موت انسانوں کے لئے بہترین موعظت ہے بشرطیکہ ایمان والا
ہواور قبروں کی زیارت کا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا ہے تاکہ آخرت یاد
آئے ۔ مومن بندے کی نصیحت کے لئے کسی کا جنازہ اٹھنا ہی کافی ہے اور
قبرستان جانا آخرت یاد دلانے کے لئے کافی وافی ہے ، الگ سے موعظت کرنے کی
ضرورت نہیں ۔ بسااوقات نمازجنازہ میں لوگوں کا انتظار ہوتا ہے اور پہلے سے
موجود لوگ آنے والوں کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع سے امام صاحب
لوگوں کو کچھ نصیحت کردے تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ نصیحت کا بہترین موقع
بھی ہے ، یہاں اذہان وقلوب بھی نصیحت قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ یہ
یاد رہے کہ نبی ﷺ سے نماز جنازہ سے قبل لوگوں کو وعظ کرنا ثابت نہیں ہے
البتہ عمومی طور پرجنازہ کے وقت تذکیروبیان ملتا ہے جیساکہ انس بن مالک رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
مَرُّوا بجَنازةٍ فأثنَوا عليها خيرًا، فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه
وسلَّم : وَجَبَتْ . ثم مَرُّوا بأخرَى فأثنَوا عليها شرًّا، فقال :
وَجَبَتْ فقال عُمَرُ بنُ الخطابِ رضي الله عنه : ما وَجَبَتْ ؟ قال : هذا
أثنَيتُم عليه خيرًا، فوَجَبَتْ له الجنةُ، وهذا أثنَيتُم عليه شرًّا،
فوَجَبَتْ له النارُ، أنتم شُهَداءُ اللهِ في الأرضِ .(صحيح البخاري:1367)
ترجمہ: صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا ‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا
اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ
واجب ہو گئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس پر عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت
واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم
لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔
اس لئے نمازجنازہ سے قبل خطبہ دینا یا وعظ ونصیحت کو لازم پکڑنا جائز نہیں
ہے ۔ جنازہ کا تقاضہ ہے کہ بلاتاخیر نمازجنازہ پڑھ کر جلدسے جلد میت کو دفن
کردیا جائے ۔ بسااوقات کچھ انتظار ہوتو بغیر خطبے کی شکل کے چند ناصحانہ
کلمات کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔
سمعت جرير بن عبد الله يقول يوم مات المغيرة بن شعبة ، قام فحمد الله وأثنى
عليه ، وقال : عليكم بإتقاء الله وحده لا شريك له ، والوقار ، والسكينة ،
حتى يأتيكم أمير ، فإنما يأتيكم الآن . ثم قال : استعفوا لأميركم ، فإنه
كان يحب العفو . ثم قال : أما بعد فإني أتيت النبي صلى الله عليه وسلم قلت
: أبايعك على الإسلام ، فشرط علي : والنصح لكل مسلم . فبايعته على هذا ،
ورب هذا المسجد إني لناصح لكم . ثم استغفر ونزل .(صحيح البخاري:58)
ترجمہ: زیاد بن علاقہ نے کہا میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن
شعبہ ( حاکم کوفہ ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی
تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا
کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی
دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے
مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ ( مغیرہ ) بھی معافی کو
پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک
دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ
سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی
خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی ( پس ) اس
مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے
اتر آئے۔
بظاہر اس اثر میں خطبے کی شکل ہے مگر یہ ہمیشگی والا عمل نہیں جس سے دلیل
پکڑتے ہوئے ہمیشہ ایسا کرنا چاہئے ، نہ بطور خاص نمازجنازہ کے وقت ہے اورنہ
ہی اس طرح کا عمل نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔ نبی ﷺ کی وفات پر حضرت ابوبکررضی اللہ
عنہ کا خطبہ دینا بھی ثابت ہے اس سے بھی عدم دوام پرہی دلیل لی جائے گی جس
کا نمازجنازہ کے وقت وعظ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ۔ نیز وہاں ایک خاص پس
منظر تھا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی وفات کا انکار کررہے تھے اس وجہ
سے ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ مسئلہ واضح کرنا پڑا ۔
آج کل بعض مقامات پر دفن کے بعدقبرستان میں خطیب کی طرح لوگوں کو نصیحت کی
جاتی ہے اور اسے جنازے کا حصہ سمجھا جاتا ہے جوکہ واضح بدعت کی شکل ہے ،
ایسا کرنا رسول اللہ کی سنت سے ثابت نہیں ہے ۔ کبھی کبھار قبرکے پاس بیٹھے
نبی ﷺ سے صحابہ کے ساتھ تذکیر کا ثبوت ملتا ہے ۔ چند حضرات قبرستان میں
اتفاقیہ بیٹھے ہوں اور آپس میں تذکیر کرے تو کوئی حرج نہیں مگر لوگوں میں
ایک واعظ ہو جو بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر سب کو وعظ کرے سنت کی مخالفت ہے ۔ دفن
کے وقت جلدی سے تدفین کا کام مکمل کرنا چاہئے اور انفرادی طور پر میت کے
لئے استغفار اور ثبات قدمی کی دعاکرنی چاہئے ۔ |