اخلاص و للہیت کا پر تو ،تقوٰ ی
و پر ہیز گا ری کا پیکر ،صائب الفکر ،سلیم الطبع ،مستقیم المزاج ،چلیں تو
زمانہ ٹھہر ٹھہر کے دیکھے ،رکیں تو نبض دو عالم رکے ،لبوں کو جنبش گویائی
دیں تو گویا باد بہاری سے صحن چمن میں پھو ل جھڑیں ،خیر خواہی میں گوندھا
ہو انا صحانہ لہجہ جو دل میں اتر جا ئے اور عمل میں مہمیز کا کا م دے ۔نرم
دم گفتگو ،نرم دم جستجو ،ایک پیکر خیا لی کہ گو یا تقدس مآب خمیر سے تیا ر
کیا گیا ہو ،جس پر نو ری فرشتے بھی رشک کر یں ۔سادگی و دلکشی کا حسین مرقع
،رہن سہن ایساسادہ کہ فقر ابوذر کی یاد تازہ ہو جائے ۔نہ اپنی علمیت پر
غرور اور نہ ہی احساس کمتری کا شکا ر، ایمان و ایقان سے بھری ایسی گفتگو کہ
وجد آجائے ۔راست فکر ،گروہ اعتزال اور فرقہ ہا ئے باطلہ کیلئے ننگی تلوار ،احقاق
حق اور ابطال باطل کے فریضے کو بحسن و خوبی نبھانے والے ،کشتی ملت کو بھنو
ر سے نکالنے کیلئے مستعد و سرگرم، مرجع ارباب بست و کشاد ،علوم دینی کی تر
ویج و اشاعت کیلئے مسلسل گامزن سفر ،اتحاد امت کی داعی یہ عظیم شخصیت کون
ہے ؟جس نے اپنے عظیم کارناموں کی وجہ سے دینی و علمی حلقوں کو ورطہ حیر ت
میں ڈال دیا تھا۔دنیا انہیں ”مولانا عبداللہ شہید “کے نام سے جانتی ہے ۔لال
مسجد کے سب سے پہلے خطیب،مولانا عبداللہ شہید جنہوں نے اپنی شمع ہائے ضیا
پاشیوں سے نہ صرف گلہا ئے انسانیت کو روشن کیا بلکہ احیا ئے اسلام اور
تجدید دین کی کوششوں میں اپنی ساری زندگی بسر کی۔ جن کی زندگی کا مقصد دین
اسلام کی سربلندی و سرفرازی تھا۔حالات کی سختی اور کفر والحاد کی لہریں ان
کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں ۔اخلاص وللہیت کے یہ پر تو اور اس ظلمت آمیز
دنیا میں علمی چراغ روشن رکھنے والی یہ عظیم ہستی کہ جس نے احکامات و بینات
ربانی کی حقانیت و صداقت کی راہ میں روڑے اٹکانے والے خس و خاساک کو نہ صرف
پامال کیا بلکہ اسلامی اقدار کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے انسانیت کو ایسی
رہنمائی فراہم کی کہ جس سے ملک کا ذرہ ذرہ مستفید ہو ا ،ہر دم خدمت دینیہ
کیلئے مستعد ہوشیار ،شب زندہ دار ،اللہ نے انہیں سوز و ساز رومی اور پیچ و
تاب رازی عنایت فرما رکھا تھا ۔بقول شاعر
اسی کشمکش میں گزری ہیں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ وتاب رازی
حضرت شہید....جن کی عہد ساز شخصیت عمل پیہم ،جہد مسلسل اور یقین محکم سے
عبارت تھی ۔وہ دل ودماغ میں علم کا ایک بحر بیکراں اور صبر و استقامت کا کو
ہ گراں رکھتے تھے ۔وہ بیسویں صدی کی قابل فخر اور جامع الصفات شخصیت تھے،
وہ اصلاح وارشاد کی مسند کے عظیم مصلح و مرشد تھے ،میدان تقریر میں فصاحت
کا بہتا ہو ا سر چشمہ ،ماہر،کہنہ مشق ،باریک نکتہ دان ،اور زیرک خطیب
تھے۔ان کا تذکرہ ایما ن کو جلا اور جذبات کو مہمیز بخشتاہے ۔ان کے قول و
فعل مشعل راہ ہیں ۔وہ اخلاق عالیہ کی تصویر مجسم تھے۔وہ ہر خاص و عام کیلئے
علم وعرفان اور رشد و ہدایت کا بر ستا ہواسحاب تھے ۔شاید حضرت ہی کی شخصیت
کو دیکھ کر کسی شاعر نے کہا تھا کہ
خدا یا د آ ئے جن کو دیکھ کر وہ نو ر کے پتلے
نبوت کے یہ وارث یہی ہیں ظلل رحمانی
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہی کے اتقاء پر ناز کر تی ہے مسلما نی
انہی کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہی کا کا م ہے دینی مراسم کی نگہبا نی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے لاتعلق ہو ں
پھریں دریا میں اور کپڑوں کو ہر گز نہ لگے پانی
مولانا عبد اللہ شہید ضلع راجن پور تحصیل روجھا ن کے ایک دو ر افتا دہ قصبے
