ایک جاسوس جال میں
سخت حفاظتی تدابیر کے باوجود، حاطب ابن ابی بلتعہ نامی مسلمان نے اس لالچ
میں آکر کہ اگر اس نے قریش کی کچھ خدمت کر دی تو اس کے وابستگان مکہ میں
گزند سے محفوظ رہیں گے اور یہ سمجھ کر کہ رسول خدا ﷺشاید مکہ کا ہی قصد
رکھتے ہوں، ایک خط قریش کو لکھا تاکہ ان کو خبر کر دے اور یہ خط اس نے سارہ
نامی عورت کے حوالہ کیا جو پہلے ایک گانے والی تھی اور کچھ پیسے بھی دیئے
تاکہ وہ دوسرے راستوں سے مدینہ سے مکہ جائے اور خط قریش کے سرکردہ افراد تک
پہنچا دے۔حضرت جبرئیل امین ؑنے آکر پیغمبر ﷺکو یہ خبر پہنچا دی اور رسول
خدا ﷺنے بلاتاخیر علی ابن ابی طالبؑ کو زبیر کےساتھ اس عورت کو گرفتار کرنے
کےلئے روانہ کیا جو نہایت تیزی کےساتھ مکہ کی طرف چلے اور راستہ میں مقام
”خلیقہ“ میں اس عورت کو گرفتار کرکے اس کے سامان کی تلاشی لی لیکن کوئی خط
نہیں ملا، سارہ نے بھی خط یا کسی خبر کے اپنے ساتھ رکھنے کا شدت سے انکار
کیا لیکن علی ابن ابی طالب ؑ نے بہ آواز بلند کہا کہ ”خدا کی قسم پیغمبرﷺ
کبھی بھی غلط بات نہیں کہیں گے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے خط نکال دے ورنہ میں
تجھ سے خط نکلوا لوں گا۔“ عورت نے جب دھمکی کو یقینی سمجھا تو کہنے لگی ”آپ
لوگ ذرا دور ہٹ جائیں میں خط دے رہی ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے میں سے ایک
خط نکالا اور علی علیہ السلام کے حوالہ کر دیا۔رسول خدا ﷺنے خط لکھنے والے
کو طلب کیا اور اس سے پوچھ تاچھ شروع کی تو اس نے خدا کی قسم کھائی اور کہا
کہ اس کے ایمان میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن چونکہ میری بیوی بچے
مشرکین قریش کے ہاتھوں میں اسیر ہیں اس لیے میں نے چاہا کہ اس خبر کے ذریعہ
میرے گھر والوں کی تکلیف میں کچھ کمی ہو جائے۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۰،۴۱)
ایسا واقعہ پھر نہ دہرایا جائے اس غرض سے چند آیتیں نازل ہوئیں ایک آیت میں
اشارہ ہوتا ہے”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنائو اور ان
کےساتھ محبت اور دوستی نہ جتائو۔“ (ممتحنہ آیت:۱)
پیغمبر ﷺنے اس کی جالہانہ خطا کو معاف کر دیا اور توبہ قبول کرلی۔
مکہ کی جانب سفر
کہاں جانا ہے اور کس مقصد سے جانا ہے یہ تو معلوم نہ تھا اس کے علاوہ حکم
صادر ہونے کے وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کس وقت جانا ہے۔ رمضان کی
دسویں تاریخ ۸ ہجری کو روانگی کا حکم صادر ہوا۔رسول خداﷺ نے مدینہ کے باہر
لشکر اسلام کا معائنہ کیا پھر آپ نے روانگی کا حکم دیا اور مدینہ سے تھوڑے
سے فاصلہ (حدترخص) پر پانی مانگ کر اپنا روزہ افطار کیا اور سب کو حکم دیا
کہ اپنا روزہ افطار کرلیں۔ بہت سے لوگوں نے افطار کرلیا لیکن ایک گروہ نے
یہ سوچا کہ اگر روزہ کی حالت میں جہاد کریں تو اس کا زیادہ اجر ملے گا۔
رسول اللہﷺ اس گروہ کی حکم عدولی سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ لوگ
