جا چھپتے ہیں جیسے مجھے کبھی جانتے ہی نہ ہوں ۔ ان کی محبت حاصل کرنے کے لیے میرے پاس بھی ایک ٹوفیوں کا ڈبہ ہے جس میں ان کے من پسند چیونگم ڈینگ ڈانگ ببل گم بھی ہوتی ہے جو شرمین ٗ رومیسہ اور محمد عمرکو بے حد پسند ہے ۔

میرے چھوٹے بیٹے محمد زاہد کے بھی دو بچے ہیں۔ بڑے بیٹے کانام محمد عمر ہے۔ یہ نام میں نے ہی خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ بن خطاب کے نام کی مناسبت سے رکھاہے۔ میں سمجھتا ہوں نام کا شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے ۔محمدعمر مزاج کے اعتبار سے بہت سخت والا اور خود دار بچہ ہے اسکے معمولات عام بچوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں ۔گھرسے باہر جب بھی کوئی جاتا ہے تو محمد عمر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائے ۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے میں اسے اپنے ساتھ مسجد لے جاتا رہا ہوں۔ جہاں وہ بہت تمیز کے ساتھ خاموشی سے بیٹھ کر ہمیں نماز پڑھتے دیکھتا رہتا تھا لیکن جب ہم نماز پڑھنے کے بعد بازار میں نکلتے ہیں تو اس کی طبیعت میں اضطرابی لہر جاگ اٹھتی ہے اور ہر اس جانب بھاگنے کی کوشش کرتاہے جس طرح اس کی من پسند چیز پڑی نظر آتی ہیں۔اس لیے میں اگر اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہوں تواسے بائیک سے اترنے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ بے ہنگم ٹریفک کا شکار نہ ہوجائے ۔

شرمین فاطمہ کو جب میں سکول سے چھٹی کے وقت لینے جاتا تھا تو وہ بھی بائیک پر زبردستی بیٹھ جاتا اوراپنی پیار ی آپی شرمین کو سکول سے نکلتے ہی ویلکم کرتا ۔ پھر ہم سب گھر کو واپس آنے لگتے تو شرمین فاطمہ اور محمد عمر دونوں کی الگ الگ فرمائشیں پوری کرنی پڑتیں ۔ دونوں کی مشترکہ پسند آئس کریم اور جوس ہیں ۔اب ماشاء اﷲ محمد عمر خود بھی قربان سکول میں داخل ہوچکاہے اورروزانہ ساڑھے سات بجے اپنے والد کے ساتھ سکول جاتا ہے جبکہ واپس لانے کی ذمہ داری میری ہوتی ہے ۔ محمد عمر کو سوا گیارہ بجے چھٹی ہوتی ہے جب میں اسے لینے سکول جاتا ہوں تو میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ سکول سے نکلنے والے باقی بچے روتے ہوئے ہی نکلتے ہیں جبکہ محمدعمر مسکراتا ہوا باہر آتاہے۔ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی والہانہ مسکراہٹ کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتاہے ۔اور اس کی اچھی صحت اور کامیابی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔ جب ہم سکول سے واپس آ رہے ہوتے ہیں تو محمد عمر کی پہلی خواہش جوس اور دوسری خواہش آئس کریم ہوتی ہے ۔جومجھے اپنی جیب سے انہیں لیکر دینے پڑتے ہیں۔ اگر ناغہ کرلوں تو گھر میں داخل ہونے سے بھی انکار کرد یتا ہے ور باہرہی تھڑے پر عمران خان کی طرح دھرنا دے کر احتجاج شروع کردیتا ہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ عمران خان کے بار بار دھرنوں اور احتجاجی رویے نے گھروں کے ماحول پر بھی بہت اثر چھوڑا ہے ۔جب کسی بچے کی فرمائش پوری نہ کی جائے تو وہ اسی وقت سجدہ ریز ہوکر سر کو زمین پر مارنا شروع کردیتا ہے ۔ اس احتجاج میں شرمین فاطمہ ٗ رومیسہ فاطمہ ٗ محمد موسف ٗ محمد عمر اور فریسہ فاطمہ شامل ہیں ۔ اب بڑوں کی کسر رہ گئی ہے اگر اسی طرح عمرانی دھرنوں کی ٹی وی بازگشت سنتے اور دیکھتے رہے تو ڈر ہے کہیں وہ بھی یہ کام گھر کے اندر ہی شروع نہ کردیں ۔