میں پیدا ہو ئے ۔جو بعد میں ”بستی عبد اللہ شہید “کے نام سے موسوم ہو ا آپ
نے ابتدائی تعلیم ضلع رحیم یار خان کے ایک مدرسے خدام القرآن سے حاصل کی
حفظ کی سعادت اور چند ابتدائی کتب کی تعلیم حاصل کر نے کے بعد جامعہ قاسم
العلوم ملتان سے کسب فیض کیا۔اور علوم حدیث کے حصول کیلئے کراچی کی طرف رخت
سفر باندھا اور1957میں جامعہ بنوری ٹاﺅ ن کراچی سے دورئہ حدیث مکمل کیا ۔
جب پاکستا ن کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آبا د منتقل ہو ا تو اسلام آبا د
کی مرکزی مسجد[لال مسجد ]کی خطابت کیلئے حضرت بنوری ؒنے حضرت شہید کا
انتحاب فرمایا اور 1966ء میں آپ ؒاسلام آباد تشریف لے آئے ۔لال مسجد کی
خطابت سنبھالنے کے ساتھ حضرت شہید ؒنے جامعہ فریدیہ کے نام سے ایک عظیم
الشان دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔
آپ دین کی ترویج واشاعت کے حوالے سے ہر وقت متفکر رہتے ۔مولانا کے ایک
دیرینہ ساتھی محمد انیس فاروق بتاتے ہیں کہ یہ 70کی دہائی کی بات ہے کہ
حضرت شہید نے محسوس کیا کہ مسلمانوں میں نماز کے حوالے سے بہت غفلت پائی
جاتی ہے تو اس سلسلے میں لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے ایک منظم تحریک شروع
کی۔ آپ ایک چھوٹا سا بیٹری والا لاﺅڈ سپیکر لے کر ہر روز اسلام آباد کے کسی
سیکٹر میں چلے جاتے اور نماز کی اہمیت پر درس دیتے نماز چھوڑنے والوں کو
وعیدیں اور پڑھنے والوں کے لئے فضائل سناتے آپ کی اس محنت کا نتیجہ تھا کہ
چند ہی دنوں میں اسلام آبادکی مساجد بارونق نظر آنے لگیں۔
ایک مرتبہ علماء کے اجلاس میں ضیاء الحق مرحوم کے سامنے اس خدشے کا اظہار
کیا گیا کہ حکومت مدارس کو اپنی تحویل میں لانے کا منصوبہ رکھتی ہے تو اس
پر صدر ضیاء الحق نے مولانا عبد اللہ شہید ؒ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے از راہ
ِ تفنن کہا کہ اسلام آباد میں ایک مولانا عبد اللہ ہمارے قابو میں نہیں آتے
تو پورے ملک کے مدارس کو کیسے کنٹرول کرلیں گے۔
حضرت شہید ایک مرتبہ وعظ کے لئے پنجاب کے کسی علاقے میں تشریف لے گئے وہاں
کنویں پر مردوں عورتوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر ماجرا پوچھا تو میزبان نے
بتایا کہ یہاں پانی کی شدید قلت ہے ہر وقت کنویں خشک رہتے ہیں اس پر حضرت
نے اسی موقع پر خوب آہ وزاری کے ساتھ دعا کی جس پر کنویں پانی سے لبریز ہو
گئے وہاں کے مکینوں کے مطابق آج تک ہمیں پانی کے حوالے سے کبھی کسی پریشانی
کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ایک مرتبہ مولانا نے خود اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میں نے تقریر کے لئے
کشمیر جانا تھا وہاں کے لوگوں کے ساتھ وعدہ بھی کر چکا تھا تو ٹیکسلا کے
ایک صاحب گاڑی لے کر آئے اور کہا میری بڑی دو بیٹیوں کا نکاح بھی آپ نے
پڑھایا ہے اب کل تیسری کا نکاح ہے اور اسکا نکاح ہر صورت میں آپ نے پڑ ھا
نا ہے میں نے معذرت کر لی ہے اور کہا کہ میں کشمیر جا نے کا وعدہ کر چکا
ہوں چنانچہ دوسرے دن جب کشمیر جانے لگا تو فون آگیا کہ پروگرام ملتوی ہو
گیا ہے چنانچہ میں ٹیکسلا چلا گیا جب وہاں پہنچا تو وہ صاحب مجھے دیکھ کر
بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں یقین تھا کہ آپ ضرور تشریف لائیں گے
۔میں نے پوچھا کہ وہ کیسے تو کہنے لگے کہ جب ہماری بیٹی کو پتہ چلا کہ آپ
نکاح پڑھانے تشریف نہیں لارہے تو وہ رونے لگی اور مسلسل رو تی رہی یہاں تک
کہ وہ سو گئی ۔ اس کو خواب میں آنحضور ﷺ کی زیارت ہوئی تو آپ ﷺ نے پو چھا
