بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان پرافغانستان کی موجودہ جارحیت کو دیکھ کر دل مغموم اورقلم کی نوک
مجبور تھی ۔ یہ کیا ہورہا ہے کہ وہ ملک جواسلامی غیرت میں ایک لفظ بھی
برداشت نہیں کرسکتا وہی بتوں کے پجاریوں کا ہم نوا وہم پیالہ بن چکا ہے۔اس
پر کچھ روشنی ڈالنے کا من تھا مگر نہا خانہ دل اس پر آمادہ نہ تھا۔ مگراس
ضرورت کے پیش نظردل کی بات کونظرانداز کرتے ہوئے قلم چلانا ہی پڑا۔اب سوچوں
کے دھارے اس سوچ وبچار میں مگن تھے کہ حقیقت کے کس رخ کو روشناس کرواکراپنے
افغان بھائیوں کی توجہ اصلاح کی طرف مبذول کی جائے۔ حالات کی گرماگرمی
اوروطن عزیز کے پڑوسی مسلم ممالک کی وطن عزیز کے ساتھ بے اعتنائی کی وجہ سے
اسی جانب رشحاتِ قلم کا رخ مبذول ہوگیا۔اس وقت حالات کے دھاروں میں امت
مسلمہ کی ناؤ ہچکولے کھارہی ہے۔ وطن عزیز کی جانب ناپاک نگاہیں برے ارادوں
کے ساتھ اٹھ چکی ہیں۔ اغیار تو دشمن تھے ہی مگراپنوں کی بے اعتنائی نے وطن
عزیزکی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے۔اہل کفرونفاق کی آنکھوں میں کھٹکنے والے ملک
پاکستان کے خلاف چند اہلِ اسلام ممالک کے لاشعور قدم بھی اٹھ چکے ہیں۔اہلِ
ہنودویہود کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس کی سرحدوں پر چھیڑ خانی شروع کردی
ہے۔ایک طرف وہ قوم ہے کہ جو دشمن کے ہاتھوں میں کھلونابن چکی ہے۔حالانکہ
اُس افغان سرزمیں پر جب بھی اہل کفرآئے انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ مگرآج وہی
اہل اسلام کے خلاف استعمال ہونے لگی اوردوسری طرف روافض کا ٹولہ یہ دھمکیاں
دیتا ہوانظرآرہا ہے کہ ہم بھی پاکستان میں اپنے ہدف کے حصول کے لیے ممکنہ و
مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کا حق رکھتے ہیں۔پھران دونوں کے اہلِ ہنودویہود
کے ساتھ گٹھ جوڑ نے حالات کو مزید ابتربنادیا ہے اور وطن عزیز کی ساکھ کو
خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ دنیا کی وہی قوم احسان فراموش ہوتی ہے کہ جن میں
غیرت کا عنصر کلی طور پر مفقود ہوچکا ہو۔حالات ہمیشہ یہ سبق سکھاتے ہیں
محسن کا ممنون و احسان مند رہنا چاہیے، ناکہ اس کی جڑیں کاٹنی چاہییں۔ محسن
کے ساتھ احسان فراموشی غلیظ ترین حرکت ہے۔ باشعور و معزز اقوام اس طرح کی
رذیل حرکتوں سے کنارہ کش رہتی ہیں۔ مگرجن دلوں میں اہل کفرونفاق کے اثرات
داخل ہوجائیں تو ان کے نظریات منتشر ہوجاتے ہیں۔پھرانہیں اسلامی اجتماعیت
کی فکر نہیں رہتے بلکہ قوم پرستی اورعصبیت کے الاؤ ان کے سینے میں بھڑکنا
شروع ہوجاتے ہیں۔پھروہ احسان کا بدلہ احسان فراموشی کی صورت میں دیتے ہیں۔
کچھ اس طرح کے حالات سے وطن عزیز کو سابقہ پڑچکا ہے۔ پڑوسی اسلامی ملک
کوروس کے جبرواستبداد کی وجہ سے لاکھوں افراد کو بطور مہمان پاکستان میں
جگہ دی گئی اورہرطرح کی ضروریاتِ زندگی کاخیال رکھا۔ رہنے کے لیے قیام،
کھانے کے لیے طعام، پہننے کے لیے لباس، غرض تمام ضروریات زندگی فقط اسلامی
بھائی چارے کو مدنظر رکھتے ہوئے فراہم کیں۔ ہجرت مدینہ کی طرز پر انصار
مدینہ کا عملی ثبوت پیش کیا گیا۔ ان کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت میں بھی
کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔
بقول شاعر
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بے تاب ہوجائے
مگرآستین کے سانپ اور بغل میں چھری منہ میں رام رام کا راگ الاپنے والے
بنیے کی سازشوں کا شکار ہوکر اہل اسلام و پاکستان کے خلاف سازشوں کا
گہراجال بچھا دیا گیا ہے۔ باقاعدہ اہل ہنودویہود کی سازشوں کو عملی جامعہ
پہنانے کے لیے پڑوسی اسلامی ملک نے عملی اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ بے
قصورعوام کو نشانہ بنا کرخبث باطن کااظہار کیا گیا۔ اوراب دن بدن یہ سلسلہ
بڑھنے کی تگ ودو میں ہے، مگر کیا کریں اس بنیے کے گٹھ جوڑ کا کہ جو
مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان کی چکنی
چپٹی باتوں میں آکراپنے انصارومددگاروں کو ہی نشانہ بنانے والوں کو ناجانے
عقل کیوں نہیں آتی۔ مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں۔ فرمان نبویﷺ کے مطابق سب
مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جیسے جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچے توسارا
جسم محسوس کرتا ہے بعینہ مسلمان ایک جسد کی مانند ہونے چاہیئں تھے مگر
نادان مسلمان اغیار کی سازشوں کا شکار ہوکرکتاب اﷲ اور اسوہ رسول ﷺسے
دورہوتے چلے گئے ، حتیٰ کہ آج یہ کیفیت بھی دیکھنی پڑی کہ مسلمانوں کے ہاتھ
میں ہاتھ دے کر مضبوط کرنے کے بجائے اغیار سے مل کر اپنوں پر حملہ آور
ہوگئے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ اہل کفرونفاق کے دلوں میں کبھی بھی
اہل اسلام کے لیے نرم گوشہ نہیں رہا، اس کی گواہی خود اﷲ تعالیٰ نے دے دی
ہے۔ فرمان الٰہی ہے:’’آپ لوگوں میں مومنوں کے بدترین دشمن اہل کتاب (یہودیوں)کو
پائیں گے اور ان کوجو کافر ہیں۔‘‘(المائدۃ:۸۲) اس لیے اب ضرورت اس امر کی
ہے کہ پاکستان اور مسلمان ممالک بجائے آپس کی لڑائی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے
کر مضبوط ہوجائیں اوراہل اسلام کے دشمنوں کی سازشوں کوناکام بنادیں۔ بصورت
دیگرانجام انتہائی بھیانک نکل سکتا ہے۔ |