کائنات میں خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں۔ان
کی قدر ان سے پوچھئیے جن کے پاس یہ نعمت نہیں ۔دنیاکی نعمتوں میں سب سے
اعلیٰ اورافضل نعمت ماں باپ ہیں ۔
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھاکہ
اولادپرماں باپ کاکتناحق ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ۔’’وہ تمہاری جنت
اوردوزخ ہیں‘‘(سنن ابن ماجہ)
اس دنیامیں انسان کاسب سے بڑااورسب سے پہلاتعلق ماں باپ سے ہے قرآن پاک میں
ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کاحکم اﷲ تعالیٰ کی توحید
اورعبادت کے ساتھ ساتھ دیاگیاہے جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بندوں کے حقوق
میں سب سے زیادہ حق والدین رکھاگیاہے اسی لیے کسی درویش نے یہ کہاکہ زندگی
میں دولوگوں کابہت زیادہ خیال رکھنا
پہلاوہ جس نے تمہاری جیت کے لیے سب کچھ ہار دیایعنی تمہاراباپ۔۔۔دوسراوہ جس
کی دعاؤں سے تم سب کچھ جیت گئے یعنی تمہاری ماں۔۔۔
میرے سِر دی ٹھنڈی چھاں
میری جنت میری ماں
ماں باپ کی محبت کا سایہ اتناگھناااورپرسکون ہوتاہے کہ اٹھ جانے کے بعد اس
نعمت کی قدر ہوتی ہے ۔اس دنیاکے اندر بڑی بڑی محبتوں کے دعویدار آپ کوملیں
گے لیکن ماں کی محبت کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی مذہب ِ اسلام میں والدین
کابہت بڑامقام ہے اس کااندازہ حضوراکرم ؐ کے اس فرمان سے لگایاجاسکتاہے کہ
شعبان کی پندرھویں شب اﷲ تعالیٰ عام معافی اوربخشش کااعلان فرماتے ہیں لیکن
چار قسم کے آدمیوں کی بخشش نہیں ہوتی۔
1۔مشرک 2۔کینہ اور بغض رکھنے والا 3۔قاتل 4۔ماں باپ کانافرمان
جوبندہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرتاہے وہ دنیاوآخرت میں کامیاب ہوتاہے ۔قرآن
مجید میں کئی مقامات پہ ماں باپ کے بارے میں اولاد کوتنبیہ کی گئی ہے کہ
ماں باپ کی خدمت کروان کے سامنے اُف تک نہ کرو۔ان کاکہامانو۔افسوس کہ آج
وہی ماں جس نے اپنی اولادکوپال کے بڑاکیاخون کے آنسوروتی دکھائی دیتی ہے ۔وہ
ماں جو اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنسودیکھناگوارا نہیں کرتی تھی آج وہی
بیٹااپنی ماں کوتڑپارہاہے ۔زیادہ دور نہیں میں اپنے شہر کا واقعہ بیان
کرتاہوں یہاں کا ایک نامی گرامی آدمی تھاجس کابچپن میں ہی باپ فوت ہوگیاماں
نے مشقتیں اور تکلیفیں اٹھاکراسے کھلایاپلایا۔لوگوں کے گھروں میں کام کاج
کرکے اس کی تعلیم وتربیت کی ۔بیٹے کوایک کانٹابھی اس ماں نے چبھنے نہیں
دیالیکن جب اس ماں کے سُکھ کے دن آئے بیٹاجوان ہوا اس کی شادی کروائی ماں
نے خوشی خوشی اپنی بہو کوگھر لایااب بیٹاماں کو بھول گیا۔بیوی کی محبت نے
ماں کی محبت کواُڑادیا۔وہ ماں جس نے اس کے ناز اُٹھائے اسے بہتر تعلیم
دلوائی ۔جس نے اس کے لیے اپناسکون قُربان کیا۔جس نے خودروکھی سوکھی کھائی
لیکن بیٹے کوپیٹ بھر کے کھاناکھلانے کے لیے محنت مشقت کی ۔اسی بیٹے نے اس
غمزدہ ماں کوخوشی دینے کے بجائے اپنے گھر سے شادی کے چندہی سالوں بعد نکال
دیاوہی ماں دربدر پھرنے لگی کہیں وہ کسی مقام پہ روتی دکھائی دی ،کہیں وہ
کسی کے گھر برتن دھوتی دکھائی دی ۔کہیں اپنے شوہر کی قبر کے پاس آہ وزاری
کرتے دکھائی دی ۔کیا اس ماں کے لیے اس کے پاس ایک کمرہ نہیں تھا ؟کیا اس
ماں کے لیے اس کے پاس ایک چارپائی نہیں تھی ؟کیااس کے پاس بیوی کے آجانے کے
بعداس ضعیفہ ماں کے لیے دل کے کسی کونے میں پیار نہیں تھا؟بیٹاپھر بھی اسی
ماں کا ہوتاہے جس نے اسے جناہوتاہے وہی ماں جسے اس بیٹے نے گھر سے نکالاآج
بھی وہ اس بیٹے کے لیے دعائیں کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن وہ بیٹاآج اس
