خوراک اور محفوظ رہائش زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں جس کے
حصول کے لیے انسان اور چرند و پرند نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔فرق
یہ ہے کہ انسان اپنی ہجرتی منزل کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے جبکہ چرند و
پرند کی ہجرت میں منزل کے انتخاب اور راستے کے تعین میں قدرت اپنا بھرپور
کردار ادا کرتی ہے۔ قدرتی نظام کو متوازن رکھنے کے لیے یہ سلسلہ صدیوں سے
جاری ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں جہاں انسانی زندگیاں ارزاں ہوچکی ہیں
وہیں یہ خطہ پرندوں کے لیے بھی غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔گزشتہ 30 برس کے
دوران مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے
جبکہ دنیا کے 90 فیصد سے زائد مہاجر پرندے انسانی سرگرمیوں کے باعث غیر
محفوظ صورتحال سے دوچارہیں۔ مہاجر پرندوں کی تعداد میں کمی، ان کے قدرتی
مسکن کی تنزلی، ہجرت کے لئے استعمال ہونے والے فضائی راستوں کے غیر محفوظ
ہونے اور مہمان علاقوں میں درپیش خطرات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے
کے لئے2006 سے ہر سال مئی کے دوسرے ہفتے میں "مہاجر پرندوں کا عالمی دن"
منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اِمسال یہ دن 13-14 مئی کو منایا جا رہا ہے جس کا
عنوان ہے "اُن (مہاجر پرندوں )کا مستقبل ہمارا مستقبل ہے" جس کا مقصد لوگوں
میں مہاجر پرندوں کی بقاء کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔
پرندوں کی ہجرت کرنے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موسمی
حالات میں تبدیلی ، روشنی کی شدت میں کمی بیشی، خوراک کی فراہمی میں کمی ،ہوا
کی رفتار اور ا س کی سمت وہ عوامل ہیں جو پرندوں کو نقل مکانی پر مجبور
کرتے ہیں۔ اس دوران پرندے گروہوں کی صورت میں مسلسل کئی دنوں تک اڑتے ہوئے
ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق سورج، ستاروں اور
زمین کی مقناطیسی خصوصیت پرندوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ درست سمت کا
تعین کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے 8 فضائی
راستوں کی نشاندہی کی ہے جو مہاجر پرندے استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں آنے
والے مہاجر پرندے جس فضائی راستے کواختیار کرتے ہیں اْسے انڈس فلائی وے یا
انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4 کہا جاتا ہے۔مہمان پرندوں کی آمد کا سلسلہ
نومبر میں شروع ہوتا ہے جبکہ جنوری اور فروری میں ان کی آمد میں بہت زیادہ
اضافہ ہو جاتا ہے۔مارچ کے ابتدائی دنوں میں سردی کے ختم ہوتے ہی یہ پرندے
اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال وسطی ایشیاء،
مغربی یورپ ،سائبیریا ، روس اور دیگر ممالک سے سات سے بارہ لاکھ پرندے
پاکستان میں سردیاں گزارنے کے بعد انڈس فلائی وے سے واپسی کا سفر اختیار
کرتے ہیں۔ان پرندوں میں تلور،عقاب، مختلف طرح کی چھوٹی بڑی مرغابیاں اور
بطخیں، سفید کونج ، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر 350سے زائد اقسام کے
پرندے شامل ہیں۔یہ مہاجر پرندے ہمالیہ سے لے کر ساحل سمندر پر موجود تیمر
کے جنگلات تک پھیلی ہوئی چھوٹی آبگاہوں، دریاؤں سے ملحقہ علاقوں اور صحراؤں
کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔
1976ء رام سر کنونشن کے مطابق پاکستان میں20رام سر سائیٹس ہیں جس میں سندھ
میں 10 ،خیبر پختونخوا میں2، پنجاب میں 3جبکہ 5 سائٹس بلوچستان میں پائی
جاتی ہیں۔رام سر سائٹس ایسے علاقوں کو کہتے ہیں جہاں 20 ہزار سے زائد پرندے
قیام کرتے ہیں۔ پاکستان آنے والے مہمان پرندوں کی زیادہ تر تعداد سندھ میں
کینجھرجھیل، ہالیجی جھیل، انڈس ڈیلٹا اور رن آف کچھ کے مقامات پر پڑاؤ
ڈالتے ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں نو لاکھ ہیکٹر رقبہ پر
مختلف پینتالیس آبی جھیلیں موجود ہیں جہاں پر سردیوں کے دوران مہمان پرندے
قیام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں اوربہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں
مہاجر پرندے بسیرا کرتے ہیں ان میں ٹانڈا ڈیم ، چشمہ، تونسہ، گڈو بیراج،
زنگی ناوڑ، حب ڈیم، اوچھالی جھیل، راول جھیل وغیرہ نمایاں ہیں۔ سالٹ رینج