کہ بیٹی کیوں رو رہی ہو تو عرض کیا کہ یا رسو ل اللہ ﷺ مولانا عبد اللہ
صاحب نے میرا نکاح پڑھانے سے معذرت کرلی ہے ۔اس پر آنحضو ر ﷺ نے فر مایا کہ
رﺅ مت تمہارا نکاح عبد اللہ ہی پڑ ھائیں گے۔ صبح جب بچی نے یہ خواب سنایا
تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اب آپ کے علاوہ بچی کا نکاح کو ئی نہیں پڑ ھا سکتا
۔
32سا ل تک آپ ؒاسلام آبا د کی مر کزی مسجد سے حق و صداقت کی صدا بلند کر تے
رہے ،آپ نے ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کی اصلاح کیلئے مثبت تنقید کی ،جسکی
پاداش میں آپ پر طرح طرح کے مظالم ڈھا ئے گئے قتل کی دھمکیا ں دی گئیں اور
کئی با ر آپ کو لال مسجد کے منصب خطابت سے ہٹانے کی کو شش بھی کی گئی ایک
مرتبہ آپ ؒپر قتل کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا مگر آپ نے کبھی مداہنت سے کا
م نہیں لیا ،آپ ؒوقت کے ظالم وجابر حکمرانوں کو انکی غلطیوں اور کج روی پر
علی الاعلان اور بر ملا ٹوکتے تھے باطل کے منہ زور طوفانوں اور بلاخیز
سیلابوں کا رخ موڑ تے رہے ۔ان کی حق گوئی و بے باکی نے ہمیشہ حکومتی
ایوانوں میں لرزہ طاری کئے رکھا ۔آپؒدینی غیرت و حمیت کا شکار ہو کر کسی
مصلحت کو خا طر میں لائے بغیر ہمیشہ کلمئہ حق بلند کر تے رہے ۔جسکے نتیجے
میں آپ ؒ کو ایک مرتبہ اغو اکیا گیا اور آپؒ پر بد ترین تشدد کیا گیا حضر ت
فرماتے ہیں کہ ”مجھے چارپائی پر لٹا کر چاروں طرف سے مضبوطی سے باند ھ دیا
گیا اور میرے سینے پر پستول بھر کررکھ دیا گیا اور بجلی کی ننگی تاریں میرے
منہ کے قریب کر دی گئی ۔مجھے بار بار کرنٹ لگایا جا تا مگر اللہ نے مجھ پر
اتنا کرم کیا کہ مجھ پر نیند طاری ہو گئی اور میں اونگھنے لگا “۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت شہید ؒکو پا نچ مرتبہ گرفتار کیا گیا
7ستمبر کو جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس وقت بھی حضرت
جیل میں تھے اور فرماتے ہیں کہ ”یہ پہلا موقع تھا کہ میں جیل میں ہونے کی
وجہ سے رمضان المبارک میں قرآن نہ سنا سکا لیکن مجھے اس با ت پر خوشی تھی
کہ کم ازکم پاکستان کے آئین میں تو قادیانیت کا قلع قمع ہو گیا ہے “
جنرل ضیاء الحق کے دور میں قادیانیوں کیلئے شعائر اسلام کے استعمال کا
قانون پا س ہوا۔ صدر نے جس قلم سے دستخط کئے وہ بعد ازاں ان کو دے دیا جو
تادم شہادت ان کے پا س محفوظ رہا او ر اب بھی جامعہ فریدیہ میں ان کی دستار
کے ساتھ محفوظ ہے ۔
1997ء میں حضرت شہید کو رﺅیت ہلال کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا تو اس سال
بظاہر قرائن سے عید الفطر جمعہ کے دن آرہی تھی تو ایک اعلیٰ شخصیت نے حضرت
کو فون کیا اور کہا کہ آپ عید جمعہ کے بجائے جمعرات کو کرا دیں تو ہم آپ کو
خوش کر دیں گے ،حضرت نے جواب میں فرمایا ”واہ واہ کیا بات ہے؟اللہ تو عید
جمعہ کے دن کرائے اور عبد اللہ کو ن ہو تا ہے عید جمعرات کو کرانے والا
؟عید جمعہ کو ہی ہو گی “17اکتوبر 1998ء دن بارہ بجے لال مسجد کے صحن میں
ظالم و سفاک قاتلوں نے اور انسان نما بھیڑیوں نے مجاہد اسلام ،نمونئہ اسلاف
عالم باعمل ،حق گو بے باک اور درویش منش انسان حضرت مولانا عبد اللہ کو گو
لیوں کا نشانہ بناتے ہو ئے شہید کر ڈالا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
خدارحمت کنند ایں عشقان پاک طینت را
شہادت کے بعد آپ کی قبر مبارک سے مہکنے والی خو شبو نے پو رے اسلام آبا د
کو معطر کر دیا ۔
قبائے نور سے سج کر لہو سے باوضو ہو کر
وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنے سرخرو ہو کر |