دنیامیں نہیں رہااس ماں کوتڑپانے والابیٹااپنی ہی اولاد کے کارناموں کی وجہ
سے ابدی نیند سوگیا۔بات لمبی ہوجائے گی ۔۔۔۔مختصراًبیٹے کی وفات کی خبر سن
کے ماں اپنے ساتھ کیے ہوئے اس بیٹے کے تمام سلوکوں کوبھول گئی اور اپنے اسی
گھر کے دروازے سے داخل ہوئی جس دروازے سے اس بیٹے نے اور بہونے دھکے دے کے
نکالاتھا۔۔۔داخل ہوتے ہی کہنے لگی کہ بیٹامجھے چھوڑ کے ناجامیں تیری ماں
ہوں آج ذراایک دفعہ آنکھ کھول کے مجھے دیکھ نا!میں تیری ماں ہوں بیٹا!کہاں
جارہاہے آنکھیں کھول نا!بیٹامنوں مٹی کے نیچے چلاگیاجس نے اپنی ماں کواس
دنیامیں تڑپایاتھا۔ہواوہی اس کے ساتھ جو اس نے اپنی ماں کے ساتھ کیاکہ اپنے
ہی بیٹے کے کرتوتوں کی وجہ سے اندھی گولی کی زد میں آیا۔آج وہ ماں جسے اس
نے گھر سے نکالااسی کے بچوں کااوراس کی بیوی کاپیٹ پالتے نظرآتی ہے وہی
بیگم جس نے ساس کوگھر سے نکالاتھاوہ اسے ماں کہ کرپکارتی ہے مگر اس لفظ ماں
میں اب وہ مٹھاس نہیں دکھائی دیتی جواس بہو کی شادی کے پہلے دوسرے اورتیسرے
دن تھی ۔۔۔ہمارے ہاں محاورہ ہے جیساکروگے ویسابھروگے
ماں باپ کی خدمت سے دنیابھی بنتی ہے اورآخرت بھی ۔ایک شخص سرکاردوعالم ؐ کی
خدمت میں حاضر ہواورپوچھاکہ ماں باپ میں پہلے کس کادرجہ ہے؟حضورؐ نے
فرمایاکہ تیری ماں کا،اس شخص نے دوبارہ سوال دہرایاآپؐ نے ارشاد فرمایاتیری
ماں کا،تیسری مرتبہ اس شخص نے یہی سوال دوبارہ دہرایا۔آپ ؐ نے ارشاد
فرمایاپھربھی تیری ماں کاحق ہے ۔چوتھی مرتبہ سرکاردوعالم ؐ نے فرمایااس کے
بعد تیریباپ کاحق ہے ۔ماں وہ نعمت ہے جس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔افسوس !آج
جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یہاں ماڈرن لڑکے اورلڑکیاں اپنے ماں باپ کاخیال
تک نہیں کرتے ۔شریعت نے ماں اوربیوی ،اولاداورباپ دونوں کے حقوق کاتعین
کردیاہے۔لیکن بعض نوجوان بیویوں کی محبت میں گرفتار ہوکرماں کی خدمت
اورعظمت کوبھول جاتے ہیں۔انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ بیوی دوبارہ مل سکتی ہے
لیکن ماں وہ نعمت ہے جودوبارہ نہیں مل سکتی۔
ایک مرتبہ صحابہؓ نے حضوراکرم ؐ کے حضور عرض کی کہ ایک صحابی موت وحیات کی
کشمکش میں مبتلاہے اورایسی حالت میں ہے کہ نادم نکلتاہے اور نہ بچنے کی
امیدہے ۔حضورؐصحابہ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے پوچھاکہ آیااس صحابی
کی ماں زندہ ہے ؟بتایاگیاکہ ہاں وہ زندہ ہے آپ ؓ نے عرض کی کہ ماں اس سے
راضی ہے یاناراض ؟معلوم ہوا کہ اس صحابی سے ما ں ناراض ہے۔سرکاردوعالمؐ نے
فرمایاکہ بس اسی وجہ ان کی موت آسان نہیں ہورہی۔آپ ؐ بنفسِ نفیس تشریف لائے
اورسفارش فرمائی کہ بڑھیا!خداکے واسطے اپنے بیٹے کومعاف کر دیجیئے۔لیکن
بڑھیانے بیٹے کومعاف کرنے سے انکاکردیا۔آقانامدارؐنے حکم دیاکہ لکڑیاں
اکھٹی کی جائیں ،صحن کے اندرلکڑیاں جمع ہوگئیں۔بڑھیاغورسے یہ منظر دیکھ رہی
تھی پوچھاکہ یہ کیاہونے والاہے ؟حضوراکرمؐ نے فرمایاتیرے بیٹے کوان لکڑیوں
کی آگ میں زندہ جلانے کاپروگرام ہے ۔بوڑھی اماں کہنے لگی کہ اس طرح
تومیرابیٹازندہ جل کے مرجائے گا۔نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ تم دنیاکی آگ میں
تواپنے بیٹے کوجلاناپسند نہیں کرتی ہولیکن جہنم کی آگ میں جلاناپسندکرتی
ہوجواس سے سترگناہ زیادہ تپش والی ہے ۔بڑھیاکی سمجھ میں بات آگئی فوراًبول
اُٹھی کہ میں اپنے بیٹے کومعاف کرتی ہوں اُدھرماں نے معافی کااعلان
کیااِدھرصحابی رسول نے کلمہ پڑھااورجنت میں داخل ہوگئے ۔
ماں سے دعائیں لینے والی اولادحقیقت میں کامیاب اورباپ کی بددعاسے بچنے
والے ہی سرشار ہیں
اﷲ تعالیٰ ہمیں اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے (آمین)
|