کی اوچھالی جھیل سفید سر والی مرغابی کے لئے اہم ہے جبکہ بلوچستان کی زنگی
ناوڑ جھیل چٹ پتھری بطخ کا اہم ٹھکانہ ہے۔پہاڑی آب گاہیں مرغابیوں اور انڈس
ڈیلٹا، دریائے ژوب سائبیریا سے آنے والی کو نجوں کے پڑاؤ کے اہم مقامات ہیں۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صحرا ئی علاقے چین اور قازقستان سے آنے والے
تلور کا مسکن ثابت ہوتے ہیں۔یہ پرندے جہاں ان علاقوں کے قدرتی حسن میں
اضافہ کرتے ہیں وہیں ان کا فضلہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے اور یہ
فصلوں کے نقصان دہ کیڑوں کا شکار کر کے زراعت کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔
1967 ء میں ترکی میں آب گاہوں پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں انڈس فلائی
وے کو مہاجر پرندوں کے لئے دنیا کا چوتھا بڑا اور اہم فضائی راستہ قرار دیا
گیا۔ اپنی اس تمام تر اہمیت کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان آنے
والے مہمان پرندوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے ۔موجودہ صورت حال کے
تناظر میں ایک قصہ یاد آتاہے جس میں شکاری ایک پرندے کو شکار کرنے کے لیے
اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ پرندے نے دیکھا کہ ایک فقیر جارہا ہے، پرندہ
فقیر کی کپڑے سے بنی ہوئی جھولی میں جاکر چھپ گیا۔ یہ دیکھ کر فقیر بڑا خوش
ہوا اور اس پرندے کو ذبح کرکے کھاگیا۔بالکل اسی طرح ہزاروں کلومیٹر کا
فاصلہ طے کر کے یہ پرندے بہترین دنوں کی امید پر پاکستان کی حدود میں داخل
ہوتے ہیں لیکن یہاں ان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک اس خطہ کے مہمان نوازی
کی روایات کے بالکل برعکس ہے۔ ہر سال ہزاروں مہمان پرندے شکاریوں کی
بندوقوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور جو باقی بچتے ہیں ان کے لیے پھندے لگا کر
مخصوص آڈیو آوازوں کے ذریعے انہیں پکڑ لیا جاتا ہے۔ ان نایاب پرندوں کو
مسقط، دبئی ، کویت ، ابو ظہبی ، قطر اور بحرین سمیت دیگر ممالک کے شہزادوں
کو قیمتی داموں فروخت کیا جاتا ہے۔عالمی دباؤ کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے
ان پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کر دی ہے ہے لیکن خارجہ پالیسی کی آڑ میں
ہر سال عرب شہزادوں کو شکار کے لیے کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔دستیاب شدہ
اعدادو شمار کے مطابق ایک سعودی شہزادے نے 2014ء میں اپنی 14 روزہ شکاری
مہم کے دوران 2100 تِلور شکار کیے تھے۔پاکستان میں تیزی سے خشک ہوتی آب
گاہوں کی وجہ سے مہاجر پرندوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔آبی لودگی
اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات بھی ان پرندوں کے لیے
زہرِ قاتل ثابت ہورہی ہیں۔
پاکستان نے" ریو کانفرنس"میں حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس
عمل پیرا ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں مہمان
پرندے اور ان کے مسکن خطرات سے دو چار ہیں۔چاروں صوبوں میں وائلڈ لائف کے
تحفظ کے لئے محکمے قائم ہیں جنہیں اربوں روپوں کے فنڈز اور تمام سہولیات
فراہم کی جاتی ہیں لیکن یہ محکمے جنگلی حیات کے تحفظ میں بری طرح ناکام نظر
آتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو آب گاہوں کو خشک ہونے سے بچانے، انھیں آلودگی
سے محفوظ رکھنے اور غیر قانونی شکار پر پابندی کے لیے عملی اقدامات کرنا
ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے مہاجر پرندوں کی مانیٹرنگ کا مضبوط میکنیزم تشکیل
دینا ہوگا تاکہ مستند اعدادوشمار حاصل ہونے کے ساتھ تحقیق کے عمل کو مضبوط
کیا جاسکے اور ہر ادارے کی کار کردگی کو جانچا جا سکے۔عوامی سطح پر شعور
اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ لوگ
یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ پرندے محبتوں کے سفیر ہیں۔ وہ اجنبی سرزمین کو
اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ سالہا سال تک اس دھرتی کی کشش میں کھنچے چلے جاتے
ہیں اور کبھی اس زمین پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں سوچتے۔ وہ جس زمین پر اپنا
گھر بناتے ہیں اسے اپنا اصلی وطن سمجھتے ہیں اور اس میں دنگا فساد نہیں
کرتے کیوں کہ نہ ان کے پاس تخریبی ذہن ہے اور نہ ہی نفرت کرنے والا
دل۔۔۔۔!! |