گنہگار اور سرکش ہیں۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۰۲)
لشکر اسلام بغیر کسی توقف کے تیزی سے بڑھتا رہا۔ دس ہزار جانبازوں نے مدینہ
سے مکہ کا راستہ ایک ہفتہ میں طے کیا اور رات کے وقت ۲۲ کلومیٹر شمال کی
جانب ”مرالظہران“ پہنچ کر وہیں خیمہ زن ہوگیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۲)
دشمن کو ڈرانے کےلئے جنگی مشق
پیغمبر نے ”مرالظہران“ میں حکم دیا کہ دس ہزار کا لشکر پورے میدان میں بکھر
جائے اور ہر آدمی آگ جلائے تاکہ لشکر اسلام کی عظمت نمایاں ہو اور مشرکین
قریش کے دل میں زیادہ سے زیادہ خوف پیدا ہو جائے اور وہ سمجھ لیں کہ اب اس
عظیم لشکر سے مقابلہ کی طاقت ان میں نہیں اوروہ ہر طرح کے مقابلہ سے ناامید
ہو جائیں تاکہ مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ خدا
محفوظ رہ جائے۔رات کے اندھیرے میں آگ کے شعلے لپک رہے تھے۔ صحرا آگ کا ایک
وسیع و عریض جنگل نظر آرہا تھا۔ لشکر اسلام کے ہمہمہ کی آواز دشت میں گونج
رہی تھی۔ابوسفیان، حکیم ابن حزام‘ ار بدیل ابن ورقاءدیکھنے اور پتہ لگانے
کےلئے مکہ سے باہر نکلے۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۱۴)
دوسری جانب حضرت عباس ابن عبدالمطلب جو مقام ”جحفہ“ سے پیغمبرﷺ کے ہمرکاب
تھے۔ انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ کیا ہی بہتر ہو اگر طرفین کے فائدہ
کےلئے کام کیا جائے تاکہ خونریزی نہ ہو،لہٰذا سفید گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ
کی طرف چلے کہ شاید کسی کے ذریعہ لشکر اسلام کے حملہ اور محاصرہ کی خبر
قریش کے سربرآوردہ افراد کے کانوں تک پہنچا سکیں اور ان کو دلاوران اسلام
کی عظیم طاقت اور بے پناہ جرات و ہمت سے آگاہ کرکے ہر طرح کے مقابلہ کی بات
سوچنے سے باز رکھیں۔عباس نے رات کی تاریکی میں ابوسفیان کی آواز سنی وہ کہہ
رہا تھا ”میں نے ابھی تک اتنی آگ اور اتنے سپاہی نہیں دیکھے۔“
ابوسفیان کا ساتھی کہہ رہا تھا”یہ سب قبیلہ خزاعہ والے ہیں جو جنگ کےلئے
جمع ہوگئے ہیں۔“ابوسفیان نے کہا کہ ”ایسی آگ روشن کرنا اور اس طرح لشکر
تشکیل دینا خزاعہ کے بس کی بات نہیں ہے۔“
حضرت عباس نے ان کی بات کاٹی اور کہا کہ ابوسفیان۔ابوسفیان نے عباس کی آواز
پہچان لی اور فوراً کہا”عباس تم ہو“ کیا کہہ رہے ہو۔ عباس نے جواب دیا ”خدا
کی قسم! یہ آتش رسول خدا ﷺکے لشکر نے روشن کی ہے وہ ایک طاقتور اور نہ
ہارنے والا لشکر لے کر قریش کی طرف آئے ہیں اور قریش میں ان سے مقابلہ کرنے
کی ہرگز طاقت نہیں ہے۔“
حضرت عباس کی باتوں سے ابوسفیان کے دل میں اور زیادہ خوف پیدا ہوا خوف کی
شدت سے کانپتے ہوئے اس نے کہا”عباس، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں مجھ کو
بتائو میں کیا کروں؟ عباس نے جب دیکھا کہ ان کی بات موثر ثابت ہوئی تو
فرمایا ”اب صرف چارہ یہ ہے کہ تم میرے ساتھ رسول خداﷺ کی ملاقات کےلئے آئو