محمد موسف بڑے بیٹے شاہد کا اکلوتا بیٹا ہے ۔وہ صحت اور خوبصورتی کے اعتبار سے سب سے آگے ہے ۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی پیار کرنا پڑتا ہے ۔ اکثر اس کے چہرے پرمسکراہٹ سجی رہتی ہے لیکن کبھی کبھار غصہ بھی آتا ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو پھر اسکا انداز بھی وہی ہوتاہے جو دوسرے بچوں کا ہوتاہے ۔ وہ جہاں بھی موجودہوتا ہے قریب ترین چیزکے ساتھ سر ٹکرانا شروع کردیتا ہے ۔ جب سے اس نے بھی یہ کام سیکھا ہے اب اس پر بھی کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ میں جب کالم لکھنے لگتا ہوں توکمرے کادروازہ بند کرلیتا ہوں ۔بند دروازے کو دیکھ کر وہ اپنی آواز میں احتجاج کرتا سنائی دیتاہے ۔ اس کی آواز سن کر دروازہ کھولتا ہوں تو پھر شاید ہی کوئی چیز اس کی شرارتوں سے محفوظ رہتی ہو ۔اگرمیں اسے
اپنی آغوش میں بٹھا لوں تو کمپیوٹرکو آپریٹ کرنے لگتا ہے ۔دادی کے بستر پر چھلانگیں مارنا تو اس کا محبوب مشغلہ ہے ۔

محمدعمر کی ایک چھوٹی سے بہن بھی ہے جس کانام فریسہ فاطمہ ہے۔ یہ اپنی پیدائش سے ہی کمزور ہے۔ بیماری ہمیشہ اسکے تعاقب میں رہتی ہے کبھی اسے الٹیاں لگ جاتی ہیں تو کبھی پوٹیاں ۔ایک مرتبہ وہ سروسز ہسپتال میں داخل تھی تو میں اس کی عیادت کے لیے گیا۔ اس وقت فریسہ کے پاؤں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی جسے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں نے آسمان کی جانب چہرہ کرکے اپنے رب کو پکارا اورالتجا کی ۔اے باری تعالی میری اس چھوٹی سی بچی کو صحت عطا فرمادے۔ وہ مجھے دیکھ کر والہانہ انداز میری جانب بڑھی لیکن ڈرپ لگنے کی وجہ سے میں اسے اپنی آغوش میں نہ لے سکا ۔ جس کامجھے احساس رہا ۔پھر اﷲ نے کرم کیااور وہ صحت یاب ہوکر گھر لوٹ آئی ۔ اس کے باوجود کہ وہ گھر میں سب سے چھوٹی ہے لیکن اس کی تمام تر توجہ کا مرکوز میں ہوتاہوں۔ وہ اپنا سر میری آغوش میں رکھ کراپنی محبت کا اکثراحساس دلاتی ہے ۔

بنک آف پنجاب والوں نے مجھے یہ کہہ کر ریٹائر کر دیاہے کہ میں اب بوڑھاہوگیا ہوں اور میں اب کسی کام کانہیں رہا۔ اگرمیں اب بھی خود کو جوان محسوس کرتا ہوں تو میری جوانی کا راز میرے یہ پوتے اور پوتیاں ہیں جن کی شرارتیں اور محبتیں مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتیں۔ صبح اٹھتے ہی کانو ں میں بچوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اورجب میں رات کوسونے لگتا ہوں تب بھی بچوں کی شرارتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں ۔ ہر بچہ اپنے اپنے حصے کی محبت مجھ سے چھین کر لیتا ہے اور میں ان کی محبتوں کا اسیر ہوکر زندگی کے آخری دن پورے کررہاہوں ۔ زندگی کے آخری عشرے اور وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات سمجھ آئی ہے کہ پوتے پوتیوں کے بغیر زندگی کس قدر ادھوری لگتی ہے ۔اگر کوئی بہوچند دن کے لیے میکے چلی جاتی ہے تو نظروں سے غیب ہونے والے بچوں کی محبت مجھ پر زیادہ غالب آتی ہے ۔ اس لیے میں اپنی بہوؤں کوپیار سے کہتا ہوں اس گھر میں آنے کی اجازت تو ہے ٗیہاں سے واپس جانے کی نہیں ۔ بہوؤں کے ساتھ ساتھ جب میرے پوتے اور پوتیاں بھی چلی جاتی ہیں توان کی یاد مجھے شدت سے آنے لگتی ہے۔ اﷲ تعالی سے دعاہے کہ میرا یہ محبت بھر آنگن ہمیشہ ہنستا کھیلتا اورمہکتا رہے ۔ آمین

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.