وطنِ عزیز کو وجود میں آئے ہو ئے تقریبا سّتر سال
ہوچکے ہیں مگر پاکستانی عوام سکھ کا سانس نہ لے سکے۔دنیا کے دیگر ہم عصر
ممالک ترقی کرتے چلے گئے مگر پاکستان ترقّی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر
زوال پذیر ممالک میں شامل ہو گیا۔بِلا شبہ یہ مملکت عطیہ خداوندی ہے۔رمضان
المبارک کے ۲۷ ویں شب اس کا ظہور اس کی سب سے بڑی نشانی ہے۔پاک سر زمین ارضِ
دنیا پر وہ قطعہ زمین ہے ،جس میں اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت موجود ہے ،پاکستان
کی قطعہ اراضی سورہ رحمٰن کی عملی تفسیر نظر آتی ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ
ان تمام حقیقتوں کے باوجود پاکستان مطلوبہ ترقی نہ کر سکا ۔ اس کے اسباب
کیا ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جو محبِ وطن اور دردِ دل رکھنے والے لو گوں کے
ذہنوں میں ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے۔ عموما حجروں، مسجدوں اور نجی محفلوں میں
اسی سوال پر جو بحث سننے کو ملتی ہے۔ اس کے مطابق تمام ابتر صورتِ حال کی
ذمہ دارملک کی قیادت اور حکمرانوں کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر صورتِ حال پر گہری
نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بے شک ہماری ملکی قیادت کی نا اہلی اور ملکی
مفاد پر ان کی ذاتی مفادات کو ترجیح دینا پاکستان کی بحرانی کیفیت کی ذمہ
دار ضرور ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام ملک کی تنّزلی میں
برابر کی شریک ہے۔
حدیثِ رسولﷺ ہے کہ ’’ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا ‘‘ مگر یہاں
تو صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کئی مرتبہ ایک سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں
مگر پھر بھی ان کو احساسِ زیاں ہوتا ے اور نہ ہی ان کو سانپ نظر آتا ہے۔اگر
ہم پاکستان میں ہونے والے ماضی کے عام انتخابات اوراس کے نتیجہ میں ہو
نیوالے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی اور اراکینِ صوبائی اسمبلی کا جائزہ لیں
تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ایک خاص طبقہ اشرافیہ ہے جو
بار بارباپ،بیٹا چاچا، ماما، بھائی، بھتیجے کی صورت میں عوام کی ووٹوں سے
منتخب ہو کر اقتدار و اختیار کی بھاگ ڈور سنبھالتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے پاکستانی عوام بالکل نابینا ہو ں ۔کیونکہ بقولِ میر تقی میر ’’ میر
کیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب ۔۔۔اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
‘‘ یعنی جو لوگ عوام کے دکھ اور تکالیف کے ذمہ دار ہیں ،انہی لوگوں کو
دوبارہ ووٹ دے کر مسندِ اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے۔
ذرہ سا موجودہ ملک کی سیاسی صورتِ حال پر غور کیجئے۔ عام انتخابات میں ابھی
تقریبا ایک سال باقی ہے مگر شکاریوں نے ابھی سے عوام کو نشانہ بنانے کے لئے
جال پھینکنا شروع کر دئیے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے پارٹیوں کے
مرکزی لیڈروں نے جلسوں کی ابتداء کر دی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی
ایک سے زائد مرتبہ اس ملک پر حکومت کر چکی ہیں مگر انہوں نے پاکستانی عوام
کو کیا دیا ہے ؟ یقینا انہوں نے اس ملک کو کچھ دیا نہیں ہے بلکہ لیا ہے مگر
پھر بھی جب ان کے جلسے ہو تیہیں تو بے شمار لوگ ڈھول کی تاپ پر ناچتے ہو ئے
نظر آتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے عوام ان سے بہت خوش ہوں اور مزے کی بات یہ ہے
کہ اگر ایک ہی دن ایک شہر میں مقتدر پارٹی کے جلسے میں عوام نواز شریف زندہ
باد کے نعرے لگا رہی ہے تو دوسرے کسی شہر میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوام نواز
شریف مردہ باد کے نعرے لگا رہی ہے ۔یہ ایک عجیب سی صورتِ حال ہے کہ ایک ہی
وقت میں پسند و ناپسندکا اظہار کیا جاتا ہے۔یہ حال صرف نون لیگ کا ہی نہیں،
بلکہ پیپلز پارٹی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کا بھی ہے۔مگر
جو بات بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی حالت بالکل نابینوں
جیسی ہے۔ان کو آنکھوں سے کچھ نظر نہیں آتا بلکہ یہ ہاتھ لگا کر کسی وجود کی
پہچان کرتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ جس کو یہ رسی سمجھ کر اٹھانے کی کو شش
کرتے ہیں وہ رسّی نہیں ہو تی بلکہ سانپ ہو تا ہے۔ اگر یہی سلوک دنیا کے کسی
اور ملک میں عوام کے ساتھ ہو تا تو پوری عوام سڑکوں پر ہو تی اور اپنے حقوق
حاصل کرنے کے لئے یک جاں ہو کر جد و جہد میں مصروف ہو تی مگر افسوس صد
افسوس کہ ہماری یہ نابینا عوام اسی کا دم بھرتے ہیں،جو ان کے بھروسے کا خون
کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اپنی آنکھوں سے غرض کی پٹّی اتار دیں
اور ووٹ دیتے وقت کھرے اور کھوٹے کی پہچان کے بعد اپنا ووٹ کا استعمال کر
لیا کریں۔ |