اور ان سے امان طلب کرو ورنہ سارے قریش کی جان خطرہ میں ہے۔“اس کے بعد آپ
نے اس کو اپنی سواری رپ سوار کیا اور لشکر گاہ اسلام کی طرف لے چلے۔
مشرکین کا پیشوا، مومنین کے چنگل میں
حضرت عباس نے ابوسفیان کو سپاہ اسلام کی عظیم لشکر گاہ سے گزارا سپاہیوں نے
انہیںاور پیغمبر ﷺکی مخصوص سواری کو جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان کے
گزرنے سے مانع نہیں ہوئے بلکہ ان کےلئے راستہ چھوڑ دیا آدھے راستے میں حضرت
عمر کی نظر ابوسفیان پر پڑی اور انہوں نے چاہا کہ اسی جگہ اس کو قتل کر دیں
لیکن چونکہ عباس نے ان کو امان دی تھی اس لیے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے
یہاں تک کہ حضرت عباس اور ابوسفیان رسول خداﷺ کے خیمہ کے پاس پہنچ کر گھوڑے
سے اترے۔حضرت عباس خیمہ میں داخلہ کی اجازت لینے کے بعد پیغمبر ﷺکے خیمہ
میں آئے۔ پیغمبرﷺ کے سامنے حضرت عباس اور عمر میں کچھ لفظیجھڑپ ہوئی۔ حضرت
عمر یہ اصرار کر رہے تھے کہ ابوسفیان دشمن خدا ہے اور اس کو اس وقت قتل ہو
جانا چاہیے لیکن حضرت عباس کہہ رہے تھے کہ میں نے اسے امان دی ہے۔ پیغمبر
ﷺنے حکم دیا کہ ابوسفیان کو ایک خیمہ میں رکھا جائے اور صبح کو پیغمبرﷺ کے
پاس لایا جائے۔ صبح سویرے حضرت عباس ابوسفیان کو پیغمبرﷺ کے حضور میں لائے۔
جب آنحضرتﷺ کی نظر ابوسفیان پر پڑی تو آپ نے فرمایا”کیا ابھی اس کا وقت
نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ خدائے یکتا کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے؟“
ابوسفیان نے جواب دیا میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، آپ کتنے بردبار کریم اور
وابستگان کے اور میرے مہربان ہیں۔ میں نے اب سمجھ لیا کہ اگر خدائے واحد کے
علاوہ کوئی اور خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔
جب اس نے خدا کے یگانہ ہونے کا اعتراف کرلیا توآنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ”کیا
ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جانو کہ میں خدا کا پیامبر ہوں۔“
ابوسفیان نے کہا مجھے آپ کی رسالت میں تردد ہے ” اس پر حضرت عباس ناراض
ہوئے اور اس سے کہا”اگر تم اسلام قبول نہیں کرو گے تو تمہاری جان خطرہ میں
ہے۔“
ابوسفیان نے خدا کی یگانگت اور پیغمبر ﷺکی رسالت کی گواہی دی اور بظاہر
مسلمانوں کی صف میں داخل ہو گیا اگرچہ واقعاً کبھی بھی مومن نہیں ہوا۔رسول
خدا ﷺجانتے تھے کہ ابوسفیان کو ابھی رہا کرنے کا موقع نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے
کہ وہ مکہ جا کر کوئی سازش کرے اس لیے اسے چاہیے کہ اسلام کی طاقت کا بخوبی
مشاہدہ کرلے اور فتح مکہ کے سلسلہ میں سپاہ اسلام کے ارادہ کو مکمل طور پر
محسوس کرے اور اس خبر کو تمام مشرکین قریش تک پہنچائے تاکہ تمام سرکردہ
افراد مقابلہ کا خیال اپنے دل سے نکال دیں اس وجہ سے ابوسفیان کو ایک تنگ
جگہ پر رکھا، مسلح سپاہ اسلام منظم دستہ کی صورت میں اس کے سامنے سے گزر
جاتے تھے۔ جنگی مشق کے وقت مجاہدین اسلام کی تکبیر کی آواز کوہ و دشت مکہ
میں گونج اٹھتی تھی اور مجاہدین کے دل و فور شوق سے لبریز ہو جاتے تھے۔لشکر
اسلام کے مسلح دستوں کی عظمت نے ابوسفیان کو اتنا ہراسا ں کر دیا کہ اس نے
بے اختیار حضرت عباس کی طرف مخاطب ہو کر کہا”کوئی بھی طاقت ان لشکروں کا
مقابلہ نہیں کرسکتی واقعاً تمہارے بھتیجے نے بڑی زبردست سلطنت حاصل کرلی
ہے۔“
حضرت عباس نے غصہ میں کہا”یہ سلطنتیں بلکہ خداوند عالم کی طرف سے نبوت و
رسالت ہے۔“پھر آپ نے پیغمبر ﷺسے عرض کی ”اے اللہ کے رسول، ابوسفیان ایسا
شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اس کو اسی وقت کوئی مقام عطا فرمائیں۔“
رسول خدا نے فرمایا کہ ”ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دلاسکتا ہے کہ جو کوئی
اس کی پناہ میں آجائے گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر
اس کے گھر میں چلا جائے اور دروازہ بند کرلے یا مسجدالحرام میں پناہ لے لے
وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا۔“ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۶)
مکہ میں نفسیاتی جنگ
ابوسفیان مکمل طور پر حواس باختہ اور لشکر اسلام کی جنگی طاقت سے ہراساں
تھا ۔رسول خداﷺ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ اس کو رہا کر دیں تاکہ وہ اپنی
قوم میں جا کر ان کے حوصلوں کو متزلزل کرے یہ وہی مقصد تھا جو پیغمبر
ﷺچاہتے تھے۔ابوسفیان نے اس کام کو بخوبی انجا م دیا۔ اس نے مکہ میں نفسیاتی
جنگ چھیڑ کر قریشیوں کو ہراساں کرنے اور بغیر خونریزی کے ہتھیار ڈال دینے
میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
شہر کے محاصرہ کی ٹیکنیک
رسول خداﷺ نے اپنے سپاہیوں کو چار دستوں میں تقسیم فرمایا اور ہر ایک دستہ
کو ایک سمت سے شہر کے اندر روانہ کیا اور فوج کے کمانڈروں کو حکم دیا کہ جو
تم سے لڑے اس کے علاوہ اور کسی سے جنگ نہ کرنا۔ چنانچہ آپ نے صرف چند
مفسدین کو جن کی خیانت کی سزا موت سے کم نہ تھی مستثنیٰ رکھا۔ (مغازی واقدی
ج۲ ص ۸۲۵)
رسول خداﷺ نے چاروں طرف سے شہر کے محاصرہ کی ترکیب اپنا کر مشرکین کے امکان
فرار کو ان سے سلب کرلیا اور ان کےلئے صرف ایک ہی راستہ باقی چھوڑا اور وہ
یہ کہ ہتھیار ڈال دیں۔
ایک فوجی دستہ کےساتھ مشرکین کی جھڑپ
لشکر اسلام کے شہر میں داخل ہوتے وقت مشرکین متعرض نہیں ہوئے۔ فقط قریش کے
ان افراد کا ایک گروہ جو افراط سے کام لے رہے تھے۔ صفوان ابن امیہ ابن خلف
اور مکرمة ابن ابی جھل کی رہبری میں خالد ابن ولید کی سرداری میں رہنے والے
ایک دستہ سے ٹکرا گیا۔ اس جھڑپ میں دشمن کے ۲۸ افراد نہایت ذلت سے مارے گئے
اورباقی لوگ مکہ سے بھاگ گئے۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۹)
جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراءباعث عزت و رہنمائی ہوگی
|